عمارتِ نبوت کی آخری اینٹ

تحریر: مفتی محمد قاسم عطاری

ارشادباری تعالیٰ ہے: : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمہ: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔(پ22،الاحزاب:40)

تفسیر یہ آیتِ مبارکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی (Last Prophet) ہونے پر نَصِّ قطعی ہے اور اس کا معنیٰ پوری طرح واضح ہے جس میں کسی تاویل اور تخصیص کی ذرّہ بھر بھی گُنجائش نہیں۔ ختمِ نبوت سے متعلِّق تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت و رِسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ یا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد قیامت قائم ہونے تک کسی کو نَبُوَّت ملنا مُحال ہے۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر، مرتد اور ملعون ہے۔

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بیسیوں آیات ایسی ہیں جو مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تائید و تَثْوِیب کرتی ہیں جیسے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِسالت کے پہلو سے دیکھا جائے تو (1)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔(پ9، الاعراف:158) (2)تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بنایا گیا۔(پ22، سبا:28) (3)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سارے جہانوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے۔(پ18، الفرقان:01) (4)تمام لوگوں کو کفر کی ظلمت سے ایمان کے نور کی طرف نکالنے والے۔ (پ13، ابراہیم:01) (5)اور ہر جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔(پ17، الانبیاء:107) (6)اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام سے یہ عہد لیا کہ جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوَری ہو تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔(پ3،اٰل عمرٰن:81) ان کے بعد کسی نبی پر ایمان و مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا۔ (7)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے رسولوں کی تشریف آوَری کے بارے میں بتایا گیا۔(پ4،اٰل عمرٰن: 144، پ17، الانبیاء:41، پ7، الانعام:34) لیکن آپ کے بعد کسی بھی رسول کے آنے کی خبر نہیں دی گئی۔ (8)حضرت عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے تورات کی تصدیق کی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی بِشارت دی۔(پ28،الصف:06) جبکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی بشارت نہیں دی۔

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے دین کے پہلو سے دیکھا جائے تو (9)اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دین کامل کردیا۔(پ6، المآئدہ:03) کہ یہ پچھلے دینوں کی طرح مَنْسُوخ نہ ہو گا بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ (10)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے۔ (پ28،الصف:09)

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی کتاب قراٰنِ مجید کے پہلو سے دیکھا جائے تو (11)اللہ تعالیٰ نے کُتُبِ اِلٰہیّہ پر ایمان سے متعلق قراٰن اور سابقہ کتابوں کا ذکر فرمایا۔ (پ1، البقرۃ:04،پ5، النسآء: 136، 162) لیکن قراٰن کے بعد کسی اور آسمانی کتاب کاذِکر نہیں کیا۔ (12)قراٰن پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔(پ26، الاحقاف: 29) لیکن اس نے اپنے بعد کسی کتاب کی تصدیق نہیں کی۔ (13)قراٰن تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔(پ30، التکویر:26) (14)قراٰن پوری انسانیت کے لئے ذریعۂ ہدایت ہے۔(پ 1، البقرۃ:185)

آخر میں ایک حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میری اور تمام انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمده اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکّر لگا کر کہنے لگے :ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ ( کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے) تو میں (اس عمارت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں۔(مسلم،ص965،حدیث:5959)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم الحرام 1439) ، صفحہ5، مضمون:تفسیر قراٰنِ کریم

خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ کا معنیٰ تفاسیر کی روشنی میں

تحریر: ابوالحسن راشد  علی عطاری مدنی

عقیدہ ختمِ نُبُوَّت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ یہ ایک حساس ترين عقیدہ ہے۔ ختم نبوت کا انکار قراٰن کا انکار ہے۔ختمِ نبوت کا انکار صحابۂ کرام کے اجماع کا انکار ہے ۔ختمِ نبوت کا انکار ساری امتِ محمدیہ کے علما و فقہا و اَسلاف کے اجماع کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عظیم ہے:

: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)

تَرجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔( پ22، الاحزاب:40)

ختمِ نُبُوَّت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ ” خَاتَمُ النَّبِیِّیْن “ کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاوِیلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قراٰن، احادیث، فرامین و اجماعِ صحابہ اور مفسرین، محدثین، محققین، متکلمین اور ساری اُمّتِ محمّدیّہ کے خلاف ہیں۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے،

چنانچہ مفسّر قران:

ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات: 310ھ)، ابوالحسن علی بن محمد بغدادی ماوردی (وفات:450ھ)، ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری شافعی (وفات: 468ھ)، ابوالمظفر منصور بن محمد المروزی سمعانی شافعی (وفات: 489ھ)، محیُّ السُّنّۃ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی (وفات: 510ھ)، ابو محمد عبدُالحق بن غالب اندلسی محاربی (وفات: 542ھ)، سلطانُ العلماء ابومحمد عز الدين عبدالعزيز بن عبد السلام سلمی دمشقی (وفات: 660ھ)، ناصرُ الدّين ابوسعيد عبدُالله بن عمر شیرازی بیضاوی (وفات: 685ھ)، ابوالبركات عبدُالله بن احمد نسفی (وفات: 710ھ)، ابوالقاسم محمد بن احمد بن محمد الکلبی غرناطی (وفات: 741ھ)، ابوعبدُالله محمد بن محمد بن عرفہ ورغمی مالکی (وفات: 803ھ)، جلال الدّين محمد بن احمد محلی (وفات: 864ھ) اور ابوالسعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفىٰ (وفات:982ھ) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین سمیت دیگر کثیر مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تصریح و تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند تفاسیر کے اِقتِباسات ملاحظہ کیجئے:

۞امامِ اہلِ سنّت، ابو منصور ماتریدی (وفات: 333ھ) اپنی تفسیر ”تاویلات اہل السنۃ“ میں لکھتے ہیں:جو کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تو اس سے کوئی حجت و دلیل طلب نہیں کی جائے گی بلکہ اسے جھٹلایا جائے گا کیونکہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما چکے ہیں:لَا نَبِیَّ بَعْدِي یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ( تاویلات اہل السنۃ،8/396، تحت الآیۃ:40)

۞صاحبِ زادُ المسیر ابوالفرج عبدُالرّحمٰن بن علی جوزی (وفات: 597ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنی آخِرُالنّبیین ہیں، حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمّدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے سلسلۂ نُبُوَّت ختم نہ فرماتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیٹا حیات رہتا جو ان کے بعد نبی ہوتا۔ ( زاد المسیر،6/393، تحت الآیۃ: 40)

۞الجامع لاحكامِ القراٰن میں امام ابوعبدُالله محمد بن احمد قُرطبی (وفات: 671ھ) لکھتے ہیں:” خَاتَمُ النَّبِیِّیْنکے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علمائے اُمّت کے نزدیک مکمل طور پر عُموم(یعنی ظاہری معنیٰ) پر ہیں جو بطورِ نَصِ قطعی تقاضا کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں۔اور خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے ختم نبوت کے خلاف دوسرے معنیٰ نکالنے اور تاویلیں کرنے والوں کا رَد کرتے ہوئے امام قُرطبی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اِلْحاد یعنی بے دینی ہے اور ختمِ نُبُوَّت کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تشویش میں ڈالنے کی خبیث حرکت ہے، پس ان سے بچو اور بچو اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے۔ ( تفسیر قرطبی،جز14، 7/144، تحت الآیۃ:40)

۞تفسیر لُبابُ التاویل میں حضرت علاءُالدّین علی بن محمد خازِن (وفات: 741ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنی ہیں کہ اللہ کریم نے ان پر سلسلۂ نُبُوَّت ختم کردیا پس ان کے بعد کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور نبی ہے۔ حضرت سیّدُنا عبدُالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کیونکہ اللہ کریم جانتا تھا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اسی لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی ایسی مذکر اولاد عطا نہ فرمائی جو جوانی کی عمر کو پہنچی ہو اور رہا حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا تشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیا میں تشریف لاچکے اور جب آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے اور انہی کے قِبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھیں گے گویاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت سے بھی ہوں گے۔ ( تفسیر خازن،3/503، تحت الآیۃ:40)

۞مشہور تفسیر اللباب فی علوم الكتاب میں ابوحفص سراج الدين عمر بن علی حنبلی دمشقی (وفات: 775ھ) حضرت سیدنا عبدُالله بن عباس کا قول ”اللہ کریم کا فیصلہ تھا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہ ہو اسی لئے ان کی کوئی مذکر اولاد سن رجولیت(یعنی جوان آدمی کی عمر) کو نہ پہنچی“ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: کہا گیا ہے کہ جن کے بعد کوئی نبی نہیں، وہ اپنی اُمّت پر بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہاں ہوں گے گویا کہ وہ اُمّت کے لئے اس والد کی طرح ہوں گے جس کی اور کوئی اولاد نہ ہو۔( اللباب فی علوم الکتاب،15/558، تحت الآیۃ: 40)

اس تفسیر کے مطابق دیکھا جائے تو اللہ ربُّ العزّت کے بعد اس اُمّت پر سب سے زیادہ شفیق و مہربان جنابِ محمدِ مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں، جس پر آیتِ قراٰنی عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)تَرجَمۂ کنزُ الایمان: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ ( پ11، التوبۃ:128) سمیت کثیر آیات واضح دلیل ہیں۔

۞تفسیر نظم الدرر میں حضرت ابراہیم بن عمر بقاعی (وفات: 885ھ) لکھتے ہیں: کیونکہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت اور نبوت سارے جہان کے لئے عام ہے اور یہ اعجازِ قراٰنی بھی ہے (کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی سارے جہاں کے لئےہدایت ہے)، پس اب کسی نبی و رسول کے بھیجنے کی حاجت نہیں، لہٰذا اب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی بھی پیدا نہ ہوگا، اسی بات کا تقاضا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کوئی شہزادہ سنِ بلوغت کو نہ پہنچا اور اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی نبی کا آنا علمِ الٰہی میں طے ہوتا تو محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِکرام و عزت کے لئے ضرور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نسل ہی سے ہوتا کیونکہ آپ سب نبیوں سے اعلیٰ رتبے اور شرف والے ہیں لیکن اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اکرام اور اعزازکے لئے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا۔ (نظم الدرر،6/112،تحت الآیۃ:40)

۞تفسیر الفواتح الالٰہیہ میں شیخ علوان نعمتُ الله بن محمود (وفات: 920ھ) فرماتے ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کی جانب سے اللہ کے بندوں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے، اللہ کریم نے تمہیں راہِ رُشد و ہدایت دکھانے کے لئے تمہاری طرف اُمَمِ سابقہ کی طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھیجا، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ یہ خَاتَمُ النَّبِیِّیْن اور ختم المرسلین ہیں کیونکہ ان کے تشریف لانے کے بعد دائرہ نبوت مکمل ہوگیا اور پیغامِ رسالت تمام ہوگیا جیسا کہ خود رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں فرمایا ہے:اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ  تَرجَمۂ کنزُ الایمان:آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا۔ ( الفواتح الالٰہیہ،2/158، تحت الآیۃ:40)

۞صاحبِ تفسیرِ فتح الرحمن مجير الدين بن محمد علیمی مقدسی حنبلی (وفات: 927ھ) فرماتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی اور رہا عیسیٰ علیہ السَّلام کاتشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیامیں تشریف لاچکے۔ ( فتح الرحمٰن،5/370، تحت الآیۃ:40)

اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نُبُوّت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تحریر: راشد نور عطّاری مدنی

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دین محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبریٰ،2/329)

اِس عقیدۂ ختمِ نبوت کو قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰ تَرجَمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیںاور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ (پ22،الاحزاب:40)

خودتاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو بیان کیا ہے :

ختمِ رسالت کے آٹھ حروف کی نسبت سے

8 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ بےشک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم،ص553،حدیث:3376)

(2)مجھے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی: (۱)مجھے جامع کلمات دئیے گئے (۲)رُعْب طاری کرکے میری مدد کی گئی (۳)میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا (۴)میرے لئے ساری زمین پاک اور نَماز کی جگہ بنادی گئی (۵)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا (۶)مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (مسلم، ص210، حدیث:1167)

(3)اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ بےشک رِسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔( ترمذی،4/121،حدیث:2279)

(4)اَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابنِ ماجہ، 4/414، حدیث: 4077)

(5)اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ، اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ ، ثلاثًا، وَلَا نَبِیَّ بَعْدِی، میں محمد ہوں، اُمِّی نبی ہوں تین مرتبہ ارشاد فرمایا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد، 2/665، حدیث:7000)

(6)بنی اسرائیل کا نظامِ حکومت اُن کے اَنبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،8/615،حدیث:152)

(7)ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِی اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ اَوْ تُرَى لَه یعنی نبوت گئی، اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔ عرض کی گئی: بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔(معجم کبیر، 3/179، حدیث:3051)

(8)اَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلا فَخْرَ یعنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ (معجم اوسط، 1/63، حدیث:170، تاریخِ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث:5731)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم الحرام 1441ھ) ، صفحہ10

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تحریر: کاشف شہزاد عطاری مدنی

دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سےایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے نبوّت و رسالت کاسلسلہ خَاتَمُ النَّبِیِّین، جنابِ احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم فرما دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی، کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آسکتا ہے اور نہ آئے گا۔ اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک اور تَرَدُّد کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارِج ہے۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے پہلے ہی ارشاد فرما دیا تھا : عنقریب میری اُمّت میں تیس (30)کَذَّاب(یعنی بہت بڑےجھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ (ابوداؤد، 4/132، حدیث: 4252)

سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا آخری نبی ہونا قراٰنِ مجید کی صریح آیات اور احادیثِ مبارَکہ سے ثابت نیز تمام صحابۂ کرام، تابعینِ عظام، تبع تابعین اور تمام اُمّتِ محمدیہ کا اجماعی عقیدہ ہے۔ آئیے اس حوالے سے احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:

”ختمِ نبوت“ کے 7حروف کی نسبت سے

سات7فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث:2279)

(2)اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، 8/115، حدیث:7535)

(3)میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس(عمارت) کے گِرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں۔ (مسلم، ص965، حدیث:5961)

(4)بےشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لَوحِ محفوظ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین (لکھاہوا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔ (کنز العمال، جزء:11،6/188، حدیث:31957)

(5)میرے متعدد نام ہیں، میں مُحَمَّد ہوں، میں اَحْمَد ہوں، میں مَاحِیْ ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کُفر مٹاتا ہے، میں حَاشِرْ ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عَاقِب ہوں اور عَاقِب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/382، حدیث:2849)

(6)میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا مگر بشارتیں، (یعنی) اچھا خواب کہ بندہ خود دیکھےیا اس کے لئے دوسرے کو دکھایا جائے۔ (مسندِ احمد، 9/450، حدیث:25031ملتقطاً)

(7)(اے علی!) تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون(علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث:6217)

ضروری وضاحت: قیامت سے پہلے حضرت سیّدناعیسیٰ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا دنیا میں دوبارہ تشریف لاناختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنائب کے طور پر تشریف لائیں گےاورآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق احکام جاری فرمائیں گے۔ امام جلالُ الدّین سُیوطِی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام جب نازل ہوں گے تو رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گےنیز آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کرنے والوں اورآپ کی امّت میں سےہوں گے۔ (خصائص کبریٰ، 2/329)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی

وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مُہرِ نبوت حق تعالیٰ نے

انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں

(قبالۂ بخش،ص115)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ذوالحجۃ الحرام 1439ھ) ، صفحہ8

مرزائی، احمدی اور قادیانی

مدنی مذاکرے کا ایک اہم سوال اور اس کا جواب

سوال:مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تینوں میں کیا فرق ہے؟

جواب:مرزائی، احمدی اور قادیانی یہ تینوں ایک ہی گروپ کے نام ہیں۔ اس گروپ کے بانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا، جو لوگ مَعَاذَ اللہ اس کو نبی مانتے ہیں وہ اس کے نام ’’غلام احمد“ کی نسبت سے احمدی، اُس کی ذات”مرزا“ کی نسبت سے مِرزائی اور اس کے شہر ’’قادیان‘‘ کی نسبت سے قادیانی کہلاتے ہیں، تو اس کے ماننے والے مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تین ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو ماننے کی وجہ سے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت ختم ہوگئی ہے اور اس بات کا اعلان خود سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، خَاتَمُ النَّبِیِّیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہِری میں فرما دیا تھا جیسا کہ تِرمِذی شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی یعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)

ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی ماننا ”ضروریاتِ دین“ سے ہے اور اس بات پر ایمان لانا شرط ہے کہ آپ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے بعد کوئی نیانبی نہیں آئے گا۔ اگر کوئی شخص ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی کو نیانبی مانے یا کسی کیلئے نبوت کا ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے نکل کر کافِر ہوجائے گا اور اُسے کافر و مرتد سمجھنا ضَروری ہے۔

اِسی طرح اگر کوئی ہمارے پیارے نبی مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی تو مانتا ہو لیکن کسی دوسرے جھوٹے نبی کا کلمہ پڑھتا ہو یا کسی اور جھوٹے نبی کو سچا مانتا ہو تو ایسا شخص بھی اسلام سے خارج ہے اور اس کا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخِری نبی ماننا اسے کوئی کام نہیں دے گا بلکہ اُس شخص کو بھی کافر و مرتد جاننا لازِم و ضروری ہے۔

تو جو غلام احمد قادیانی کی نُبُوّت کو مانتے ہیں وہ اسلام سے بالکل خارج ہیں، اسلام سے ان کا کوئی واسِطہ نہیں ہے اور یہ بالکل مرتد ہیں۔ جو بھی قادیانی مذہب پر مرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گا، ان کی سزا بُت پَرست مشرکوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ جو گنہگار جہنَّم میں داخِل ہوں گے اور آخِرکار انہیں نکال کر جب داخلِ جنّت کیاجائے گا۔اِس کے بعد رہ جانے والے کفّار کی سزا بیان کرتے ہوئے صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: کفّار کے لئے یہ (عذاب) ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق (Box) میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل (Lock) لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قُفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافِر یہ سمجھے گا کہ اس کے سِوا اب کوئی آگ میں نہ رہا، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لئے عذاب ہے۔ جب سب جنّتی جنّت میں داخل ہولیں گے اور جہنّم میں صِرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لئے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے (Ram) کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی (آواز دینے والا) جنّت والوں کو پُکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پُکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رِہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اِسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے:ہاں!یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا:اے اہلِ جنّت!ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اہلِ نار!ہمیشگی ہے، اب موت نہیں، اس وقت اُن (جنّت والوں)کے لئے خوشی پر خوشی ہے اور اِن (جہنّم والوں) کے لئے غم بالائے غم۔(بہارِ شریعت، 1/171،170)

جو بھی ختمِ نُبُوّت کا اِنکار کرتے ہیں میں ان کو یہ ہمدردانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے حال پر رحم کریں، اپنی جان پر ظلم نہ کریں اور نبیِ آخِرُ الزّماں، مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سچے دل سے ایمان لے آئیں اور جس نے نُبُوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا اُسے مرتد سمجھیں اور جو اُس کو نبی مانتے ہیں اُنہیں بھی مرتد سمجھیں اور اِسلام کے دامن میں آجائیں۔

اسی طرح میں دیگر غیرمسلموں (Non-Muslims) کو بھی اِسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام پُر اَمْن (Peaceful) مذہب ہے آپ اسے قبول کرلیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دل میں سکون و اطمینان داخل ہوگا، دنیا میں، قبر میں اور قیامت میں راحت ملے گی اور اِنْ شَآءَ اللہ جنّت کی نہ ختم ہونے والی نعمتیں بھی دی جائیں گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ربیع الاول1439ھ)، صفحہ10،9، مضمون: مدنی مذاکرے کے سوال جواب

گوہ کی گواہی

تحریر: شاہ زیب عطاری مدنی

ایک دن حُضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اَعرابی کا اس بابَرَکت محفل کے پاس سے گزر ہوا۔ یہ اَعرابی جنگل سے ایک گَوہ پکڑ کر لارہا تھا۔ اَعرابی نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اللہ پاک کے نبی ہیں۔ اَعرابی یہ سن کر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں اُس وقت آپ پر ایمان لاؤں گا جب یہ گوہ آپ کی نُبُوَّت پر ایمان لائے،یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ڈال دیا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گوہ کو پکارا تو اس نے اتنی بلند آواز سے لَبَّیْکَ کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سےپوچھا :اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بُلند آواز سے کہا : آپ ربُّ العٰلمین کے رسول ہیں اور خاتَمُ النّبِیِّین ہیں،جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے انکار کیا وہ ناکام ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ اَعرابی فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔)زرقانی علی المواھب ، 554/6 (

پیارے مدنی منّو اور مدنی منّیو!اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ (1)ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ (2)آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔ (3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختم نبوت پر جانور بھی ایمان رکھتے ہیں۔ (4)جو مسلمان ہے حقیقت میں وہی کامیاب ہے۔

مشکل الفاظ کے معانی

صحابہ:صحابی کی جمع،یعنی وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں اپنے ہوش کے ساتھ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی یا صحبت پائی اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوا۔

اَعرابی:عرب کے گاؤں کا رہنے والا۔ بابرکت: برکت والی۔

گوہ:ایک جانور جس کی شکل چھپکلی جیسی لیکن جسم اس سے کافی بڑا ہوتاہے۔

نُبُوَّت:نبی ہونا ۔ لَبَّیْکَ:میں حاضر ہوں۔

ربُّ العالمین:تمام جہانوں کا پالنے والا۔ خاتَم النبِیّین:آخِری نبی۔

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(جمادی الاخریٰ1440ھ)، صفحہ 16