احیاء العلوم میں ہے کہ ایک بزرگ نے حضرت عُمَر بن عبد العزیز عَلَیْہِ الرَحْمَہ کو خط لکھا کہ جان لو! بندے کے لئے مددِالٰہی اس کی نیت کے مطابق ہوتی ہے، پس جس کی نیت کامل ہوگی اس کے لئے مددِ الٰہی بھی کامل ہوگی اور اگر نیت ناقص ہوتو اسی قدر مدد میں بھی کمی ہوتی ہے۔(احیاء العلوم، 1/221 مترجم)اس فرمان کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر نیت خالص نہ ہو تو بندہ لاکھ جتن کرے مگر رکاوٹوں اور بندشوں کے بھنور سے نہیں نکل پائے گا جبکہ اگر نیت خالص ہو اور بندہ تنہا بےسروسامانی میں کسی کام کو کرنے چلے تو اللہ کریم اس کیلئے ایسے اسباب بنائے گا کہ وہ جو اکیلا چلا تھا ایک وقت آئے گا کہ زمانہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور لوگ اس کے اشارۂ ابرو کے منتظر ہوں گے۔

اس فرمان کی عملی تفسیر آج دعوتِ اسلامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 2ستمبر1981وہ دن تھا کہ جب شیخِ طریقت، علامہ مولانا الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنیتِ خالص کے ساتھ عزمِ مصمم لے کر تنہا اس میدان میں نکلے تھے اور آج اللہ پاک کی رحمت سے افرادی قوت (Manpower)اور سرمایہ (Finance)کی کثرت میں دعوتِ اسلامی کی مثال نہیں ملتی، اور کسی بھی تنظیم کیلئے یہی دو چیزیں اصل ہوتی ہیں۔ یقیناً یہ سب امیر اہلسنت کی سچی نیت کا فیضان ہے۔ اللہ پاک امیر اہلسنت کے صدقے ہمیں بھی نیتوں میں اخلاص کی دولت عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کو مزید برکتیں عطا فرمائے۔ امین