کسی بھی معاشرے (Society) کو ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اوّلاً اس کے افراد کی درست تربیت ضروری ہے کیونکہ معاشرہ انہی افراد کا مجموعہ ہوتاہے، جہاں افرادی تربیت کا اہتمام نہ ہوتو وہ معاشرہ اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے زوال پذیر رہتاہے۔ کائنات کے سب سے بڑے عقل مند ، دانشور، مصلح، منتظم اور مربی و معلم جنابِ سرورِ کائنات محمد مصطفےٰ ﷺ کے مبارک کردار و عمل سے پتا چلتا ہے کہ اوّلاً افرادی قوت کو درست سمت گامزن کیا جائے، ان کے نظریات، اعمال، کردار، گفتار اور جملہ متعلقات حیات کی درجہ بدرجہ تربیت کی جائے تو ایک مضبوط اور ستھرا معاشرہ قائم ہوتاہے۔

یہاں ایک یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ جب کسی بھی فرد یا معاشرے کی تربیت کسی خاص نظامِ فکر کے مطابق کرنی ہو تو ان کے سامنے ایک ایسے عملی نمونے کو رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ جسے دیکھ کر معاشرہ اپنے شب و روز اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ صرف اصول و ضوابط مجمل و مفصل بیان کردینا کافی نہیں ہوتا۔ اللہ کریم کا نظام کائنات اس پر ایک قوی ترین گواہ ہے کہ رب تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی اصلاح کے لئے جہاں احکام و اصول بصورتِ کتب سماویہ دئیے وہیں ہر کتاب کے ساتھ ایک رسول اور پیغمبر کو بھی مبعوث فرمایا جو ربِّ کریم کی ان تعلیمات و احکام کا کامل نمونہ ہوتے تھے۔ انبیاء کرام کا مبارک کردار و عمل قوموں کو ان کی کتب پر عمل کرنا آسان کردیتا تھا۔

اسی طرح خالقِ کائنات نے قراٰن کریم کی تعلیمات و احکامات جو کہ رہتی دنیا تک کے لئے ذریعہ ہدایت و اصلاح ہیں ان کو سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کے لئے عملی نمونہ دیکھنے کے لئے شاہِ موجودات جنابِ محمد مصطفےٰ ﷺ کے کردار و عمل کو ہمارے سامنے عیاں فرمایا۔

احکامات و قوانین پر عمل درآمد کے لئے عملی نمونہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جب ایک ذات ان اصول و تعلیمات کا عملی پیکر بن کر سامنے آتی ہے تو انسانی ذہن خود بخود ان کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور ان کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہ یا اعتراض و تنقیص کا شکار نہیں رہتا۔

قراٰنِ کریم مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہ کتابِ معظم رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ یوں کہئے کہ حیاتِ انسانی کے شب و روز کے لئے ایک قانونی دستاویز ہے اور اصول و ضوابط اور احکام و قوانین کے اس آئینِ الٰہی کا واحد و یکتا کامل و اکمل نمونہ ہمارے پیارے نبی محمد مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔

قراٰنِ کریم اور رسولِ عظیم دونوں کے لازم و ملزوم ہونے کا بیان بھی بڑادلچسپ ہے وہ یوں کہ قراٰنِ پاک رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت کو ہمارے لئے کامل عملی نمونہ قرار دیتا ہے، چنانچہ سورۃ الاحزاب کی آیت21 میں ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمۂ کنزالایمان:بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔

اور جب ہم رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی و اطاعت، آپ کی مبارک سیرت و حیات اور اخلاق و کردار کے بارے میں جاننے کی طرف بڑھتے ہیں تو صدیقۂ کائنات، محبوبہ محبوبِ ربّ العالمین اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ طیّبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کا مبارک فرمان: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یعنی قراٰن ان کے خُلق ہی کا تو بیان ہے۔(مسنداحمد، 9/380، حدیث: 24655) سامنے آتا ہے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ اگر رسولِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک اَخلاق و سیرت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے قراٰنِ کریم کا پڑھنا ضروری ہے اورتو قراٰنِ کریم پر عمل کو آسان بنانے کے لئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت و حیات کا مطالعہ ضروری ہے۔

آج کے پُرفتن دور میں جہاں ہر طرف اخلاقی زبوں حالی عام ہے، رشتوں کی قدریں کھوتی جارہی ہیں، باہمی پیارمحبت اور امن و آشتی کا ماحول نفسی نفسی میں بدلتا جارہاہے، تربیت و رہنمائی کرنے والے خال خال ملتے ہیں، مستقبل کے معمار تیار کرنے والے خود زمانۂ حال کے معمار کہلانے کے قابل نہیں، معاشرے سے اچھے خصائل ختم ہوتے جارہے ہیں، غور کیا جائے تو اس گمراہی اور پستی کا شکار ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہم مسلمانوں کی اپنے دین اور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت سے لاعلمی یا پھر علم ہوتے ہوئے بھی غیروں کے طریقوں کو اپنانے کی رَوِش ہے۔

ہم تین سال کے بچے کو مہنگے سے مہنگے اسکول و ٹیوشن کے ذریعے آٹھ آٹھ گھنٹے تک M for Mango سکھانے کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن میم سے محمد(ﷺ) سکھانے کے لئے یا تو بالکل ہی انتظام نہیں اور اگر ہے تو وہی صرف بیس سے تیس منٹ۔ ہم بیس بیس سال تک دنیوی نصابی کتابیں تو پڑھ لیتے ہیں، غیر نصابی مطالعہ بهی اتنا کہ سینکڑوں رسالے، ناول، ڈائجسٹ، ماہانہ میگزین، اخباریں اور ناجانے کیا کیا چاٹ گئے لیکن کبھی اپنے پیارے و محسن نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کو مکمل نہیں پڑھا۔

كتنے ہی ایسے نوجوان ملتے ہیں جو سکون کی تلاش، مستقبل کی تعمیر، بہترین اخلاقی اقدار، خوش رہنے کے طریقے، غم بھلانے کے ذرائع اور اس جیسے کئی اہم موضوعات و مسائل پر غیرمسلم مصنفین کی کتب اور ان کے لٹریچر کے حوالے دیتے، پڑھتے اور دوسروں کو ترغیب دلاتے ہیں، ان بےچاروں کو اتنا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان مسائل کے جو حل اور جو طریقے اللہ کے کامل و اکمل شاہکار ، مدینے کے تاجدار محمد عربی ﷺ نے دئیے ہیں یہ دنیا کے ماہرین نفسیات تو ابھی ان کے عشر عشیر تک نہیں پہنچے۔

آخر وہ کون سا ایشو ہے، وہ کون سی پریشانی ہے، وہ کون سا اہم سے اہم تر معاملہ ہے جس کے بارے میں رسولِ عربی، آخری نبی ﷺ نے اپنے کردار، گفتار اور تعلیمات سے رہنمائی نہ فرمائی ہو، اور بھلا ہو بھی کیسے سکتاہے کہ قراٰنِ کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات اور آپ ﷺ اس کتابِ عظیم کے کامل عامل اور قراٰن کے آپ کے خلق کا بیان کار ہے۔

یادرکھئے! سیرتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور معاشرتی و اخلاقی تربیت میں آپ ﷺ کے مبارک کردار و انداز کا مطالعہ جہاں ہمیں اخلاقی پستیوں سے نکالے گا وہیں اس کے دیگر بھی بہت سے انفرادی و اجتماعی اور اقتصادی و معاشرتی فوائد ہیں۔

معاشرے کی ہدایت و راہنمائی، اصلاحِ احوال اور تربیت کے لئے ایک استاذ، مبلغ، مصلح اور راہنما کو کیسا ہونا چاہئے؟ رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت و فرامین میں اس کا ایک پورا نصاب قولی اور عملی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔

مطالعۂ سیرت سے پتا چلتا ہے کہ وہ کیا اندازِ حیات اور کیا تعلیمات تھیں جن کی بدولت خانہ جنگی میں الجھے ہوئے قبائل عرب دنیا کی مضبوط ترین طاقت بن کر ابھرے۔

وہ کیسا کردار تھا کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردینے والے معاشرے کے لوگ سارے جہان کی بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کا درس دینے والے بن گئے۔

جی ہاں! یہ رسولِ عربی ﷺ ہی کی سیرت و تعلیمات تھیں جن سے بدولت مختصر ترین عرصے میں عرب کے ناخواندہ لوگ عظیم اسکالر اور آسمانِ ہدایت کے تارے بن گئے اور راستوں اور بازاروں میں سامان رکھ کر بیچنے والے چھوٹے تاجر ساری دنیا کے اقتصادی نظام میں انقلاب لے آئے۔

یہ کردارِ حبیبِ کِردِگار ہی ہے کہ جس سے ایک باپ کو پتا چلتا ہے کہ بیٹیوں کی تربیت کیسے کرنی ہے؟ شادی شدہ بیٹی کے گھر جانے کا انداز کیا رکھنا ہے؟ بیٹی کے شوہر کے ساتھ کیا انداز رکھنا ہے؟ اولاد کو دشمن ستائیں تو صبر کیسے کرنا ہے؟

یہ بی بی آمنہ کے لعل ہی کی زندگانی ہے جس سے بیٹے کو درس ملتاہے کہ سگی ماں تو سگی ماں ہے ، صرف دودھ پلانے والی ماں کی تعظیم کیسے کرنی ہے؟ ماں باپ کے وِصال کے بعد بھی ان کے حقوق کا کیا کیا خیال رکھنا ہے۔

یہ بی بی عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کے محبوب ہی کی ذا ت ہے جس سے شوہرو ں کو پتا چلتاہے کہ بیویوں میں باہم حقوق کی ادائیگی کا کامل خیال کیسے رکھا جاتاہے۔

دیواروں اور کمروں پر مشتمل جگہ کو گھر کا نام دینے والی عورت کے حقوق کیا ہیں اور کیسے ادا کرنے ہیں یہ کردارِ رسولِ عربی سے ہی پتا چلتاہے، یہ انہیں کی مبارک تعلیم ہے کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ، وَاَنَا خَيْرُكُمْ لِاَهْلِي یعنی تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لئے تم سب سے بہترین ہوں۔( ترمذی،5/475،حدیث:3921)

ایک خاندان، ادارے، قبیلے یا علاقے کی قیادت کرنے والوں کو کامل نمونہ برائے عمل انہیں کی مبارک ذات میں ملتا ہے۔

الغرض استاد ہو یا شاگر، مالک ہو یا نوکر، باپ ہو یا بیٹا، تاجر ہو یا گاہک حاکم ہو یا رعایا رسول اللہ ﷺ کی مبارک سیرت اور فرامین کے آئینہ میں ہر کسی کے لئے ترقی و کامیابی اور فلاح موجود ہے۔ کس کو، کس طرح اور کیا کچھ سیرت و فرامینِ مصطفےٰ سے ملتا ہے۔ اس کا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سلسلہ وار کالمز میں بیان کیا جائے گا۔اللہ کریم ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی پیر وی کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم