اسلام اپنے ماننے والوں کو کَسْبِ حلال کی ترغیب دیتا اور
رزقِ حلال کے لئے ان کی جِدّو جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بزرگانِ دین نے بھی کوئی نہ کوئی حلال ذریعۂ روزگار اپنایا،
ان ہی بزرگوں میں سے ایک خلیفۂ دُوُم، امیرُالمؤمنین
حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
ذریعۂ مَعاش: آپ کی آمدنی کے ذرائع میں
زمینیں بَٹائی پر دینے (یعنی مزارعت)([1]) کا ذِکر بھی ملتا ہے، چنانچہ
بخاری شریف میں ہےکہ آپ نے لوگوں سے اس بات پر مزارعت (یعنی زمین بٹائی پر دینے) کا معاملہ طے کیاکہ اگر
آپ اپنی طرف سے بیج لائیں تو آپ کیلئے نصف پیداوار ہوگی اور اگر وہ بیج لائیں تو
ان کیلئے اتنی اتنی پیداوار ہوگی۔(بخاری، 2/87، حدیث:2327)
نیزآپ کا ایک ذریعۂ معاش چمڑے کا کام بھی تھا،چنانچہ فقہِ
حنفی کی کتاب ”اختیار شرح مختار“ میں ہے:عُمَرُ يَعْمَلُ فِي الْاَدِيْم یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ چمڑے کا کام کیا کرتے
تھے۔ (الاختیار
لتعلیل المختار، جز4، 2/182) نیز بچپن میں اپنے والد کے اونٹ چَرایا کرتے تھے اور جب
کچھ بڑے ہوئے تو والد کے اونٹوں کے ساتھ ساتھ قبیلۂ بنی مخزوم کے اونٹ بھی چَرایا
کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب اپنے اونٹوں کی چراگاہ کے مقام سے گزرے تو فرمایا:میں اسی وادی میں اپنے باپ کے اونٹ چَرایا کرتا تھا۔(الاستیعاب، 3/243،فیضانِ
فاروقِ اعظم،1/66)
فاروقِ اعظم کے تجارتی سفر: آپ
کے تجارتی اَسفار کا ذِکر معتبر کتبِ سِیَر
و تاریخ میں نہ ہونے کے برابر ہے، علّامہ بَلاذُری نے ”اَنْسَابُ الْاَشْرَاف“ میں ملکِ
شام کی طرف جانے والے آپ کے فقط ایک تجارتی قافلے کا
ذکر کیا ہے۔(انساب
الاشراف،10/315)
کَسْب کی ترغیب پر مشتمل فرامینِ
فاروقِ اعظم: ⧭ہُنر سیکھو کیونکہ
عنقریب تم کو ہُنر کی ضَرورت پیش آئے گی۔ (موسوعۃ ابن ابی
الدنیا،اصلاح المال،7/473) ⧭ایسا ذریعۂ مَعاش جس میں قدرے گھٹیا پَن ہو وہ لوگوں سے
سوال کرنے سے بہتر ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، اصلاح المال،7/475) ⧭اگر یہ بیوع (خرید و
فروخت) نہ ہوں تو تم لوگوں کے محتاج ہوجاؤ۔(مصنف ابن
ابی شیبہ، 5/258، رقم:2) ⧭اے گروہِ قُرّاء!
اپنے سر اونچے رکھو، راستہ واضح ہے، بھلائی کے کاموں میں سبقت کرو اور مسلمانوں کے
محتاج ہو کر ان پر بوجھ نہ بنو۔(التبيان فی اٰداب حملۃ القراٰن، ص54) ⧭تم میں سے کوئی رِزق کی تلاش چھوڑکریہ نہ کہتا پھرے کہ ”اے اللہ! مجھے رِزق
عطا فرما۔“ کیونکہ تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونے چاندی کی بارِش نہیں ہوتی۔(احیاء
العلوم، 2/80) ⧭مجھے
کوئی نوجوان پسند آتا ہے تو میں پوچھتا ہوں:یہ کوئی کام کرتا ہے؟اگر لوگوں کی طرف
سے جواب ملتا کہ ”نہیں“ تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے۔(المجالسۃ و
جواہر العلم، 3/113، رقم: 3028) ⧭جو شخص کسی
چیز کی تین مرتبہ تجارت کرے پھر بھی اسے
نفع نہ ہوتو اسے کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجانا چاہئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 5/393، رقم:1)
اللہ پاک ہمیں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حلال روزی کمانے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
از قلم مفتی علی اصغر
8 ذو الحجہ 1441 شب بمطابق پاکستان
29
جولائی 2020 بروز بدھ
مناسک حج کا آغاز ہو چکا ہے اور آج حجاج کرام منی
میں رات گزاریں گے اور کل عرفات روانہ ہوکر حج کا رکن اعظم یعنی وقوف عرفات ادا کریں خوش نصیب حاجیوں نے اس انداز پر آج طواف کیاجو
تصویر میں موجود ہے
میں سوچ رہا ہوں کہ کرونا کے باعث لاکھوں لاکھ لوگ جو اس سال حج کی سعادت سے
محروم رہے اس کا دکھ اپنی جگہ لیکن حج تو ہو رہا ہے، دین اسلام کے ایک
رکن کی ادائیگی تو ہو رہی ہے
جو نا جا سکے عذر اپنی جگہ پر لیکن خالی خالی
مطاف دیکھ کر صفا و مروہ پر وہ کندھے سے
کندھا چھلنے کا نظارہ نا پا کر
منی کی
غیر آباد گلیاں دیکھ کر
عرفات میں وہ دعا و گریہ کرنے والوں کا ہجوم نا
پا کر
وہ جبل
رحمت کے گرد لباس احرام کی چاندی کے نہ ہوتے ہوئے
مسجد
نمرہ کے کشادہ راستوں کی بھیڑ نظر نا آنے پر
پھر میدان مزدلفہ تو 10 کی شب پورا سفید ہی سفید
ہوتا تھا احرام کی چاندنی چاند کے ساتھ مل کر اسے بقعہ نور بنا دیا کرتی تھی لیکن اب تو وہ میدان بھی خالی ہوگا
رمی کرنے والوں کا وہ رش میں جا کر فریضہ ادا
کرنے کا ولولہ اب آنکھوں کے سامنے نہ ہوگا
یہ سب احساسات اپنی جگہ پر
لیکن نا تو میدان عرفات پر رحمت خداوندی میں کوئی
کمی آنی ہے
اور نہ ہی وقت فجر میدان مزدلفہ پر نازل ہونے
والی سعادتوں میں کچھ قلت واقع ہونی ہے بلکہ واسع و کریم رب کی رحمتیں اس سال بھی
مشاعر مقدسہ کو گھیرے ہوں گی
رمی
اور طواف کرنے والوں کے لئے انوار و برکات میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی
رش نہیں ہے تو کیا ہوا؟
اپنی توجہ میں،
یادوں میں
اور دل
کے میلان میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے
کہ کہیں
ایسا تو نہیں کہ رش اور بھیڑ ہماری توجہ کا مرکز ہوتا ہے نا کہ اصل افعال کی ادائیگی
اور روحانی اہمیت
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رش اور بھیڑ
مشاعر مقدسہ کی رونق ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں یوں بھی زیادہ متوجہ کرتی ہیں کہ کسی
کا جاننے والا،
محلے دار،
شہر کا آدمی جب گیا ہوتا ہے تو اس کے خیال سے بھی
فطری طور پر ایک خیال آتا ہے کہ فلاں اب یہاں ہوگا اور اب یہاں.
یہ محرک اس سال نہ ہونے کے برابر ہے
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کعبے کی رونق و رعنائی
ہو یا مسجد نبوی کی تابانیاں یہ سب ظاہری حسن کی محتاج نہیں
ھیبیت والی اور خوبصورت بلڈنگ، روشنیاں بھیڑ، رش ظاہری طور پر نظر آنے والی خوبصورتیاں
ہیں اور اللہ تعالی ان میں مزید اضافہ کرے
اصل چیز تو یہاں پر اللہ تعالی کی نازل ہونے والی
رحمت ہے
ان مقامات
کی دینی اہمیت ہے
یہ مقامات نزول ملائکہ کی جگہیں ہیں
یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں
یہاں پہنچنے والے کو مغفرت کی بشارتیں سنائیں گئی
ہیں
یہاں اعمال کا ثواب بڑھ جاتا ہے
یہاں پہنچ کر بندہ جو روحانیت اور سرور اور لذت
محسوس کرتا ہے وہ لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ہے
یہاں سے پلٹنے والا اپنے اپنے نصیب کے مطابق
جھولیاں بھر کر جاتا ہے.
کوئی مغفرت
کوئی برکات،
کوئی اصلاح اعمال
کوئی بھلی تقدیر
اور نہ جانے
کیا کچھ لے کر لوگ واپس پلٹتے ہیں
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف جسم پلٹتے ہیں دل و
جان اور روح تو وہیں رہ جاتی ہے
بقول بہزاد لکھنوی
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام
وہ صلاۃِ سکوں آفریں رہ گئی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی
جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی
جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر
وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی
پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب
جب ہوئے ہم رواں سوئے کوئے حبیب
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دل و جاں وہ روح و نظر
یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا
ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر
یہ تمنائے قلبِ حزیں رہ گئی
اللہ تعالی ان لوگوں کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے جو اسے پیارے ہیں
اللہ تعالی ان سب مسلمانوں کو حرمین طبین کی حاضری اور حج مقبول کی سعادت بخشے جو آنا چاہتے ہیں پر بلاوے کے منتظر ہیں۔
اُمُّ المومنین حضرتِ سیّدَتُنا سَودہ
بنتِ زَمْعہ رضیَ
اللہُ عنہا اُن
ازواجِ مطہرات میں سے ہیں جن کا تعلق خاندانِ قریش سے ہے، آپ کے والد کا نام ”زَمعَہ“
اور والدہ کا نام ”شَموس بنتِ عَمرو“ ہے، آپ پہلے اپنے چچا زاد ”سَکران بن عَمرو“ کے
نکاح میں تھیں، اِسلام کی ابتدا ہی میں یہ دونوں میاں
بیوی مسلمان ہوگئے تھے، ایک قول کے مُطابق ہجرتِ
حبشہ سے واپسی پر مکۂ مُکَرَّمہ زادھَا اللہ شَرفاً وَّ تَعظِیماً
میں حضرتِ
سودہ رضیَ اللہُ عنہَا کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ (المواہب اللدنیہ، 1/405)
حضرتِ
سیّدَتُنا سودہ بنتِ زَمعہ رضیَ اللہُ عنہا بہت ہی دِین دار، سلیقہ
شعار اور بے حد خدمت گزار خاتون تھیں، آپ حُضُور علیہِ الصَّلٰوۃ
وَالسَّلام کے اَحکامات پر خوب عمل پیرا ہوتی تھیں۔(زرقانی علی المواھب، 4/380۔
377 ملخصاً)
قابلِ رَشک خاتون: آپ دراز
قد جبکہ حسن و جمال اور سیرت میں منفرد
تھیں۔(جنتی زیور،ص482) اُمُّ المُومنین حضرت سیّدَتُنا
عائشہ صِدِّیقہ
رضیَ اللہُ عنہا آپ کے اَوصافِ حَسَنہ (یعنی
اچھی خوبیوں) کو دیکھ کر
آپ پر بہت زیادہ رشک فرمایا کرتی تھیں۔(زرقانی علی المواھب ، 4/380 ملخصاً)
حُضُور سے نکاح: جب
حضرتِ سیّدَتُنا خدیجہ رضیَ اللہُ عنہا کا اِنتقال ہوگیا تو حضرتِ خولہ بنتِ حکیم نے بارگاہِ
رِسالت میں عَرض
کی: یَا رَسُوْلَ اﷲ صلَّی اللہُ علیہِ وَاٰلہٖ وسلَّم! آپ سودہ
بنتِ زمعہ سے نکاح فرما لیں۔ آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ خولہ رضیَ اللہُ عنہا کے اِس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرما لیا چنانچہ حضرتِ خولہ رضیَ اللہُ عنہا نے پہلے حضرتِ سودہ رضیَ اللہُ عنہا سے بات کی تو اُنہوں نے رِضا مندی ظاہر کی، پھر آپ کے والد سے بات کی تو اُنہوں نے بھی خوشی سے اجازت
دے دی، یوں اعلانِ نبوت کے دسویں سال میں یہ بابرکت نکاح منعقد ہوا۔(سیر اعلام النبلاء،3/513)
پردہ کا اہتمام: آپ پردے کا اتنا اہتمام کرتی تھیں
کہ بِلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا بھی پسند نہ فرماتیں چنانچہ آپ نے جب فرض
حج ادا فرما لیا تو کہا: میرے ربّ نے مُجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے، لہٰذا
خدا کی قسم! اب موت آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی، راوی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی قسم! آپ
گھر سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔(در منثور، 6/599)
سخاوت: ایک
مَرتبہ حضرتِ سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں درہموں سے بھرا ہوا ایک
تھیلا حضرت بی بی سودہ رضیَ اللہُ عنہا کے پاس بھیج دیا آپ نے اُسی وَقت اُن تمام درہموں کو مدینۂ مُنوَّرہ زادھَا
اللہ شَرفاً وَّتَعظِیماً کے فقراء و مساکین کے درمیان تقسیم کردیا۔ (طبقات الکبری،8/45 ملخصاً)
وِصال:ایک
قول کے مطابق آپ رضیَ
اللہُ عنہا کا وِصال ماہ ِشوّالُ
المکرّم 54ہجری کو حضرتِ امیر مُعاویہ رضیَ
اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوا۔(فیضانِ اُمَّہات المومنین،ص66) آپ رضیَ اللہُ
عنہا کی قبر مُبارک جنت البقیع
شریف میں ہے۔
آپ رَضِیَ
اللہُ عَنْہا کی سیرت کے متعلق مزید
جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”فیضانِ امہات
المؤمنین“ پڑھئے۔
سَر زمینِ عرب پر غزوۂ اُحد
کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ حضرتِ سیّدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے دورِ
حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک
نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے
لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے
اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر
بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سورہے ہیں۔(سبل الہدی، 4/252۔ کتاب
المغازی للواقدی، 1/267۔ دلائل النبوۃ للبیہقی،
3/291) اس
دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سےتازہ خون بہہ
نکلا۔(طبقات ابن سعد،3/7) میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو! یہ شہید کوئی اور نہیں رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی
علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے معزز چچا اور رضاعی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء
حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھے۔
(طبقات ابن سعد، 1/87۔ الاستیعاب، 1/425) پیدائش و کنیت:راجح قول کے مطابق آپ رضیَ اللہُ عنہ کی ولادت نبیِّ
اکرم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔(اسد الغابہ،2/66)
آپرضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو عمّارہ ہے۔(معجمِ کبیر، 3/137)حلیہ و مشاغل:آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ بہت حسین و
جمیل تھے،
خوبصور ت پیشانی، درمیانہ قد، چھریرا (دبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔ شعر و
شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت
کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔(تذکرہ سیدنا امیر حمزہ، ص17ملخصاً) قبولِ اسلام: ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ
واٰلہٖ وسلَّم)
کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ
سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے
اورابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر
فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے
ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔(معجمِ کبیر،3/140،حدیث:2926) گھر لوٹے
تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا
دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں
گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت
ِعالم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت
ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ
کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(مستدرک،4/196، حدیث: 4930)بارگاہِ رسالت میں مقام و مرتبہ:پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ عنہ سے
بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ، 2/21، رقم: 1839) حکایت محبّت کے اظہار کے انداز
جداگانہ ہوتے ہیں ایک نرالہ انداز ملاحظہ کیجئے:
ایک جاں نثار صحابی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے
بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی: میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا
نام رکھوں؟ تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ علیہِ
واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے
چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔(معرفۃ الصحابۃ،
2/21،رقم:1837)زیارتِ جبریل کی خواہش ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ
جبریل علیہِ
السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ
دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا:
زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل
امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو
سرورِ عالم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے
جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں،
بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔(الطبقات الکبریٰ،3/8) کارنامے: رمضانُ المبارک1ہجری میں 30 سواروں کی قیادت
کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے
سنبھالا۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے ”سرِیّہ حمزہ“ کے نام سےجانا
جاتا ہے۔(طبقات
ابن سعد، 3/6) 2ہجری میں حق و باطل کاپہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ
شریک ہوئے اورمشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے سر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ
دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامےاسلام کے دشمنوں کو جہنَّم واصِل کرتے اور فرماتے
جاتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔(معجمِ کبیر،3/149،150،رقم:2953-2957)شہادت:15 شوّالُ المکرم 3ہجری غزوۂ اُحد میں آپ رضیَ اللہُ عنہ نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفار کو جہنّم واصِل
کرکے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ (معرفۃ الصحابۃ، 2/17)دشمنوں
نے نہایت بےدردی کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ عنہ کے ناک اور
کان جسم سے جدا کرکے پیٹ مبارک اور سینۂ اقدس چاک کردیا تھا اس جگر خراش اور دل
آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ علیہِ
واٰلہٖ وسلَّم کا
دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوگئے: آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو کہ آپ قرابت
داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔(دارِقطنی، 5/207،
حدیث: 4209،معجمِ کبیر،3/143،حدیث:2937)پریشانی دور
کرنے والے: سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ
وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر!
اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں
کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے
والے!(شرح الزرقانی علی المواہب ، 4/470)نمازِ جنازہ و مدفن : شہدائے احدمیں سب سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے
ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک
ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ منفرد
ہیں اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے۔ (الطبقات الکبری، 3/7۔سنن کبریٰ للبیہقی، 4/18،حدیث:6804) جبلِ
اُحد کے دامَن میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے۔
بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں علمائے کرام موجود ہیں، دنیا کی
مَشِینوں کی اِیجاد(Invention) کا تذکرہ ہو رہا ہے، اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا: بِفَضْلہٖ تعالیٰ
بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فقیر کو ایسی مشین عطا ہوئی جس میں کسی بھی
علم کا سوال کسی زبان میں ڈال دیجئے چند منٹ کے بعد اس کا صحیح جواب حاصل کرلیجئے۔(خلیفۂ اعلیٰ حضرت) مولانا ہدایت رسول صاحب
نے عرض کی: حضور! وہ مشین مجھے بھی دکھایئے، فرمایا: پھرکبھی دیکھ لیجئے گا۔ لیکن انہوں نے
اِصْرار کیا تو اعلیٰ حضرت نے اپنے کُرتے کے بٹن کھول کر سینۂ انور کی زیارت
کروائی اور فرمایا: یہ ہے وہ مشین جس کا فقیر نے کہا۔ شاہ ہدایت رسول صاحب آپ کے
سینۂ پُرنور کو چومتے اور کہتے جاتے: صَدَقْتَ یَاوَارِثَ عُلُوْمِ رَسُوْلِ اللہِ وَیَانَائِبَ رَسُوْلِ اللہِ یعنی اے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے علوم کے
وارث اور اُن کے نائب ! آپ نے سچ کہا۔(تجلیاتِ امام احمد رضا،ص78 ملخصاً)
20ویں صدی کی عَبْقَری شخصیت، زبردست مُفَکِّرِ اسلام (Great Islamic Thinker) اور سائنسی علوم کے ماہر امام
احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کا یہ فرمانا کہ ”کسی بھی علم کا سوال ،جس زبان میں ہوچند منٹ میں صحیح جواب مل
جائے گا“ یقیناً آپ پرفضلِ خدا اور عنایتِ مصطفےٰ ہے اور یہ مُبالَغہ یا محض
زبانی دعویٰ نہیں بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جس کی دلیل آپ کی لکھی ہوئی تحقیقی ایک
ہزار کتب ہیں جن میں صرف علم ِحدیث میں 240 کتابیں، علمِ فقہ میں 90سے زائد اور سائنسی علوم
میں 100سے زیادہ کتب ہیں اور سائنسی علوم پر اس قدر کتابیں آپ کے عظیم سائنسدان ہونے
کا واضح اور منہ بولتا ثبوت ہیں، زیرِ نظر مضمون میں اسی حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا
جارہا ہے۔
چودہویں صدی عیسوی کے بعد والے زمانے کو عہدِجدید (Modern age) سے تعبیر کیا جاتا ہے،
مغربی دنیا اِسی دور میں علم وفن سے آشنا ہوئی جبکہ مسلمان سائنسدان اس سے کئی
صدیاں پہلے ہر طرح کے علوم سے نہ صرف آراستہ تھے بلکہ کائنات(Universe) کے بہت سے سَر
بستہ راز کھول چکے تھے، خیر وقت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سائنٹسٹ پیدا ہوئے اور ایک
آدھ نظریہ (Theory) یا کسی ایجاد کا سہرا اپنے سر سجاتے رہے پھر ربِِّ کریم نے
مسلمانوں میں امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کو پیدا فرمایا جن کی پرورش خالص دینی ماحول میں ہوئی اور آپ نے دین ہی کو
اپنا نصبُ العین بنایا مگر آپ اسلامیات کی جملہ شاخوں پر عُبُور کے ساتھ ساتھ
حیاتیات (Biology)، حیوانیات (Zoology)، نباتات (Botany) ، جغرافیہ (Geography)، طبقات الارض (Geology)، ہیئت (Astronomy)، ارثماطیقی (Arithmetic)، شماریات (Statistics)، ریاضی (Mathematics)، لوگارتھم (Logarithm)، اُقْلِیْدَس (Geometry)، طبیعیات (Physics)، کیمیا (Chemistry)، صوتیات (Acoustics)، اشعیات (Radiology)، مناظرومَرایا (Optics)، توقیت، موسمیات (Metrology)، موجودات (Natural Science) وغیرہ سائنسی علوم پر
بھی کامل دَسْتْرَس رکھتے تھے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی سائنسی تحقیقات سے پہلے آپ کا
سائنس کے متعلق نظریہ پڑھ لیجئے، چنانچہ زمین ساکن ہونے کے متعلق اپنے رسالے ”نُزُوْلِ آیَاتِ فُرْقَان
بَسُکُوْنِ زَمِیْن و آسْمَان“ میں فرماتے ہیں:سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نُصُوص میں
تاویلات دُوراَزکار (یعنی بے سروپا اور لاتعلق تاویلات) کرکے سائنس کے مطابق کرلیا جائے۔ یوں تو مَعَاذَ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام۔ وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ
جتنے اسلامی مسائل سے اُسے خلاف ہے سب میں مسئلۂ اسلامی کو روشن کیا جائے دلائلِ
سائنس کو مَرْدُود و پامال کردیا جائے جا بجا سائنس ہی کے اقوال سے اسلامی مسئلہ
کا اِثْبات ہو، سائنس کا اِبْطال و اِسْکات ہو، یوں قابو میں آئے گی۔(فتاویٰ رضویہ،27/227)
اب آتے ہیں اُن تحقیقات کی جانب جن میں اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے ایک طرف اسلامی نظریہ اور احکامِ شریعت کی توضیح وتشریح فرمائی
اور دوسری طرف قوانینِ سائنس کا تَجْزِیَہ فرمایا۔ موافقِ اسلام قوانین کو
تَوْثِیْق و تائید کے طور پر لیا اور خلافِ
اسلام سائنسی نظریات کا قراٰن و سنّت کے ساتھ ساتھ خود سائنسی قواعد و
ضوابط کے ذریعے ردّ و اِبْطال فرمایا اور دورِ جدید کے بعض سائنسی اَفکارکوعَقْلی
و نَقْلی دلائل و بَراہِیْن کی روشنی میں باطل قرار دیا چنانچہ
1338ہجری میں حرکتِ زمین کے متعلق عقلی و سائنسی دلائل پر
مشتمل کتاب ”فَوْزِ
مُبِیْن دَرْ رَدِّ حَرَکَتِ زَمِیْن“ تحریر
فرمائی جو ایک مقدمہ، چار فصلوں اور ایک خاتِمہ پر مُحِیْط ہے، اس میں زمین کے
ساکن ہونے پر 105دلیلیں قائم کیں، خود فرماتے ہیں: فصلِ اوّل
میں نافریت پر بحث اور اُس سے اِبْطالِ حرکتِ زمین پر بارہ دلیلیں۔ فصلِ
دوم میں جاذبیت پر کلام اور ا س سے بُطْلانِ حرکتِ زمین پر پچاس دلیلیں۔
فصلِ سوم میں خود حرکتِ زمین کے اِبْطال پر اور تینتالیس دلیلیں۔ یہ بحمدہٖ
تعالیٰ بُطْلانِ حرکتِ زمین پر ایک سو پانچ دلیلیں ہوئیں جن میں پندرہ اگلی
کتابوں کی ہیں جن کی ہم نے اِصلاح و تصحیح کی اور پورے نوّے دلائل نہایت روشن و
کامل بِفَضْلِہٖ تعالیٰ خاص ہمارے ایجاد
ہیں۔ فصلِ چہارم میں ان شبہات کا رد جو ہیأتِ جدیدہ اثِبْاتِ حرکتِ زمین میں
پیش کرتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،27/245)
آپ کی سائنسی
تحقیقات پر کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو 139صفحات
پر پھیلی یہی ایک کتاب آپ کے عظیم سائنسدان (Great
Scientist) ہونے کی کافی و وَافی دلیل تھی۔ سائنس کا کوئی پروفیسر جب یہ کتاب دیکھے گا تو امامِ اہلِ سنّت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی سائنسی تحقیقات اور علومِ جدید میں گہرائی و گِیْرائی پر رَشْک کرے گا اور سائنس کا اسٹوڈنٹ اسے پڑھے گا توحیران و شَشْدَر رہ جائے
گا کہ چٹائی پر بیٹھ کر لوگوں کی شرعی راہنمائی کرنے والی یہ بزرگ ہستی
قدیم و جدید تمام سائنسی علوم و فنون میں بھی کامل مہارت رکھتی تھی۔ انگریزی میں
اس کتاب کا ترجمہ:”A fair
success refuting motion of Earth “ کے نام سے ہوچکا ہے۔
اکتوبر 1919عیسوی میں ایک امریکی سائنٹسٹ البرٹ ایف۔ پورٹا
نے پیشین گوئی کی کہ ”بعض سیاروں کے اجتماع سے 17دسمبر کو طوفان، بجلیاں، سخت بارش
اور بڑے زلزلے ہوں گے۔“ جب یہ ہولناک پیشین
گوئی اعلیٰ حضرت کے سامنے پہنچی تو آپ نے اس کی تَرْدِیْد میں ایک رسالہ بَنام
”مُعِیْنِ مُبِیْن بَہْرِ
دَوْرِ شَمْس و سُکُوْنِ زَمِیْن“ لکھا جس میں 17دلیلوں سے
اس پیشین گوئی کا رد فرمایا جس میں 16دلائل جدید سائنس سے دئیے ہیں۔ آخر میں
فرماتے ہیں: بیانِ مُنْجِم (امریکی سائنٹسٹ) پر اور مُواخَذَات بھی ہیں مگر 17دسمبر کے لئے 17پر ہی اِکْتِفا
کریں۔(فتاویٰ
رضویہ،27/242 ملخصاً)
علمِ ارضیات (Geology)
کی ایک شاخ علمِ اَحْجَار (Petrology) بھی ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جیولوجیGeology)) کی دیگر اَصْناف کی طرح
علمُ الاَحْجَار پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ سے تیمم کے متعلق مسئلہ دریافت کیا
گیا کہ کس شَے سے تیمم جائز ہے اور کس سے نہیں؟ چونکہ اس کا تعلق مٹی سے ہے اور
مٹی کا تعلق علمِ ارضیات (Geology) سے ہے۔ جب آپ نے اس حوالے سے قلم اُٹھایا تو تحقیق کے دریا بہا دئیے۔
چنانچہ مٹی اور پتھر کی جن اقسام سے تیمم جائز ہے اگلے فقہائے کرام کی سینکڑوں کُتُب میں ان
کی اقسام کی کل تعداد 84تک پہنچتی ہے اور یہ ہزاروں علما کی صَدْہا سالوں کی محنت
کا نتیجہ ہے مگر اِمامُ الفُقَہاء اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی علمُ الاَحْجار میں
مہارت دیکھئے کہ آپ نے تحقیق سے اس تعداد پر 107 اَقسام کا اضافہ کردیا۔ یوں ہی
جن اقسام سے تیمم ناجائز ہے فقہائے اُمت کی تحقیقات سے اُن کی تعداد 58 تک پہنچتی
ہے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان اقسام پر 72
قسموں کا اضافہ فرما دیا۔ تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ جلد 3 میں شامل کتاب”اَلْمَطْرُالسَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ
جِنْسِ الصَّعِیْد“ کا مطالعہ فرمائیے۔
پانی کے رنگ کے متعلق سائنسدانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے،
کسی نے کہا: پانی کا کوئی رنگ نہیں۔ کسی نے پانی کو سفید کہا تو کسی نے اس کا رنگ
سیاہ قرار دیا مگر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان تینوں آراء کا عَقْلی
ونَقْلی دلائل سے رَد کرتے ہوئے شرعی اور سائنسی دلائل سے پانی کے رنگ کو ”ہلکا
سیاہی مائل“ ثابت کیا۔(فتاویٰ رضویہ ،3/235تا245 ملخصاً)
طبیعیات (Physics) کے موضوع ”Acoustics “ اور نظریۂ تَمَوُّج (Wave Theory) یعنی ماڈرن کمیونیکیشن سسٹم کی بات کی
جائے تو اس پراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کتاب ”اَلْکَشْفُ شَافِیَاحُکْمُ
فَوْنُوْ جِرَافِیَا“ علمِ صوتیات
کے ماہرین کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ ایٹم کے اِنْشِقاق(Nuclear Fission )کی بات ہو توآپ نے اپنی کتاب ”اَلْکَلِمَۃُ
الْمُلْہَمَۃ فیِ الْحِکْمَۃِ الْمُحْکَمَۃ“ میں بڑی تفصیلی بحث فرمائی ہے۔ میڈیکل سائنس (Medical
Science) کے تعلق سے نظر دوڑائیں تو آپ کی کتب، رسائل اور فتاویٰ
میں جابجا طبّی اصطلاحات، طبّی اصول وقوانین اور بیش بہا طبّی معلومات ملتی ہیں
بالخصوص آپ کا رسالہ ”تَیْسِیْرُالْمَاعُوْن
لِلسَّکْنِ فِی الطَّاعُوْن“ جو بظاہر مرضِ طاعون کے بارے میں شرعی احکام پر مبنی ہے مگر مطالَعَہ کرنے
والوں پر واضح کردیتا ہے کہ آپ میڈیکل سائنس کے بھی ایکسپرٹ ہیں اور آپ ہی وہ
پہلے مسلمان سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے 1896عیسوی میں اپنی کتاب ”اَلصَّمْصَام عَلَی مُشَکِّکٍ فِیْٓ اٰیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَام“ میں الٹرا ساؤنڈ
مشین کا فارمولا بیان فرمایا
ہے۔علمِ فلکیات (Astronomy) میں آپ کو اس قدر مہارت تھی کہ رات میں تارے دیکھ
کر اور دن کو سورج دیکھ کر گھڑی مِلالیا کرتے تھے۔
الغرض تحقیقِ مرجان (Coral) ہو یا تحقیقِ اہرامِ مِصْر یا پھر زلزلہ(Earthquake) کی تحقیق،
نظریۂ مَد و جَزْر (High tides/ Low tides and) ہو یا نظریۂ کششِ ثِقْل، الجبرا و
ریاضی کی گُتِّھیاں ہوں یا سائنس کے دیگر جدید و قدیم مسائل، ہمیں کتبِ اعلیٰ حضرت میں جگہ جگہ
ان کے متعلق تحقیقات نظر آتی ہیں کیونکہ
احکام کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے آپ متعلقہ مسئلے کی تحقیق نہ صرف قراٰن وسنّت
اور عباراتِ فُقَہا سے فرماتے بلکہ اُسے دُنیاوی وسائنسی علوم نیز مُشاہَدات و
تَجْربات کی روشنی میں بھی پَرَکْھتے تھے۔ مگر یاد رہے کہ آپ نے اپنے سائنسی
اَفْکار اور تحقیقات کی بنیاد قراٰن وسنّت پر رکھی ہے کیونکہ آپ کانظریہ و عقیدہ
یہ ہے کہ ”سائنس کو قرآن و سنّت کی روشنی میں پَرْکَھا جائے نہ کہ قرآن وسنّت
کو سائنس کی روشنی میں جانچا جائے۔“
خاص بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سائنسی علوم پر تحقیقات کرتے وقت اِبتدا، انتہا یا جہاں
مناسب سمجھتے ہیں مطالعہ کرنے والوں کو یہ عقیدہ ضرور سمجھاتے ہیں کہ سائنسی
قوانین اپنی جگہ مگر اَصْل قدرت و طاقت اللہ پاک کی ہے، وہ
ہی سب پر غالِب اور سب کا خالق و مالک ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر پانی کے رنگ کی
تحقیق کرتے ہوئے قدرتِ باری تعالیٰ پر اپنے ایمان ویقین کا اِظہار ان لفظوں سے
فرماتے ہیں: مذکورہ بالا دلیل فَلاسِفَہ کے مذہب کے مطابق ہے
اگر مان لیں تو فَبِہَا وگَرنہ ہماری ایمانی دلیل یہ ہے کہ نگاہیں اور تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارادے کے تابع
ہیں۔ اگر وہ چاہے تو ایک اندھا تاریک رات میں سیاہ چیونٹی کی آنکھ کو دیکھ سکتا ہے
اور اگر وہ نہ چاہے تو دن کی روشنی میں فلک بوس پہاڑ سے نِیلگوں آسمان کو بھی نہیں
دیکھا جاسکتا چونکہ اس نے چاہا کہ اَجْزاء انفرادی طور پر نظر نہ آئیں اور جب وہ
مجتمع ہوجائیں تو نظر آنے لگیں لہٰذا جیسا اس نے چاہا ویسا ہی واقع ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ، 2/174)
اور آخری بات یہ کہ جہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے یہ دیکھا کہ کسی دنیاوی و سائنسی علم
کی وجہ سے بنیادی اسلامی عقیدے پر زَد پڑتی ہے، وہ علم خلافِ اسلام ہے، پڑھنے والے
کے ذہن میں لادینیت پیدا ہوجائے گی اورایمان مُتَزَلزَل ہوگا تو آپ نے
بِلاتَرَدُّد اِس کے خلاف حکمِ شریعت صادِر فرمایااور اُس کے پڑھنے سے مُمَانَعت
فرمائی۔تفصیل کے لئےفتاویٰ رضویہ، جلد23،صفحہ706 ملاحظہ فرمایئے۔ پیشِ نظر مضمون
میں امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ
رحمۃ الرَّحمٰن کے سائنسی
اَفْکارو تحقیقات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے جو صرف ایک جھلک ہے لہٰذا جسے آپ کے سائنسی علوم کا ٹھاٹھیں مارتا
سمندر دیکھنا ہو اور اِن علوم کی فلک بوس چوٹیوں کا نظارہ کرنا ہو وہ آپ کی سائنس اور جدید علوم پر مشتمل کتب
ورسائل کا مطالعہ کرے۔
اللہ کریم کی اُن
پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تعارف، آباءواَجداد: اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن 10 شوال،1272ھ مطابق 14جون 1856ء کو ہند کے
شہر بریلی میں پیدا ہوئے،آپ صاحبِ
ثروت دینی وعلمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ آپ کا نام محمد ہے، دادا نے اَحمد
رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے
مشہور ہوئے، آپ کے آباء و اَجداد (Ancestors) اَفغانستان کے صوبہ قندھار کے قبیلہ بڑہیچ کے پٹھان تھے، ہجرت کرکے مرکز الاولیاء لاہور آئے اور پھر دہلی چلے گئے، آپ کےوالد علّامہ
مفتی نقی علی خان قادری، دادا مولانا رضا علی
خان نقشبندی اور پیر و مرشد کا نام سیّد شاہ آلِ رسول مارہروی قادری رحمہم اللہ تھا جو علم،
مَعرِفت، تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔
بچپن: اعلیٰ حضرت کا بچپن پاکیزہ
اَخلاق، اِتباعِ سنت اورحُسنِ سیرت سے مُزَیَّن تھا، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی سے
حاصل کی، چار سال کی عمر میں ناظرہ قراٰنِ مجیدختم کر لیا، حافظہ ایسا مضبوط تھا کہ
ایک دو بارسبق دیکھ کر کتاب بند کر دیتے اور اُستاد کو لفظ بہ لفظ سنا دیتے، 6سال کی عمر میں میلادُ النبی کے موضوع پرایک بڑے
اجتماع میں بیان فرمایا،پانچوں نمازیں تکبیرِاُولیٰ
کے ساتھ مسجد میں باجماعت ادا فرماتے، نگاہیں جھکا کر چلتے، 7سالکی عمر سے رمضان کے روزے رکھنا شروع کردیئے۔
حصولِ علم: صرف 13 سال 10ماہ
کی عمر میں اپنے والد سے تمام علوم کی تکمیل کے بعد سندِ فراغت حاصل کی اور پہلا فتویٰ تحریر فرمایا، پھر آخر وقت تک
فتاویٰ تحریرفرماتے رہے۔کم و بیش 70 علوم میں
قلم اُٹھایا، قراٰن و حدیث سمیت ہر فنّ میں دَسْترَس حاصل تھی، علمِ توقیت
(Timings) میں تو اِس قدر کمال تھا
کہ دِن میں سورج اور رات میں ستارے دیکھ کر اِس طرح گھڑی ملالیتےکہ ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوتا، دِینی
علوم،قراٰن، تفسیر، حدیث، اُصولِ حدیث، فقہ، اُصولِ فقہ، تَصَوُّف وغیرہ کے ساتھ دُنیوی
علوم، علمِ ریاضی (Mathematics)، علمِ تکسیر، علمِ ہیئت (Astronomy)، علمِ جَفَر وغیرہ
میں بھی مہارت رکھتے تھے، پورا قراٰنِ مجید فقط ایک ماہ میں حفظ کرلیا تھا، آپ کی
حاضرجوابی سے لوگ حیران وشَشْدر رَہ جاتے، جوحوالہ بیان فرماتے بعینہٖ اسی کتاب اورصفحے پر ہوتا ایک لائن کا بھی فرق نہ ہوتا، ہزاروں
کتب اورلاکھوں مختلف علمی مسائل کا چلتا پھرتا ذَخیرہ تھے، اکثر تصنیف و تالیف میں
مصروف رہتے، ترجمۂ قراٰن کنزالایمان سمیت مختلف عنوانات پر اردو، عربی
اور فارسی زبان پرمشتمل کم و بیش 1000 کتابیں
لکھیں، ”فتاویٰ رضویہ“ جدید 30 جلدوں
میں آپ کی علمیت کا نہایت عظیم شاہکار ہے۔ آپ کے اساتذہ کی تعداد کم اور تلامذہ
کی تعداد کثیرہے۔
نکاح و اولاد: 19سال کی عمر میں نکاح فرمایا، کُل سات اولادیں ہوئیں، پانچ بیٹیاں اور دو
بیٹے شیخُ العلماء و حُجَّۃالاسلام مولانا حامد رضا خان،مفتیِ اعظم ہند مولانا مصطفےٰ رضا خان، پھراِن سے مزید اولاد کا سلسلہ چلا۔
حج و زیاراتِ مکہ و مدینہ: 2 بارحج کی سعادت حاصل کی، پہلی بار والدین کے ساتھ گئے
اور بڑے بڑے علمائے مکہ و مدینہ سے حدیث، فقہ، اُصولِ تفسیرو دیگرعلوم کی سَنَدیں حاصل کیں، دوسری بار دیگر گھر والوں
کے ساتھ گئے اور کِبار علمائے مکہ و مدینہ نے آپ سے سندیں و خِلافَتیں حاصل کیں
اور دونوں بار نہایت ہی اِعزاز و اِکرام
سے پیش آئے، دوسری بار روضہ ٔمبارکہ پر حالتِ بیداری میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السَّلام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
عشقِ رسول: آپ عشقِ حبیبِ خدا
کا سَرتا پا نمونہ تھے، محفلِ میلاد شریف میں ادباً دو زانو بیٹھے رہتے، ہرہرادا
سنتِ مصطفےٰ کے مطابق ہوتی، پاؤں پھیلا کر نہ سوتے بلکہ اس طرح سوتے کہ جسم کی
ہیئت لفظِ محمدجیسی ہوجاتی، پوری زندگی حضور علیہ
الصَّلٰوۃوالسَّلام کی مدح و ثنا کرتے
رہے، عظیم الشان نعت گو شاعر تھے، آپ کا نعتیہ دیوان ”حدائقِ
بخشش“ عشق ومحبتِ محبوبِِ خدا عَلَیْہِ
التَّحِیَّۃُ وَالثَّنَاء کی خوشبوؤں سے مہک رہاہے۔
عادات و اَوصاف: والدین
کے ایسے اِطاعت گزارکہ دوسرے حج کیلئے بِلا اجازتِ والدہ جانا گوارا نہ کیا، علمائے
اَہلِ سنّت کے ساتھ نہایت ہی عزت وتکریم (Respect)سے پیش آتے، خُصُوصاً ساداتِ کرام سے بہت محبت فرماتے، مسلمانوں کی دِل
جوئی،حوصلہ افزائی اور اِصلاح کا جذبہ آپ کی ذات میں کُوٹ کُوٹ کربھرا تھا، بچوں
پر شفقت فرماتے، بڑوں کا احترام سکھاتے،کبھی قہقہہ نہ لگاتے، جانبِ قبلہ نہ تھوکتے
نہ ہی پاؤں پھیلاتے،کبھی وقت ضائع نہ فرماتے، بعدِ عصر عام ملاقات فرماتے، اپنی
ذاتی اشیاء استعمال فرماتے، کھانے پینے پہننے کی کوئی چیز کسی سے نہ مانگتے،کبھی
اتنا مال جمع نہ ہونے دیا کہ زکوٰۃ فرض ہوتی، جوبھی مال آتا راہِ خدا میں خرچ
کردیتے، امیر و غریب میں امتیاز کی بجائے مُسَاوات فرماتے، غریبوں کوکبھی خالی
ہاتھ نہ لوٹاتے، ہمیشہ اُن کی اِمداد فرماتے، بَسا
اوقات اپنے ذاتی استعمال کی اَشیاء بھی عطا فرمادیتے۔
تقویٰ وپرہیزگاری: اعلیٰ حضرت نہ صرف فرائض و واجبات کی ادائیگی کے سختی
سے پابند تھے، بلکہ سُنَنْ و نوافِل و مُسْتَحَبَّات کو بھی ترک نہ فرماتے، اِستنجاء وغیرہ کے سوا ہر فعل کی ابتداء سیدھی جانب (Right
Side) سے فرماتے، تحریرو تقریر وغیرہ
کسی بھی دِینی یا دُنیوی معاملے کے بدلے میں رقم یا ہدیہ وغیرہ قطعاًقبول نہ
فرماتے، تکبر کو کبھی قریب نہ آنے دیا، ہمیشہ تواضع و عاجزی کو اختیار کیا، نہایت
سادہ طبیعت کے مالک تھے، قیمتی ملبوسات وغیرہ سے بچتے، سادہ لباس زیبِ تَن فرماتے۔
قَناعَت و تَوَکُّ:ل آپ کی خوراک بہت کم تھی، پیٹ بھرکرکھانا تناول نہ فرماتے بلکہ بسا اوقات
کئی کئی ایام تک کھانا ہی نہ کھاتے، البتہ کسی دعوت پر تشریف لے جاتے تو وہاں
میزبان کی دِلجوئی کی خاطر کھانا تناول فرما لیتے، آبِِ زمزم نہایت مرغوب تھا،
خوب پیٹ بھرکرنوش فرماتے۔
شریعت کی پاسداری: اعلیٰ حضرت ہر ہر معاملے میں شریعت کی پاسداری فرمایا
کرتے، آپ کی دوستی یا بغض فقط اللہ کیلئے ہوتا تھا، کبھی کسی سے ذاتی انتقام(Revenge) نہ لیتے، بُرا بھلا کہنے والوں کو بھی معاف فرما
دیتے، حُقُوقُ
اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی حد دَرَجہ
خیال فرماتے اگرچہ حقدار کوئی چھوٹا سا بچّہ ہی کیوں نہ ہوتا، البتہ ناموسِ رسالت کے بے باک اور نِڈَر محافظ تھے، اللہ رسول کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی خوب پکڑ فرمائی
اور اُن کے ناپاک اِرادوں کو خاک میں ملادیا اور انہیں کسی بھی طرح سَر نہ اُٹھانے
دیا۔ الغرض اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ ایک ہَمہ گِیرشخصیت کے مالک تھے۔
سفرِآخرت: 25 صفرالمظفر 1340 ھ بمطابق 1921ء بروز جمعۃ المبارک آخری وصیتیں قلمبندکروانے کے بعد
آپ اس دارِ فانی سے کوچ فرماگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
آپ
کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف میں ہے اور25 صفر ہی کو ہر سال آپ کا یومِ عرس
دُنیا بھرمیں منایا جاتا ہے۔(ملخص ازتذکرہ امام احمد رضا،
حیات اعلیٰ حضرت)
اللہ کریم ہمیں
اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزتکی سچی محبت عطا فرمائے اور ان کی سیرتِ طیبہ پرعمل
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
2ہجری، 17رمضان المبارک جمعہ کا بابرکت دن تھا جب غزوۂ بدر رونما ہوا،
قرآنِ مجید میں اسے ”یوم الفرقان“فرمایا گیا۔ (در منثور ،4/72،پ 10،الانفال تحت الآیہ:41) اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن کے پاس صرف 2 گھوڑے،70 اونٹ، 6
زرہیں(لوہے
کا جنگی لباس) اور 8 تلواریں تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں
لشکرِ کفار 1000 افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس 100گھوڑے، 700 اونٹ اور کثیر آلاتِ حرب تھے۔ (زرقانی علی المواھب، 2/260، معجم کبیر، 11/133، حدیث:11377، مدارج النبوۃ،2/81)
جنگ سے قبل رات حضورسرورعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ
واٰلہٖ وسَلَّم نےاپنے چند جانثاروں کے ساتھ
بدر کے میدان
کو ملاحظہ فرمایا اور زمین پر جگہ جگہ ہاتھ رکھ کر فرماتے : یہ فلاں کافر کے قتل
ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی
لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ راوی فرماتے ہیں: ویسا ہی ہواجیسا فرمایا تھا اور ان
میں سے کسی نےاس لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہ کیا۔ (مسلم، ص759، حدیث: 4621) سُبْحٰنَاللہ ! کیا شان ہےہمارے پیارے
آقا صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی،کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے ایک دن پہلے ہی یہ بتادیا کہ کون
کب اور کس جگہ مرے گا۔
اس
رات اللہ عَزَّ
وَجَلَّ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی جس سے ان کی تھکاوٹ جاتی رہی اوراگلی صبح بارش بھی
نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کی طرف ریت جم گئی اور پانی کی کمی دور ہو گئی۔ ( الزرقانی علی المواہب ،2/271)
آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ
واٰلہٖ وسَلَّم نے تمام رات اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور عجزو نیاز
میں گزاری (دلائل
النبوۃ للبیہقی،3/49)اور صبح مسلمانوں کو نمازِ فجر کے لئے بیدار فرمایا، نماز کے بعدایک خطبہ ارشاد فرمایا جس
سے مسلمان شوق ِ شہادت سے سرشار ہوگئے۔ (سیرت حلبیہ، 2/212)
حضور رحمتِ دوعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نےپہلے
مسلمانوں کے لشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار کی طرف دیکھا اور دعا کی کہ یا رب! اپنا وعدہ سچ فرماجو تو نے مجھ سے کیا
ہے ، اگرمسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ (مسلم، ص750، حدیث:4588ملخصاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مسلمانوں کی
مدد کے لئے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے، اس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار
اور پھر پانچ ہزار ہو گئی۔ (پ 9،الانفال:9۔
پ4،اٰل عمران،124،125)
پیارےآقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ و اٰلہٖ وسَلَّم نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی طرف
پھینکی جو کفار کی آنکھوں میں پڑی۔ (درمنثور ،4/40،پ 9،الانفال ، تحت الآیہ:17) جانثار مسلمان اس دلیری
سے لڑے کہ
لشکرِ کفار کو عبرتناک شکست ہوئی، 70 کفار واصلِ جہنم اور اسی قدر(یعنی70)گرفتار ہوئے (مسلم ، ص750، حدیث:4588ملخصاً) جبکہ 14مسلمانوں نے جامِ شہادت
نوش کیا۔
(عمدۃ القاری،10/122)
شہدائے غزوۂ بدر: غزوۂ بدر میں جامِ شہادت نوش
فرمانے والے صحابۂ کرام کے اسمائے مبارک یہ ہیں :(1) حضرت عبید ہ بن حارِث(2)
حضرت عمیر بن ابی وَقَّاص (3) حضرت ذُوالشِّمالین عمیر بن عبد عمرو(4) حضرت عاقل
بن ابی بکیر (5) حضرت مِہجَع مولیٰ عمر بن الخطاب (6) حضرت صَفْوان بن بیضاء (یہ 6مہاجرین ہیں) (7)حضرت سعد بن خَیْثَمَہ
(8)حضرت مبشربن عبدالمُنْذِر (9)حضرت حارِثہ بن سُراقہ (10)حضرت عوف بن عفراء (11)
حضرت معوذ بن عفراء (12)حضرت عمیر بن حُمام (13)حضرت رَافِع بن مُعلّٰی (14)حضرت یزید
بن حارث بن فسحم(یہ8 انصار ہیں)رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ (سیرت ابنِ ہشام، ص295)
غزوۂ
بدرمیں مسلمان بظاہر بے سروسامان اور تعداد
میں کم تھے مگر ایمان و اخلاص کی دولت سے
مالامال تھے ، ان کے دل پیارے آقا صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عشق و محبت اور جذبہ
ٔاطاعت سے
لبریز تھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مدد اور پیارے
آقا صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی دعائیں ان کے
شاملِ حال تھیں۔ یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے اس معرکے کو یاد گار اور قیامت تک کے
مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ بنادیا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی اپنے
پیارے حبیب صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی محبت اوراطاعت کا جذبہ عطا فرمائے۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
غزوۂ
بدر کا تفصیلی واقعہ جاننے کے لئے ”سیرتِ مصطفی“(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)اورمختصراً پڑھنا چاہیں تو
امیرِاہلِ سنّت کا رسالہ ”ابوجہل کی موت“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)پڑھئے۔
اللہ رب العزت کا کروڑوں بار احسان ہے کہ اس نے
ہمیں پھر ایک بار رمضان المبارک کی خوشیاں دیکھنے نصیب فرمائیں اور اس مہینے کوئی
بھی انسان جتنی عبادت کریگا وہ اتنا ہی
پھل پائے گا۔ رمضان المبارک کا نام سنتے ہی ذہنوں میں روزہ اور سحر و افطار کی یاد
آجاتی ہے۔ سحری کے حوالے سے ہمارے نبی کریم کا فرمان ارشاد ہے کہ سحری کیا کرو کیونکہ
اس میں برکت ہے۔ روزہ دار افراد سحری میں
پانی یا کوئی اور مشروبات پینے کو زیادہ ترجی دیتے ہیں کہ زیادہ پانی پینے سے دن بھر پیاس نہیں لگے گی جو غلط عمل ہے زیادہ پانی پینے کے باعث اسی وجہ سے وہ غذا کم
لے پاتے ہیں اور دن بھر بھوک اور پیاس سے نڈھال ہورہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فواد فاروق
کا کہنا تھا کہ انسانی جسم میں اللہ پاک نے ایسا سسٹم رکھا ہے کہ ذرا سا بھی آپ کی
ضرورت سے زیادہ پانی ہوگا وہ پیشاب کے ذریعے خارج ہوجائےگا۔
ڈاکٹر فواد فاروق کا کہنا تھا کہ سحری کے دوران
چائے سے اجتناب برتیں اور اگر زیادہ دل چاہے توسحری کے شروع میں تھوڑی سی چائے پی
لیں۔
ڈاکٹر فواد فاروق کا مزید کہنا تھا کہ سحری کے وقت آخر میں اگر تھوڑا دہی یا لسی پی لی جائے تو دن میں پیاس کا احساس کم ہوگا۔
رمضان کے روزے مسلمانوں کیلئے انتہائی رحمت کا
باعث ہے کیونکہ ان کے ذریعے اللہ تعالی انسانی جسم کے نظام انہضام کی مرمت فرماتا
ہے، طبی ماہرین کے مطابق روزے سے انسانی دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور روزے رکھنے
سے جسم میں مختلف بیماریوں کے وائرس کی تعداد کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بیماریوں
پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ رمضان کے روزوں کو چند لوگ بھوک اور پیاس برداشت
کرنے کے مہینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ کھانے کا مہینہ سمجھ بیٹھتے ہیں جس کے باعث
وہ مختلف عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں، لوگوں کو چاہیے کہ وہ سحری و افطار میں سادہ
اور صحت مند غذا کھائیں، تلی ہوئی اشیا سے پرہیز کریں جبکہ پھلوں، سبزیوں، دالوں
اور دودھ دہی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانی پئیں، سحر و افطار میں عموماً روزہ دار
جلدی جلدی کھاتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں پیٹ کے امراض کا سامنا کرنا پڑ سکتا
ہے، ایسے افراد سحر و افطار میں غذا کو اچھی طرح چبا چبا کر کھائیں، تاکہ عبادات اور روزوں کا صحیح لطف اٹھا سکیں۔
وہ روزے دار جو کسی بھی قسم کی ادویات استعمال کر رہے ہیں وہ روزہ رکھنے سے پہلے
اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں اور اپنی ادویات باقاعدگی سے استعمال کریں تاکہ انہیں
رمضان کے مہینے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رمضان المبا رک کی رحمتوں اور برکتوں کے کیا
کہنے کہ اس ماہ صیام میں مسلمانو ں پر روزے فرض کئے گئے۔ رمضان المبا رک اور روزوں
کی بر کت سے اللہ تبا رک وتعا لیٰ نے مسلمانوں پر ایسے انعامات و
اکرام کی برسات فرماتا ہے جو بے مثال ہیں۔ اس ما ہ غفران کے تین عشرے ہیں جس میں
عشرہ رحمت ،عشرہ مغفرت اور جہنم سے آزادی کا عشرہ شامل ہے ۔
رمضان المبا رک کے پہلے روزے سےدس روزے تک کا
پہلا عشرہ ،عشرہ رحمت ہے جس مبارک عشرے میں عالم اسلام پر اللہ رب العالمین کی بے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔
گیارہویں روزے سے بیسویں روزے تک دوسرہ عشرہ
،عشرہ مغفرت ہوتا ہے ۔جس میں اللہ رب العالمین اپنے بے شما ر بندوں کو مغفرت کے
پروانے تقسیم فرماتا ہے ۔
اکیسویں روزے سے رمضان المبا رک کے آخر روزے تک
عشر ہ،جہنم سے آزا دی کا عشرہ کہلاتا ہے جس میں اللہ تعا لیٰ ایسے بے شمار گنہگار
بندوں کو جہنم سے آ زا دی عطا فرماتا ہےجن پر جہنم و ا جب ہو چکی ہوتی ہے۔
رمضان المبا رک کا ہر لمحہ ،ہر گھڑی ،ہر ساعت
مسلمانوں کے لئے ایسی نعمت کی جس کی مثال موجو د نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں
اس ماہ مبا رک میں فر ض روزوں اور نماز کی ادائیگی کے سا تھ نفلی عبا دات و تلاوت
کی کثرت کر نی چا ہئے تا کہ اللہ پاک کے اس مہمان کا احترام کر نا اور اس کی بر کتیں
سمیٹنا ہمیں صحیح معنوں میں نصیب ہوسکے۔
ایک ایسے وقت میں جب ایک وبائی مرض کورونا نے دنیا
کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس سے متاثر ہونے سے بچنے کا واحد حل قوت مدافعت
کو بڑھانا ہے، تحقیق کے مطابق روز مرہ زندگی میں نمک کا زیادہ استعمال انسانی جسم
کی قوت مدافعت کو کمزور کرتا ہے۔ قوت مدافعت کی کمزوری کے سبب انسانی جسم حملہ آور
وائرس اور بیکٹریا کے خلاف مذاحمت میں کمزور ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق اپنی خوراک
میں روزانہ 5 گرام سے زیادہ نمک استعمال کرنے والوں کا قوت مدافعت 5 گرام سے کم
استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے۔ بیشتر افراد اس سے زیادہ مقدار میں
نمک روزمرہ کی بنیادوں پر جزو بدن بنالیتے ہیں جس سے انسان کا قوت مدفعت سسٹم
متاثر ہوتا ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ روزانہ صرف 11 گرام نمک یا 2 بار فاسٹ فوڈ
کا استعمال ایک ہفتے میں مدافعتی خلیات کو کمزور کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ نمک کا
زیادہ استعمال انسانی جسم کے مدافعتی نظام کے ایک حصے کو کمزور کرتا ہے جس سے
انسان کمزوری اور سستی محسوس کرتا ہے۔ سوڈیم
کلورائیڈ سے انسانی مدافعتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دوسری
جانب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی جاری سفارشات بھی ہمیں یہ ہی بتاتی ہیں کہ ایک
دن میں انسانی جسم کو ایک ٹی اسپون نمک کی مقدار استعمال کرنی چاہئے نمک کی مقدار
میں کمی کر کے ہم ایک صحت مند زندگی اپنا کر بہتر اور مضبوط قوت مدافعت کے ساتھ
مختلف اقسام کی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت لیے ہم زیست کا ہر لمحہ بھرپور اور صحت
مند طرز سے گزار سکتے ہیں۔