پنجہ شریف (1) نزدمٹھہ ٹوانہ (2) ضلع خوشاب(3) کاملک اعوان (4) قاضی خاندان عرصہ درازسے دین متین کی خدمت میں مصروف ہے، انیس
صدی عیسوی میں اس کے سربراہ حضرت مولانا حافظ
قاضی محمد عبدالحکیم قادری صاحب تھے جو اپنےوقت کے بہترین حافظ قرآن
،جیدعالم دین،حسن ظاہری وباطنی کے پیکر اورعلم وعمل کے جامع تھے ، اللہ پاک نےانہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا، اکلوتاہونے کی وجہ سے ماں باپ اس بچے سے بہت محبت کرتے تھے،انھوں نے اس کی
تربیت اس اندازمیں کی کہ یہ بچپن سے حصولِ علم میں مگن رہتا تھا، ابتدائی عمرمیں
ہی حفظ قرآن کی سعادت پائی،اب یہ حافظ صاحب کے معززلقب سے پکارا جانے لگا،حافظ
صاحب نے درسِ نظامی کی ابتدائی کتب اپنے والدگرامی سے پڑھیں،ان کا شوق علم اتنا بڑھا کہ انھوں نے دیگرشہروں میں
جاکر نامورعلماسےپڑھنے کا فیصلہ کیا،ایک دن اپنےوالد گرامی کی خدمت میں
حاضرہوکربصداحترام بیرون شہرجانے کی اجازت
مانگی ،والدگرامی چونکہ علم کی گہرائی کوجانتے تھے اورسفرکے فوائدسے بھی واقف تھے چنانچہ انھوں نےاپنے اکلوتے اورفرمانبرداربیٹے
کو اجازت دے دی۔
حافظ صاحب نے
مختلف شہروں میں حاضرہوکرخوب علم دین حاصل کیا ، دوران تعلیم
ان کے ذہن میں عقیدہ ومعمولات اہل سنت کے بارے میں کچھ اشکا ل پیداہوگئے،کچھ عرصہ کےبعدگھرلوٹے
تووالدمحترم کی خدمت میں ان اشکال کو بیان کیا،انھوں نےجواب دیا مگران کی تشفی نہ
ہوئی ،آپ کےوالد مولانا محمدعبدالحکیم قادری صاحب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃاللہ
علیہ(5) کے
بارے میں جانتے تھے کہ یہ اِس وقت علماومشائخ اہل سنت کی قیادت فرمارہےہیں اوردرجہ
مجددیت پر فائز ہیں ، عقیدہ
ومعمولات اہل سنت کی ترویج واشاعت کے سبب نہ صرف ہند بلکہ عالم اسلام میں مشہورہیں
۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹانےباہم طے کیا کہ
ہم اعلیٰ حضرت سے ملاقات وزیارت کے لیے بریلی شریف (6) کاسفرکرتے
ہیں ۔ یہ اپنےگاؤں پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹوانہ ضلع خوشاب)سے 1328ھ مطابق 1910ء میں عازم بریلی ہوئے ،تقریبا 926کلومیٹرسفرکی
صوبتیں برداشت کرتے ہوئے بریلی شریف پہنچے۔حسن اتفاق سے اعلیٰ حضرت اس وقت
دارالعلوم منظراسلام (7) کے
طلبہ کو درس دےرہےتھے اورموضوع بھی وہی تھاجس کی وجہ سے ان باپ بیٹے نے سفرکیا
تھا،اعلیٰ حضرت جیسے جیسے گفتگوفرماتے گئے ، اشکال دورہوتے گئے ،درس کے اختتام تک حافظ صاحب نےفیصلہ کرلیاکہ میں مرید بنوں گا تو اعلیٰ حضرت
کا بنوں گا،بعددرس ان دونوں کی اعلیٰ حضرت سےملاقات ہوئی ،اعلیٰ حضرت علماوطلبہ
سےبہت محبت کرتے تھے،جب آپ کو معلوم ہواکہ یہ شمال مغربی پنجاب سے سفرکرکےبریلی
پہنچے ہیں تو اعلیٰ حضرت نے مزید ان کا اکرام فرمایا،بعدمصافحہ اعلیٰ حضرت نے
پوچھا:مولانا! کیسےتشریف لائے ،برجستہ عرض کیاحضور!بیعت کرناچاہتاہوں ،فرمایا،کیاپڑھےہوئےہو؟حافظ صاحب نے جوابااپنی تعلیم کی تفصیلات بیان کیں،اعلیٰ
حضرت نے حوصلہ افزائی فرمائی اورمزیدپڑھنےکےلیے دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ
لینے کا حکم ارشادفرمایا۔(8) یہ دوسال وہاں رہے(9)
اوراعلیٰ حضرت سے خوب استفادہ کیاحتی کہ اعلیٰ حضرت نےانہیں سلسلہ قادریہ رضویہ میں خلافت سے بھی
نوازدیا ۔(10) شوقِ علم سے سرشاران عالم دین کا اسم گرامی
حضرت مولاناباباجی قاضی حافظ محمدعبدالغفورقادری رضوی ہے ۔ان کے بارے میں اب تک جومعلومات حاصل ہوسکی
،وہ بیان کی جاتی ہیں :
قاضی خاندن کا تعارف:قاضی
خاندان کا تعلق وادی سون سکیسر(11) کے
گاؤں چِٹّہ (12) سے ہے ،ان کےآباواجدادوہاں سے
مٹھہ ٹوانہ میں منتقل ہوئے ، قاضی خاندان کے
جدامجدحافظ عطامحمدصاحب کی لائق گاشت زمین مٹھہ ٹوانہ (ضلع خوشاب) سے تقریبا چھ
سات کلومیٹرکےفاصلے پر پہاڑکے
دامن میں تھی جس میں یہ کھیتی باڑی کیاکرتے تھے ، یہ اپنے بیلوں کے ہمراہ زمین پر جاتے آتے تلاوت قرآن میں مصروف رہتے تھے ،مشہوریہ ہے روزانہ ایک ختم قرآن کی سعادت پایا
کرتے تھے ،ان کے تین بیٹے اورایک بیٹی تھی:
(1)بڑے بیٹے قاضی
فیروزدین تھے ، جوچک 58ضلع سرگودھا میں زمین داری کیا کرتےتھے،ان
کا ایک بیٹاقاضی شعیب الدین تھا،جو جوانی
میں فوت ہوا۔
(2) دوسرے بیٹے مولانا حافظ قاضی عبدالحکیم
قادری تھے ،(13) جوکہ علامہ عبدالغفورقادری کے والدگرامی ہیں۔
(3)تیسرےبیٹے قاضی مظفردین تھے ،یہ عالم دین
تھے اورآرمی میں خطیب رہے ،ان کے بیٹےمولانا قاضی ضیاء الدین صاحب بھی عالم دین
اورآرمی میں خطیب تھے ،ان دونوں باپ بیٹا کا انتقال مٹھہ ٹوانہ میں ہوا،مولانا
قاضی ضیاء الدین صاحب کے بیٹےمولانا قاضی عبدالقیوم صاحب ہیں ، ابھی یہ چندسال کے تھے کہ والدصاحب کا انتقال ہوگیا ،باباجی
علامہ عبدالغفورصاحب نےانہیں مٹھہ ٹوانہ سے پنجہ شریف میں بُلالیا ، انکی پرورش مٹھہ ٹوانہ میں ہوئی ،انھوں نے باباجی سے
ہی علم دین حاصل کیا ، باباجی کےانتقال کےبعد یہ جامع مسجدابھاروالی کے امام وخطیب
مقررہوئے ، 1410ھ /1990ءمیں آپ کا وصال پنجہ شریف میں ہوا،آبائی
قبرستان میں تدفین ہوئی ۔مولاناقاضی عبدالقیوم قادری صاحب کے بیٹے مولانا قاضی زین العابدین قادری صاحب تھے جوجامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف(14) کے فارغ التحصیل تھے ۔ان کاوصال یکم رمضان1434ھ/9جولائی 2013ء میں پنجہ شریف میں ہوا،والدکے
قبرکےقریب تدفین ہوئی ۔
(4)ایک بیٹی تھیں جن کا نکا ح قاضی شیرمحمدقادری بن قاضی پیرمحمدقادری صاحب
سے ہوا ،ان کے بیٹے عارف باللہ حضرت قاضی
محمددین قادری (15) تھے جو کہ علامہ عبدالغفورصاحب کے
شاگرداوربیٹی کے سسرتھے ۔ (16)
پیدائش: خلیفۂ اعلیٰ
حضرت ،عالم باعمل حضرت علامہ قاضی باباجی حافظ محمدعبدالغفورقادری رضوی رحمۃ اللہ
علیہ کی ولا د ت باسعادت 1293ھ
مطابق 1886ء پنجہ شریف
(نزدمٹھہ ٹواناضلع خوشاب پنجاب)پاکستان میں ہوئی۔(17)
والدین کا تذکرہ :آپ
کے والدگرامی حضرت مولانا حافظ قاری قاضی عبدالحکیم قادری صاحب کی ولادت 1856ء /1272ءمیں ہوئی اور1941ء /1360ءمیں 85سال کی عمرمیں وصال فرمایا،پنجہ
شریف قبرستان میں تدفین ہوئی ،آپ جیدعالم
دین ،مضبوط حافظ قرآن اورآرمی میں خطیب تھے ،فوج سے سبکدوش کے ہونے کے بعدکھیتی
باڑی کیا کرتے تھے ،آپ عالم باعمل اورقصیدۂ غوثیہ کے عامل تھے ۔ ابتدائی عمرمیں
بوجوہ مٹھہ ٹوانہ سے اپنے ایک رشتہ دارقاضی شیرمحمدقادری کے ہمراہ پنچہ شریف منتقل ہوگئے تھے۔ (18) آپ کی والدہ
محترمہ حضرت فیض بی صالحہ خاتون تھیں ،جو مٹھہ ٹوانہ کےعالم دین حضرت
مولانا قاضی شیخ احمدصاحب کی بیٹی اور اس
زمانے میں مٹھہ ٹوانہ کی واحدجامع
مسجدقاضایاں والی کے امام وخطیب
مولاناقاضی فضل احمد صاحب کی بہن تھیں ۔(19)
تعلیم وتربیت:آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت والدگرامی حضرت
مولاناقاضی قاری حافظ محمدعبدالحکیم قادری صاحب کے ہاں ہوئی، مزیدتعلیم مختلف شہروں میں حاصل کی ،دوران
تعلیم آپ کے ذہن میں عقیدہ ومعمولات اہل سنت کے بارے میں کچھ اشکا ل پیداہوگئے۔ آپ
کے والدگرامی 1328ھ / 1910ء میں آپ کو بریلی شریف (یوپی ہند) اعلیٰ حضرت
امام احمدرضا کی بارگاہ میں لے گئے ۔آپ کی صحبت وزیارت کی برکت سے سارے شکوک
وشبہات دورہوگئے اوراعلیٰ حضرت کے علم وتقویٰ سے اس قدرمتاثرہوئے کہ سلسلہ عالیہ
قادریہ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت کرلی ،مزیدعلم دین کے حصول کے لیے دارالعلوم (مدرسہ
اہل سنت وجماعت)منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ لے لیا۔(20)
بریلی شریف میں آپ کا قیام : 1328ھ/1910ء سے 1330ھ/1912ء دوسال علامہ عبدالغفورقادری صاحب نے بریلی شریف میں
گزارا،اس وقت کے دارالعلوم کے اساتذہ ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان ، حجۃ الاسلام
حامدرضا خان(21) ، صدرالشریعہ
مفتی امجدعلی اعظمی (22) ،مفتی اعظم ہندمولانا مصطفی رضا خان (23) اورعلامہ
سیدبشیراحمدشاہ علی گڑھی (24) رحمۃا
للہ علیہم سے استفادہ کرنے کی سعادت پائی ۔(25)اس دوران
دارالعلوم منظراسلام کےتین سالانہ جلسے ہوئے ،قرین قیاس یہی ہے کہ آپ نےان تینوں میں شرکت کی ہوگی،دارالعلوم
منظراسلام کا نواں سالانہ جلسہ بتاریخ 27،28،29ذیقعدہ1330ھ مطابق8، 9،10نومبر1912ءبروزجمعہ ،ہفتہ اوراتواربریلی شریف کی مرکزی جامع مسجد بی بی جی صاحبہ(محلہ
بہاری پور،بریلی) (26) میں
منعقدہوا،غالبااس میں آپ کی دستاربندی ہوئی اوریوں فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف کا
شرف پایا ۔(27) 1328ھ تا1330ھ تک جو طلبہ پڑھتے تھے ان میں محدث اعظم بہارحضرت
مولانااحسان علی محدث مظفرپوری(28) حضر ت مولانا محمدطاہر رضوی(29) ،حضرت مولاناعبدالرشیدرضوی(30) اورمولانا عبدالرحیم رضوی(31)وغیرہ شامل ہیں۔(32)
سلسلہ قادریہ کی خلافت :آپ کے
والدگرامی علامہ قاضی عبدالحکیم قادری صاحب کے شیخ طریقت حضرت سیدنا پیرعبدالرحمن
قادری ملتانی (33) رحمۃا للہ علیہ کے اشارہ غیبی پر اعلیٰ حضرت
امام احمدرضا نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت عطافرمائی۔6ذیقعدۃ
الحرام 1330ھ / 17،اکتوبر1912ء
کوسندتکمیل کےساتھ سند اجازت دی گئی ، اعلیٰ حضرت نے آپ کے نام کے ساتھ یہ القابات
تحریر فرمائے:برادریقینی،صالح سعید،مفلح رشید،فاضل حمید،حسن الشمائل، محمودالخصائل،
راغب الی اللہ ،الغفورالشکور قاری حافظ مولوی محمد عبد الغفور ابن مولوی حافظ قاری
محمدعبدالحکیم شاہ پوری نوربالنور المعنوی،الصوری ۔ان القابات سے آپ کی شخصیت کی
عکاسی ہوتی ہے۔(34)
اسنادکی معلومات :ماہررضویت
پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمدمجددی صاحب (35) تحریرفرماتے ہیں : امام احمدرضا کے تلامذہ
اورخلفاء پاک وہند کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں، 1990ء
سکھرسندھ میں قیام کےدوران محترم مولانا حافظ محمدرفیق
صاحب قادری(36) زیدعنایتہ
(مہتمم جامعہ انوارمصطفی سکھر)نے فرمایاکہ ایک دستاویزاِن کے
علم میں بھی ہے جوان کے استادگرامی مولانا عبدالغفورعلیہ الرحمہ کے گھرانے میں
محفوظ ہے ۔تلاش کرکےمہیاکرنے کا وعدہ فرمایا،پھر24جون
1992ءکو یہ وعدہ
پوراہوااورموصوف کے صاحبزادے برادرم مفتی محمدعارف سعیدی(37) زیدمجدہ
اورمکرمی مفتی محمدابراہیم قادری(38) زیدعنایتہ دستاویزلےکرغریب خانے پر
تشریف لائےاوراس کے عکس عنایت فرمائے ۔ دستاویزکےمطالعہ کے بعدمعلوم ہواکہ یہ
دوسندیں ہیں جن کاتعلق پاکستان کےمولانامحمدعبدالغفورشاہ پوری سے ہے۔ایک سندتکمیل
ہےاوردوسری سندخلافت واجازت ہے۔اس سندکے ساتھ تیسری سندحدیث ہےجو مولوی
بشیراحمدصاحب نے عنایت کی آخرمیں حجۃ الاسلام مولاناحامدرضا خاں صاحب نے ان الفاظ
کےساتھ دستخظ فرمائے ہیں :واناذالک من الشاہدین ۔،یہ
اسناد،ادارہ تحقیقات امام احمدرضا (39)
نے اپنے سالنامہ معارف رضا،شمارہ 1413ھ/1992ء میں
شائع کردیا ہے ۔ (40)
شادی واولاد:آپ کی شادی اپنی فیملی کی ایک نیک
خاتون سَیدبی بی سے ہوئی ،انھوں نے بعدشادی آپ سے ہی علم دین حاصل کی ، تصوف کی
تعلیم پائی ، مکمل ترجمہ قرآن کنزالایمان اورتفسیرخزائن العرفان باباجی سے پڑھا
،عالمہ فاضلہ اورصالحہ خاتون تھیں ۔(41) اللہ پاک نے آپ کوچاندسی بیٹی خدیجہ بی
بی عطافرمائی ، جس کی آپ نے بہترین تربیت فرمائی ،انھوں نےاپنےوالدووالدہ سےعلم
دین حاصل کیا ،اپنےوالدین کی طرح یہ بھی نہایت عبادت گزار،نیک اورزہدوتقویٰ میں
باکمال تھیں ،یہ خواتین کو تعویذات دیا کرتی ،بیمارخواتین اوران کے بچوں کو دم کیا
کرتی تھیں ،یہ مستجاب الدعوات تھیں ،ان کی خدمت میں
عورتوں کا بہت رجوع تھا ،دوردراز سے
خواتین آتی ،دعائیں کرواتیں ،دم کرواتی ،تعویذلیتی اوردل کی مرادیں پاتی تھیں ،باباجی
علامہ عبدالغفورقادری صاحب نے ان کی شادی
اپنے پھوپھی زادبھائی اورشاگردعارف باللہ حافظ قاضی محمددین قادری صاحب (42) کے صاحبزادے امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ (پنجہ
شریف )حضرت
مولانا قاضی عبدالرحمن قادری صاحب (43)
سے کی ۔جامعہ مسجدرحمانیہ کے موجودہ امام وخطیب قاضی الحاج حبیب الرحمن صاحب آپ کے
بیٹےا ورجانشین ہیں ۔(44)اس
مضمون میں قاضی حبیب الرحمن صاحب نے بہت مددفرمائی ،اللہ پاک انہیں
بہترجزاعطارفرمائے۔
ذریعہ آمدن :علامہ عبدالغفورقادری صاحب
جیدعالم دین ہونے کے ساتھ بہت بڑے زمینداربھی تھے ،پنجہ شریف میں آپ کے پاس 33،ایکڑ،تھل (45) میں ایک سوایکڑ،بارانی علاقے میں 15
،ایکڑ اور ساہیوال (46) میں
35،ایکڑزمین تھی ،پنجہ شریف کی زمین آپ خود کاشت
کرتے تھے اوربقیہ زمینیں آپ نے مزارعت پر
دی ہوئی تھیں، مزارع حضرات کو آپ کی طرف سے سخت تاکیدتھی کہ دیگرلوگوں کی زمینوں
سے ایک فٹ فاصلہ رکھ کرفصل گاشت کی جائے ،آپ کے تقوےکا یہ عالم تھاکہ اگرآپ کوشک
گزرتاہے کہ کہیں مزارع نے اس بات کو پیش نظرنہیں رکھا تو اس خوف سے کہ کہیں کسی کے
کچھ دانے ہماری طرف نہ آگئے ہوں ،آپ وہ پوری آمدن راہ خدامیں خرچ کردیا کرتے تھے ۔(47)
دینی خدمات: کچھ عرصہ کے لیےفوج میں
بطورخطیب ملازم ہوگئے ،فیروزپورچھاؤنی(48) میں امامت وخطابت میں مصروف رہے ۔(49) کچھ عرصہ یہ
خدمت سرانجام دینے کے بعد آپ وہاں سے سبکدوش ہوکر اپنے گاؤں پنجہ شریف تشریف لے آئے ،آپ نے اپنے محلہ خوشحالی
والا(پنجہ شریف ضلع خوشاب)کی اُبھاروالی مسجد (جسے ان کے والدعلامہ عبدالحکیم قادری نے بنایا تھااس )میں
امامت وخطابت شروع فرمائی اوراپنی بیٹھک
میں مدرسہ قائم فرمایا ۔جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی کی کتب پڑھانے کا سلسلہ تھا
، خیرخواہی امت کے جذبے کے تحت تعویذات بھی دیا کرتے تھے مگریہ سب خدمات فی سبیل
اللہ تھیں ۔(50)
تصنیف وتالیف:دین اسلام
کا ترویج واشاعت کاایک اہم ذریعہ کتب کی تصنیف وتالیف بھی ہے ،علامہ
عبدالغفورقادری صاحب بھی حالات حاضرسےآگاہ تھے اوراس وقت کی ضرورت کے مطابق تصنیف
وتالیف میں مصروف رہے،فتنہ قادیانیت کےرد میں آپ کے دورسائل تحفۃ العلماء فی
تردیدمرزا المعروف لیاقت مرزا (51) اور عمدۃ البیان فی جواب سوالات اہل القادیان(52) ہیں ،یہ دونوں رسائل حضرت علامہ مفتی
محمدامین قادری عطاری(53) رحمۃ اللہ علیہ نےعلمائے اہل سنت کے کتب ورسائل کےمجموعہ ’’عقیدہ
ختم النبوۃ ‘‘ (54) کی تیرہویں جلد میں
شائع کئے ہیں ،مزیدتصانیف
سے آگاہی نہ ہوسکی ۔
کتب خانہ :علامہ
عبدالغفورقادری صاحب کوچارپانچ زبانوں پر عبورحاصل تھا ،عربی تکلم میں تو آپ
ماہرتھے ،آپ کے کتب خانے میں کثیرکتب تھی ،جوآپ کی وفات کےبعدجامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف(55) میں منتقل کردی گئیں ۔(56)
تحریک پاکستان میں حصہ:آپ نےتحریک پاکستان میں بھرپورحصہ لیا ، عوام وعلماء سب کو اس کی اہمیت سے
آگاہ کیا ،آپ کی ان کوششوں سے پنجاب میں تحریک پاکستان کےلیے رائے عامہ ہموارہوئی ،آپ نےمجاہدملت حضرت
مولانامحمدعبدالستار خان نیازی(57) کے قافلے کی سرپرستی فرمائی ،23تا25صفرالمظفر 1365ھ27تا29جنوری 1946ء کو آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے
پچیسویں عرس کےموقع پر بریلی شریف تشریف
لے گئے جہاں پاکستان کےحق میں قراردادمنظورہوئی،اس قرار داد کی ترتیب وتدوین کمیٹی میں آپ شامل تھے
۔بریلی شریف میں آپ کو’’مولانا پنچابی‘‘ کے لقب سے یادکیا جاتاتھا
۔ (58)
علمائے اہل سنت کا آپ کا اکرام کرنا:آپ کے علمااہل
سنت سے گہرے تعلقات تھے ، محدث اعظم پاکستان مولانا علامہ سرداراحمدچشتی قادری(59) رحمۃا للہ علیہ دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سےفارغ
التحصیل ہیں ،یوں محدث اعظم آپ
کےاستاذبھائی ہیں ،چونکہ علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی فراغت محدث اعظم سے پہلے
ہوئی اس لیے محدث اعظم آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے ،یہیں وجہ ہے کہ حافط الحدیث
مولاناسیدمحمدجلال الدین قادری بھکھی شریف(60) اوراستاذالعلمامولانا محمدنوازصاحب(61) بھی
آپ کابہت اکرام فرمایاکرتے تھے ۔ (62)
ولی کامل اورتقویٰ وپرہیزگاری :علامہ
عبدالغفورقادری صاحب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ باکرامت ولی اورشیخ طریقت بھی تھے،رزق
حرام بلکہ مشتبہات سے مکمل اجتناب فرماتے ،اپنے گھرکے غذائی ضروریات کو پوراکرنے
کے لیے گاؤں کی قریبی زمین میں خود کھیتی باڑی کرتے اورسبزیاں اگاتے تھے ،
دوردورسے مخلوق خداآپ کی بارگاہ میں حاضرہوتی اورعلم وروحانیت سے سیراب ہوتی۔تجلیات خلفائےاعلیٰ حضرت میں ہے : آپ عابدشب بیداراورزہدوورع میں منفردالمثال تھے،اخلاق
وخلوص،نیازمندی،عزیمت،حسن سلوک،قناعت پروری ،ایثار و قربانی،جذبہ ٔبندگی،کفایت شعاری اورفضل وکمال کے اوصاف
حمیدہ سے متصف تھے۔عشق رسول کی جودولت دہلیزمرشدسے ملی تھی،اس سے ہمہ وقت
سرشاررہاکرتے تھے ۔آپ جماعت اہل سنت کے عظیم مبلغ اورمسلک اعلیٰ حضرت کے بہترین
داعی تھے ۔کبھی بھی کسی مسئلہ شرعیہ میں مخالفین کی پرواہ نہیں کی ۔(63)
ماہ رمضان کے روزوں سے محبت :ماہ رمضان کے روزوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ
زندگی کے آخری تین سال بڑھاپے کی وجہ سے آپ کمزورہوگئے ،ان سالوں میں ماہ رمضان گرمیوں
میں تھا،پنجہ شریف میں روزے رکھنا مشکل ہوگیا،چنانچہ آپ نے روزے
رکھنے کےلیے اپنے شاگرداورمنہ بولے بیٹے حضرت مولانا حافظ حاجی دوست محمداعوان
صاحب(64)، کے پاس کھجولا (ضلع چکوال) (65)تشریف
لے جاتے،کیونکہ وہاں کا موسم قدرے ٹھنڈاہوتاتھا ۔ ایک مہینہ آپ وہیں قیام فرماتے
اورنمازعیدکے بعد واپس آیا کرتے تھے ۔(66)
تلامذہ وشاگرد:آپ
سے کئی علمانے استفادہ کیا ،درس نظامی کی کتب پڑھیں ،مثلا ولی کامل حضرت مولاناصوفی قاضی محمددین قادری اوران کےبیٹے
حضرت مولانا قاضی عبدالرحمن قادری امام
وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف(67)، استاذالحفاظ، مردکامل،حضرت باواجی حافظ
غلام احمد سَلَوئی والے چکوال(68) ،سیاح حرمین باباجی سیدطاہرحسین شاہ
جوہرآباد ضلع خوشاب(69)رفیق ملت حضرت مولانا حافظ محمدرفیق صاحب
قادری سکھرسندھ(70)،حضرت مولاناحاجی غلام محمداعوان موضع بِٹّہ ضلع
خوشاب(71)
اورمولانا
حافظ حاجی غوث محمداعوان موضع کھجولاضلع چکوال(72) آپ کے مشہور
تلامذہ میں سے ہیں۔ (73)
وفات ومدفن: علامہ عبدالغفورقادری صاحب نےغالبا 15رجب المرجب 1371
ھ / 9مارچ1952 ءکو وصال فرمایا۔(74) قبرستان پنجہ شریف کی ایک احاطہ میں خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ آپ کی
قبرشریف ہے۔یہ احاطہ مستطیل شکل میں ہے ،اس میں تقریبا 15قبورہیں
،مشرقی جانب لکڑی کا دروازہ ہے ،چاروں طرف 3 سے 4فٹ سرخ اینٹوں کی دیوارہے،اس
احاطے کی لمبائی تقریباپچاس ساٹھ فٹ
اورچوڑائی پندرہ سولہ فٹ ہے۔بابا جی علامہ
عبدالغفورصاحب کی قبراس احاطے کے شمال مغربی دیواروں کے ساتھ ہے۔مغربی
دیواراورباباجی کی قبرکے درمیان صرف حضرت مولانا عبدالقیوم قادری صاحب کی قبرہے ۔قدموں کی جانب حضرت مولانا محمدزین العابدین قادری صاحب کی
قبرہے۔ راقم ربیع الاول 1447ھ /جنوری 2016ء کو برادران اسلامی حاجی غلام عباس عطاری ،محمدنثارعطاری اورمحمدنویدعطاری کے ہمراہ پنجہ شریف حاضرہوا ،محترم غلام جیلانی
صاحب (ٹیچرپرائمری اسکول پنجہ )نے اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ استقبال کیا ،باباجی علامہ عبدالغفورقادری کے
خاندان کے لوگوں سے ملاقات ہوئی ،ان سے معلومات لیں ،باباجی کی مسجدکی زیارت کی اورپھر آپ کے مزارشریف پر حاضرہوکرفاتحہ کی
سعادت پائی۔آپ کے لوح مزارپر یہ اشعاردرج ہیں
،جسے ترجمے (75) کے
ساتھ ملاحظہ کیجئے:
پرز حسرت ہمیں گرئیم غمگیں |
|
حسرت سے پُر، غمگین یہی کہتا ہوں |
کہ ازما کرد رحلت عالم دیں |
|
کہ ہم سے اِک عالمِ دین رِحلت فرما گئے |
زما عبدالغفور اکنوں نہاں شد |
|
عبدالغفور اب
ہم سے پوشیدہ ہوگئے |
بییں ظلمت کہ گم شد ما ہ پرویں |
|
یہ ظلمت دیکھ جس میں ماہِ پروین کھو گئے |
خلیق و حاجی و قاریٔ قرآں |
|
خلیق و حاجی اور قاریٔ قرآن |
شدہ مدفون بذیر خاک مسکیں |
|
زیرِ خاک مدفون ومکین ہوگئے |
اگر صالح وفائش رابہ پرسی |
|
صالح اگر اُن کا سنِ وفات پوچھتے
ہو |
’’تو حق بخش بہ آن باد‘‘ اندریں بیں |
|
’’تو حق بخش بہ آن باد‘‘ میں دیکھ لے 1371 ھ |
حواشی ومراجع:
(1) پنجہ شریف مٹھہ ٹوانہ سےجانب جنوب مغرب 6کلومیٹرفاصلے پر موجودایک قصبہ ہے،جس کی آبادی تقریبادس
ہزارہے ،اس میں کل پانچ مساجدہیں جن میں سے تین جامع مساجدہیں (1)جامع مسجدرحمانیہ(2)جامع مسجدشرقی ابھاروالی(3)جامع مسجداُترا بھان اَڈے والی
،ایک پرائمری اسکول ہے ۔
(2) مٹھہ ٹوانہ ایک قدیم قصبہ اورضلع خوشاب کی ایک یونین کونسل ہے، جو خوشاب شہر سے جانب مغرب 24 کلومیٹر فاصلے پرواقع ہے۔مٹھہ ٹوانہ ریلوے اسٹیشن تو میانوالی
روڈپر قائم ہے مگرمٹھہ ٹوانہ کی آبادی ریلوے اسٹیشن سے جانب جنوب تقریبا ساڑھےپانچ
کلومیٹرکے فاصلے پر ہے جسے مٹھہ ٹوانہ روڈ
کے ذریعے آپس میں ملایا گیا ہے ۔اس شہرکی بنیاد1580ء میں رکھی گئی ۔ 1857ء میں اسے ضلع لیہ سے الگ کر کے اس وقت کے ضلع شاہ پور میں شامل کیا گیا ۔ مٹھہ
ٹوانہ میں اس وقت بھی کئی قدیمی اور تاریخی عمارات موجود ہیں ۔اسے’’ تھل
داکِنارہ‘‘ بھی کہاجاتاہے،اس کی آبادی تقریبا28ہزارہے۔ (نگرنگرپنجاب،379)
(3) خوشاب پاکستان کے ضلع پنجاب میں شمال
کی جانب ایک قدیم ترین شہرہے ،اس کا آغاز پندرہ
سو(1500)قبل مسیح
ہوا،یہ دریائے جہلم کے مغربی کنارے سےڈیڑھ
میل دور واقع ہے ، پہلی مرتبہ 1583ءمیں اس کے گرد فصیل بنائی گئی ،جس میں کئی دروازے تھے
،سیلابوں کی وجہ سے یہ فصیل کئی مرتبہ
تباہ ہوئی ، 1866ءمیں اس کی تعمیرجدیدکروائی گئی، اس باردیوار شہر میں چار بڑے
دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ،شمال کی جانب جہلمی گیٹ
اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے،1700ءمیں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا
اور اس کا صدر مقام شاہ پورتھا۔ 1849ء کو اسے شاہ پورسے جداکرکے ضلع لیہ کا حصہ بنا دیا گیا
،1853ءمیں اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا، بعد
ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا،دوبارہ یہ ضلع
شاہ پورکا حصہ بنادیاگیا ،1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا،1940ء میں شاہ پورضلع ختم کرکے
سرگودھا ضلع بنایا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی
تحصیل تھااور 1983ءمیں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا،اس وقت اس کی چارتحصیلیں ہیں (1)تحصیل خوشاب (2)تحصیل قائدآباد (3)تحصیل نوشہرہ (وادی سون سکیسر) اور (4)تحصیل نور پور تھل ۔تحصیل خوشاب اور قائد آباد میدانی ، تحصیل
نوشہرہ پہاڑی اور تحصیل نور پور تھل صحرائی علاقہ ہے۔1998ء میں اس ضلع کی آبادی تقریبا9لاکھ 58ہزارکے قریب تھی۔ اس کا رقبہ 6ہزار5سو11(6511)مربع کلومیٹر ہے۔ خوشاب بزرگوں کی سر زمین ہے ، سب سے زیادہ
مشہور مزارات میں خاندان غوثیہ کے دوبھائیوں سیداحمدشاہ جیلانی اورسیدمحمودشاہ
جیلانی کا درباربادشاہاں اور دربارسخی شاہ سیدمعروف قادری رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں، خوشاب کی سب سے اہم
سوغات ڈھوڈا ہے۔ یہ ایک مٹھائی ہے
جو یہاں نسل در نسل تیار کی جاتی ہے اور اپنے ذائقہ میں بے مثال ہے۔(نگرنگرپنجاب،373تا376)
(4) ملک اعوان ،علوی عربی النسل ہیں ،یہ زراعت پیشہ قبیلہ اوراسلحہ کے استعمال میں
مہارت رکھتاہے ،جسامت کے لحاظ سے تنومند،مضبوط اورچوڑے شانوں والے،درمیانے قدکے
مالک،ملنساراورخوش اخلاق ہوتے ہیں ، اس
خاندان کے جدامجدحضرت عون قطب شاہ علوی ،امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ
عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمدبن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے چشم چراغ تھے
،حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ کی شادی ان سے
ہوئی تھی یہ غوث پاک کے مرید تھے،انہی کے حکم سے ہند میں تبلیغ اسلام کے لیے آئے
،اپنے اعلیٰ مرتنے کی وجہ سے قطب کہلائے ،ان کی وفات بغدادمیں 1160ھ میں ہوئی ۔(اقوام پاکستان کا انسائیکلوپیڈیا ،799تا806)
(5) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے
پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے
ماہر،تاجدارفقہاو محدثین، مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت،
تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین
شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی
مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)
(6) بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے
اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے
اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ
کی پیدائش ووفات یہیں ہوئی ،اس لیے یہ شہرآپ کی نسبت سےعالمگیرشہرت رکھتاہے۔
(7) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں(غالباماہ شعبان
المعظم) 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس
مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم
برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل
ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد
ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)
(8) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/507۔
(9) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،ص51 ۔
(10) تذکرہ خلفائے
اعلیٰ حضرت ،367۔
(11) وادی سون
سکیسرضلع خوشاب کی ایک صحت افزا وادی
ہے،جوسلسلہ کوہ نمک کے پہاڑوںمیں دس
ہزارایکٹررقبے پرمشتمل ہے ، یہاں کے پہاڑ
ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھروں پر مشتمل ہیں ، یہاں کی زراعت کا دارومداربرسات
پر ہے،یہاں مارچ سے اکتوبر تک موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے ،سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے اور درجہ
حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے،اس میں کئی وادیاں اورچھوٹے بڑے گاؤں
اورقصبے ہیں ، اس کے بہترین مقامات میں سے کھبیکی جھیل ، اوچھالی جھیل، مائی والی ڈھیری،جاہلر جھیل ،کھڑومی جھیل ، سوڈھی جے والی، کنہٹی گارڈن اورچشمہ ڈیپ شریف ہیں۔
(12) چِٹہ (chitta)گاؤں وادی سون سکیسرکےمشہوراوچھالی جھیل کے کنارے واقع ہے، چٹہ کے سرسبز کھیت بہت خوب صورت منظر پیش کرتے
ہیں۔
(13) ان کا تذکرہ والدمحترم
کے عنوان سے آگےآرہا ہے۔
(14) حافظ
الحدیث حضرت علامہ مفتی سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ
علیہ عصر حاضرکے عظیم محدث و مفسر، یگانہ روزگار
اورعظیم فقیہ تھے۔آپ نے یکم شوال المکرم 1359ھ / 2نومبر1941ء میں اپنے قصبہ
بھکھی شریف (منڈی بہاؤالدین) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کانام ’’جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ ‘‘
تجویز کیا گیا۔ قبلہ حافظ الحدیث نے
چالیس (40)سال تک یہاں مسند تدریس کو رونق بخشی اور کثیرعلمامشائخ اس
چشمہ علم وعمل سے سیراب ہوئے ۔
(15) ولی کامل
حضرت مولاناصوفی قاضی محمددین قادری رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 1295ھ/1888ء پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹواناضلع خوشاب
پنجاب)پاکستان میں ہوئی اوریہیں یکم
محرم 1360ھ /29جنوری1941 ء کو وصال فرمایا،آپ کاخاندان سات(7) پشتوں سےقادریہ سلسلے سے منسلک ہے ،آپ کے والدگرامی صوفی قاضی
شیرمحمدقادری ولی کامل اورپیر طریقت تھے ، قاضی محمددین قادری ابھی تین چارسال کے
تھے کہ آپ کے والدکا انتقال ہوگیا چنانچہ بچپن سے ہی انہیں اپنے ماموں علامہ
عبدالحکیم قادری کی صحبت ملی ، درس نظامی کی کتب باباجی علامہ
عبدالغفورقادری صاحب سے پڑھیں ،بعدحصول علم دین اپنے گاؤں پنجہ شریف میں جامعہ مسجدرحمانیہ تعمیرکی اوراس میں امامت وخطابت
کیا کرتے تھے ،یہاں آپ حفظ قرآن کا درس بھی شروع فرمایا ،آپ تصوف کی طرف زیادہ
مائل تھے،سلسلہ قادریہ گیلانیہ میں
مریدوخلیفہ تھے ،مرجع العلماوعوام تھے ،پیری مریدی کو ذریعہ آمدن نہ بنایا بلکہ
کھیتی باڑی کرتے تھے،جو فرمایاکرتے تھے ہوجاتاتھا،آپ کی کرامات زبان زدعام ہیں ۔
قبرستان پنجہ شریف کی ایک چاردیواری میں خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ آپ کا مزار
ہے۔ ان کے صحبت یافتہ درویش محمدشفیع قادری صاحب کی قبرپچاس سال کے بعدکھل گئی تو
لوگوں نےدیکھا تو ان کی میت صحیح ودرست تھی۔
(16) یہ تمام
معلومات نواسۂ علامہ عبدالغفورقادری ،حضرت مولانا قاضی حبیب الرحمن صاحب نے دی ہیں جواس وقت باباجی کے خاندان کےنمائند ے،خوش اخلا ق،خوش لباس اورملنسارشخصیت
کے مالک ہیں۔
(17) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ51میں لکھا ہے کہ
آپ کی پیدائش 1872ء میں ہوئی ۔
(18) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(19) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن
صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(20) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/507۔
(21) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ علامہ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی
اورعربی زبانوں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،جانشینِ
اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے
۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا اور مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف
ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)
(22) صدرالشریعہ حضرت مولانا مفتی محمد امجد
علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ 1300 ھ /1883ءکو اترپردیش ہند کے قصبے مدینۃُ العُلَماء گھوسی میں پیدا ہوئے اور2 ذوالقعدۃالحرام 1367ھ /6 ستمبر 1948ء کو وفات پائی۔ جائے پیدائش
میں مزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔،آپ
جیدعالم دین ،استاذالعلما ،فقیہ اسلام
،مریدوخلیفہ اعلیٰ حضرت ،جامع معقول ومنقول اورعبقری شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی کتب
میں بہارشریعت کو شہرت عامہ حاصل ہوئی ،جوعوام وخواص میں مقبول ومحبوب ہے ۔(تذکرۂ صدر الشریعہ،ص5،39 ، 41)،بہارِ شریعت کی
تخریج وتسہیل کی سعادت دعوتِ اسلامی کے ادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینڑ
فیضان مدینہ کراچی کوحاصل ہوئی ،جس نے بہت خوبصورت اندازمیں چھ جلدوں میں شائع کیا
ہے۔
(23) شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا
خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310ھ /1892ءرضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ
فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم دین،
مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ اور
عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور فتاویٰ
مصطفویہ مشہور ہیں۔ 14 محرمُ الحرام 1402ھ/12نومبر1981ء میں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام
احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے پہلو
میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)
(24) جامع معقول ومنقول ،استاذالعلماحضرت علامہ سیدبشیراحمد شاہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت علی گڑھ(یوپی ہند)کے
سادات گھرانے میں ہوئی ،تمام درس نظامی مع دورہ حدیث شریف استاذالہندحضرت علامہ
لطف اللہ علی گڑھی سے پڑھا،زندگی کا ایک
حصہ اپنے استاذگرامی کے مدرسہ فیض عام کانپوراورجامعہ شمس العلوم بدایون میں تدریس
کرنے میں صرف کیا ، جب (غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی
شریف کا آغازہواتو آپ اس میں صدرمدرس
بنائے گئے ،6ذیقعدۃ الحرام 1330ھ مطابق 17،اکتوبر1912ء میں جب علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی سند حدیث دی گئی تو
اس پر علامہ سیدبشیراحمدشاہ صاحب کے ہی دستخط ہیں ، آپ کا وصال علی گڑھ میں ہوا۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ، 72،73،استاذالہند،51)
(25) تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،366،367۔
(26) مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کےمحلہ بہاری پورمیں واقع ہے ،اس
میں دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسے ہوتے تھے،1356ھ/1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی
محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں دارالعلوم مظہراسلام قائم ہوا،محدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری
چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث
مقررہوئے،اس دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی ،مسجدکےحجروں اورصحن میں پڑھائی کا
سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)
(27) صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 235
(28) محدث بہارحضرت مولانا احسان علی مظفرپوری رحمۃ اللہ علیہ
کی ولادت 1316ھ کو فیض پور(ضلع
سیتامڑھی [سابقہ ضلع مظفرپور [بہارہند)میں ہوئی اوررمضان 1402ھ کو وفات پائی ،مزارفیض پورمیں ہے، جہاں ہرسال دس شوال
کوعرس ہوتاہے،آپ نے ابتدائی تعلیم 1326ھ میں مدرسہ نورالہدی
پوکھیراسے حاصل کی،1327ھ میں دارالعلوم منطراسلام میں داخل ہوئے ،بقیہ تمام تعلیم یہیں سے حاصل کرکے فارغ التحصیل
ہوئے اور یہیں مدرس ہوگئے،آپ نے تقریباپچاس سال تدریس فرمائی ،سینکڑوں علمانے آپ
سے استفادہ کیا ،آپ شیخ التفسیراورشیخ الحدیث کے عہدے پر بھی فائزرہے ۔آپ حجۃ
الاسلام علامہ حامدرضاقادری رضوی صاحب کے
مریدوخلیفہ تھے ۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ،سیتامڑھی،1/50،فتاویٰ رضویہ ،7/297)
(29) ان کے حالات نہ مل سکے۔
(30) ان کے حالات نہ مل سکے۔
(31) ان کے حالات نہ مل سکے۔
(32) صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 255۔
(33) ان کے حالات نہ مل سکے ۔
(34) معارف رضا،شمارہ 1413ھ/1992ء،ص235۔نام میں جوعلاقائی نسبت ’’شاہ پوری‘‘ لکھی ہے اس کی وجہ یہ
ہے اس زمانے(1330ھ / 1912ء) میں موجود ہ ضلع خوشاب ، ضلع شاہ
پورکی تحصیل تھی۔مزیددیکھئے حاشیہ :3
(35) ماہر رضویات حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم جمادی الاخریٰ 1349ھ / 24،اکتوبر1930ء کو دہلی ہندمیں ہوئی اور23ربیع الاخر1429ھ /29،اپریل 2008ء کو کراچی میں وصال فرمایا ،تدفین احاطہ ِ خانوادۂ مجددیہ
ماڈل کالونی قبرستان،ملیرکراچی میں ہوئی ۔آپ عالم دین،سلسلہ نقشبندیہ مظہریہ کے
مرشدکریم،جدیدوقدیم علوم سے مالامال،عالم باعمل ،مصنف کتب کثیرہ اوراکابرین اہلسنت
سے تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات پر آپ کی 40سے زائدکتب ورسائل اورمقالات یادگارہیں ،امام ربانی حضرت
مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کےحالات
وخدمت اورمقامات پر مشتمل مقالات کاعظیم انسائیکلوپیڈیا (12جلدیں)آپ کی زیرسرپرستی شائع ہوا۔ آپ نہایت ملنسار، اعلی
اخلاق کے مالک اور محبت و شفقت فرمانے والے بزرگ تھے۔(پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد حیات ،علمی اورادبی خدمات،77تا108)راقم زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ انکی خدمت میں حاضرا،بہت شفقت فرمائی ،حوصلہ
افزائی فرمائی اوردعاؤں سے نوازا۔
(36) رفیق ملت حضرت ِ مولانا حافظ محمدرفیق رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1353ھ/ 1935ءکو بلی ماران دہلی ہند کے دینی گھرانے میں ہوئی اور27جمادی الاولی1425ھ/16،جولائی2004ء کو سکھرمیں انتقال فرمایا ،تدفین مدرسہ انوارمصطفی سکھرکے
ایک گوشے میں ہوئی،آپ حافظ قرآن،عالم باعمل ،علامہ عبدالغفوررضوی اورمحدث اعظم
پاکستان علامہ سرداراحمدرضوی رحمۃ اللہ علیہما کے شاگرد،(ثانی الذکرسے مرید بھی ہوئے )،استاذالحفاظ،جامعہ انوارمصطفی سکھرسمیت کئی
اداروں کے بانی اورسرپرست تھے ،خدمت عوام
بذریعہ تعویذات میں بھی مشہورتھے۔آپ کی تمام اولاددینی تعلیم سے آراستہ ہوئی۔آپ کو
کئی مشائخ مثلا پیرایرانی،پیرصاحب دیوال،مولانا محمدقاسم مشوری وغیرہ سے خلافت
حاصل تھی۔(انوارعلمائےاہل سنت سندھ،936تا939)
(37) حضرت
مولانا مفتی محمد عارف سعیدی صاحب کی
پیدائش ربیع الاول 1384ھ مطابق 10،اگست1964ء کو سکھرمیں ہوئی،ابتدائی اسلامی
تعلیم والدصاحب رفیق ملت حضرت ِ مولانا حافظ محمدرفیق رضوی صاحب حاصل کی
پھر جامعہ غوثیہ
رضویہ سکھرمیں داخلہ لیا ،1974ءمیں والدصاحب
نے جامعہ انوارمصطفی بنایا تو اس میں آگئے وہیں کتب درسِ نظامیہ علامہ مولانا محمد
بخش نظامی صاحب اور مفتی محمدابراہیم قادری صاحب سے پڑھیں ،1982
ء کو جامعہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان میں
غزالی دوراں علامہ سیداحمدسعیدکاظمی شاہ صاحب سے دورہ حدیث شریف پڑھا ،آپ سے ہی
بیعت کا شرف بھی پایا ،بعدحصول تعلیم
جامعہ انوارمصطفی میں کتب درس نظامی اوردورحدیث شریف پڑھانے کی سعادت پائی ،امامت
وخطابت کا سلسلہ بھی رہا ،ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ۔آپ کو اپنے والدگرامی سمیت کئی مشائخ سے خلافت
حاصل ہے۔(بذریعہ واٹس ایپ مفتی صاحب سے معلومات لی گئیں۔)
(38) شیخ الحدیث والتفسیر،مفتی اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمدابراہیم قادری صاحب کی پیدائش 12جولائی 1954ء/11ذیقعدہ1373ھ کو سوئی ضلع ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں ہوئی ،آپ نے علم
دین،سوئی ،سکھر،بندیال شریف،واںبھچراں وغیرہ سے حاصل کیا اوردورہ حدیث دارالعلوم
امجدیہ کراچی سے کرنےکی سعادت پائی ،آپ برہان ملت ،خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ برہان الحق قادری جبل پوری رحمۃ اللہ
علیہ سےبیعت ہوئے اورخلیفہ مفتی اعظم ہند مفتی محمدحسین قادری
سکھروی رحمۃ اللہ علیہ اورمعمارملت حضرت منان رضامنانی میاں قادری صاحب سے خلافت
پائی ،آپ نے کئی مدارس میں تدریس فرمائی ،کئی جیدعلماآپ کے شاگردہیں، آجکل جامعہ
غوثیہ رضویہ کے شیخ الحدیث والتفسیراورمفتی ہیں ،آپ کثیرالفتاویٰ ہیں ،آپ کامجموعۂ فتاویٰ زیرطباعت ہے جو چارسےپانچ
جلدوں پر مشتمل ہوگا،آپ 2009ءتا2012ءتک اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کےرکن بھی رہے۔ (بذریعہ فون مفتی صاحب سے معلومات لی گئیں۔)
(39) ادارہ تحقیقات امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی کومولانا سیدمحمدریاست علی قادری
نوری صاحب نے 1400ھ/1980ء میں قائم فرمایا ،جس کا مقصدتعلیماتِ رضا کا فروغ ہے،1401ھ تا1440ھ تک اس کی40سالہ کارکردگی کا جائزہ لیاجائے توزبان پرادارےکےاراکین
ومعاونین کےحق میں دعاکے الفاظ جاری ہوجاتےہیں :٭1440ھ تک48،امام احمدرضا کانفرنسوں کا انعقادکروایاجاچکا ہے۔٭ سالنامہ معارفِ رضا کی 19جلدیں اور ماہنامہ معارف رضا کے 220 شمارے شائع
ہوچکے ہیں، ٭سالانہ مجلہ امام احمد رضاکے 32شماروں کی اشاعت ہوچکی ہے۔ ٭ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی
35تصانیف، پی ایچ ڈی کے 21مقالات ،مسعود
ملت پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمدصاحب کی 21کتب،صاحبزادہ علامہ وجاہت رسول قادری صاحب کی 21تصانیف اورپروفیسر
ڈاکٹرمجید اللہ قادری صاحب کے35مقالات شائع ہوچکے ہیں یوں شائع شدہ کتب و رسائل کی تعداد164 ہے۔٭دیگرکاموں میں پی
ایچ ڈی اور ایم فل مقالہ جات لکھوانا ،اعلیٰ حضرت پر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی
کے لیے گولڈ میڈل اور سلور میڈل کا اجراء
کرنا ،تعلیمات رضا کو عام کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کااستعمال کرنا اور اخبارات و جرائد کے ذریعے
فروغ تعلیمات امام احمد رضا کو عام
کرنامزیدبراں ہے ۔ (مزیدتفصیل کےلیے دیکھئے:کتاب
’’ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کی چالیس سالہ خدمات کا جائزہ۔‘‘)
(40) تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،366،367،معارف
رضا،شمارہ 1413/1992،ص235۔
(41) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(42) ان کے
مختصرحالات حاشیہ 15میں دیکھئے۔
(43) حضرت مولانا
قاضی عبدالرحمن قادری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1348ھ/ 1930ء کو پنجہ شریف
میں ہوئی اوریہیں4صفر1434ھ/ 18دسمبر2012ء میں وفات ہوئی ۔تدفین قبرستان پنجہ شریف میں
خاندانی چاردیواری کے اندرہوئی ۔ آپ
نےاپنےوالدقاضی محمددین قادری صاحب سے ناظرہ قرآن مجیدپڑھا ،ابھی آپ
تقریا10 سال کے تھے کہ والدگرامی کا انتقال ہوگیا ،اس کے بعد انہیں بابا جی علامہ
عبدالغفورقادری صاحب کی صحبت حاصل ہوئی ،ان سے علم دین حاصل کیا ،فراغت کے بعدآپ نے
جامع مسجدرحمانیہ کےامام وخطیب طورپر خدمت دین کا آغازکیا، اس میں قائم حفظ القرآن
کے مدرسے میں تدریس کی اور زمدگی بھریہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔
(44) قاضی حبیب
الرحمن صاحب کی پیدائش1370ھ/ 1950 ء کوپنجہ شریف میں ہوئی ،آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کیا ،مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ،فقہ اورتفسیرکی
کتب زیرمطالعہ رہتی ہیں، سات سالہ جدہ میں ملازمت بھی کی ،کچھ عرصہ بزنس اورزمین
داری میں مصروف رہے ۔آپ کے دوصاحبزادے ہیں بڑے بیٹے قاضی ضیاء الرحمن اسلام آباد میں ملازمت اورچھوٹے صاحبزادے قاضی
تنزیل الرحمن بزنس کرتے ہیں ۔اللہ پاک ان
کے گھرانے کو سلامت رکھے۔
(45) تھل ریتلاعلاقہ ہے ،یہ دریائے جہلم اوردریائے سندھ
کے درمیان واقع ہےاس کی شروعات ضلع خوشاب کے صدرمقام جوہرآباد سے ہوتی ہیں اور قائد آباد سے نیچے پھر ضلع
میانوالی میں ہرنولی کے قریب سے شروع ہو جاتا ہے۔ خوشاب سے میانوالی کو ملانے والی
ریلوے لائن سے جنوب کی طرف سارا علاقہ تھل کے صحرا پرمشتمل ہے۔
(46) ساہیوال ،ضلع
سرگودھا کی تحصیل اورقصبہ ہے،یہ دریائے جہلم کے بائیں کنارے پرواقع ہے،اسے سولہویں
صدی میں بلوچ قبیلے نے قائم کیاجائے ،اس کی موجودہ آبادی
تقریبا40ہزارہے،مشہوردرگاہ آستانہ عالیہ چشتیہ سیال شریف اسی کے قریب واقع ہے ۔(نگرنگرپنجاب،367)
(47) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(48) فیروزپورمشرقی
پنجاب(ہند)کا ایک شہرہے جوقصورشہرسےتقریبا27کلومیٹرفاصلے
پر ہے ، یہ دریائے ستلج کے کنارے واقع ہے
،اسے 1351ء میں تغلق پادشاہ سلطان فیروزشاہ تغلق نے
آبادکیا، اس میں فوج کا اڈا(Cantonment)بھی ہے اس لیے
یہ فیروز پورچھاؤنی کے نام سے مشہورہے۔
(49) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ51میں لکھا ہے کہ
آپ بریلی شریف میں جانے سے پہلےفوج میں بطورخطیب بھرتی ہوئے۔
(50) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(51) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/509
(52) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/541
(53) عالم باعمل حضرت مولانا مفتی محمدامین قادری عطاری رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 22رجب1391ھ /7نومبر1971ء کو کھارادراولڈ سٹی کراچی کے ایک میمن گھرانے
میں ہوئی ،بچپن سےہی مرکزی انجمن اشاعت اسلام اورپھردعوت اسلامی میں شامل ہوئے،1985ء میں امیراہلسنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب کے ذریعے سلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے ،1998ءمیں دارالعلوم
امجدیہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوکرفتاویٰ نویسی میں مصروف ہوگئے،1999ء میں دارالافتاء دارالعلوم غوثیہ نزدپرانی
سبزی منڈی کراچی میں بطورمفتی ومدرس درس
نظامی خدمات سرانجام دینےلگے،آپ کااکثروقت فتویٰ نویسی ،تدریس درس نظامی ،واعظ
ونصیحت اورتصنیف وتالیف میں صرف ہوتاتھا،ردقادنیت پر علمائےاہل سنت کی کتب ورسائل
کو ایک مجموعے کی صورت میں جدیدکمپوزنگ اورنئے اندازطباعت کے ساتھ شائع کرنا آپ کا
یادگارکارنامہ ہے ۔صرف 36سال کی عمرمیں
آپ کا وصال 18ذیقعدہ1426ھ /20دسمبر2005ءکو کراچی میں ہوا۔(عقیدہ ختم
النبوۃ،جلد1،تعارف مؤلف،انوارعلمائےاہل سنت سندھ،116)
(54) کتاب ’’عقیدہ ختم
النبوۃ ‘‘سواصدی پر محیط علمائے اہل سنت پاک وہند کی ان کتب ورسائل کا مجموعہ ہے ،جو
ردقادیانیت کے موضوع پر ہیں ، عالم باعمل حضرت مولانا مفتی محمدامین قادری عطاری رحمۃ
اللہ علیہ نے ان کتب ورسائل کو جدیدطریقہ اشاعت کے مطابق شائع کرنےکا
بیڑااٹھایااورجنوری 2005ء میں اس کی
پہلی جلدشائع ہوئی ،اب تک اس مجموعہ کی 15جلدیں شائع
ہوچکی ہیں ،مزید5جلدوں کی اشاعت باقی ہے ،فی الحال بوجوہ مزیداشاعت کا سلسلہ رکا ہواہے ۔(عقیدہ ختم النبوۃ،1/9، انوارعلمائےاہل سنت سندھ،117)
(55) حافظ
الحدیث حضرت علامہ مفتی سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ
علیہ عصر حاضرکے عظیم محدث و مفسر، یگانہ روزگار
اورعظیم فقیہ تھے۔آپ نے یکم شوال المکرم 1359ھ / 2نومبر1941ء میں اپنے قصبہ
بھکھی شریف (ضلع منڈی بہاؤالدین،پنجاب) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس
کانام ’’جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ ‘‘
تجویز کیا گیا۔ قبلہ حافظ الحدیث نےیہاں
چالیس سال تک یہاں تدریس فرمائی ۔
(56) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(57) مجاہدملت حضرت
مولانا محمدعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 22ذیقعد1333ھ/یکم اکتوبر1915ء کو موضع اٹک
پنیالہ(تحصیل عیسیٰ خیل)ضلع میانوالی میں ہوئی،7صفر1422ھ/یکم مئی2001ء کو میانوالی
میں انتقال فرمایا،مزار’’مجاہدملت کمپلیکس‘‘ روکھڑی موڑمیانوالی میں ہے ۔آپ عالم دین،پرچوش مبلغ ،باہمت
رہبرورہنما،اخبارخلافت پاکستان کے مدیر ،مجلس اصلاح قوم ،دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس
فیڈریشن،آل پاکستان عوامی تحریک کے بانی،تحریک پاکستان کے متحرک کارکن،تحریک نفاذِ
شریعت،تحریک ختم نبوت،تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ
لیا، قومی اسمبلی اورسینٹ کے رکن بھی رہے۔آپ کا شماراکابرین اہل سنت میں
ہوتاہے ۔آپ آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر میں مریداورقطب مدینہ حضرت مولانا
ضیاء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے اٹھارہ سے زیادہ مقالات
وکتب ورسائل تحریرفرمائے۔(تحریک پاکستان میں
علماء ومشائخ کا کردار،427)
(58) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،ص 52۔البریلویۃ کا تحقیقی اورتنقیدی
جائزہ،294،سیرت صدرالشریعہ،72۔
(59) محدثِ اعظم
پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1323ھ/1905 میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ
مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ/28دسمبر1982ء کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد پنجاب، پاکستان میں ہے۔آپ جامعہ
منظراسلام بریلی شریف کے فارغ
التحصیل،جامعہ مظہراسلام بریلی شریف کے
پہلے مہتمم، استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و
جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے ہیں۔(حیاتِ محدثِ اعظم،
ص334،27)
(60) حافظُ الحدیث
حضرت مولانا پیر سیّد محمد جلالُ الدّین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1333ھ/1915ء کو بھکھی
شریف ( ضلع منڈی بہاؤ الدّین،پنجاب)
پاکستان میں ہوئی اور یہیں 5ربیعُ الاوّل1406 ھ /18نومبر1985ءکو وصال فرمایا۔آپ حافظ ِ قراٰن ،فاضل جامعہ
مظہرالاسلام بریلی شریف،خلیفہ مفتی اعظم ہند، تلمیذ و خلیفہ محدث اعظم پاکستان،
مرید و خلیفہ پیر سیّد نور الحسن بخاری (کیلیانوالہ شریف)،بانی جامعہ محمدیہ نوریہ
رضویہ بھکھی شریف اور استاذُالعلماء ہیں۔(حیات محدث اعظم، ص357،نوائے وقت ،25نومبر2014ء)
(61) استاذالاستاذ،شیخ
الحدیث حضرت علامہ محمدنوازنقشبندی کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1920ء /1338ء کو موضع بلو(نزدکولوتارڑضلع حافظ آباد،پنجاب ) میں ہوئی اوروصال 27شعبان/13،اکتوبر2004ء کو 84سال کی عمرمیں گوجرانوالہ میں ہوا،تدفین جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ کے ایک
گوشے میں ہوئی ، آپ محدث اعظم ،صدرالشریعہ ،مفتی اعظم ہندکے شاگرداورسراج السالکین
حضرت سیدنورالحسن بخاری کیلانی کے مریدتھے ، آپ جیدعالم دین ،جامع معقول ومنقول
،شیخ الجامعہ بھکھی شریف ،زینت
مسندتدریس،بانی جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ اور مجاز طریقت تھے۔(تذکرہ زینت مسندتدریس،99،133،137،182)
(62) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن
صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(63) تجلیات خلفاء
اعلیٰ حضرت ،639 ۔
(64) استاذالحفاظ
،حضرت مولاناحافظ حاجی غوث محمداعوان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1322ھ / 1904ء کو پنجہ شریف کی ایک زمینداراعوان
گھرانے میں ہوئی اوریہیں12ذیقعدہ 1386ھ / 22فروری 1967ء کو وفات پائی ،مقامی قبرستان میں دفن
کیاگیا۔آپ نے قاضی محمددین قادری صاحب سےحفظ قرآن کی سعادت پائی ،باباجی علامہ
عبدالغفورقادری صاحب سےعلمی استفادہ کیا ،پھر حضرت باواجی سلوئی حافظ غلام محمد گولڑوی سے دینی کتب پڑھیں ،قریبی
گاؤں کھجولا( تحصیل چوآسیدن شاہ ضلع
چکوال)کے امام و خطیب مقررہوئے ،یہاں حفظ قرآن کا درس بنایااورساری زندگی تعلیم
وتعلم میں صرف فرمائی ،باواجی کی وفات کے بعد دہلی اورہند کے دیگرشہروں میں تحصیل
علم دین بھی کیا ، آپ کامیاب
مناظراورپختہ عالم دین تھے ،آپ کےشاگردکثیرہیں ،آپ قبلہ پیرمہرعلی شاہ صاحب کے
مریدتھے ،راقم نے یہ تمام معلومات آپ کے
اکلوتےبیٹے حافظ مقبول احمد اعوان صاحب(حال
مقیم راولپنڈی) سے بذریعہ فون حاصل کیں ،اللہ پاک انہیں جزاعطافرمائے۔
(65) کھجولاچوآسیدن
شاہ کا ایک مضافتی گاؤں ہے جو اس سےاڑھائی کلومیٹرکے فاصلے پرہے۔
(66) یہ تفصیلات مولانا حافظ دوست محمد اعوان صاحب کے بیٹے حافظ مقبول احمداعوان صاحب نےبذریعہ فون بتائیں۔
(67) ان مختصرحالات
حاشیہ نمبر15میں درج ہیں ۔
(68) استاذالحفاظ
مردکامل،حضرت باواجی سلوئی حافظ غلام محمد
گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع عینو تحصیل و ضلع خوشاب کے حافظ میاں
محمداعوان گولڑوی کے گھر1305ھ/ 1888ء میں ہوئی اور
6محرم 1394ھ /9فروری 1974ء کو چواسیدن شاہ،ضلع چکوال میں وصال فرمایا ،تدفین رحمانیہ مسجد چواسیدن شاہ
میں ہوئی ،آپ جیدحافظ قرآن ،حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،مریدوخلیفہ قبلہ عالم
پیرمہرعلی شاہ،تلمیذمولانا عبدالغفورقادری تھے،آپ
نے اولاچک 70سرگودھا اورپھر سلوئی شریف میں حفظ القرآن کا مدرسہ بنایا ،زندگی بھراس مدرسے
میں تدریس فرمائی ،علاقے میں رفاعی کاموں میں بھی فعال کرداررہا مثلا گاؤں میں
ڈسپنسری،ڈاکخانہ اوراسکول آپ کی کوششوں سے
بنایاگیا،سلوئی میں آپ کی خدمات 47سال پرمحیط ہیں
،کثیرعلماومشائخ آپ کے تلامذہ ہیں ۔(مردکامل،25،57،58،31،33،تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال، 69)ان کاتذکرہ
راقم نے بچپن سےہی اپنے والدگرامی الحاج محمدصادق چشتی مرحوم سےسناتھا،کیونکہ میرے
والد گرامی کے دوست اورپیربھائی حضرت مولانا حافظ محمدحسن چشتی صاحب (ساکن ڈھیری
،تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم ) حضرت باواجی کے شاگردتھے ۔
(69) قدوۃ المشائخ
حضرت باباجی سیدطاہرحسین شاہ نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع الگوں
(ضلع فیروز پور،ہند)میں1321ھ/ 1904ء کو
سادات گھرانے میں ہوئی اور24جمادی الاخریٰ1425ھ/ 11،اگست 2004ء کو جوہرآبادضلع خوشاب میں وصال فرمایا،مزارشریف
یہیں ہے۔آپ شیرربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کےمرید تھے ،آپ کے ہی مدرسے میں علم دین حاصل
کیا، آپ نے تین سال پنجہ شریف میں رہ کر حفظ قرآن اورابتدائی فارسی وعربی کتب
پڑھیں ،کئی شہروں اورملکوں کی سیاحت فرمائی ،حضرت عبدالرزاق چشتی قادری آستانہ
بھوپال ہندنے خلافت عطافرمائی ، مستقل قیام ذوالحجہ 1411ھ/ جولائی 1991ء میں الاعوان ٹاؤن جوہرآبادمیں فرمایا،یہیں
مدرسہ ومسجدشیرربانی اورآستانہ کی
بنیادرکھی ،آپ ادارہ معین الاسلام بیربل شریف سرگودھا کے سرپرست بھی تھے ۔(تذکرہ فخرالسادات،25،29،30،جہاں رضا فروری مارچ2016ء،ص52)
(70) ان مختصرحالات
حاشیہ نمبر36میں درج ہیں ۔
(71) عالم باعمل حضرت مولانا حاجی غلام محمداعوان قادری رحمۃ اللہ
علیہ کی پیدائش1342ھ/ 1924ء کوموضع بِٹہ (ضلع خوشاب)کے ایک اعوان زمین دارگھرانے میں
ہوئی ،پرائمری کلاس تک پڑھنےکے بعد کاشت کاری شروع کردی،خوش قسمتی سے انہیں چودہ
سال کی عمرمیں حضرت پیر سخی سلطان اعظم قادری
سلطانی صاحب (آستانہ عالیہ قادریہ
سلطانیہ موسیٰ والی شریف ،نزدپپلاں ضلع میانوالی )سے بیعت کا شرف حاصل ہوا،یہ
نمازروزہ اورشریعت کے پابندہوگئے ،اس کے بعدجب ان کے بڑے بیٹے زمین سنبھالنے کے قابل ہوئے تو انھوں
نے تحصیل علم کے لیے سفرشروع فرمایا ، اسلامی کتب پڑھنےکے لیے باباجی علامہ عبدالغفورقادری صاحب کے پاس پنجہ
شریف میں تین سال رہے ،ان کی وفات کےبعدچھپڑشریف (وادی سون سکیسر)جاکر تعلیم مکمل
کی ، اس کےبعداپنےگاؤں میں آگئے ،مکی مسجدبنائی اوراسےآبادکیا،زمین داری کاسلسلہ بھی رہا ،99سال کی عمرمیں20جمادی الاولیٰ1441ھ/ 16جنوری 2020ء بروزجمعرات فوت ہوئے،تدفین بِٹہ قبرستان میں ہوئی ۔ ان کےدو بیٹے مولانا
حافظ محمدرمضان چشتی صاحب پاک آرمی اورمولانا محمدسلیم چشتی صاحب پاک نیوی میں
خطیب اعلیٰ ہیں یہ تمام معلومات ثانی
الذکرنےعطافرمائیں ،جس پر راقم ان کا شکرگزارہے۔
(72) ان کےمختصرحالات حاشیہ نمبر64میں درج ہیں ۔
(73) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/507، تذکرہ خلفائے اعلی
حضرت ،366۔
(74) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ 52میں لکھا ہے کہ
آپ کا وصال وسط رجب 1372ھ کو ہواجبکہ لوح
مزارپر مہینے کی صراحت تو نہیں البتہ سن 1371لکھا ہواہے۔
(75) ان اشعارکا ترجمہ محشی کتب درس نظامیہ ،
استاذالعلماعلامہ عبدالواحدعطاری مدنی
صاحب (المدینۃ العلمیہ ،اسلامک ریسرچ سینڑ
فیضان مدینہ کراچی)نے فرمایا ،اس پر راقم ان کا شکرگذارہے ۔