غیر مستند اور بے حوالہ بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اورباحوالہ اور  مستند بات اپنی افادیت اور اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بات کےمستند ہونے کا تعلق اس سے بھی ہے کہ وہ بات کس کتاب میں موجود ہے اور وہ کتاب کس پایہ کی ہےتاکہ انکار کرنے والے کو موقع نہ ملےپھر کتاب کے نام اور صفحہ نمبر تک رسائی سےاس مقام کا پتا چلتا ہے۔اس رسائی دینےکےعمل کو تخریج اورحوالہ سےتعبیر کرتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد طحان اپنی کتاب ”اصول التخریج ودراسات الاسانید“کے صفحہ 12تا13پر تخریج کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے حسب ذیل معانی بیان کرتے ہیں:

1۔اصلی مصادر میں حدیث کے مقام کی دلالت بتانا جس میں اس کو سند کے ساتھ بیان کیا گیا ہوپھر ضرورت کے وقت اس کا مرتبہ بیان کرنا۔

2۔کسی چیز کو باضابطہ انداز سے لکھنا اور اس کا پورا حوالہ دینا تخریج کہلاتا ہے۔

3۔کتب فقہ وتفسیر وغیرہ کی احادیث کو جداگانہ مجموعوں میں جمع کرنا۔

4۔حدیث کی کسی کتاب سے خاص قسم کی احادیث مثلاً مرفوع،متصل،مرسل وغیرہ کو الگ کرنا۔

5۔حدیث کا حوالہ دینے کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھنا کہ یہ حدیث ہمیں کہاں سے ملے گی،درست نشان دہی کے اس عمل کو”تخریج حدیث“کہتے ہیں۔(الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب، دیباچہ، ص11)

ڈائریکٹر محکمہ مذہبی امور واوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضابخاری”الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب“ کے دیباچہ میں تخریج کے مختلف معانی کی وضاحت کرنے کے بعدتخریج حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: تخریج حدیث سےمراد حدیث کو اس کتاب کی طرف منسوب کرنا جس میں ابتدا ً وہ بیان ہوئی ہوں ،وہ کتاب مسند ، جامع ،سنن اور معجم ہوسکتی ہے۔گویا حدیث کی تخریج سے اس بات کا پتا چلتا ہےکہ اس حدیث کو کن آئمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں کن مقامات پر بیان کیا ہے۔حدیث کے اصلی مصادر تک رسائی کے لئے ”فن تخریج حدیث“باقاعدہ حیثیت اختیار کرتے ہوئے حدیث کے اصلی مصادر اور ان کے آئمہ تک رسائی کو عام کئے ہوئے ہے۔(الزاد المطلوب بتخریج احادیث کشف المحجوب،دیباچہ،ص11،12)

علامہ شیخ احمد بن محمد حسنی ادریسی مغربی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(وفات1380ہجری)”حصول التفریج باصول التخریج“میں لکھتے ہیں:تخریج احادیث کو ان کتب کی طرف منسوب کرنا ہے جن میں وہ بیان ہوئی ہیں۔ان پر صحت اور ضعف،قبول ورَدکے لحاظ سے کلام کیا جائےاور ان میں موجود علل کو بیان کیا جائے یا محض اصل کی طرف منسوب کردیا جائے۔(حصول التفریج باصول التخریج،ص21)

خلاصَۂ کلام یہ ہےکہ تخریج اور حوالہ میں اس بات کی طرف راہنمائی ہوتی ہےوہ بات کہاں لکھی ہے اور اسے کس نے لکھا ہے۔

تخریج کی اہمیت وضرورت:

تخریج اور حوالہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اہل فہم اس کی ضرورت کا انکار نہیں کرسکتے۔جو بات باحوالہ ہوتی ہے لوگ اس بات کو قبول کرنے میں جھجکتے نہیں۔ دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔اصل مقام کی نشان دہی اور وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے۔باحوالہ بات کی اہمیت اور افادیت بڑھ جاتی ہے۔تخریج سےبسا اوقات کسی بات کے قبول یا رد کا بھی پتا چلتا ہے۔منکر کو انکار کا موقع نہیں ملتا۔معترض اعتراض کرنے سے گریز کرتا ہے۔بغیر تخریج والی بات کو قبول کرنے میں اذہان سبقت نہیں کرتے اور اس کی اہمیت بھی زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اکثرایسی بات کو رد کردیا جاتا ہے۔بسا اوقات تخریج سے کسی بات کا سیاق وسباق بھی پتا چل جاتا ہے۔

تخریج جلد کیسےکی جائے؟

بعض امور اور چیزیں ایسی ہیں جن کو مدنظر رکھ کر تخریج کی جائے تویہ عمل قدرے آسان ہوجاتا ہے ۔ حوالہ جلد ملتا ہے اور وقت بھی بچتا ہے۔ وہ امور حسب ذیل ہیں:

(1)کتب حدیث کے آخرمیں آج کل”اطراف احادیث “بھی ذکر کی جاتی ہیں۔ان کی مدد سے حدیث جلدی اور باآسانی مل جاتی ہے۔حدیث کے ابتدائی دو تین لفظوں کو اطراف احادیث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

(2)حدیث وفقہ کی کتابوں میں اکثر کتاب،ابواب اور فصول ہوتی ہیں ۔مطلوب حوالے کے مضمون پر غور کیا جائے کہ اس کا تعلق کس کس کتاب ،باب یا فصل سے ہوسکتا ہے یوں بھی تخریج جلد مل جاتی ہے ۔مثلا کسی روایت میں عقیدہ،اخلاق اور فضیلت تینوں باتیں پائی جارہی ہوں تو وہ عموماکتاب الایمان،کتاب الزھد،کتاب الرقاق یا کتاب الفضائل میں مل جایا کرتی ہے۔

(3)مطلوب مضمون کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب میں شامل فہرست مضامین سے ضرور استفادہ کیا جائے ،ڈائریکٹ تلاش کرنے کے مقابلے میں اس طرح تخریج جلد مل جاتی ہے ۔

(4)سوفٹ ویئرز اور آن لائن مکتبوں کی مدد سے تخریج کرنا اور حوالہ تلاش کرنا بہت آسان ہوگیا ہے ۔مطلوبہ لفظ سرچ کے آپشن میں ڈالا اور چندلمحات میں تخریج ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔کچھ سوفٹ ویئرزاور آن لائن مکتبے یہ ہیں۔(i)المصحف الرقمی(قرآن مجید میں تلاش کے حوالے سے ایک بہترین سوفٹ ویئر ہے)( i i)مکتبۃ التفسیر وعلوم القرآن(قرآن مجید اور اس کی تفاسیر سے متعلق ایک منفرد سوفٹ ویئر ہے)( i i i)موسوعۃ الحدیث الشریف(iv)مکتبۃ السیرۃ النبویۃ(v)مکتبۃ الاعلام والرجال(vi)مکتبۃ الفقہ واصولہ (vii)مکتبۃ الاخلاق والزہد (viii)المکتبۃ الوقفیہ (ix)المکتبۃ الشاملہ(یہ ایک جامع لائبریری ہے۔یہ صرف ایک ذخیرہ کتب نہیں بلکہ اس میں اپنی ضرورت کے مطابق اضافہ اور کمی بھی کرسکتے ہیں)

(5)کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کا نظام موجودہ دور میں حوالہ وتخریج تلاش کرنے والوں کے لئے آسان ترین اور تیز ترین ذریعہ ہے۔آپ گوگل کے سرچ انجن میں کوئی لفظ یا جملہ ڈالتے ہیں اور چند سیکنڈ میں بہت سارے نتائج آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔

متروکہ اور مشکل تخاریج کے حوالے سے راہنمائی:

بسا اوقات کوئی تخریج بار بار ڈھونڈنے کے باوجود نہیں مل رہی ہوتی ہے یا تخریج مشکل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی جاتی ہے۔تخریج نہ ملنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔کبھی تلا ش کرتے ہوئے درست الفاظ کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔ کبھی مطلوب بات کوہم صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے تخریج کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔جس چیز کی تخریج کررہے ہوتے ہیں وہ بات ان الفاظ سے تو نہیں مل رہی ہوتی ہے لیکن اس سے ملتے جلتے الفاظ سے مل جاتی ہے۔ایسی صورت میں ان ملتے جلتے الفاظ سے تخریج کردینی چاہیے اور آخر میں مفہوماً یا بتغیر کا اضافہ کردیا جائے۔کبھی کتاب سے کوئی بات نہیں مل رہی ہوتی ہے مگر سوفٹ ویئرز اورنیٹ کے ذریعےوہ مل جاتی ہے۔

تخریج کرنے میں غلطیاں اور مشکلات:

حوالہ دینے اورتخریج کرنے میں کبھی جلد بازی،کبھی غوروفکر نہ کرنے،کبھی بات کو نہ سمجھنے اور کبھی کتابت وکمپوزنگ وغیرہ کے سبب غلطیاں ہوجاتی ہیں۔اسی طرح کبھی مؤلف سے تسامح یا پھر ناشر کی غفلت کی وجہ سے حوالہ غلط درج ہوجاتا ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں چنانچہ بہارشریعت حصہ3جلد 1صفحہ615پرہے : سُترہ بقدر ایک ہاتھ کے اونچا اور انگلی برابر موٹا ہو اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا ہو۔ (درمختار ردالمحتار)

اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ)کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا:یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ ردالمحتار میں ہے: سنت یہ ہے کہ نمازی او ر سترہ کے درمیان فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہو۔

بہارشریعت حصہ7جلد 2صفحہ76پرہے :اگر مہر مؤجل (جس کی میعاد موت یا طلاق تھی)یا مطلق تھا اور طلاق یا موت واقع ہوئی تو اب یہ بھی معجل ہو جائے گا یعنی فی الحال مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ طلاقِ رجعی ہو مگر رجعی میں رجوع کے بعد پھر مؤجل ہوگيا۔

اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃ العلمیہ)کی طرف سے اس پر یہ حاشیہ دیا گیا:بہارشریعت کے تمام نسخوں میں یہاں عبارت ایسے ہی مذکورہے، غالباًیہاں کتابت کی غلطی ہے کیونکہ عالمگیری اورردالمحتارمیں ہے کہ رجوع کے بعد پھرمؤجل نہیں ہوگا۔

کبھی کسی کتاب کا حوالہ مؤلف کی کتاب سے پہلے والی کتابوں میں نہیں ملتا تو بعد والی کسی کتاب سے حوالہ نقل کردیا جاتا ہے۔حوالہ نقل کرنے والے کی غفلت کہیں یا پھر بھول ،جس کتاب سے حوالہ منقول ہوتا ہے وہ بات اسی کتاب کے حوالے سے وہاں منقول ہوتی ہے۔مثلاً قوت القلوب کی کسی روایت کی تخریج ”اتحاف السادۃ المتقین“سے کی جائے اور وہاں اس روایت کے ذکر کے بعد یہ ہوکہ اس روایت کو امام ابو طالب مکی علیہ الرحمہ نے قوت القلوب میں ذکر کیا ہےاور اس کے علاوہ کوئی حوالہ نہ ہو۔گویا اس صورت میں ہم قوت القلوب کی تخریج قوت القلوب سے ہی کررہے ہیں اور ایسا کرنا درایت اور اصول تخریج کے خلاف ہے۔اس طرح کی بہت سی چیزیں حوالوں کی چھان بین کے دوران سامنے آتی ہیں۔

تخریج کرنے اور حوالہ دینے میں یہ غلطی بھی ہوتی ہےکہ غیر مستند کتاب سے حوالہ دے دیاجاتاہے ۔چنانچہ پاک وہند میں نورنامہ جو منظوم انداز میں میلاد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ذکر پرمشتمل ہے اور اردو زبان میں ہے ایک زمانہ تک بڑی شہرت کا حامل اور عوام میں خاصا مقبول رہا ہے۔ بعض لکھنے والوں نے اس کے اشعار اور روایات کو نقل بھی کیا ہےحالانکہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:نورنامہ کی روایت بے اصل ہے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ،26/610)

تخریج حدیث میں مدارج کتب(مصادر اولی):

حدیث کی تخریج کرتے ہوئے کتب حدیث کے مدارج کو بھی دیکھا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہےیہ حدیث فُلاں حدیث کی کتاب میں ہے ۔حدیث کی کتابوں میں سب سے بڑا مرتبہ بخاری شریف کا ہے جسے اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہ (یعنی قرآن پاک کے بعد صحیح ترین کتاب) کہا گیاہے۔پھرصحیح مسلم اور اس کے بعد سننِ اربعہ(سنن ترمذی ، سنن نسائی،سنن ابوداود،سنن ابن ماجہ)کا مرتبہ ہے۔ بعض علما نے ”سنن ابن ماجہ “ کی جگہ ”موطا امام مالک“ یا ”سنن دارمی“ کا رُتبہ بیان کیا ہےاور بعض اہل علم نے ”ابن ماجہ“کےبعد”موطا امام مالک“یا ”سنن دارمی“کا ذکر کیا ہے۔(الرسالۃ المستطرفۃ، ص82)امام علم وفن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے صحیحین اور سنن اربعہ کے بعدمسانید امام اعظم، موطا وکتاب الآثار امام محمد،کتاب الخراج امام ابویوسف ، کتاب الحج امام عیسٰی بن ابان،شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار امام طحاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کا ذکرکیا ہے۔ (فتاوی رضویہ ،29/632)

صحاح ،سنن،مسانید،معاجم،مصنف اور موطا کی وضاحت:

صحاح “صحیح کی جمع ہے،اس سےمراد وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفین نے صحیح احادیث جمع کرنے کا التزام کیا ہے۔صحیح وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل اور تام الضبط ہوں ، اس کی سند ابتدا سے انتہا تک متصل ہو نیز وہ حدیث علّتِ خفیہ قادحہ اور شذوذ سے بھی محفوظ ہو۔(تیسیر مصطلح الحدیث، ص23) ”سنن“ سے مراد حدیث کی وہ کتابیں ہیں جن میں ابوابِ فقہ کی ترتیب پر فقط احادیث ِاحکام جمع کی گئی ہوں۔مسانید سے مرادحدیث کی وہ کتابیں جن میں ہر صحابی کی مرویات الگ الگ جمع کی جائیں۔”معاجم“حدیث کی وہ کتابیں جن میں اسمائے شیوخ کی ترتیب سے احادیث لائی جائیں۔(تیسیر مصطلح الحدیث،ص128)”مصنف اور موطا“حدیث کی وہ کتاب جس میں ترتیب ابواب فقہ پر ہو اور احادیثِ مرفوعہ کے ساتھ موقوف ومقطوع احادیث بھی مذکور ہو ۔ ( جامع الاحادیث ، 1/567)

کتب صحاح ،سنن اور مسانید(مصادر ثانیہ):

کتب صحاح،سنن اور مسانید بہت ساری ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

صحاح:(۱)منتقی الاخبار (۲)صحیح ابن سکن (۳)الاحادیث المختارہ (۴)صحیح ابن حبان (۵)صحیح ابن خزیمہ وغیرہ۔

سنن:(۱) سنن الدار قطنی(۲)سنن الکبری للنسائی(۳)سنن الکبری والصغری للبیھقی(۴)معرفۃ السنن والآثار للبیھقی(۵)مسند رویانی(۶)الادب المفرد للبخاری(۷)مستدرک للحاکم(۸)سنن سعید بن منصور (۱۰)شرح السنہ للبغوی وغیرہ۔

مسانید:(۱)مسند امام احمد(۲)مصنف عبدالرزاق(۳)مصنف ابن ابی شیبہ(۴)مسند شافعی (۵) مسند حمیدی (۶)مسند ربیع (۷) مسند عبد اللہ بن مبارک (۸)مسند ابن شیبہ(۹)مسند طیالسی (۱۰)مسند اسحاق بن راہویہ (۱۱)مسند بزار (۱۲)معاجم ومسند الشامیین للطبرانی (۱۳)مسند ابی یعلی(۱۴)مسند ابن الجعد(۱۵)مسند شہاب (۱۶)مسند حارث (۱۷)مسند ابی عوانہ وغیرہ۔

نوٹ:امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہنے صحاح کے درجہ میں منتقی الاخبار،صحیح ابن سکن ، الاحادیث المختارہ اور صحیح ابنِ حبان کوبیان کیا ہےاور سنن کے درجہ میں مسند رویانی کو بھی شامل کیا ہے۔ (ماخوذازفتاوی رضویہ،۴/۲۱۰)

امام ابو القاسم طبرانی(وفات360ہجری)رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی معاجم(معجم کبیر،معجم اوسط،معجم صغیر) اور مصنفین(مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ )مسانید کے درجے میں ہیں۔مسانید میں سب سے اعلیٰ درجہ مسند امام احمد کا ہے۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۱۰)

بعض وہ کتب جن سے حوالے دیئے جاتے ہیں(مصادر ثالثہ):

(۱)حلیۃ الاولیاء (۲)کُتب ابنِ ابی الدنیا (۲)کتب ابو الشیخ(۳)محدثین کی کتب زہدوغیرہ۔

کتب تخریج:(۱)جامع الاصول لابن اثیر جزری(۲)الترغیب والترہیب للمنذری(۳)اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری (۴)کنزالعمال(۵)مجمع الزوائد(۶)جمع الجوامع اور جامع الاحادیث وجامع الصغیرللسیوطی وغیرہ

کتب تاریخ واسماء الرجال:(۱)الکامل لابن عدی(۲)تاریخ بغداد(۳)ابن عساکر(۴)کتاب الثقات لابن حبان (۵)معرفۃ الصحابہ لابی نعیم(۶)معجم الصحابۃ للبغوی وغیرہ

شروحاتِ حدیث:(۱)شرح صحیح مسلم للنووی (۲)شرح بخاری للکرمانی (۳)عمدۃ القاری(۴)فتح الباری (۵)ارشاد الساری (۶)شرح بخاری لابن بطال وغیرہ۔

فقہ حنفی کی تخریج میں مدارج کتب:

فقہ حنفی کی کتابوں کی بات کریں تو کتب حدیث کی طرح ان کے بھی مدارج ہیں۔فقہ حنفی کی کتابوں میں پہلا مرتبہ متون کاہے۔متون وہ کتابیں کہلاتی ہیں جو نقل مذہب کےلئے لکھی گئی ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۴/۲۰۸)ان کتابوں میں کتب اصول سے مسائل ذکر کئے جاتے ہیں۔کتبِ اصول امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (وفات189ہجری) کی چھ کتابیں ہیں:(1)جامع کبیر(2) جامع صغیر(3) مبسوط(اسے ”اصل “بھی کہتے ہیں) (4) زیادات(5) سِیر کبیر(6) سیر صغیر۔ان کتب کو چونکہ فقہ حنفی میں فتوی اور اجتہاد کےلئے اصل اور مرجع ہونے کی حیثیت حاصل ہے اس لئے انہیں اصول کہا جاتا ہے۔(پیش لفظ،فتاوی شامی(مترجم) ،جلداول،ص25) نیز ان کتابوں کو ظاہر الروایہ بھی کہاجاتا ہے،ظاہر الروایہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں درج مسائل امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے ثقہ لوگوں نے بیان کیےہیں اور جن کا ثبوت تواتر اور شہرت سے ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/163)ان کتب اصول اور ظاہر الروایہ کے مسائل کو امام محمد حاکم شہید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(ت334ہجری) نے اپنی کتاب کافی میں جمع کردیا ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/167)متون کے بعدشروحات اور اس کے بعد فتاوی کارُتبہ ہے۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۰۸)

کتبِ متون:جیسےمختصر الطحاوی،مختصر الکرخی،قدوری،کنز، وافی، نقایہ،اصلاح،مختار،مجمع البحرین، مواہب الرحمٰن ،ملتقی، ہدایہ اور اس کے علاوہ دیگر جو نقل مذہب کے لئے لکھی گئی ہیں ۔(فتاوی رضویہ،۴ /۲۰۸)

کتبِ شروح:کتبِ اصول کی شرحیں جو ائمہ نے لکھیں ،مبسوط امام سرخسی، بدائع ملک العلماء، تبیین الحقائق، فتح القد یر، عنایہ، بنایہ، غا یۃ البیان، درایہ، کفایہ، نہایہ، حلیہ، غنیہ، البحرالرائق، النہرالفائق، درر احکام، دُرمختار، جامع المضمرات، جوہرہ نیرہ، ایضاح، غنیہ، شرنبلالی، حواشی خیر الدین رملی، ردالمحتار، منحۃ الخالق وغیرہ۔(فتاوی رضویہ،۴/۲۰۹)

کتبِ فتاویٰ: خانیہ، خلاصہ، بزازیہ، خزانۃ المفتین، جواہر الفتاوی، محیطات(محیط برہانی اور محیط سرخسی)، ذخیرہ، واقعاتِ ناطفی، واقعات صدر شہید، نوازل ، مجموع النوازل، ولوالجیہ، ظہیریہ، عمدہ، کبری، صغری، تتمہ الفتاوٰی، صیرفیہ، فصول عمادی،فصول استروشنی، جامع صغار، تاتارخانیہ، ہندیہ، فتاوٰی خیریہ، العقود الدریہ، فتاوی رضویہ۔ (فتاوی رضویہ، ۴/۲۰۹ملخصاً)

نوٹ:کتب فتاوی میں سب سے پہلے لکھی جانے والی کتاب امام ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکی کتاب ”نوازل“ ہے۔ (رد المحتار،مطلب رسم المفتی،1/163)