بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں علمائے کرام موجود ہیں، دنیا کی
مَشِینوں کی اِیجاد(Invention) کا تذکرہ ہو رہا ہے، اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا: بِفَضْلہٖ تعالیٰ
بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فقیر کو ایسی مشین عطا ہوئی جس میں کسی بھی
علم کا سوال کسی زبان میں ڈال دیجئے چند منٹ کے بعد اس کا صحیح جواب حاصل کرلیجئے۔(خلیفۂ اعلیٰ حضرت) مولانا ہدایت رسول صاحب
نے عرض کی: حضور! وہ مشین مجھے بھی دکھایئے، فرمایا: پھرکبھی دیکھ لیجئے گا۔ لیکن انہوں نے
اِصْرار کیا تو اعلیٰ حضرت نے اپنے کُرتے کے بٹن کھول کر سینۂ انور کی زیارت
کروائی اور فرمایا: یہ ہے وہ مشین جس کا فقیر نے کہا۔ شاہ ہدایت رسول صاحب آپ کے
سینۂ پُرنور کو چومتے اور کہتے جاتے: صَدَقْتَ یَاوَارِثَ عُلُوْمِ رَسُوْلِ اللہِ وَیَانَائِبَ رَسُوْلِ اللہِ یعنی اے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے علوم کے
وارث اور اُن کے نائب ! آپ نے سچ کہا۔(تجلیاتِ امام احمد رضا،ص78 ملخصاً)
20ویں صدی کی عَبْقَری شخصیت، زبردست مُفَکِّرِ اسلام (Great Islamic Thinker) اور سائنسی علوم کے ماہر امام
احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کا یہ فرمانا کہ ”کسی بھی علم کا سوال ،جس زبان میں ہوچند منٹ میں صحیح جواب مل
جائے گا“ یقیناً آپ پرفضلِ خدا اور عنایتِ مصطفےٰ ہے اور یہ مُبالَغہ یا محض
زبانی دعویٰ نہیں بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جس کی دلیل آپ کی لکھی ہوئی تحقیقی ایک
ہزار کتب ہیں جن میں صرف علم ِحدیث میں 240 کتابیں، علمِ فقہ میں 90سے زائد اور سائنسی علوم
میں 100سے زیادہ کتب ہیں اور سائنسی علوم پر اس قدر کتابیں آپ کے عظیم سائنسدان ہونے
کا واضح اور منہ بولتا ثبوت ہیں، زیرِ نظر مضمون میں اسی حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا
جارہا ہے۔
چودہویں صدی عیسوی کے بعد والے زمانے کو عہدِجدید (Modern age) سے تعبیر کیا جاتا ہے،
مغربی دنیا اِسی دور میں علم وفن سے آشنا ہوئی جبکہ مسلمان سائنسدان اس سے کئی
صدیاں پہلے ہر طرح کے علوم سے نہ صرف آراستہ تھے بلکہ کائنات(Universe) کے بہت سے سَر
بستہ راز کھول چکے تھے، خیر وقت کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سائنٹسٹ پیدا ہوئے اور ایک
آدھ نظریہ (Theory) یا کسی ایجاد کا سہرا اپنے سر سجاتے رہے پھر ربِِّ کریم نے
مسلمانوں میں امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کو پیدا فرمایا جن کی پرورش خالص دینی ماحول میں ہوئی اور آپ نے دین ہی کو
اپنا نصبُ العین بنایا مگر آپ اسلامیات کی جملہ شاخوں پر عُبُور کے ساتھ ساتھ
حیاتیات (Biology)، حیوانیات (Zoology)، نباتات (Botany) ، جغرافیہ (Geography)، طبقات الارض (Geology)، ہیئت (Astronomy)، ارثماطیقی (Arithmetic)، شماریات (Statistics)، ریاضی (Mathematics)، لوگارتھم (Logarithm)، اُقْلِیْدَس (Geometry)، طبیعیات (Physics)، کیمیا (Chemistry)، صوتیات (Acoustics)، اشعیات (Radiology)، مناظرومَرایا (Optics)، توقیت، موسمیات (Metrology)، موجودات (Natural Science) وغیرہ سائنسی علوم پر
بھی کامل دَسْتْرَس رکھتے تھے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی سائنسی تحقیقات سے پہلے آپ کا
سائنس کے متعلق نظریہ پڑھ لیجئے، چنانچہ زمین ساکن ہونے کے متعلق اپنے رسالے ”نُزُوْلِ آیَاتِ فُرْقَان
بَسُکُوْنِ زَمِیْن و آسْمَان“ میں فرماتے ہیں:سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نُصُوص میں
تاویلات دُوراَزکار (یعنی بے سروپا اور لاتعلق تاویلات) کرکے سائنس کے مطابق کرلیا جائے۔ یوں تو مَعَاذَ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام۔ وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ
جتنے اسلامی مسائل سے اُسے خلاف ہے سب میں مسئلۂ اسلامی کو روشن کیا جائے دلائلِ
سائنس کو مَرْدُود و پامال کردیا جائے جا بجا سائنس ہی کے اقوال سے اسلامی مسئلہ
کا اِثْبات ہو، سائنس کا اِبْطال و اِسْکات ہو، یوں قابو میں آئے گی۔(فتاویٰ رضویہ،27/227)
اب آتے ہیں اُن تحقیقات کی جانب جن میں اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے ایک طرف اسلامی نظریہ اور احکامِ شریعت کی توضیح وتشریح فرمائی
اور دوسری طرف قوانینِ سائنس کا تَجْزِیَہ فرمایا۔ موافقِ اسلام قوانین کو
تَوْثِیْق و تائید کے طور پر لیا اور خلافِ
اسلام سائنسی نظریات کا قراٰن و سنّت کے ساتھ ساتھ خود سائنسی قواعد و
ضوابط کے ذریعے ردّ و اِبْطال فرمایا اور دورِ جدید کے بعض سائنسی اَفکارکوعَقْلی
و نَقْلی دلائل و بَراہِیْن کی روشنی میں باطل قرار دیا چنانچہ
1338ہجری میں حرکتِ زمین کے متعلق عقلی و سائنسی دلائل پر
مشتمل کتاب ”فَوْزِ
مُبِیْن دَرْ رَدِّ حَرَکَتِ زَمِیْن“ تحریر
فرمائی جو ایک مقدمہ، چار فصلوں اور ایک خاتِمہ پر مُحِیْط ہے، اس میں زمین کے
ساکن ہونے پر 105دلیلیں قائم کیں، خود فرماتے ہیں: فصلِ اوّل
میں نافریت پر بحث اور اُس سے اِبْطالِ حرکتِ زمین پر بارہ دلیلیں۔ فصلِ
دوم میں جاذبیت پر کلام اور ا س سے بُطْلانِ حرکتِ زمین پر پچاس دلیلیں۔
فصلِ سوم میں خود حرکتِ زمین کے اِبْطال پر اور تینتالیس دلیلیں۔ یہ بحمدہٖ
تعالیٰ بُطْلانِ حرکتِ زمین پر ایک سو پانچ دلیلیں ہوئیں جن میں پندرہ اگلی
کتابوں کی ہیں جن کی ہم نے اِصلاح و تصحیح کی اور پورے نوّے دلائل نہایت روشن و
کامل بِفَضْلِہٖ تعالیٰ خاص ہمارے ایجاد
ہیں۔ فصلِ چہارم میں ان شبہات کا رد جو ہیأتِ جدیدہ اثِبْاتِ حرکتِ زمین میں
پیش کرتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،27/245)
آپ کی سائنسی
تحقیقات پر کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو 139صفحات
پر پھیلی یہی ایک کتاب آپ کے عظیم سائنسدان (Great
Scientist) ہونے کی کافی و وَافی دلیل تھی۔ سائنس کا کوئی پروفیسر جب یہ کتاب دیکھے گا تو امامِ اہلِ سنّت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی سائنسی تحقیقات اور علومِ جدید میں گہرائی و گِیْرائی پر رَشْک کرے گا اور سائنس کا اسٹوڈنٹ اسے پڑھے گا توحیران و شَشْدَر رہ جائے
گا کہ چٹائی پر بیٹھ کر لوگوں کی شرعی راہنمائی کرنے والی یہ بزرگ ہستی
قدیم و جدید تمام سائنسی علوم و فنون میں بھی کامل مہارت رکھتی تھی۔ انگریزی میں
اس کتاب کا ترجمہ:”A fair
success refuting motion of Earth “ کے نام سے ہوچکا ہے۔
اکتوبر 1919عیسوی میں ایک امریکی سائنٹسٹ البرٹ ایف۔ پورٹا
نے پیشین گوئی کی کہ ”بعض سیاروں کے اجتماع سے 17دسمبر کو طوفان، بجلیاں، سخت بارش
اور بڑے زلزلے ہوں گے۔“ جب یہ ہولناک پیشین
گوئی اعلیٰ حضرت کے سامنے پہنچی تو آپ نے اس کی تَرْدِیْد میں ایک رسالہ بَنام
”مُعِیْنِ مُبِیْن بَہْرِ
دَوْرِ شَمْس و سُکُوْنِ زَمِیْن“ لکھا جس میں 17دلیلوں سے
اس پیشین گوئی کا رد فرمایا جس میں 16دلائل جدید سائنس سے دئیے ہیں۔ آخر میں
فرماتے ہیں: بیانِ مُنْجِم (امریکی سائنٹسٹ) پر اور مُواخَذَات بھی ہیں مگر 17دسمبر کے لئے 17پر ہی اِکْتِفا
کریں۔(فتاویٰ
رضویہ،27/242 ملخصاً)
علمِ ارضیات (Geology)
کی ایک شاخ علمِ اَحْجَار (Petrology) بھی ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جیولوجیGeology)) کی دیگر اَصْناف کی طرح
علمُ الاَحْجَار پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ سے تیمم کے متعلق مسئلہ دریافت کیا
گیا کہ کس شَے سے تیمم جائز ہے اور کس سے نہیں؟ چونکہ اس کا تعلق مٹی سے ہے اور
مٹی کا تعلق علمِ ارضیات (Geology) سے ہے۔ جب آپ نے اس حوالے سے قلم اُٹھایا تو تحقیق کے دریا بہا دئیے۔
چنانچہ مٹی اور پتھر کی جن اقسام سے تیمم جائز ہے اگلے فقہائے کرام کی سینکڑوں کُتُب میں ان
کی اقسام کی کل تعداد 84تک پہنچتی ہے اور یہ ہزاروں علما کی صَدْہا سالوں کی محنت
کا نتیجہ ہے مگر اِمامُ الفُقَہاء اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی علمُ الاَحْجار میں
مہارت دیکھئے کہ آپ نے تحقیق سے اس تعداد پر 107 اَقسام کا اضافہ کردیا۔ یوں ہی
جن اقسام سے تیمم ناجائز ہے فقہائے اُمت کی تحقیقات سے اُن کی تعداد 58 تک پہنچتی
ہے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان اقسام پر 72
قسموں کا اضافہ فرما دیا۔ تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ جلد 3 میں شامل کتاب”اَلْمَطْرُالسَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ
جِنْسِ الصَّعِیْد“ کا مطالعہ فرمائیے۔
پانی کے رنگ کے متعلق سائنسدانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے،
کسی نے کہا: پانی کا کوئی رنگ نہیں۔ کسی نے پانی کو سفید کہا تو کسی نے اس کا رنگ
سیاہ قرار دیا مگر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان تینوں آراء کا عَقْلی
ونَقْلی دلائل سے رَد کرتے ہوئے شرعی اور سائنسی دلائل سے پانی کے رنگ کو ”ہلکا
سیاہی مائل“ ثابت کیا۔(فتاویٰ رضویہ ،3/235تا245 ملخصاً)
طبیعیات (Physics) کے موضوع ”Acoustics “ اور نظریۂ تَمَوُّج (Wave Theory) یعنی ماڈرن کمیونیکیشن سسٹم کی بات کی
جائے تو اس پراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کتاب ”اَلْکَشْفُ شَافِیَاحُکْمُ
فَوْنُوْ جِرَافِیَا“ علمِ صوتیات
کے ماہرین کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ ایٹم کے اِنْشِقاق(Nuclear Fission )کی بات ہو توآپ نے اپنی کتاب ”اَلْکَلِمَۃُ
الْمُلْہَمَۃ فیِ الْحِکْمَۃِ الْمُحْکَمَۃ“ میں بڑی تفصیلی بحث فرمائی ہے۔ میڈیکل سائنس (Medical
Science) کے تعلق سے نظر دوڑائیں تو آپ کی کتب، رسائل اور فتاویٰ
میں جابجا طبّی اصطلاحات، طبّی اصول وقوانین اور بیش بہا طبّی معلومات ملتی ہیں
بالخصوص آپ کا رسالہ ”تَیْسِیْرُالْمَاعُوْن
لِلسَّکْنِ فِی الطَّاعُوْن“ جو بظاہر مرضِ طاعون کے بارے میں شرعی احکام پر مبنی ہے مگر مطالَعَہ کرنے
والوں پر واضح کردیتا ہے کہ آپ میڈیکل سائنس کے بھی ایکسپرٹ ہیں اور آپ ہی وہ
پہلے مسلمان سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے 1896عیسوی میں اپنی کتاب ”اَلصَّمْصَام عَلَی مُشَکِّکٍ فِیْٓ اٰیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَام“ میں الٹرا ساؤنڈ
مشین کا فارمولا بیان فرمایا
ہے۔علمِ فلکیات (Astronomy) میں آپ کو اس قدر مہارت تھی کہ رات میں تارے دیکھ
کر اور دن کو سورج دیکھ کر گھڑی مِلالیا کرتے تھے۔
الغرض تحقیقِ مرجان (Coral) ہو یا تحقیقِ اہرامِ مِصْر یا پھر زلزلہ(Earthquake) کی تحقیق،
نظریۂ مَد و جَزْر (High tides/ Low tides and) ہو یا نظریۂ کششِ ثِقْل، الجبرا و
ریاضی کی گُتِّھیاں ہوں یا سائنس کے دیگر جدید و قدیم مسائل، ہمیں کتبِ اعلیٰ حضرت میں جگہ جگہ
ان کے متعلق تحقیقات نظر آتی ہیں کیونکہ
احکام کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے آپ متعلقہ مسئلے کی تحقیق نہ صرف قراٰن وسنّت
اور عباراتِ فُقَہا سے فرماتے بلکہ اُسے دُنیاوی وسائنسی علوم نیز مُشاہَدات و
تَجْربات کی روشنی میں بھی پَرَکْھتے تھے۔ مگر یاد رہے کہ آپ نے اپنے سائنسی
اَفْکار اور تحقیقات کی بنیاد قراٰن وسنّت پر رکھی ہے کیونکہ آپ کانظریہ و عقیدہ
یہ ہے کہ ”سائنس کو قرآن و سنّت کی روشنی میں پَرْکَھا جائے نہ کہ قرآن وسنّت
کو سائنس کی روشنی میں جانچا جائے۔“
خاص بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سائنسی علوم پر تحقیقات کرتے وقت اِبتدا، انتہا یا جہاں
مناسب سمجھتے ہیں مطالعہ کرنے والوں کو یہ عقیدہ ضرور سمجھاتے ہیں کہ سائنسی
قوانین اپنی جگہ مگر اَصْل قدرت و طاقت اللہ پاک کی ہے، وہ
ہی سب پر غالِب اور سب کا خالق و مالک ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر پانی کے رنگ کی
تحقیق کرتے ہوئے قدرتِ باری تعالیٰ پر اپنے ایمان ویقین کا اِظہار ان لفظوں سے
فرماتے ہیں: مذکورہ بالا دلیل فَلاسِفَہ کے مذہب کے مطابق ہے
اگر مان لیں تو فَبِہَا وگَرنہ ہماری ایمانی دلیل یہ ہے کہ نگاہیں اور تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارادے کے تابع
ہیں۔ اگر وہ چاہے تو ایک اندھا تاریک رات میں سیاہ چیونٹی کی آنکھ کو دیکھ سکتا ہے
اور اگر وہ نہ چاہے تو دن کی روشنی میں فلک بوس پہاڑ سے نِیلگوں آسمان کو بھی نہیں
دیکھا جاسکتا چونکہ اس نے چاہا کہ اَجْزاء انفرادی طور پر نظر نہ آئیں اور جب وہ
مجتمع ہوجائیں تو نظر آنے لگیں لہٰذا جیسا اس نے چاہا ویسا ہی واقع ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ، 2/174)
اور آخری بات یہ کہ جہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے یہ دیکھا کہ کسی دنیاوی و سائنسی علم
کی وجہ سے بنیادی اسلامی عقیدے پر زَد پڑتی ہے، وہ علم خلافِ اسلام ہے، پڑھنے والے
کے ذہن میں لادینیت پیدا ہوجائے گی اورایمان مُتَزَلزَل ہوگا تو آپ نے
بِلاتَرَدُّد اِس کے خلاف حکمِ شریعت صادِر فرمایااور اُس کے پڑھنے سے مُمَانَعت
فرمائی۔تفصیل کے لئےفتاویٰ رضویہ، جلد23،صفحہ706 ملاحظہ فرمایئے۔ پیشِ نظر مضمون
میں امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ
رحمۃ الرَّحمٰن کے سائنسی
اَفْکارو تحقیقات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے جو صرف ایک جھلک ہے لہٰذا جسے آپ کے سائنسی علوم کا ٹھاٹھیں مارتا
سمندر دیکھنا ہو اور اِن علوم کی فلک بوس چوٹیوں کا نظارہ کرنا ہو وہ آپ کی سائنس اور جدید علوم پر مشتمل کتب
ورسائل کا مطالعہ کرے۔
اللہ کریم کی اُن
پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم