استاد کا مقام ومرتبہ

Tue, 6 Apr , 2021
3 years ago

عالم دین اور استاد نائب رسول ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵(پ26،الحجرات:4۔5)ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

علامہ نظام الدین علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں :استاد کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے ۔(فتاوی عالمگیری،5/378)کیونکہ عالمِ دین ہر مسلمان کے حق میں عام طور پراور استادِ علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خاص طور پر نائبِ حضور پُر نور سیّد عالم ہے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص78)

استاد آقا اور شاگرد غلام ہے،حضور نبی رحمتفرماتے ہیں: جس نے کسی آدمی کوقرآن مجید کی ایک آیت سیکھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم کبیر،8/112،حدیث:7528)امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔(المقاصد الحسنہ،ص483)حضرت امام شعبہ بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں۔بلکہ فرمایا:جس سے میں نے ایک حدیث لکھی میں اس کا عمر بھر غلام رہا ہوں۔(المقاصد الحسنہ،ص483)

استاد کے سامنے ہمیشہ عاجزی کی جائے اور خود کوکبھی بھی استاد سے افضل نہ سمجھاجائے ۔حضور نبی اکرم فرماتے ہیں:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب واحترام سیکھو،جس استاد نے تمہیں علم سکھایاہےاس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط، 4/342، حدیث:6184) اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں جبکہ بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں، جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گےصحیح بخاری ،جلد3،ص163 پر ہے:کَمَا تُدِیْنُ تُدَان یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص90)

استاد کا حق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے،علماء کرام فرماتے ہیں کہ استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے ۔کتاب ”عین العلم“ میں ہے:والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھناچاہئے کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذریعہ ہے جبکہ علامہ مناویرحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں :جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(تیسیرشرح جامع الصغیر2/454)

استاد کے تمام حقوق اد کیے جائیں،استاد کے حقوق کا انکار کرناتمام مسلمانوں بلکہ سارے عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے ،یاد رہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے،فتاوی عالمگیری میں چند حقوق یہ بیان ہوئے ہیں : شاگر استاد سے پہلے بات نہ کرے ، اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے، اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے( یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے اور جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک حرف ہی پڑھایا ہو اس کے لئے عاجزی وانکساری کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے، اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے لہذا اگرکسی کو ترجیح دے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسّی کھول دی اوراستاذ کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے ۔(فتاوی عالمگیری،5/373تا379)

استاد کی بات ہمیشہ مانی جائے،کبھی استاد کی بات کو رَد نہ کرے ،وہ اگر کسی جائز بات کا حکم دے تواپنی طاقت وحیثیت کے مطابق اُس پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس نے استاد کی نافرمانی کی اُس نے اسلام کی گرہوں سے ایک گرہ کھول دی، علماء فرماتے ہیں :جس سے اس کے استاد کو کسی طرح کی ایذا پہنچے وہ علم کی برکت سے محروم رہے گااور اگر استاد کا حکم کسی شرعی واجب کے متعلق ہو تو اب اس کا لازم ہونا اور زیادہ ہوگیا،استاد کے ایسے حکم میں اُس کی نافرمانی تو واضح طور پر جہنم کا راستہ ہے (نعوذباللہ من ذالک)۔ہاں! اگر استاد کسی خلافِ شرع بات کا حکم دے تو شاگردوہ بات ہرگز نہ مانے کیونکہ حدیث پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ۔(مسند احمد،7/363،حدیث:20678) مگر اس نہ ماننے پر بھی گستاخی وبے ادبی سے پیش نہ آئے بلکہ بکمال عاجزی سے معذرت کرے اوراُس پر عمل کرنے سے بچے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص79ماخوذا)

شاگر ہمیشہ استادکا شکر گزار رہے،کیونکہ استاد کی ناشکری خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنیوالی ۔حضور نبی کریمنے فرمایا ہے:وہ آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا نہیں لا تا جو لو گوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (ابو داؤد، 4/335،حدیث:4811)۔پھر یہ کہ شاگر کبھی استاد کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ تو ناشکری سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ”جس نے احسان کے بدلے برائی کی اس نے تو ناشکری سے بھی بڑا گناہ کیا“

محمد آصف اقبال

16فروری 2019ء