سَر زمینِ عرب پر غزوۂ اُحد کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ حضرتِ سیّدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے دورِ حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سورہے ہیں۔(سبل الہدی، 4/252۔ کتاب المغازی للواقدی، 1/267۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 3/291) اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سےتازہ خون بہہ نکلا۔(طبقات ابن سعد،3/7) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ شہید کوئی اور نہیں رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کے معزز چچا اور رضاعی بھائی خیرُ الشُّہَداء، سیّد الشُّہَداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھے۔ (طبقات ابن سعد، 1/87۔ الاستیعاب، 1/425) پیدائش و کنیت:راجح قول کے مطابق آپ رضیَ اللہُ عنہ کی ولادت نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔(اسد الغابہ،2/66) آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو عمّارہ ہے۔(معجمِ کبیر، 3/137)حلیہ و مشاغل:آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بہت حسین و جمیل تھے، خوبصور ت پیشانی، درمیانہ قد، چھریرا (دبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔ شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔ سیرو سیاحت کرنا، شکار کرنا مَن پسند مشغلہ تھا۔(تذکرہ سیدنا امیر حمزہ، ص17ملخصاً) قبولِ اسلام: ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے اورابو جہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔(معجمِ کبیر،3/140،حدیث:2926) گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(مستدرک،4/196، حدیث: 4930)بارگاہِ رسالت میں مقام و مرتبہ:پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضیَ اللہُ عنہ سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ، 2/21، رقم: 1839) حکایت محبّت کے اظہار کے انداز جداگانہ ہوتے ہیں ایک نرالہ انداز ملاحظہ کیجئے: ایک جاں نثار صحابی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی: میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا نام رکھوں؟ تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔(معرفۃ الصحابۃ، 2/21،رقم:1837)زیارتِ جبریل کی خواہش ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیہِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔(الطبقات الکبریٰ،3/8) کارنامے: رمضانُ المبارک1ہجری میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے سنبھالا۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے ”سرِیّہ حمزہ“ کے نام سےجانا جاتا ہے۔(طبقات ابن سعد، 3/6) 2ہجری میں حق و باطل کاپہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اورمشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے سر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامےاسلام کے دشمنوں کو جہنَّم واصِل کرتے اور فرماتے جاتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔(معجمِ کبیر،3/149،150،رقم:2953-2957)شہادت:15 شوّالُ المکرم 3ہجری غزوۂ اُحد میں آپ رضیَ اللہُ عنہ نہایت بے جگری سے لڑے اور 31 کفار کو جہنّم واصِل کرکے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ (معرفۃ الصحابۃ، 2/17)دشمنوں نے نہایت بےدردی کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ عنہ کے ناک اور کان جسم سے جدا کرکے پیٹ مبارک اور سینۂ اقدس چاک کردیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم کا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہوگئے: آپ پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔(دارِقطنی، 5/207، حدیث: 4209،معجمِ کبیر،3/143،حدیث:2937)پریشانی دور کرنے والے: سیرت اور تاریخ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ بَوقتِ جنازہ رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!(شرح الزرقانی علی المواہب ، 4/470)نمازِ جنازہ و مدفن : شہدائے احدمیں سب سے پہلے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ منفرد ہیں اور کوئی آپ کا شریک نہیں ہے۔ (الطبقات الکبری، 3/7۔سنن کبریٰ للبیہقی، 4/18،حدیث:6804) جبلِ اُحد کے دامَن میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار دعاؤں کی قبولیّت کا مقام ہے۔