لغت
میں حاشیہ سے مراد وہ شرح یا یادداشت ہے جو
کسی کتاب کے متن سے باہر لکھی جائے۔آزاد دائرہ معارف میں ہے:”حاشیہ متن میں موجود
کسی لفظ یا الفاظ کے معنیٰ،ترجمے،مختصر تشریح اور وضاحت کو کہتے ہیں۔“ درحقیقت حاشیہ سے مراد وہ افکار ہیں جنہیں
مؤلف،مصنف یا محقق متن سے علیحدہ صفحے کی ایک طرف تحریر کرتا ہے۔اسےہامش ، تعلیق
اور انگریزی میں فٹ نوٹ(Footnote) سے تعبیر کرتے ہیں۔ حاشیہ کا مقصد مشکل اور پیچیدہ امور کی تشریح
کرنا، کسی نظریہ ،سوچ اور عقیدے کی وضاحت اور اس کی مزید تفصیل بیان کرنا،کسی آیت
قرآنی یا حدیث نبوی کی تخریج کرنا،کسی شخصیت ،جگہ اورفن کا تعارف کروانا،کسی رائے
کی تحقیق یا کسی رائے پر تبصرہ کرناوغیرہ ہے۔
حاشیہ نگاری کی ابتدا:
علامہ شمس بریلوی علیہ
الرحمہ حاشیہ نگاری کی ابتدا کے متعلق لکھتے ہیں:تلاش سے پتا چلتا ہے کہ حاشیہ
نگاری کا آغاز ساتویں صدی ہجری میں ہوااور سب سے پہلے محشی یا حاشیہ نگار نجم
العلما علی بن محمد بن احمد بن علی ہیں۔آپ نے ہدایہ کے مشکل مقامات پر فوائد کے
نام سے حاشیہ لکھا ہے۔آپ نے 667ہجری میں وفات پائی۔اس لئے حاشیہ نگاری کی ابتدا ہم
ساتویں صدی ہجری کو قرار دے سکتے ہیں۔(امام
احمد رضا کی حاشیہ نگاری،جلد دوم،ص27)
حاشیہ نگاری کی
اہمیت وضروت:
محشی اپنے نقطہ نظر
سے جس جملہ،کلمہ یا جس لفظ کی تشریح اورتوضیح ضروری خیال کرتا ہے اس کو حاشیہ کے
لئے منتخب کرتا ہے۔کہیں کسی معنیٰ کی وضاحت مقصود ہوتی ہے،کہیں توضیح کے بجائے وہ
مصنف یا مؤلف سے اختلاف کرتا ہےاور اس اختلا ف کو وہ مصنف کے معاصرین،دیگر مصنفین،مصنف
کے پیشواؤں کے بیان کے حوالوں سے مستدل کرتا ہے۔کبھی اختلاف پردلیل پیش کرتا ہے اور ان تمام چیزوں سے قاری کے ذہن
میں بہت سی مفید معلومات آتی ہیں ۔اشکالات
اور اعتراضات دفع ہوتے ہیں،مزید شرح اور وضاحت حاصل ہوتی ہے،کتاب کو سمجھنے میں
آسانی ہوتی ہے۔کبھی مصنف یا مؤلف کوئی نکتہ بیان کرتا ہےجسے سمجھنا قاری کے لئے
مشکل ہوتا ہے محشی اس کی وضاحت کرکے قاری کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔کبھی محشی
اجمال کی تفصیل اور کسی بات پر تنبیہ کرتاہے۔کبھی مصنف کوئی ایک صورت بیان کرتا
ہےتو محشی اس کی دیگر صورتیں بیان کرکے قاری کو اس بارے میں مکمل آگاہی دیتا
ہے۔کبھی مصنف کوئی ایسی بات بیان کرتا ہے جس سے عقیدے پر ضرب پڑ رہی ہوتی ہےیا
کوئی بدمذہب اسے دلیل بنا سکتا ہے محشی وہاں عقیدہ اہل سنت کی وضاحت کرتا ہےاور ہونے والے اعتراض کو رفع
کرتا ہے۔
حاشیہ کے
اندراج کے طریقے:
آج کل حواشی کے اندراج کے لئے عام طور پر تین طریقے استعمال کیے جاتے ہیں:
پہلا طریقہ:ہر صفحے کے حواشی اسی صفحے پرنچلے حصے میں درج کئے جاتے ہیں۔ایک صفحے پر جتنے حواشی ہوتے
ہیں ان کے نمبرلگادیئے جاتے ہے مثلاً ایک صفحے پر چھ حواشی ہوں تو ایک سے لے کر چھ
تک نمبرلگادیئے جاتے ہے اور یہ حواشی اسی صفحہ سے شروع ہو کر اسی صفحہ پر ختم ہو
جاتے ہیں یاکبھی اس سے اگلے ایک دو صفحات تک بھی چلے جاتے ہیں۔
دوسرا طریقہ:ہرکتاب،باب یا فصل کےلئے مسلسل نمبر لگائے جاتے
ہیں اور کتاب ،باب یا فصل کےاختتام پر تمام حواشی اکھٹے درج کئے جاتے ہیں۔
تیسرا طریقہ:پوری کتاب کے حواشی کے لئے مسلسل نمبر لگائے
جاتے ہیں اور کتاب کے آخر میں سارے حواشی اکھٹے کردیئے جاتے ہیں۔
حاشیہ میں درج
ہونے والے امور:
محققین اور اہل علم
حضرات حاشیہ میں جن امور کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
1۔قرآنی آیات کے
حوالے،شان نزول اور تفسیربیان کرنا۔2۔احادیث،آثار
صحابہ ،تابعین ،تبع تابعین وغیرہ بزرگان ِ دین کے اقوال کی تخریج اور ان میں وارد
ہونے والے مشکل الفاظ کی وضاحت اوراصول حدیث کی روشنی میں روایت کی فنی حیثیت کو
بیان کرنا۔3۔ شخصیات کا تعارف خواہ معروف ہوں یا غیر معروف۔ 4۔ممالک، شہروں، قصبوں
اور مقامات کا تعارف۔5۔حادثات،واقعات اور ادوار کو بیان کرنا۔6۔اشعار کی
وضاحت،شعروں کےاوزان اور بحور کو بیان کرنا،شعرا کے نام اور قصائد کا پس منظر
لکھنا۔7۔ضرب الامثال اور محاوروں کی وضاحت کرنا۔8۔عبارات ، اقتباسات ،روایات کی
تحقیق کرکے اصل مصادر کی جانب راہنمائی کرنا۔9۔متن کتاب میں ذکر کردہ مسائل کے
دلائل، ان کی وضاحت اور شرح کےلئے مثالیں دینا۔10۔مصنف یا مؤلف کی رائے سے اختلاف
کرنا اور اس پر دلائل دینا۔11۔کسی غلطی کی نشان دہی اور درست بات کو ذکر کرنا۔
12۔کتاب کے نسخوں میں
اختلاف ہو تو اسے بیان کرنا اور درست کی نشان دہی کرنا۔13۔مشکل الفاط کے معانی
بیان کرنا۔14۔کسی عبارت اور اقتباس کا ترجمہ کرنا۔15۔کسی مذہب یا عقیدے کی وضاحت
کرنا۔16۔متن کی عبارت کے ربط کو بیان کرنا۔17۔مصنف یا مؤلف نے جس بات کی طرف اشارہ
کیا ہےاس کی وضاحت وصراحت کرنا۔18۔مصنف یا مؤلف نے کسی کتاب کا حوالہ دیا ہےاس
کتاب کا تعارف بیان کرنا۔19۔کسی کتاب کے
مستند یا غیر مستند ہونے کو بیان کرنا۔20۔کسی بات کا خلاصہ یا اختصار کرنا۔
حاشیہ،تعلیق
اور شرح میں فرق:
شرح میں متن(Text) کے اکثر مقامات کی وضاحت ہوتی ہے۔حاشیہ میں ان ہی مقامات کو زیر غور لایاجاتا ہے
جہاں حواشی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ہر لفظ یا مقام کی وضاحت نہیں کی جاتی۔اسی
لیے کہا جاتا ہے:” اَلْحَاشِیَۃُ مَاتُوْضِحُ الْمَتَنَ بَعْضَہُ یعنی حاشیہ اُسے کہتے ہیں جو متن کے بعض حصے کی توضیح
کرے۔“حواشی اگر کم ہوں تو اسے تعلیق سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور کبھی حواشی کو بھی
تعلیقات کہہ دیتے ہیں۔علامہ شمس بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کسی کتاب کی شرح وہ
کسی متن سے متعلق ہوتو توضیح ومطالب اورتصریح کے لئے اصل متن سے زیادہ ضخامت اور
حجم کی خواہاں ہوتی ہے۔شرح اور تعلیق کا خاص فرق یہ ہے کہ شرح میں متن کی کسی سطر
کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا تمام وکمال متن کی تصریح وتوضیح کی جاتی ہے اور
تعلیقات میں یہ ضروری نہیں۔تعلیقات نگار متن کے جس جزو کی چاہتا ہے تعلیقات کے ذریعے
وضاحت کرتا ہے اس پر یہ پابندی نہیں کہ شرح کی طرح تمام متن کی وضاحت کرے۔تعلیقات
نگار متن کے جس قدر حصہ پر چاہتا ہے تعلیقات لکھتا ہے۔حاشیہ اگرچہ شرح کی طرح
لازمہ ہر سطر نہیں ہوتا لیکن شرح سے زیادہ دقت نظر کا طالب وخواہاں ہے۔محشی اپنے
نقطہ نظر سے جس جملہ،جس کلمہ یا جس لفظ کو تصریح وتوضیح کےلئے ضروری خیال کرتا ہے
اس کو حاشیہ کے لئے منتخب کرتا ہے۔(امام
احمد رضا کی حاشیہ نگاری،ص34تا39ملخصاً)
از:محمد گل فراز مدنی
(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)