عمارتِ نبوت کی آخری اینٹ

تحریر: مفتی محمد قاسم عطاری

ارشادباری تعالیٰ ہے: : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمہ: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔(پ22،الاحزاب:40)

تفسیر یہ آیتِ مبارکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی (Last Prophet) ہونے پر نَصِّ قطعی ہے اور اس کا معنیٰ پوری طرح واضح ہے جس میں کسی تاویل اور تخصیص کی ذرّہ بھر بھی گُنجائش نہیں۔ ختمِ نبوت سے متعلِّق تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت و رِسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ یا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد قیامت قائم ہونے تک کسی کو نَبُوَّت ملنا مُحال ہے۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر، مرتد اور ملعون ہے۔

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بیسیوں آیات ایسی ہیں جو مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تائید و تَثْوِیب کرتی ہیں جیسے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِسالت کے پہلو سے دیکھا جائے تو (1)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔(پ9، الاعراف:158) (2)تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بنایا گیا۔(پ22، سبا:28) (3)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سارے جہانوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے۔(پ18، الفرقان:01) (4)تمام لوگوں کو کفر کی ظلمت سے ایمان کے نور کی طرف نکالنے والے۔ (پ13، ابراہیم:01) (5)اور ہر جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔(پ17، الانبیاء:107) (6)اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام سے یہ عہد لیا کہ جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوَری ہو تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔(پ3،اٰل عمرٰن:81) ان کے بعد کسی نبی پر ایمان و مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا۔ (7)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے رسولوں کی تشریف آوَری کے بارے میں بتایا گیا۔(پ4،اٰل عمرٰن: 144، پ17، الانبیاء:41، پ7، الانعام:34) لیکن آپ کے بعد کسی بھی رسول کے آنے کی خبر نہیں دی گئی۔ (8)حضرت عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے تورات کی تصدیق کی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی بِشارت دی۔(پ28،الصف:06) جبکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی بشارت نہیں دی۔

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے دین کے پہلو سے دیکھا جائے تو (9)اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دین کامل کردیا۔(پ6، المآئدہ:03) کہ یہ پچھلے دینوں کی طرح مَنْسُوخ نہ ہو گا بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ (10)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے۔ (پ28،الصف:09)

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی کتاب قراٰنِ مجید کے پہلو سے دیکھا جائے تو (11)اللہ تعالیٰ نے کُتُبِ اِلٰہیّہ پر ایمان سے متعلق قراٰن اور سابقہ کتابوں کا ذکر فرمایا۔ (پ1، البقرۃ:04،پ5، النسآء: 136، 162) لیکن قراٰن کے بعد کسی اور آسمانی کتاب کاذِکر نہیں کیا۔ (12)قراٰن پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔(پ26، الاحقاف: 29) لیکن اس نے اپنے بعد کسی کتاب کی تصدیق نہیں کی۔ (13)قراٰن تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔(پ30، التکویر:26) (14)قراٰن پوری انسانیت کے لئے ذریعۂ ہدایت ہے۔(پ 1، البقرۃ:185)

آخر میں ایک حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میری اور تمام انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمده اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکّر لگا کر کہنے لگے :ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ ( کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے) تو میں (اس عمارت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں۔(مسلم،ص965،حدیث:5959)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم الحرام 1439) ، صفحہ5، مضمون:تفسیر قراٰنِ کریم

خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ کا معنیٰ تفاسیر کی روشنی میں

تحریر: ابوالحسن راشد  علی عطاری مدنی

عقیدہ ختمِ نُبُوَّت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ یہ ایک حساس ترين عقیدہ ہے۔ ختم نبوت کا انکار قراٰن کا انکار ہے۔ختمِ نبوت کا انکار صحابۂ کرام کے اجماع کا انکار ہے ۔ختمِ نبوت کا انکار ساری امتِ محمدیہ کے علما و فقہا و اَسلاف کے اجماع کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عظیم ہے:

: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)

تَرجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔( پ22، الاحزاب:40)

ختمِ نُبُوَّت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ ” خَاتَمُ النَّبِیِّیْن “ کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاوِیلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قراٰن، احادیث، فرامین و اجماعِ صحابہ اور مفسرین، محدثین، محققین، متکلمین اور ساری اُمّتِ محمّدیّہ کے خلاف ہیں۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے،

چنانچہ مفسّر قران:

ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات: 310ھ)، ابوالحسن علی بن محمد بغدادی ماوردی (وفات:450ھ)، ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری شافعی (وفات: 468ھ)، ابوالمظفر منصور بن محمد المروزی سمعانی شافعی (وفات: 489ھ)، محیُّ السُّنّۃ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی (وفات: 510ھ)، ابو محمد عبدُالحق بن غالب اندلسی محاربی (وفات: 542ھ)، سلطانُ العلماء ابومحمد عز الدين عبدالعزيز بن عبد السلام سلمی دمشقی (وفات: 660ھ)، ناصرُ الدّين ابوسعيد عبدُالله بن عمر شیرازی بیضاوی (وفات: 685ھ)، ابوالبركات عبدُالله بن احمد نسفی (وفات: 710ھ)، ابوالقاسم محمد بن احمد بن محمد الکلبی غرناطی (وفات: 741ھ)، ابوعبدُالله محمد بن محمد بن عرفہ ورغمی مالکی (وفات: 803ھ)، جلال الدّين محمد بن احمد محلی (وفات: 864ھ) اور ابوالسعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفىٰ (وفات:982ھ) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین سمیت دیگر کثیر مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تصریح و تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند تفاسیر کے اِقتِباسات ملاحظہ کیجئے:

۞امامِ اہلِ سنّت، ابو منصور ماتریدی (وفات: 333ھ) اپنی تفسیر ”تاویلات اہل السنۃ“ میں لکھتے ہیں:جو کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تو اس سے کوئی حجت و دلیل طلب نہیں کی جائے گی بلکہ اسے جھٹلایا جائے گا کیونکہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما چکے ہیں:لَا نَبِیَّ بَعْدِي یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ( تاویلات اہل السنۃ،8/396، تحت الآیۃ:40)

۞صاحبِ زادُ المسیر ابوالفرج عبدُالرّحمٰن بن علی جوزی (وفات: 597ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنی آخِرُالنّبیین ہیں، حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمّدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے سلسلۂ نُبُوَّت ختم نہ فرماتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیٹا حیات رہتا جو ان کے بعد نبی ہوتا۔ ( زاد المسیر،6/393، تحت الآیۃ: 40)

۞الجامع لاحكامِ القراٰن میں امام ابوعبدُالله محمد بن احمد قُرطبی (وفات: 671ھ) لکھتے ہیں:” خَاتَمُ النَّبِیِّیْنکے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علمائے اُمّت کے نزدیک مکمل طور پر عُموم(یعنی ظاہری معنیٰ) پر ہیں جو بطورِ نَصِ قطعی تقاضا کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں۔اور خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے ختم نبوت کے خلاف دوسرے معنیٰ نکالنے اور تاویلیں کرنے والوں کا رَد کرتے ہوئے امام قُرطبی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اِلْحاد یعنی بے دینی ہے اور ختمِ نُبُوَّت کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تشویش میں ڈالنے کی خبیث حرکت ہے، پس ان سے بچو اور بچو اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے۔ ( تفسیر قرطبی،جز14، 7/144، تحت الآیۃ:40)

۞تفسیر لُبابُ التاویل میں حضرت علاءُالدّین علی بن محمد خازِن (وفات: 741ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنی ہیں کہ اللہ کریم نے ان پر سلسلۂ نُبُوَّت ختم کردیا پس ان کے بعد کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور نبی ہے۔ حضرت سیّدُنا عبدُالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کیونکہ اللہ کریم جانتا تھا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اسی لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی ایسی مذکر اولاد عطا نہ فرمائی جو جوانی کی عمر کو پہنچی ہو اور رہا حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا تشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیا میں تشریف لاچکے اور جب آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے اور انہی کے قِبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھیں گے گویاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت سے بھی ہوں گے۔ ( تفسیر خازن،3/503، تحت الآیۃ:40)

۞مشہور تفسیر اللباب فی علوم الكتاب میں ابوحفص سراج الدين عمر بن علی حنبلی دمشقی (وفات: 775ھ) حضرت سیدنا عبدُالله بن عباس کا قول ”اللہ کریم کا فیصلہ تھا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہ ہو اسی لئے ان کی کوئی مذکر اولاد سن رجولیت(یعنی جوان آدمی کی عمر) کو نہ پہنچی“ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: کہا گیا ہے کہ جن کے بعد کوئی نبی نہیں، وہ اپنی اُمّت پر بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہاں ہوں گے گویا کہ وہ اُمّت کے لئے اس والد کی طرح ہوں گے جس کی اور کوئی اولاد نہ ہو۔( اللباب فی علوم الکتاب،15/558، تحت الآیۃ: 40)

اس تفسیر کے مطابق دیکھا جائے تو اللہ ربُّ العزّت کے بعد اس اُمّت پر سب سے زیادہ شفیق و مہربان جنابِ محمدِ مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں، جس پر آیتِ قراٰنی عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)تَرجَمۂ کنزُ الایمان: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ ( پ11، التوبۃ:128) سمیت کثیر آیات واضح دلیل ہیں۔

۞تفسیر نظم الدرر میں حضرت ابراہیم بن عمر بقاعی (وفات: 885ھ) لکھتے ہیں: کیونکہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت اور نبوت سارے جہان کے لئے عام ہے اور یہ اعجازِ قراٰنی بھی ہے (کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی سارے جہاں کے لئےہدایت ہے)، پس اب کسی نبی و رسول کے بھیجنے کی حاجت نہیں، لہٰذا اب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی بھی پیدا نہ ہوگا، اسی بات کا تقاضا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کوئی شہزادہ سنِ بلوغت کو نہ پہنچا اور اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی نبی کا آنا علمِ الٰہی میں طے ہوتا تو محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِکرام و عزت کے لئے ضرور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نسل ہی سے ہوتا کیونکہ آپ سب نبیوں سے اعلیٰ رتبے اور شرف والے ہیں لیکن اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اکرام اور اعزازکے لئے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا۔ (نظم الدرر،6/112،تحت الآیۃ:40)

۞تفسیر الفواتح الالٰہیہ میں شیخ علوان نعمتُ الله بن محمود (وفات: 920ھ) فرماتے ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کی جانب سے اللہ کے بندوں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے، اللہ کریم نے تمہیں راہِ رُشد و ہدایت دکھانے کے لئے تمہاری طرف اُمَمِ سابقہ کی طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھیجا، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ یہ خَاتَمُ النَّبِیِّیْن اور ختم المرسلین ہیں کیونکہ ان کے تشریف لانے کے بعد دائرہ نبوت مکمل ہوگیا اور پیغامِ رسالت تمام ہوگیا جیسا کہ خود رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں فرمایا ہے:اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ  تَرجَمۂ کنزُ الایمان:آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا۔ ( الفواتح الالٰہیہ،2/158، تحت الآیۃ:40)

۞صاحبِ تفسیرِ فتح الرحمن مجير الدين بن محمد علیمی مقدسی حنبلی (وفات: 927ھ) فرماتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی اور رہا عیسیٰ علیہ السَّلام کاتشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیامیں تشریف لاچکے۔ ( فتح الرحمٰن،5/370، تحت الآیۃ:40)

اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نُبُوّت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تحریر: راشد نور عطّاری مدنی

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دین محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبریٰ،2/329)

اِس عقیدۂ ختمِ نبوت کو قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰ تَرجَمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیںاور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ (پ22،الاحزاب:40)

خودتاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو بیان کیا ہے :

ختمِ رسالت کے آٹھ حروف کی نسبت سے

8 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ بےشک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم،ص553،حدیث:3376)

(2)مجھے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی: (۱)مجھے جامع کلمات دئیے گئے (۲)رُعْب طاری کرکے میری مدد کی گئی (۳)میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا (۴)میرے لئے ساری زمین پاک اور نَماز کی جگہ بنادی گئی (۵)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا (۶)مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (مسلم، ص210، حدیث:1167)

(3)اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ بےشک رِسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔( ترمذی،4/121،حدیث:2279)

(4)اَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابنِ ماجہ، 4/414، حدیث: 4077)

(5)اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ، اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ ، ثلاثًا، وَلَا نَبِیَّ بَعْدِی، میں محمد ہوں، اُمِّی نبی ہوں تین مرتبہ ارشاد فرمایا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد، 2/665، حدیث:7000)

(6)بنی اسرائیل کا نظامِ حکومت اُن کے اَنبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،8/615،حدیث:152)

(7)ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِی اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ اَوْ تُرَى لَه یعنی نبوت گئی، اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔ عرض کی گئی: بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔(معجم کبیر، 3/179، حدیث:3051)

(8)اَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلا فَخْرَ یعنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ (معجم اوسط، 1/63، حدیث:170، تاریخِ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث:5731)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم الحرام 1441ھ) ، صفحہ10

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تحریر: کاشف شہزاد عطاری مدنی

دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سےایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے نبوّت و رسالت کاسلسلہ خَاتَمُ النَّبِیِّین، جنابِ احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم فرما دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی، کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آسکتا ہے اور نہ آئے گا۔ اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک اور تَرَدُّد کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارِج ہے۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے پہلے ہی ارشاد فرما دیا تھا : عنقریب میری اُمّت میں تیس (30)کَذَّاب(یعنی بہت بڑےجھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ (ابوداؤد، 4/132، حدیث: 4252)

سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا آخری نبی ہونا قراٰنِ مجید کی صریح آیات اور احادیثِ مبارَکہ سے ثابت نیز تمام صحابۂ کرام، تابعینِ عظام، تبع تابعین اور تمام اُمّتِ محمدیہ کا اجماعی عقیدہ ہے۔ آئیے اس حوالے سے احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:

”ختمِ نبوت“ کے 7حروف کی نسبت سے

سات7فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث:2279)

(2)اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، 8/115، حدیث:7535)

(3)میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس(عمارت) کے گِرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں۔ (مسلم، ص965، حدیث:5961)

(4)بےشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لَوحِ محفوظ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین (لکھاہوا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔ (کنز العمال، جزء:11،6/188، حدیث:31957)

(5)میرے متعدد نام ہیں، میں مُحَمَّد ہوں، میں اَحْمَد ہوں، میں مَاحِیْ ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کُفر مٹاتا ہے، میں حَاشِرْ ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عَاقِب ہوں اور عَاقِب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/382، حدیث:2849)

(6)میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا مگر بشارتیں، (یعنی) اچھا خواب کہ بندہ خود دیکھےیا اس کے لئے دوسرے کو دکھایا جائے۔ (مسندِ احمد، 9/450، حدیث:25031ملتقطاً)

(7)(اے علی!) تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون(علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث:6217)

ضروری وضاحت: قیامت سے پہلے حضرت سیّدناعیسیٰ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا دنیا میں دوبارہ تشریف لاناختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنائب کے طور پر تشریف لائیں گےاورآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق احکام جاری فرمائیں گے۔ امام جلالُ الدّین سُیوطِی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام جب نازل ہوں گے تو رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گےنیز آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کرنے والوں اورآپ کی امّت میں سےہوں گے۔ (خصائص کبریٰ، 2/329)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی

وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مُہرِ نبوت حق تعالیٰ نے

انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں

(قبالۂ بخش،ص115)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ذوالحجۃ الحرام 1439ھ) ، صفحہ8

مرزائی، احمدی اور قادیانی

مدنی مذاکرے کا ایک اہم سوال اور اس کا جواب

سوال:مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تینوں میں کیا فرق ہے؟

جواب:مرزائی، احمدی اور قادیانی یہ تینوں ایک ہی گروپ کے نام ہیں۔ اس گروپ کے بانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا، جو لوگ مَعَاذَ اللہ اس کو نبی مانتے ہیں وہ اس کے نام ’’غلام احمد“ کی نسبت سے احمدی، اُس کی ذات”مرزا“ کی نسبت سے مِرزائی اور اس کے شہر ’’قادیان‘‘ کی نسبت سے قادیانی کہلاتے ہیں، تو اس کے ماننے والے مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تین ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو ماننے کی وجہ سے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت ختم ہوگئی ہے اور اس بات کا اعلان خود سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، خَاتَمُ النَّبِیِّیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہِری میں فرما دیا تھا جیسا کہ تِرمِذی شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی یعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)

ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی ماننا ”ضروریاتِ دین“ سے ہے اور اس بات پر ایمان لانا شرط ہے کہ آپ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے بعد کوئی نیانبی نہیں آئے گا۔ اگر کوئی شخص ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی کو نیانبی مانے یا کسی کیلئے نبوت کا ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے نکل کر کافِر ہوجائے گا اور اُسے کافر و مرتد سمجھنا ضَروری ہے۔

اِسی طرح اگر کوئی ہمارے پیارے نبی مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی تو مانتا ہو لیکن کسی دوسرے جھوٹے نبی کا کلمہ پڑھتا ہو یا کسی اور جھوٹے نبی کو سچا مانتا ہو تو ایسا شخص بھی اسلام سے خارج ہے اور اس کا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخِری نبی ماننا اسے کوئی کام نہیں دے گا بلکہ اُس شخص کو بھی کافر و مرتد جاننا لازِم و ضروری ہے۔

تو جو غلام احمد قادیانی کی نُبُوّت کو مانتے ہیں وہ اسلام سے بالکل خارج ہیں، اسلام سے ان کا کوئی واسِطہ نہیں ہے اور یہ بالکل مرتد ہیں۔ جو بھی قادیانی مذہب پر مرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گا، ان کی سزا بُت پَرست مشرکوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ جو گنہگار جہنَّم میں داخِل ہوں گے اور آخِرکار انہیں نکال کر جب داخلِ جنّت کیاجائے گا۔اِس کے بعد رہ جانے والے کفّار کی سزا بیان کرتے ہوئے صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: کفّار کے لئے یہ (عذاب) ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق (Box) میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل (Lock) لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قُفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافِر یہ سمجھے گا کہ اس کے سِوا اب کوئی آگ میں نہ رہا، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لئے عذاب ہے۔ جب سب جنّتی جنّت میں داخل ہولیں گے اور جہنّم میں صِرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لئے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے (Ram) کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی (آواز دینے والا) جنّت والوں کو پُکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پُکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رِہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اِسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے:ہاں!یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا:اے اہلِ جنّت!ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اہلِ نار!ہمیشگی ہے، اب موت نہیں، اس وقت اُن (جنّت والوں)کے لئے خوشی پر خوشی ہے اور اِن (جہنّم والوں) کے لئے غم بالائے غم۔(بہارِ شریعت، 1/171،170)

جو بھی ختمِ نُبُوّت کا اِنکار کرتے ہیں میں ان کو یہ ہمدردانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے حال پر رحم کریں، اپنی جان پر ظلم نہ کریں اور نبیِ آخِرُ الزّماں، مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سچے دل سے ایمان لے آئیں اور جس نے نُبُوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا اُسے مرتد سمجھیں اور جو اُس کو نبی مانتے ہیں اُنہیں بھی مرتد سمجھیں اور اِسلام کے دامن میں آجائیں۔

اسی طرح میں دیگر غیرمسلموں (Non-Muslims) کو بھی اِسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام پُر اَمْن (Peaceful) مذہب ہے آپ اسے قبول کرلیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دل میں سکون و اطمینان داخل ہوگا، دنیا میں، قبر میں اور قیامت میں راحت ملے گی اور اِنْ شَآءَ اللہ جنّت کی نہ ختم ہونے والی نعمتیں بھی دی جائیں گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ربیع الاول1439ھ)، صفحہ10،9، مضمون: مدنی مذاکرے کے سوال جواب

گوہ کی گواہی

تحریر: شاہ زیب عطاری مدنی

ایک دن حُضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اَعرابی کا اس بابَرَکت محفل کے پاس سے گزر ہوا۔ یہ اَعرابی جنگل سے ایک گَوہ پکڑ کر لارہا تھا۔ اَعرابی نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اللہ پاک کے نبی ہیں۔ اَعرابی یہ سن کر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں اُس وقت آپ پر ایمان لاؤں گا جب یہ گوہ آپ کی نُبُوَّت پر ایمان لائے،یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ڈال دیا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گوہ کو پکارا تو اس نے اتنی بلند آواز سے لَبَّیْکَ کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سےپوچھا :اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بُلند آواز سے کہا : آپ ربُّ العٰلمین کے رسول ہیں اور خاتَمُ النّبِیِّین ہیں،جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے انکار کیا وہ ناکام ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ اَعرابی فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔)زرقانی علی المواھب ، 554/6 (

پیارے مدنی منّو اور مدنی منّیو!اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ (1)ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ (2)آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔ (3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختم نبوت پر جانور بھی ایمان رکھتے ہیں۔ (4)جو مسلمان ہے حقیقت میں وہی کامیاب ہے۔

مشکل الفاظ کے معانی

صحابہ:صحابی کی جمع،یعنی وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں اپنے ہوش کے ساتھ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی یا صحبت پائی اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوا۔

اَعرابی:عرب کے گاؤں کا رہنے والا۔ بابرکت: برکت والی۔

گوہ:ایک جانور جس کی شکل چھپکلی جیسی لیکن جسم اس سے کافی بڑا ہوتاہے۔

نُبُوَّت:نبی ہونا ۔ لَبَّیْکَ:میں حاضر ہوں۔

ربُّ العالمین:تمام جہانوں کا پالنے والا۔ خاتَم النبِیّین:آخِری نبی۔

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(جمادی الاخریٰ1440ھ)، صفحہ 16


انسان کی پہچان اس کا نام ہوتا ہے یہ  اس کے لیے والدین کی طرف سے پہلا تحفہ قرار پاتا ہے ، جب یہ تحفہ انسان کو ملتا ہے اس وقت محض ایک نام ہوتا ہے بعد میں وہ انسان اپنے کارناموں کے بل بوتے پر والدین کی طرف سے عطا کردہ اس سادے سے تحفے کو اتنا اونچا اور روشن کردیتا ہے کہ لوگ اس کا نام احترام سے لیتے ہیں، اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس کے کارناموں کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں، زمانے کے دانش ور اسے القابات سے نواز تے ہیں، مختلف میدانوں کے سرخیل اسے اپنا امیر سمجھتے ہیں، راہ ہدایت کے متلاشی اس کے دامن میں وابستگی کے بعد سرخ روئی کی امید پالیتے ہیں۔ دور حاضر میں ایسی عظیم الشان اور کثیر الجہات شخصیت جس نے اپنی ولادت پر سب سے پہلے ملنے والے تحفے ”محمد الیاس“ کو اپنی لاثانی خدمات کے ذریعے اتنا بلند اور روشن مَنارہ بنادیا جس کی روشنی رفتہ رفتہ دنیا کے اکثر ممالک میں پھیل گئی۔ اس مُدَبّرانہ صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت نے 1401 سنِ ہجری بمطابق 1981 سن عیسوی میں تبلیغِ دین اور اِشاعتِ اسلام کے لیے ”دعوتِ اسلامی“ کے نام سے ایک ایسی تنظیم بنائی جس کے مُنَظَّم نظام نے دنیا بھر میں اسلام و سنیت کا ڈنکا بجادیا، حق کی تلاش میں پھرنے والوں کو اسلام کی روشنی میسر آئی،علم کے پیاسے باعمل عالم بنے،معرفت کے خواہش مند بحر ِ طریقت کے شناور بنے، بے عملی کے دلدل میں غوطہ کھانے والے سنتوں کی تعلیم دینے والے بنے۔ اس عظیم الشان اور کثیر الجہات شخصیت کے بے مثال کارناموں کی بدولت بچپن میں ملنے والے نام کا تحفہ ”محمد الیاس“ سادہ سے دو کلمات سے بڑھ کر ”شیخِ طریقت،امیرِ اہل سنَّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ “قرار پایا ۔ 

احیاء العلوم میں ہے کہ ایک بزرگ نے حضرت عُمَر بن عبد العزیز عَلَیْہِ الرَحْمَہ کو خط لکھا کہ جان لو! بندے کے لئے مددِالٰہی اس کی نیت کے مطابق ہوتی ہے، پس جس کی نیت کامل ہوگی اس کے لئے مددِ الٰہی بھی کامل ہوگی اور اگر نیت ناقص ہوتو اسی قدر مدد میں بھی کمی ہوتی ہے۔(احیاء العلوم، 1/221 مترجم)اس فرمان کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر نیت خالص نہ ہو تو بندہ لاکھ جتن کرے مگر رکاوٹوں اور بندشوں کے بھنور سے نہیں نکل پائے گا جبکہ اگر نیت خالص ہو اور بندہ تنہا بےسروسامانی میں کسی کام کو کرنے چلے تو اللہ کریم اس کیلئے ایسے اسباب بنائے گا کہ وہ جو اکیلا چلا تھا ایک وقت آئے گا کہ زمانہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور لوگ اس کے اشارۂ ابرو کے منتظر ہوں گے۔

اس فرمان کی عملی تفسیر آج دعوتِ اسلامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 2ستمبر1981وہ دن تھا کہ جب شیخِ طریقت، علامہ مولانا الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنیتِ خالص کے ساتھ عزمِ مصمم لے کر تنہا اس میدان میں نکلے تھے اور آج اللہ پاک کی رحمت سے افرادی قوت (Manpower)اور سرمایہ (Finance)کی کثرت میں دعوتِ اسلامی کی مثال نہیں ملتی، اور کسی بھی تنظیم کیلئے یہی دو چیزیں اصل ہوتی ہیں۔ یقیناً یہ سب امیر اہلسنت کی سچی نیت کا فیضان ہے۔ اللہ پاک امیر اہلسنت کے صدقے ہمیں بھی نیتوں میں اخلاص کی دولت عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کو مزید برکتیں عطا فرمائے۔ امین


Right Time Right Decision

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

وقت کے سیلاب کوصحیح سمت پھیرنا،خطرات اورنقصان کی جگہوں سے پہلے بند لگانا، بنجر زمینوں، ریگستانوں کی آبادکاری کا اسے ذریعہ بنانا اور سیلاب زدہ مقامات پر امدادی کاروائیاں کرنا یقیناً وقت کی ضرور ت کو پورا کرنا اور صحیح وقت پر درست  فیصلہ کرنا ہے۔ اس خوبصورت جملے کی تصویری صورت اورعملی نمونہ کا پورا پورا حق ادا کرنے والی میری اور آپ کی تحریک دعوت اسلامی ہے۔ جس نےمعاشرے کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے، معاملات کو سدھارنے کے لئے جو فیصلے کئے، ان پر جو عمل کیا  اور چمکتی، دلوں کو چھوتی  اور تعریف پر مجبور کرنے والی خدمات سر انجام دیں اس کے نتیجے میں ایک، دس، سو، ہزار، لاکھ نہیں بلکہ لاکھوں لاکھ لوگ  معاشرے میں راحت کی زندگی گزار رہے ہیں، ذہنی ، قلبی اور جسمانی سکون پا رہے ہیں۔  آج 2 ستمبر کا دن ہے، خوشی کا دن ہے، اس پیاری، مذہبی،فلاحی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کا یوم تاسیس ہے، ہمیں بھی چاہئے کہ موقع کا فائدہ اٹھائیں، خوشی منائیں اور اس تحریک کا ساتھ دیں۔ 


پاک و ہند میں ایک وقت وہ تھا  کہ مسلمانوں کو اپنے ایمان کی حفاظت اور عقیدے کی پہچان کے لئے کسی مضبوط اور منظم پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ اگرچہ حفاظتِ دین و ایمان کا کام سرانجام دینے کے لئے کئی جماعتیں میدانِ عمل میں تھیں لیکن ان کے دائرۂ کار اتنے وسیع نہ تھے کہ وہ ملک و بیرونِ ملک یا دنیا بھر کے مسلمانوں کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر سکیں ۔

ایسے میں اللہ پاک کے فضل اور نبیٔ کریم ﷺ کی رحمت سے علمائے کرام نے 2 ستمبر 1981ء کو ”دعوتِ اسلامی “ کی صورت میں ایک پودا لگا کر امیرِ اہلِ سنّت کو اس کی نگہبانی و نگرانی پر مقرر کر دیا۔ اس خُودار،محنتی،دُھن کے پکے،قول و فعل کے سچے، مہربان و مشفق ”نگہبان“ کا کیا کہنا! مولانا الیاس قادری صاحب نے دعوتِ اسلامی کے اس ننھے پودے کی بقا ، نگہداشت ،موسموں کی سردی و گرمی اور مخالف ہواؤں کے تھپیڑوں سے حفاظت کے عمل کو نہ صرف جی جان سے نبھایا بلکہ اس کی ترقی و بڑھوتری کے لئے اپنا خون پسینہ تک بہانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔

2 ستمبر دعوتِ اسلامی کے یومِ تاسیس کے موقع پر ہم مہربان و مشفق نگہبان حضرت مولانا الیاس قادری صاحب کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے بدمذہبی ، بدعملی،بے راہ روی کے دور میں دعوتِ اسلامی کی صورت میں ہمیں مضبوط و منظم اور سایہ دار درخت کی صورت میں دعوتِ اسلامی کا پلیٹ فارم عطا فرمایا ۔ اللہ پاک دعوتِ اسلامی ،بانیٔ دعوتِ اسلامی ، ان کے رفقاء اور مرکزی مجلسِ شوریٰ کو دنیا و آخرت میں بہترین جزا اور صحت و سلامتی اور عافیت والی عمرِ خضری عنایت فرمائے ۔

آج 2ستمبر2020 کی صبح جب نمازِ فجر ادا کرچکاتو دل ودماغ پر کسی خوشگوار یاد نے دستک دی، فوراً ذہن میں آگیا کہ آج تو یومِ دعوتِ اسلامی ہے ،میرے ذوق نے تقاضا کیا کہ میں آج سب سے پہلی مبارک باد اس ہستی کو دوں جس نے آج سے کم وبیش 39 سال پہلے اس ثمربار درخت کا بیج بویا تھا،چنانچہ میں نے عاشقانِ رسول کی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی ،امیراہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو مبارکباد کا پیغام بھیجا چند ہی لمحوں میں اس کا رپلائی بھی موصول ہوگیا جس پر دل بہت خوش ہوا۔علاوہ ازیں میں جانشینِ امیراہلسنّت الحاج مولانا عبید رضا عطاری مدنی مدظلہ العالی ،نگرانِ شوریٰ مولاناحاجی محمد عمران عطاری سلمہ الباری اور دیگر اراکین شوریٰ کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ جب سے دعوتِ اسلامی بنی ہے اس کا قدم ترقی کے راستے پر آگےبڑھا ہے پیچھے نہیں ہٹا،کراچی کے ایک علاقے سے اپنا سفر شروع کرنے والی دعوتِ اسلامی اولاً پاکستان میں پھیلی پھر اس نے دنیا بھر میں اپنا پیغام پہنچانا شروع کردیا ،آغاز میں درس وبیان اور علاقائی دورے وغیرہ سے نیکی کی دعوت عام کرنے والی تحریک کے آج 100 سے زائد شعبے قائم ہوچکے ہیں ۔اس کے طفیل کتنے ہی بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا مسلمانوں کو توبہ کی سعادت ملی!دعوتِ اسلامی نے بچوں ، مردوں ،عورتوں ، جوانوں،بوڑھوں سب میں کام کیا !حافظ بنائے، قاری بنائے، عالم بنائے، مفتی بنائے، مصنف بنائے!اس اُمت کو مدنی چینل جیسا تحفہ دیا ،سوچتا ہوں کہ وابستگانِ دعوتِ اسلامی کی کیسی کیسی یادیں دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوں گی، ان تمام کو بھی یومِ دعوتِ اسلامی مبارک ہو، ایسے عاشقانِ رسول کو چاہئے کہ دعوتِ اسلامی سے اپنا تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط کرلیں تاکہ نیکیوں کے راستے پر چلنے میں استقامت نصیب ہو۔اور جنہوں نے ابھی تک صرف دعوتِ اسلامی کا نام سنا ہے وہ بھی دعوتِ اسلامی سے اپنا رشتہ جوڑ لیں ،اور کچھ نہیں کرسکتے تو اولاً مدنی چینل دیکھنا شروع کردیں ، قُربت کی باقی منزلیں بھی اسی کے صدقے طے ہوجائیں گی۔ اللہ پاک دعوتِ اسلامی اور بانیٔ دعوتِ اسلامی کو نظرِ بدسے بچائے اور مزید عروج عطا فرمائے ۔ آمین 


جو ادارے، تحریکیں اور تنظیمیں اپنے افراد کو  تعلیم اور روزگار دونوں فراہم کرتے ہیں ان اداروں، تنظیموں اور تحریکوں کی معاشرے میں پذیرائی بھی ہوتی ہے اور تحسین بھی ۔

”دعوتِ اسلامی“ کے جہاں کثیر محاسن ہیں وہیں ایک خوبی یہ بھی کہ اس تحریک سے وابستہ افراد کو نہ صرف بہترین تعلیم و تربیت دی جاتی ہے وہیں ان کے لئے شریعت سے آراستہ بہترین ماحول میں روز گار کے موا قع بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس خوبی کی جھلک ملاحظہ فرمائیں:

(1) جو افراد فارغ التحصیل ہونے کے بعد تعلیمِ قراٰن اور علم دین کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں انہیں مدرسۃ المدینہ ، مدرسۃ المدینہ آن لائن ، جامعۃ المدینہ اور جامعۃ المدینہ آن لائن میں تدریسی و انتظامی خدمات سرانجام دینے کا موقع فراہم کیا جا تا ہے ۔

(1) اس جدید دور میں جو لوگ آئی ٹی ڈیپار ٹ میں دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ”دعوت اسلامی“ کا آئی ٹی ڈیپار ٹ موجود ہے ۔

(3)جو لوگ میڈیا کے ذریعے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے مدنی چینل کی صورت میں ایک بہترین سہولت موجود ہے ۔

(ان شعبہ جات سے وابستہ افراد کو بہترین ماہانہ سیلری کے ساتھ قابلیت کے اعتبار سے الاؤنسز بھی پیش کئے جاتے ہیں۔)

تو آپ بھی آئیے اور ”دعوتِ اسلامی“ سے وابستہ ہو جائیے کیونکہ

”دعوت اسلامی“نکھار تی بھی ہے اور سنوار تی بھی ۔


2ستمبر1981کو دعوت ِ اسلامی کی بنیاد رکھی گئی،دنیاکے کونے کونے میں پیغام ِاسلام پہنچانامقصود تھا، یقینا مقصد بڑا تھا مگرحصولِ مقصد کے اسباب ناپید تھے،قدم قدم پر مشکلات کاسامنارہا لیکن اشاعتِ اسلام کے شوق اور لگن نےچٹانوں سے مضبوط حوصلہ عطاکیا،رحمتِ رحمٰن کچھ یوں ہوئی کہ جہدِمسلسل کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی،بانی ٔ دعوت ِ اسلامی کےاخلاص اور زہد و تقوی ٰ کی بدولت ”اسباب“ خود دوڑ دوڑ کر آنے لگے، پتھر دل ”موم“ ہوئے اور لوگ پروانے کی مثل جمع ہوگئے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت سازی کا ایسا کارخانہ قائم ہوا جس نے بےکار افراد کو کارآمد بنایا اور کار آمد افراد کوشخصیت سازی کا بےمثال ہنر سکھایا۔ دعوتِ اسلامی کاقطرے سے گوہر ہونے تک یہ 39سالہ سفر پُرعظمت ہونے کے ساتھ یقیناقابلِ رشک ہے۔ ہم انسانیت کی محسن تحریک دعوت ِ اسلامی کےانتالسویں یوم ِ تاسیس پربانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانامحمد الیاس عطار قادری کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو کَسْبِ حلال کی ترغیب دیتا اور رزقِ حلال کے لئے ان کی جِدّو جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بزرگانِ دین نے  بھی کوئی نہ کوئی حلال ذریعۂ روزگار اپنایا، ان ہی بزرگوں میں سے ایک خلیفۂ دُوُم، امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔

ذریعۂ مَعاش: آپ کی آمدنی کے ذرائع میں زمینیں بَٹائی پر دینے (یعنی مزارعت)([1]) کا ذِکر بھی ملتا ہے، چنانچہ بخاری شریف میں ہےکہ آپ نے لوگوں سے اس بات پر مزارعت (یعنی زمین بٹائی پر دینے) کا معاملہ طے کیاکہ اگر آپ اپنی طرف سے بیج لائیں تو آپ کیلئے نصف پیداوار ہوگی اور اگر وہ بیج لائیں تو ان کیلئے اتنی اتنی پیداوار ہوگی۔(بخاری، 2/87، حدیث:2327)

نیزآپ کا ایک ذریعۂ معاش چمڑے کا کام بھی تھا،چنانچہ فقہِ حنفی کی کتاب ”اختیار شرح مختار“ میں ہے:عُمَرُ يَعْمَلُ فِي الْاَدِيْم یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ چمڑے کا کام کیا کرتے تھے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، جز4، 2/182) نیز بچپن میں اپنے والد کے اونٹ چَرایا کرتے تھے اور جب کچھ بڑے ہوئے تو والد کے اونٹوں کے ساتھ ساتھ قبیلۂ بنی مخزوم کے اونٹ بھی چَرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب اپنے اونٹوں کی چراگاہ کے مقام سے گزرے تو فرمایا:میں اسی وادی میں اپنے باپ کے اونٹ چَرایا کرتا تھا۔(الاستیعاب، 3/243،فیضانِ فاروقِ اعظم،1/66)

فاروقِ اعظم کے تجارتی سفر: آپ کے تجارتی اَسفار کا ذِکر معتبر کتبِ سِیَر و تاریخ میں نہ ہونے کے برابر ہے، علّامہ بَلاذُری نے ”اَنْسَابُ الْاَشْرَاف“ میں ملکِ شام کی طرف جانے والے آپ کے فقط ایک تجارتی قافلے کا ذکر کیا ہے۔(انساب الاشراف،10/315)

کَسْب کی ترغیب پر مشتمل فرامینِ فاروقِ اعظم: ہُنر سیکھو کیونکہ عنقریب تم کو ہُنر کی ضَرورت پیش آئے گی۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا،اصلاح المال،7/473) ایسا ذریعۂ مَعاش جس میں قدرے گھٹیا پَن ہو وہ لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، اصلاح المال،7/475) اگر یہ بیوع (خرید و فروخت) نہ ہوں تو تم لوگوں کے محتاج ہوجاؤ۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 5/258، رقم:2) اے گروہِ قُرّاء! اپنے سر اونچے رکھو، راستہ واضح ہے، بھلائی کے کاموں میں سبقت کرو اور مسلمانوں کے محتاج ہو کر ان پر بوجھ نہ بنو۔(التبيان فی اٰداب حملۃ القراٰن، ص54) تم میں سے کوئی رِزق کی تلاش چھوڑکریہ نہ کہتا پھرے کہ ”اے اللہ! مجھے رِزق عطا فرما۔“ کیونکہ تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونے چاندی کی بارِش نہیں ہوتی۔(احیاء العلوم، 2/80) مجھے کوئی نوجوان پسند آتا ہے تو میں پوچھتا ہوں:یہ کوئی کام کرتا ہے؟اگر لوگوں کی طرف سے جواب ملتا کہ ”نہیں“ تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے۔(المجالسۃ و جواہر العلم، 3/113، رقم: 3028) جو شخص کسی چیز کی تین مرتبہ تجارت کرے پھر بھی اسے نفع نہ ہوتو اسے کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجانا چاہئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 5/393، رقم:1)

اللہ پاک ہمیں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حلال روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])کسی کو اپنی زمین اس طور پر کاشت کیلئے دینا کہ جو کچھ پیداوار ہوگی دونوں میں مثلاًنصف نصف یا ایک تہائی دو تہائیاں تقسیم ہو جائے گی اس کو مزارعت کہتے ہیں


از قلم مفتی علی اصغر

8 ذو الحجہ 1441 شب بمطابق پاکستان

29 جولائی 2020 بروز بدھ

مناسک حج کا آغاز ہو چکا ہے اور آج حجاج کرام منی میں رات گزاریں گے اور کل عرفات روانہ ہوکر حج کا رکن اعظم یعنی وقوف عرفات ادا کریں خوش نصیب حاجیوں نے اس انداز پر آج طواف کیاجو تصویر میں موجود ہے

میں سوچ رہا ہوں کہ کرونا کے باعث لاکھوں لاکھ لوگ جو اس سال حج کی سعادت سے محروم رہے اس کا دکھ اپنی جگہ لیکن حج تو ہو رہا ہے، دین اسلام کے ایک رکن کی ادائیگی تو ہو رہی ہے

جو نا جا سکے عذر اپنی جگہ پر لیکن خالی خالی مطاف دیکھ کر صفا و مروہ پر وہ کندھے سے کندھا چھلنے کا نظارہ نا پا کر

منی کی غیر آباد گلیاں دیکھ کر

عرفات میں وہ دعا و گریہ کرنے والوں کا ہجوم نا پا کر

وہ جبل رحمت کے گرد لباس احرام کی چاندی کے نہ ہوتے ہوئے

مسجد نمرہ کے کشادہ راستوں کی بھیڑ نظر نا آنے پر

پھر میدان مزدلفہ تو 10 کی شب پورا سفید ہی سفید ہوتا تھا احرام کی چاندنی چاند کے ساتھ مل کر اسے بقعہ نور بنا دیا کرتی تھی لیکن اب تو وہ میدان بھی خالی ہوگا

رمی کرنے والوں کا وہ رش میں جا کر فریضہ ادا کرنے کا ولولہ اب آنکھوں کے سامنے نہ ہوگا

یہ سب احساسات اپنی جگہ پر

لیکن نا تو میدان عرفات پر رحمت خداوندی میں کوئی کمی آنی ہے

اور نہ ہی وقت فجر میدان مزدلفہ پر نازل ہونے والی سعادتوں میں کچھ قلت واقع ہونی ہے بلکہ واسع و کریم رب کی رحمتیں اس سال بھی مشاعر مقدسہ کو گھیرے ہوں گی

رمی اور طواف کرنے والوں کے لئے انوار و برکات میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی

رش نہیں ہے تو کیا ہوا؟

اپنی توجہ میں،

یادوں میں

اور دل کے میلان میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے

کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ رش اور بھیڑ ہماری توجہ کا مرکز ہوتا ہے نا کہ اصل افعال کی ادائیگی اور روحانی اہمیت

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رش اور بھیڑ مشاعر مقدسہ کی رونق ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں یوں بھی زیادہ متوجہ کرتی ہیں کہ کسی کا جاننے والا،

محلے دار،

شہر کا آدمی جب گیا ہوتا ہے تو اس کے خیال سے بھی فطری طور پر ایک خیال آتا ہے کہ فلاں اب یہاں ہوگا اور اب یہاں.

یہ محرک اس سال نہ ہونے کے برابر ہے

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کعبے کی رونق و رعنائی ہو یا مسجد نبوی کی تابانیاں یہ سب ظاہری حسن کی محتاج نہیں

ھیبیت والی اور خوبصورت بلڈنگ، روشنیاں بھیڑ، رش ظاہری طور پر نظر آنے والی خوبصورتیاں ہیں اور اللہ تعالی ان میں مزید اضافہ کرے

اصل چیز تو یہاں پر اللہ تعالی کی نازل ہونے والی رحمت ہے

ان مقامات کی دینی اہمیت ہے

یہ مقامات نزول ملائکہ کی جگہیں ہیں

یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں

یہاں پہنچنے والے کو مغفرت کی بشارتیں سنائیں گئی ہیں

یہاں اعمال کا ثواب بڑھ جاتا ہے

یہاں پہنچ کر بندہ جو روحانیت اور سرور اور لذت محسوس کرتا ہے وہ لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ہے

یہاں سے پلٹنے والا اپنے اپنے نصیب کے مطابق جھولیاں بھر کر جاتا ہے.

کوئی مغفرت

کوئی برکات،

کوئی اصلاح اعمال

کوئی بھلی تقدیر

اور نہ جانے کیا کچھ لے کر لوگ واپس پلٹتے ہیں

بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف جسم پلٹتے ہیں دل و جان اور روح تو وہیں رہ جاتی ہے

بقول بہزاد لکھنوی

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے

قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی

دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی

خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی

اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام

اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام

اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام

وہ صلاۃِ سکوں آفریں رہ گئی

جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی

جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی

جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر

وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی

پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب

جب ہوئے ہم رواں سوئے کوئے حبیب

برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں

بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی

یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر

وہ سکونِ دل و جاں وہ روح و نظر

یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا

ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی

زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر

کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر

اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر

یہ تمنائے قلبِ حزیں رہ گئی

اللہ تعالی ان لوگوں کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے جو اسے پیارے ہیں

اللہ تعالی ان سب مسلمانوں کو حرمین طبین کی حاضری اور حج مقبول کی سعادت بخشے جو آنا چاہتے ہیں پر بلاوے کے منتظر ہیں۔


اُمُّ المومنین حضرتِ سیّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمْعہ رضیَ اللہُ عنہا اُن ازواجِ مطہرات میں سے ہیں جن کا تعلق خاندانِ قریش سے ہے، آپ کے والد کا نام ”زَمعَہ“ اور والدہ کا نام ”شَموس بنتِ عَمرو“ ہے، آپ پہلے اپنے چچا زاد ”سَکران بن عَمرو“ کے نکاح میں تھیں، اِسلام کی ابتدا ہی میں یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہوگئے تھے، ایک قول کے مُطابق ہجرتِ حبشہ سے واپسی پر مکۂ مُکَرَّمہ زادھَا اللہ شَرفاً وَّ تَعظِیماً میں حضرتِ سودہ رضیَ اللہُ عنہَا کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ (المواہب اللدنیہ، 1/405)

حضرتِ سیّدَتُنا سودہ بنتِ زَمعہ رضیَ اللہُ عنہا بہت ہی دِین دار، سلیقہ شعار اور بے حد خدمت گزار خاتون تھیں، آپ حُضُور علیہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام  کے اَحکامات پر خوب عمل پیرا ہوتی تھیں۔(زرقانی علی المواھب، 4/380۔ 377 ملخصاً)

قابلِ رَشک خاتون: آپ دراز قد جبکہ حسن و جمال اور سیرت میں منفرد تھیں۔(جنتی زیور،ص482) اُمُّ المُومنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضیَ اللہُ عنہا آپ کے اَوصافِ حَسَنہ (یعنی اچھی خوبیوں) کو دیکھ کر آپ پر بہت زیادہ رشک فرمایا کرتی تھیں۔(زرقانی علی المواھب ، 4/380 ملخصاً)

حُضُور سے نکاح: جب حضرتِ سیّدَتُنا خدیجہ رضیَ اللہُ عنہا کا اِنتقال ہوگیا تو حضرتِ خولہ بنتِ حکیم نے بارگاہِ رِسالت میں عَرض کی: یَا رَسُوْلَ اﷲ صلَّی اللہُ علیہِ وَاٰلہٖ وسلَّم! آپ سودہ بنتِ زمعہ سے نکاح فرما لیں۔ آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ خولہ رضیَ اللہُ عنہا کے اِس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرما لیا چنانچہ حضرتِ خولہ رضیَ اللہُ عنہا نے پہلے حضرتِ سودہ رضیَ اللہُ عنہا سے بات کی تو اُنہوں نے رِضا مندی ظاہر کی، پھر آپ کے والد سے بات کی تو اُنہوں نے بھی خوشی سے اجازت دے دی، یوں اعلانِ نبوت کے دسویں سال میں یہ بابرکت نکاح منعقد ہوا۔(سیر اعلام النبلاء،3/513)

پردہ کا اہتمام: آپ پردے کا اتنا اہتمام کرتی تھیں کہ بِلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا بھی پسند نہ فرماتیں چنانچہ آپ نے جب فرض حج ادا فرما لیا تو کہا: میرے ربّ نے مُجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے، لہٰذا خدا کی قسم! اب موت آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی، راوی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! آپ گھر سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔(در منثور، 6/599)

سخاوت: ایک مَرتبہ حضرتِ سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں درہموں سے بھرا ہوا ایک تھیلا حضرت بی بی سودہ رضیَ اللہُ عنہا کے پاس بھیج دیا آپ نے اُسی وَقت اُن تمام درہموں کو مدینۂ مُنوَّرہ زادھَا اللہ شَرفاً وَّتَعظِیماً کے فقراء و مساکین کے درمیان تقسیم کردیا۔ (طبقات الکبری،8/45 ملخصاً)

وِصال:ایک قول کے مطابق آپ رضیَ اللہُ عنہا کا وِصال ماہ ِشوّالُ المکرّم 54ہجری کو حضرتِ امیر مُعاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوا۔(فیضانِ اُمَّہات المومنین،ص66) آپ رضیَ اللہُ عنہا کی قبر مُبارک جنت البقیع شریف میں ہے۔

آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کی سیرت کے متعلق مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”فیضانِ امہات المؤمنین“ پڑھئے۔


سَر زمینِ عرب پر غزوۂ اُحد کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ حضرتِ سیّدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے دورِ حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سورہے ہیں۔(سبل الہدی، 4/252۔ کتاب المغازی للواقدی، 1/267۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 3/291) اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سےتازہ خون بہہ نکلا۔(طبقات ابن سعد،3/7) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ شہید کوئی اور نہیں رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے معزز چچا اور رضاعی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھے۔ (طبقات ابن سعد، 1/87۔ الاستیعاب، 1/425) پیدائش و کنیت:راجح قول کے مطابق آپ رضیَ اللہُ عنہ کی ولادت نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔(اسد الغابہ،2/66) آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو عمّارہ ہے۔(معجمِ کبیر، 3/137)حلیہ و مشاغل:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بہت حسین و جمیل تھے، خوبصور ت پیشانی، درمیانہ قد، چھریرا (دبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔ شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔(تذکرہ سیدنا امیر حمزہ، ص17ملخصاً) قبولِ اسلام: ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے اورابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔(معجمِ کبیر،3/140،حدیث:2926) گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(مستدرک،4/196، حدیث: 4930)بارگاہِ رسالت میں مقام و مرتبہ:پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ عنہ سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ، 2/21، رقم: 1839) حکایت محبّت کے اظہار کے انداز جداگانہ ہوتے ہیں ایک نرالہ انداز ملاحظہ کیجئے: ایک جاں نثار صحابی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی: میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا نام رکھوں؟ تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔(معرفۃ الصحابۃ، 2/21،رقم:1837)زیارتِ جبریل کی خواہش ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیہِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔(الطبقات الکبریٰ،3/8) کارنامے: رمضانُ المبارک1ہجری میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے سنبھالا۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے ”سرِیّہ حمزہ“ کے نام سےجانا جاتا ہے۔(طبقات ابن سعد، 3/6) 2ہجری میں حق و باطل کاپہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اورمشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے سر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامےاسلام کے دشمنوں کو جہنَّم واصِل کرتے اور فرماتے جاتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔(معجمِ کبیر،3/149،150،رقم:2953-2957)شہادت:15 شوّالُ المکرم 3ہجری غزوۂ اُحد میں آپ رضیَ اللہُ عنہ نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفار کو جہنّم واصِل کرکے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ (معرفۃ الصحابۃ، 2/17)دشمنوں نے نہایت بےدردی کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ عنہ کے ناک اور کان جسم سے جدا کرکے پیٹ مبارک اور سینۂ اقدس چاک کردیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوگئے: آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔(دارِقطنی، 5/207، حدیث: 4209،معجمِ کبیر،3/143،حدیث:2937)پریشانی دور کرنے والے: سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!(شرح الزرقانی علی المواہب ، 4/470)نمازِ جنازہ و مدفن : شہدائے احدمیں سب سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ منفرد ہیں اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے۔ (الطبقات الکبری، 3/7۔سنن کبریٰ للبیہقی، 4/18،حدیث:6804) جبلِ اُحد کے دامَن میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے۔