قرآنِ کریم کی کل انیس(19)  آیات ہیں جن میں انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی بشریت کا بیان ہے۔

ان انیس (19) آیات میں سے پندرہ (15) وہ آیات ہیں جن میں کفار ومشرکین نے انبیاء کو اپنے جیسا بشر کہا ہے۔ اور قرآن نے انکے اقوال کو حکایت کیا ہے۔ جبکہ(4) آیات ایسی ہیں جن میں انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے آپ کو بشر کہا ہے۔ آئیے پہلے ان انیس (19) آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں پھر انکی تفسیر وتشریح بھی مستند علماء کی زبانی سنیں گے۔ یہاں چند امور ہیں:

پہلا امر:

کفار ومشرکین کی یہ عادت تھی کہ وہ انبیاءِ کرام علیہ السلام کو اپنے جیسا بشرِ محض کہتے تھے اوراسکے ساتھ کوئی وصف یا امتیازی قید نہیں لگاتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں۔

آیات بالترتیب یہ ہیں:

(١)..﴿وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖۤ اِذْ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ﴾ [الأنعام:91]

(٢)..﴿فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِۚ وَ مَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیۡنَ ﴿۲۷﴾﴾ [هود:27]

(٣)..﴿قَالُوۡۤا اِنْ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴾ [إبراهيم:10]

(٤)..﴿قَالَ لَمْ اَکُنۡ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنۡ صَلْصٰلٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ﴿۳۳﴾﴾ [الحجر:33] (یہ شیطان کا قول حکایت کیا گیا ہے)

(٥)..﴿وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ہَلْ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [الأنبياء:3]

(٦)..﴿فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۙ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتَفَضَّلَ عَلَیۡکُمْ﴾ [المؤمنون:24]

(٧,٨)..﴿وَقَالَ الْمَلَاُ مِنۡ قَوْمِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَکَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَۃِ وَ اَتْرَفْنٰہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۙ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۙ یَاۡکُلُ مِمَّا تَاۡکُلُوۡنَ مِنْہُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾ وَلَئِنْ اَطَعْتُمۡ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ ۙ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾﴾ [المؤمنون:33،34]

(٩)..﴿فَقَالُوۡۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا﴾ [المؤمنون:47]

(10)..﴿قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾ مَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۚفَاۡتِ بِاٰیَۃٍ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۵۴﴾﴾ [الشعراء:153، 154]

(11)..﴿وَمَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنۡ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۱۸۶﴾﴾ [الشعراء:186]

(12)..﴿قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنْ اَنۡتُمْ اِلَّا تَکْذِبُوۡنَ ﴿۱۵﴾﴾ [يس:15]

(13)..﴿کَذَّبَتْ ثَمُوۡدُ بِالنُّذُرِ ﴿۲۳﴾ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرًا مِّنَّا وٰحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ ﴿۲۴﴾﴾ [القمر:23، 24]

(14)..﴿فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا﴾ [التغابن:6]

(15)..﴿فَقَالَ اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾ اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿۲۵﴾﴾ [المدثر:24، 25]

قارئینِ کرام آپ نے ان آیات میں دیکھ لیا ہو گا کہ

(۱)۔۔کفار ومشرکین نے اللہ کے حبیب کو اپنے جیسا بشر کہا ہے۔ جیسا کہ بَشَرٌ مِّثْلُنَا وغیرہ کے بار بار تکرار سے صاف ظاہر ہے۔

(2)۔۔آیات کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ بار بار بشر بشر کی تکرار سے نبی کی تحقیر یا اسکا عجز بیان کرنا مقصود ہے جیسا کہ اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا اور اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِوغیرہ کلمات سے صاف ظاہر ہے۔

(3)۔۔لفظ بشر کو بغیر کسی ایسے وصف یا قید کے بیان کیا گیا ہے جس سے انبیاء کی بشریت عام لوگوں کی بشریتِ محضہ سے ممتاز ہو جائے۔ بلکہ وصف یا قید لگا کرممتاز کرنا تو دور کی بات مثلیت کا دعوی کیا گیا ہے۔

کفار کی اس روش کے برخلاف آئیے اب قرآنِ کریم کا اسلوب دیکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چار(4) مقامات ملاحظہ فرمائیں:

(1)..﴿قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنۡ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖؕ وَمَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نَّاۡتِیَکُمۡ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ﴾ [إبراهيم:11]

(2)..﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴾ [الإسراء:93]

(3)..﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ [الكهف:110]

(4)..﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ [فصلت:6]

پہلی آیت میں رسلِ عظام نے اپنی بشریت ﴿بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ سےبیان کرنے کے فورا بعد کلمہ ﴿ وَلٰکِنَّ سے اس وہم کا استدراک کیا ہے جو آج کل کے بیمار دلوں میں رچ بس گیا ہے کہ انبیاء تو فقط ہماری طرح بشر ہیں وبس۔ اور نبوت ورسالت جیسے عظیم مراتب دکھائی نہیں دیتے۔

فمن کان فی ہذہ اعمی فہو فی الآخرہ اعمی واضل سبیلا

حاشیہ: ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ نحو میر میں ہے(لکن ّحرفِ استدراک ہے) اور اسکے حاشیہ میں ہے: (استدراک کا معنی ہے گزشتہ کلام سے پیدا ہونے والے وہم کو دور کرنا)۔

دوسری آیت میں بشر کے فورا بعد رسولا کے اضافے سے گمراہ گروں کا رستہ بند کر دیا گیا ہے۔کہ میں بشر تو ہوں لیکن تمہاری طرح بشرِ محض نہیں بلکہ اللہ کا رسول بھی ہوں۔ فمن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور

جبکہ تیسری اور چوتھی آیات میں یوحی الی کے وصف اور قید سے مماثلتِ محضہ کا دعوی کرنیوالوں کو آئینہ دکھا کرقیامت تلک کے لئے فرق واضح کر دیا گیا ہے۔

فبای حدیث بعدہ یومنون

مذکورہ بالا چاروں آیات میں آپ نے اچھی طرح ملاحظہ فرمالیا کہ کسطرح قرآنِ کریم نے بشریتِ انبیاء کو وصفِ رسالت اور وحیِ الہی کے ساتھ بیان فرمایا اسی طرح کلمہ مبارکہ½أشهد أنّ محمدا عبده ورسوله¼ میں عبدہ کے فورا بعد رسولہ کے اضافہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کو عام لوگوں کی عبدیت سے ممتاز کردیا ہے۔ لہذا جو انبیاء کی بشریت بیان کرے تو اسکے لئے ضروری ہے کہ کسی ایسے وصف یا قید کا اضافہ کردے جس سے بشریتِ محضہ کاوہم ختم ہو اور کفار کے طریقہ سے اجتناب حاصل ہو۔ مثال کے طور پر یہ الفاظ استعمال کرے:

افضل البشر، سید البشر، خیر البشر، عبداللہ ورسولہ وغیرہ۔

اب آئیے انبیاءِ کرام کی بشریت بیان کرنے کے سلسلے میں علماء ومفسرین کا روح پر ور انداز ملاحظہ کرتے ہیں۔

تفسیرِ قشیری میں ہے:

﴿ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ﴾...إلخ [الكهف:110]: أَخْبِرْ أَنَّكَ لهم من حيث الصورة والجنسية مُشاكِلٌ، والفَرْقُ بينكَ وبينهم تخصيصُ الله سبحانه إياكَ بالرسالة، وتَرْكه إياهم في الجهالة. انتهى

یعنی: اللہ نے فرمایا کہ اے نبی لوگوں کو خبر دو کہ تم صورت وجنس کے اعتبار سے تو لوگوں کی طرح ہو جبکہ تمہارے اور انکے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں رسالت کے ساتھ خاص فرمایا اور انہیں جہالت میں چھوڑ دیا۔

دیکھئے کس طرح صورت وجنس میں مماثلت بیان کرنے کے بعد عام لوگوں اور نبی کے درمیان فرق کو بھی واضح فرما دیا۔ بس یہی وہ انداز ہے جو بد مذہب گمراہ گروں میں مفقود اور پاک طینت علماء کرام میں محبوب ومودود ہے۔فسبحان اللہ عما یصفون

آئیے اب مزید آگے چلتے ہیں۔ تفسیر روح المعانی میں ہے:

قوله تعالى: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ إشارة إلى جهة مشاركته صلى الله عليه وسلم للناس وجهة امتيازه ولولا تلك المشاركة ما حصلت الإفاضة ولولا ذلك الامتياز ما حصلت الاستفاضة. وقد أشار مولانا جلال الدين القونوي الرومي قدس سره إلى ذلك. انتهى

یعنی: اللہ تعالی کا فرمانِ عالیشان ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لوگوں سے جہتِ مشارکت اور جہتِ امتیاز کی طرف اشارہ ہے۔ اگر یہ مشارکت نہ ہوتی تو لوگوں کو فیض حاصل نہ ہوتا اور اگر یہ امتیاز نہ ہوتا کوئی فیض طلب نہ کرتا۔اسی طرف مولانا روم قدس سرہ نے اشارہ فرمایاہے۔ انتہی۔

دیکھئے کس قدر اچھوتے انداز میں جہتِ مماثلت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جہتِ امتیاز بیان کرکے دیانتِ علمی کا ثبوت دیا ہے۔

مزید آگے بڑھتے ہیں۔ تفسیر ملا علی قاری میں ہے:

﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ لا أدعي الإحاطة بما هنالك, ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ وإنما تميّزتُ عنكم بنحو ذلك. وقال الأستاذ: معناه أَخبِر أنك مثلهم من حيث الصورة والجنسية ومباينهم من حيث السيرة والخصوصية فإنه سبحانه خصه بالنبوة والرسالة وتركَ غيرَه في بيداء الجهالة والضلالة. ويقال إني وأنتم في الصورة أَكْفاء ووجه اختصاصي عنكم إيحاء. انتهى (أنوار القرآن وأسرار الفرقان للقاري)

یعنی میں کلماتِ رب کے احاطے کا دعوی نہیں کرتا۔ مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ۔ بس اسی وحی ونبوت کی وجہ سے میں تم سےممتاز ہوں۔ استادنے فرمایا اس آیت کا معنی ہے کہ اے نبی تم لوگوں کو خبر دے دو کہ تم صورت وجنس کی حیثیت سے تو لوگوں کی طرح ہو لیکن سیرت وخصوصیت میں ان سے جدا ہو کیونکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ورسالت کے ساتھ خاص فرمایااور دوسروں کو جہالت وضلالت کے میدان میں چھوڑ دیا۔ اور (اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی )کہا گیا ہے کہ: میں اور تم صورتا تو ایک جیسے ہیں لیکن میری وجہِ خصوصیت وحیِ الہی ہے۔

دیکھئے صورت وجنسیت میں مماثلت ومشابہت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کسطرح عام لوگوں سےنبوی فرق کو اہتمام کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔

مزید آگے چلتے ہیں۔ حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں:

النبي إذا شارك الناس في البشرية والإنسانية في الصورة فقد باينهم من حيث المعنى؛ إذ بشريته فوق بشرية الناس لاستعداد بشريته لقبول الوحي. ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ أشار إلى طرف من المشابهة من حيث الصورة ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ أشار إلى طرف المباينة من حيث المعنى. انتهى (معارج القدس للإمام الغزالي)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشریت وانسانیت میں تو صورتا لوگوں سے مشارکت رکھتے ہیں لیکن معنًا ان سے مختلف ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت لوگوں کی بشریت پر فوقیت رکھتی ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت میں قبولِ وحی کی استعداد وصلاحیت ہے۔﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ سے صورتا مشابہت کی طرف اشارہ فرمایا اور ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّسے من حیث المعنی جدا اور مختلف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔

امام غزالی نے بھی نبی کی بشریت کو دیگر لوگوں کی بشریت سے مغایر ومبائن بلکہ اعلی قرار دیا ہے۔ فالآن حصحص الحق۔

تفسیرِ سلمی میں ہے:

قال ابن عطاء في قوله: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [فصلت:6] في ظاهر الأحكام ومحلّ الاتّباع, أُمثّل لكم سُبل الشريعة وأحكام الدين وأَكملُكم بوحي من ربكم أنه إله واحد فمن صدّقني واتبع سنّتي فقد وصل إلى الرضوان ومن خالفني وأعرض عني فقد أعرض عن طريقة الحق فأنا بشر مثلكم في الظاهر ولست مثلكم في الحقيقة ألا تراه صلى الله عليه وسلم يقول: ((إني لست كأحدكم إني أبيت عند ربي فيُطعمني ويَسقيني)) رواه الترمذي. انتهى (تفسير السلمي)

یعنی ابن عطاء نے اللہ کے اس فرمان ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْکے بارے میں کہا کہ میں ظاہر احکام اور محل اتباع میں تمہاری مثل ہوں۔ تمہارے لئے شریعت کے راستے اور دین کے احکام بیان کرتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ کامل ہوں کہ تمہارے رب کی طرف سے مجھے وحی آئی ہے کہ وہ واحد معبود ہے۔ تو جس نے میری تصدیق کی اور میری سنت کی اتباع کی تو اس نے رضا ئے الہی کو پا لیا اور جس نے مجھ سے اعراض کیا تو اس نے راہِ حق سے روگردانی کی۔ میں ظاہرا تمہاری طرح بشر ہوں اور حقیقت میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں وہ مجھ کھلاتا پلاتا ہے۔رواہ الترمذی

یہاں بھی حضور علیہ السلام کی بشریت کو دیگر لوگوں کی بشریت سے ممتاز کرکے بیان کیا گیا ہے۔ قد تبین الرشد من الغی۔

ایک قدم اور آگے چلتے ہیں۔ تفسیرِ مظہری میں ہے:

﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ [الكهف:110] قلت فيه سد لباب الفتنة افتتن بها النصارى حين رأوا عيسى يبرئ الأكمه والأبرص ويحيى الموتى وقد أعطى الله تعالى لنبيّنا صلى الله عليه وسلم من المعجزات أضعاف ما أعطى عيسى عليه السلام فأمره بإقرار العبوديّة وتوحيد الباري لا شريك له. انتهى (تفسير المظهرى)

یعنی میں کہتا ہوں کہ اس آیت میں اس فتنے کا سد باب ہے جس میں نصاری مبتلا ہوگئے تھے جب انھوں نے عیسی علیہ السلام کو کوڑی اور برص والے کو تندرست کرتے اور مردوں کو زندہ کرتے دیکھا۔ اور اللہ تعالی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسی علیہ السلام سے کئی گنا زیادہ معجزات عطا فرمائے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتوحید وبندگی کے اقرار کا حکم دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی نے اقرارِ بشریت کروایا اسکی حکمت قاضی ثناء اللہ صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ اسلئے تاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کثیر معجزات دیکھ کرکوئی آپکی الوہیت کا گمان نہ کرلے جسطرح نصاری نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں گمان کر لیا تھا۔ یہ اقرار اس لئے نہیں کروایا تھا کہ کوئی مماثلتِ محضہ اور ہمسری کا دعوی کرے۔ فالی اللہ المشتکی

نیز فتح الباری میں ہے:

وَلَعَلَّ السِّرَّ فِي قَوْله ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ امْتِثَالُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ أي في إِجراء الأحكام على الظاهر الذي يَستوي فيه جميع المكلَّفين فأُمر أَنْ يَحكُمَ بمِثْلِ ما أُمروا أَنْ يَحْكُمُوا بِهِ لِيَتِمَّ الاقتِداءُ به وَتَطِيبَ نُفوسُ العِبَادِ للانقِياد إلى الأحكام الظّاهرة من غير نَظَرٍ إلى الباطن. انتهى (فتح الباري لابن حجر)

شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول میں کہ ’’میں تمہاری طرح بشر ہوں‘‘ اللہ کے حکم ’’کہو کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں‘‘ کا امتثال اور اسکی بجا آوری ہے۔ یعنی میں ظاہری احکام کے اجرا ء میں تمہاری طرح ہوں کہ جس میں سب مکلفین برابر ہیں۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی حکم دیا گیاجیسا لوگوں کو حکم دیا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہواور بندوں کے نفوس احکامِ ظاہرہ کی بجا آوری کے لئےراغب ہوں باطن کی طرف نظر کئے بغیر۔

اور شفا شریف میں ہے:

وقال تعالى ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ الآية فمحمد صلى الله عليه وسلم وسائر الأنبياء من البشر أُرسلوا إلى البشر ولولا ذلك لما أطاق الناس مقاومتهم والقبول عنهم ومخاطبتهم قال الله تعالى ﴿وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا﴾ [الأنعام:9] أي لَما كان إلاّ في صورة البشر الذين يمكنكم مخالطتهم إذ لا يطيقون مقاومة المَلَك ومخاطبته ورؤيته إذا كان على صورته، وقال تعالى ﴿قُلۡ لَّوْ کَانَ فِی الۡاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوۡنَ مُطْمَئِنِّیۡنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوۡلًا﴾ [الإسرا:95] أي لا يمكن في سنة الله إرسال الملَك إلا لمن هو من جنسه أو من خصه الله تعالى واصطفاه وفواه على مقاومته كالأنبياء والرسل فالأنبياء والرسل عليهم السلام وسائط بين الله تعالى وبين خلقه يبلغونهم أوامره ونواهيه ووعده ووعيده ويعرّفونهم بما لم يَعلموه مِن أمره وخلقِه وجلالِه وسلطانه وجبروته وملكوته, فظواهرهم وأجسادهم وبِنْيتهم متصفة بأوصاف البشر طارئ عليها ما يطرأ على البشر من الأعراض والأسقام والموت والفناء ونعوت الإنسانية, وأرواحهم وبواطنهم متصفة بأعلى من أوصاف البشر متعلقة بالملإ الأعلى متشبهة بصفات الملائكة سليمة من التغير والآفات لا يلحقها غالبا عجز البشرية ولا ضعف الإنسانية إذ لو كانت بواطنهم خالصة للبشريّة كظواهرهم لما أطاقوا الأخذ عن الملائكة ورؤيتَهم ومخاطبتَهم ومُخالّتَهم كما لا يطيقه غيرهم من البشر, ولو كانت أجسادهم وظواهرهم متّسمة بنعوت الملائكة وبخلاف صفات البشر لما أطاق البشر ومن أُرسلوا إليه مخالطتهم كما تقدم من قول الله تعالى. فجُعلوا من جهة الأجسام والظواهر مع البشر ومن جهة الأرواح والبواطن مع الملائكة، كما قال صلى الله عليه وسلم ((لو كنتُ متخذا من أمتي خليلا لاتخذتُ أبا بكر خليلا ولكن أُخوّة الإسلام لكن صاحبكم خليل الرحمن)) وكما قال ((تنام عيناي ولا ينام قلبي)) وقال ((إني لست كهيئتكم إني أظلّ يطعمني ربي ويسقيني)) فبواطنهم منزّهة عن الآفات مطهّرة عن النقائص والاعتلالات. انتهى. (الشفا بتعريف حقوق المصطفى)

ہمارے نبی اور باقی دیگر انبیاء بشر تھے اور بشر کی طرف بھیجے گئے تھے اگر انبیاء بشر نہ ہوتے تو لوگوں میں انکے ساتھ کھڑے ہونے اور ان سے لینے اور ان سے کلام کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔اللہ تعالی نے فرمایا ’’اور اگرہم نبی کو فرشتہ کرتے جب بھی اسے مرد ہی بناتے‘‘ کنز الایمان۔ یعنی صورتِ بشر پر ہی ہوتے تاکہ لوگوں کے لئےان سے میل جول آسان ہو کیونکہ لوگ فرشتے کو اسکی صورت میں دیکھنے اور اس سے کلام کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: تم فرماؤ اگر زمین میں فرشتے ہوتے چین سے چلتے تو ان پر ہم رسول بھی فرشتہ اتارتے۔کنز الایمان۔ یعنی اللہ کی سنت جاریہ میں فرشتے کو بھیجنا ممکن نہیں مگر اسکے لئے جو اسی کی جنس سے ہو۔ یا اسکے لئے جسے اللہ نے خاص کرلیا ہو اور چن لیا ہو اورفرشتے کو اسکا ساتھ دینے کے لئے مقرر کر لیا ہوجیسے کہ انبیاء ورسل۔ لہذا انبیاء ورسل اللہ اور مخلوق کے درمیان وسائط ہیں۔کہ وہ اللہ کے اوامر ونواہی اور وعدہ وعید کو ان تک پہنچاتے ہیں۔اور جو وہ نہیں جانتے وہ انہیں بتاتے ہیں یعنی اسکا امر، خلق، جلال، سلطنت اور اسکی جبروتیت وملکوتیت۔پس انکے ظواہر اور اجساد واجسام اوصافِ بشر سے متصف ہوتے ہیں اور ان پر بشر کے سے اعراض ، اسقام، موت وفناء اور صفاتِ انسانیہ طاری ہوتی ہیں۔ اور انکی ارواح وباطن اوصافِ بشر سےزیادہ اعلی صفات کے ساتھ متصف ہوتے اور ملأِ اعلی کے ساتھ متعلق، صفاتِ ملائکہ سے مشابہہ، تغیر وآفات سے محفوظ، عجز بشریت وضعفِ انسانیت سےاکثر پاک ہوتے ہیں۔کیونکہ اگر انکے بواطن انکے ظواہر کی طرح خالص بشری ہوتے تو وہ دیگر بشر کی طرح ملائکہ سے لینے انہیں دیکھنے ان سے گفتگو کرنے اور ان سے میل جول کی طاقت نہ رکھتے۔ اور اگر انکے اجساد وظواہرصفاتِ بشر کے بجائے صفاتِ ملائکہ سے متصف ہوتے تو لوگ ان سے استفادہ و مخالطت نہ کرپاتے۔ جیسا کہ گزر گیا۔

لہذا اجسام وظواہر کے اعتبار سے بشر کی طرح بنائے گئے اور ارواح وبواطن کے اعتبار سے ملائکہ کی طرح بنائے گئے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میں اپنی امت میں کسی کو اپنا دوست بناتا توابو بکر کو بناتا لیکن وہ اسلامی بھائی ہیں لیکن تمہارا صاحب اللہ کا خلیل ہے۔ اور ارشاد فرمایا: میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔ اور فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔ پس ان کے بواطن آفات سے پاک اور نقائص وعلل سے صاف ہوتے ہیں۔انتہی

ناظرین آپ قاضی عیاض مالکی کے مندرجہ بالا کلمات کو بار بار پڑھیں اور گمراہوں کے دعوائے مماثلت ومساوات پربار بار افسوس کریں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

واضح رہے کہ یہاں ایک ادب او رقاعدہ ہے جسے بعض اصفیا اور اہل تحقیق نے بیان کیا ہے اور اس کا جان لینا اور اس پر عمل پیرا ہونا مشکلات سے نکلنے کا حل اور سلامت رہنے کا سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر اﷲ رب العزت جل وعلا کی طرف سے کوئی خطاب،عتاب،رعب ودبدبہ کا اظہار یا بے نیازی کا وقوع ہو مثلاً آپ ہدایت نہیں دے سکتے،آپ کے اعمال ختم ہوجائیں گے،آپ کے لئے کوئی شیئ نہیں،آپ حیات دنیوی کی زینت چاہتے ہیں،اوراس کی مثل دیگر مقامات،یا کسی جگہ نبی کی طرف سےعبدیت،انکساری،محتاجی و عاجزی اور مسکینی کا ذکر آئے مثلاً میں تمھاری طرح بشر ہوں،مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے عبد کو آتا ہے اور میں نہیں جانتا اس دیوار کے ادھر کیا ہے،میں نہیں جانتا میرے ساتھ اور تمھارے ساتھ کیا کیا جائے گا،اور اس کی مثل دیگر مقامات،ہم امتیوں اورغلاموں کو جائز نہیں کہ ان معاملات میں مداخلت کریں،ان میں اشتراک کریں اور اسے کھیل بنائیں،بلکہ ہمیں پاس ادب کرتے ہوئے خاموشی وسکوت اور توقف کرنا لازم ہے ، مالک کا حق ہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے، اس پر اپنی بلندی اور غلبہ کا اظہار کرے،بندے کا بھی یہ حق کہ وہ اپنے مالک کے سامنے بندگی اور عاجزی کا اظہار کرے ،دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے اور حد ادب سے باہر نکلنے کی کوشش کرے،اس مقام پر بہت سے کمزور اور جاہل لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں جس سے وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، اﷲ تعالٰی محفوظ رکھنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ (مدارج النبوۃ 1/83, باب سوم, وصل در ازالہ شبہات از بعضے آیات مبهمات وموهمات, ط: نوریہ رضویہ سکھر, باكستان)

دوسرا امر:

ما قبل آیات اور انکے ضمن میں گزرنے والی ابحاث سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا ہے کہ کفار کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ بات بات پر یہ کہتے تھے کہ انبیاء ہماری طرح ہی بشر ہیں اور انہیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اور کہتے تھے کہ: ﴿اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾ [التغابن:6] کیا ایک بشر ہمیں ہدایت دے گا۔ چنانچہ تفسیر البحر المحیط میں اس آیت کے تحت ہے کہ: ½أنهم يقولون نحن متساوُون في البشرية، فأنى يكون لهؤلاء تمييز علينا بحيث يصيرون هُداةً لنا؟¼ انتهى

یعنی کفار یہ کہتے تھے کہ ہم اور انبیاء بشریت میں برابر ہیں۔ تو انہیں ہم پر کیسے برتری حاصل ہوگئی کہ ہمارے ہادی بنیں۔انتہی۔

تو کفار کے رد میں آیات بشریت نازل ہوئیں جن میں وحیِ الہی، رسالت اور اللہ کےفضل واحسان کے ذکر سے انبیاء کا امتیاز ظاہر کیا گیا ہے جیسا کہ ماقبل گزرا۔لہذا ثابت ہوا کہ وہ تساوی، مثلیت اور برابری جسکے رد میں آیاتِ قرآنیہ نازل ہوئیں اسی تساوی اور برابری کو آج کے بعض فرقِ ضالہ پورے زور وشور کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اور علماء اسلام وقرآن کریم کے اسلوب سے روگردانی کرتےہوئے کفار کی بولی بول رہے ہیں۔سچ فرمایا اللہ تعالی نے: ﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًاۙ وَّیَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا﴾ [البقرة:١٢٦]. نسأل الله العفو والعافية۔

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

½وخُصّ في القرآن كل موضع اعتُبر من الإنسان جُثّته وظاهرُه بلفظ البشر، نحو: ﴿الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا﴾ [الفرقان:54]، و﴿اِنِّیۡ خٰلِقٌۢ بـَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ﴾ [ص:71]، ولما أراد الكفار الغَضَّ من الأنبياء اعتبروا ذلك فقالوا: ﴿اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ﴾ [المدثر:25]، و﴿اَبَشَرًا مِّنَّا وٰحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ﴾ [القمر:24]، ﴿مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ [يس:15]، ﴿اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا﴾ [المؤمنون:47]، ﴿فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾ [التغابن:6]، وعلى هذا قال: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [الكهف:110]، تنبيها أن الناس يتساوَون في البشرية، وإنما يتفاضلون بما يختصون به من المعارف الجليلة والأعمال الجميلة، ولذلك قال بعده: ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ [الكهف:110]، تنبيها أني بذلك تميّزتُ عنكم¼. انتهى (المفردات للراغب)

ترجمہ: قرآن میں ہر وہ مقام جہاں انسان کا جثہ اور اسکا ظاہری جسم مراد ہے اسےلفظ بشر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ جیسے کہ ﴿الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا﴾ [الفرقان:54] اور و﴿اِنِّیۡ خٰلِقٌۢ بـَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ﴾ [ص:71]. لہذا جب کفار نے انبیاء کرام علیہم السلام سے صرفِ نظر کی تو انھوں نےاسی ظاہری جسم وجثہ کا اعتبار کیا اور کہا: ﴿اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ﴾ [المدثر:25]، اور﴿اَبَشَرًا مِّنَّا وٰحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ﴾ [القمر:24]، ﴿مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ [يس:15]، ﴿اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا﴾ [المؤمنون:47]، ﴿فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾ [التغابن:6]

اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [الكهف:110] تاکہ اس بات کی تنبیہ ہو کہ تمام لوگ بشریت میں برابر ہیں۔بس فضیلت انہی معارفِ جلیلہ اور اعمالِ جمیلہ کے سبب ہوتی ہے جنکے ساتھ انہیں خاص کیا جاتا ہے۔اسی لئے اسکے بعد فرمایا: ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ [الكهف:110]۔ اس بات پرتنبیہ کے لئے کہ میں انہی امور کی وجہ سے تم سے ممتاز اور جدا ہوں۔

مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ کفار کی یہ عادت تھی کہ وہ انبیاءِ کرام کے ظاہری جسم وجثہ پرنظر رکھتے ہوئے انہیں اپنے جیسا بشرِ محض گمان کرتے تھے اور وہ درجات وکمالات جو اللہ کریم نے انہیں اپنے فضل وکرم سے عطا کئے تھے جیسے نبوت ورسالت، معرفت وشریعت، نور وہدایت وغیرہ ان سے صرفِ نظر کرتے تھے۔جسکی وجہ سے وہ گمراہ ہوگئے۔لہذا ضروری ہے کہ بشریتِ محضہ کے قول سے بچا جائے کیونکہ یہ کفار کا قول ہے جس طرح کفارومنافقین کے قول راعنا سے بچا جاتا ہے۔

تیسرا امر:

مؤمن اور مشرک دونوں بشر ہیں لہذا چاہئے کہ دونوں برابر ہوں لیکن قرآن فرماتا ہے: ﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ﴾ [البقرة:221], اور رب کی شان دیکھئے کہ نبی سے فرماتا ہے کہ: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے فرماتا ہے کہ: ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ [الأحزاب:32] اے نبی کی بیبیو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو, فاعتبروا يا أولي الأبصار.

چوتھا امر:

انبیاءِ کرام کا اپنے آپ کو اوروں کی مثل بشر کہنا تواضع اور انکساری کے سبب تھا لہذاکسی اورشخص کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ خود یہ الفاظ استعمال کرے۔

چنانچہ علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں:

قوله تعالى: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ قال ابن عباس: علَّم الله تعالى رسوله التواضع لئلا يُزهَى على خلقه، فأمره أن يُقِرَّ على نفسه بأنه آدمي كغيره، إِلا أنه أُكرم بالوحي. انتهى (زاد المسير)

ابنِ عباس نے فرمایا: اللہ تعالی نے اپنے رسول کو تواضع کی تعلیم دی تاکہ اسکی مخلوق پر بڑائی نہ جتائیں۔ لہذا رسول کو حکم دیا کہ وہ اقرار کریں کہ وہ بھی آدمی ہیں دیگر کی طرح سوائے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ساتھ تکریم دی گئی ہے۔

اور تفسیرِ بغوی میں ہے:

علم الله رسوله التواضع لئلا يَزهُو على خلقه، فأمره أن يُقرّ فيقول: إني آدمي مثلكم، إلا أني خصصتُ بالوحي وأكرمني الله به. انتهى (تفسير البغوي)

اسکا مفہوم بھی ما قبل کی مثل ہے۔

اور تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ:

أَي لستُ بمَلَك بل أنا من بني آدم. قال الحَسن: علَّمه الله تعالى التواضُع. انتهى (تفسير القرطبي)

یعنی میں فرشتہ نہیں بلکہ اولادِ آدم میں سے ہوں۔ حسن نے کہا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تواضع کی تعلیم دی۔

حکایت:

امام شعرانی فرماتے ہیں کہ:

وكان (الشيخ محمد أبو المواهب الشاذلي) رضي الله عنه يقول: قلتُ: مرة في مجلس

محمد بشر لا كالبشر بل هو ياقوت بين الحجر

فرأيتُ النبيّ صلى الله عليه وسلم، فقال لي: قد غفر الله لك، ولكل من قالها معك، وكان رضي الله عنه لم يزل يقولها في كل مجلس إلى أن مات. انتهى, (الطبقات الكبرى)

یعنی شیخ محمد ابو المواہب شاذلی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے ایک مرتبہ کسی مجلس میں یہ شعر پڑھا:

محمد بشر لا كالبشر بل هو ياقوت بين الحجر

ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں لیکن کسی بشر کی طرح نہیں، بلکہ اس طرح ہیں جیسے یاقوت پتھروں کے درمیان۔

تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے مجھ سے فرمایا: اللہ نے تجھے بخش دیا اورہر اس شخص کو بھی جس نے یہ کلمہ تمہارے ساتھ کہا۔اسکے بعد شیخ مذکور جب تک بقید حیات رہے ہر مجلس میں یہ شعر کہا کرتے تھے۔

کسی نے کیا خوب کہا:

لا يمكن الثناء كما كان حقُّه بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر

نوٹ: (۱)۔۔اعلی حضرت امامِ اہلسنت فرماتے ہیں کہ:

جو مُطْلَقاً حضور سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے،قال تعالی: ﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا [اسراء:93]

تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے میں تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں۔

(2)۔۔تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ:

اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بشر کہنے میں راہِ سلامت یہ ہے کہ نہ تو آپ کی بشریت کا مُطْلَقاً انکار کیا جائے اور نہ ہی کسی امتیازی وصف کے بغیر آپ کی بشریت کا ذکر کیا جائے بلکہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بشریت کا ذکر کیا جائے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو افضل البشر یا سیّد البشر کہا جائے یا یوں کہا جائے کہ آپ کی ظاہری صورت بشری ہے اور باطنی حقیقت بشریَّت سے اعلیٰ ہے۔