معراج کے تحفے

Sat, 21 Mar , 2020
4 years ago

حضور نبیِّ کریم، رءُوف رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اعلانِ نبوّت کے بارھویں سال، 27 رَجَبُ المُرجَّب کی رات سفرِمعراج کی سعادت حاصل ہوئی۔ (خزائن العرفان، پ15،بنی اسرائیل ،تحت الآیہ:1، ماخوذاً) سفرِمعراج میں جہاں کئی معجزات ظاہر ہوئے اور شانِ مصطفےٰ کی بلندی آشکار(نمایاں) ہوئی وہیں ربِِّ مصطفےٰ کی طرف سے صاحِبُ التَّاج وَ الْمِعْراج صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تحائف بھی عطا ہوئے مثلاً دیدارِ باری تعالیٰ، بلا واسِطہ کلام، سورۂ بقَرہ کی آخِری آیات ، پنجگانہ نماز کی فرضیّت ۔

(1)دیدارِ باری تعالیٰ :علامہ شہابُ الدّین احمدخَفاجی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں : صحیح مذہب یہ ہے کہ نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شبِ معراج سَرکی آنکھوں سےاپنے رب تعالیٰ کو دیکھا جیسا کہ اکثر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا مذہب ہے۔ (نسیم الریاض شرح شفا، 3/144) یادرہے کہ دنیامیں جاگتی آنکھوں سے پَرْوَرْدَگارعَزَّوَجَلَّ کادیدار صرف سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاخاصّہ ہے۔ (بہارِشریعت،1/20 ماخوذاً)

(2)گفتگو کا شرف: جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو عرض کی: ”اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ یعنی تمام قولی، بدنی اور مالی عبادات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیںاللہ کریم نے ارشاد فرمایا: ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ یعنی اے نبیِّ مکرّم! تجھ پر سلام ہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں“ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چاہا کہ سلام میں آپ کی اُمّت کا حصّہ بھی ہو جائے لہٰذا عرض کی:”اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْن یعنی ہم پر اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں پر سلام ہو“ حضرتِ سیّدنا جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام اور تمام آسمانی فرشتوں نے کہا: ”اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں“۔ (تفسير قرطبی، پ3، البقرہ، تحت الایۃ: 285، 2/322) حضرت علّامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے شبِ مِعراج اپنے محبوبِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بغیر واسطے کے کلام فرمایا۔(فتح الباری، 8/185)

(3) سورۂ بقرہ کی آخری آیات: معراج کی رات اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سورۂ بقرہ کی آخِری دوآیتیں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا فرمائیں۔ یہ دو آیات جنّت کے خزانوں میں سے ہیں۔(روح البیان، پ3، البقرۃ، تحت الآیۃ:286، 1/449ملخصاً)

(4)امّتِ محمّدی کے لئے بخشش کی بشارت: معراج کی رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے یہ بشارت اُمَّتِ محمدیہ کو دی گئی کہ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی بخشش فرما دے گا۔(ایضاً)

(5)معراج کا خصوصی تحفہ: حضرتِ سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت پر50نمازیں فرض فرمائیں، میں یہ لے کر واپس ہوا حتّٰی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السَّلام)کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا:اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کی اُمّت پر کیا فرض فرمایا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ان پر 50نمازیں فرض کیں، موسیٰ علیہ السَّلام نے مجھے کہا: آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے، آپ کی اُمّت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ میں واپس رب تعالیٰ کی بارگاہ میں گیاتو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک حصّہ معاف فرمادیا، فرماتے ہیں کہ میں پھر موسیٰ علیہ السَّلام کی طرف لَوٹا اور انہیں اس کی خبر دی ، انہوں نے کہا: آپ اپنے رب کی طرف واپس جائیے، آپ کی اُمّت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں اپنے رب کے پاس واپس لوٹا تو رب تعالیٰ نے فرمایا:نمازیں پانچ ہیں اور حقیقت میں پچاس ہی ہیں ہمارے ہاں فیصلے میں تبدیلی نہیں کی جاتی۔ (مسلم، ص89، حدیث:415)

مشہور مفسر حکیم الامت مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: یہ خاص تحفہ تھا جو اُمّتِ محمدیہ کو حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کی معرفت دیا گیا۔(مراٰۃ المناجیح، 8/144)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نماز اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خصوصی تحفہ ہے جوحضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 22کے صدقے ہمیں نصیب ہوا۔ لہٰذا اس تحفۂ خدا وندی کی حفاظت کریں اور پانچوں وقت کی نَماز باجماعت تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کا خوب اہتمام کریں۔

مسجد بھرو تحریک! جاری رہے گی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ

معراج کو دولہا جاتے ہیں

Thu, 19 Mar , 2020
4 years ago

بِعثَت کے گیارھویں سال،27 رَجَبُ المُرَجَّب کی رات محبوبِِ ربُّ العلیٰ، امامُ الانبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اپنی چچازاد بہن حضرت اُمِّ ہانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر آرام فرما تھے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حاضر ہوئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کووہاں سے مسجد حرام لاکر حطیمِ کعبہ میں لِٹا دیا، سینۂ اقدس چاک کرکے قلبِ اطہر باہر نکالا، آبِِ زم زم شریف سے غسل دیا اور ایمان و حکمت سے بھر کر واپس اُسی جگہ رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک سواری پیش کی گئی جس کانام بُراق تھا۔حضور سیدِ عالَم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اس پر سوار ہو کر بیت المقدس روانہ ہوئے ، راستے میں عجائبات ِ قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے بیت المقدس تشریف لے آئے جہاں مسجدِ اَقصی میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ عالی کے اظہار کیلئے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جمع تھے ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی، پھر مسجدِاَقصیٰ سے آسمانوں کی طرف سفر شروع ہوا۔ آسمانوں کے دروازے آپ کے لئے کھولے جاتے رہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ وَالسَّلَام سے ملاقات فرماتے ہوئے ساتویں آسمان پر سِدْرَۃُ المُنْتَہیٰ کے پاس تشریف لائے۔ جب آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سِدْرَۃُ المُنْتَہیٰ سے آگے بڑھے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں ٹھہر گئے اور آگے جانے سے معذرت خواہ ہوئے ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ آگے بڑھے اور بلندی کی طرف سفر فرماتے ہوئے مقام ِمُستویٰ پر تشریف لائے پھر یہاں سے آگے بڑھے تو عرش آیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اس سے بھی آگے لامکاں تشریف لائے جہاں اللّٰہ ربُّ العزّت نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو وہ قُرْبِِ خاص عطا فرمایا کہ نہ کسی کو ملا، نہ ملےگا۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے بیداری کے عالَم میں سر کی آنکھوں سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا دیدار کیا اور بے واسطہ کلام کا شَرَف بھی حاصل کیا ۔ اس موقع پر نماز فرض کی گئی۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سِدْرَۃُ المُنْتَہیٰ پر تشریف لائے، یہاں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو جنّت میں لایا گیا ، جنّت کی سیر کے دوران نہرِ کوثر کو بھی ملاحظہ فرمایا۔ اس کے بعدجہنَّم کا مُعایَنہ کروایا گیا، بعد ازاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ واپس سِدْرَۃُ المُنْتَہیٰ تشریف لائے جس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ (فیضانِ معراج ، ص:13تا41 ، ملتقطاً)

اور کوئی غیب کیا، تم سے نِہاں ہو بھلا

جب نہ خدا ہی چھپا، تم پہ کروڑوں درود

(حدائق بخشش، ص:264)

حضور صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کوعطا کردہ کثیر معجزات میں سے ایک مشہور معجزہ واقعۂ معراج ہے جو اپنے ضمن میں بھی کافی معجزات لئے ہوئے ہے جیساکہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: تمام معجزات اور درجات جو انبیا کو علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے گئے وہ تمام بلکہ ان سے بڑھ کر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں: (1) حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ درجہ ملا کہ وہ کوہِ طور پر جا کر رب عَزَّوَجَلَّ سے کلام کرتے تھے، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چوتھے آسمان پر بلائے گئے اور حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جنت میں بلائے گئے تو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معراج دی گئی جس میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے کلام بھی ہوا، آسمان کی سیر بھی ہوئی، جنّت و دوزخ کا معاینہ بھی ہواغرضکہ وہ سارے مراتب ایک معراج میں طے کرا دئیے۔ (2) تمام پیغمبروں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور جنت و دوزخ کی گواہیاں دیں اور اپنی امتوں سے پڑھوایا کہ اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مگر ان حضرات میں سے کسی کی گواہی دیکھی ہوئی نہ تھی، سنی ہوئی تھی اور گواہی کی انتہا دیکھنے پر ہوتی ہے تو ضرورت تھی کہ اس جماعت پاک انبیا میں کوئی وہ ہستی بھی ہو جو اِن تمام چیزوں کو دیکھ کر گواہی دے ، اس کی گواہی پر شہادت کی تکمیل ہو جائے۔اس شہادت کی تکمیل حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی ذات پرہوئی۔( شان حبیب الرحمٰن، ص: 106 ملتقطاً)

ہے عبد کہاں معبود کہاں ، معراج کی شب ہے راز ِ نِہاں

دو نور حجابِ نور میں تھے، خود رَبّ نے کہا سُبْحانَ اللّٰہ

(بیاض پاک:ص33)

حضور سیّدُ الکونین ، صاحبِ قابَ قَوْسَین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّمْ نے شبِ معراج کروڑوں عجائباتِ قدرت ملاحظہ فرمائے۔ جنت میں تشریف لے جاکر اپنے غلاموں کے جنتی محلَّات و مقامات ملاحظہ فرمائے نیز جہنم کا مُعایَنہ فرما کر جہنمیوں کو ہونے والے دردناک عذاب بھی دیکھے پھر ا ن میں سے کچھ امت کی ترغیب و ترہیب کے لیے بیان فرما دیا تاکہ لوگ نیک اور اچھے اعمال کے ذریعے جہنم سے بچنے کی تدبیر کریں اور جنت کی لازوال نعمتوں کا سن کر انہیں پانے کیلئے کوشاں ہوں، ان میں سے چند ایک واقعات و مشاہدات پیش خدمت ہیں: شب معراج آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے موتیوں سے بنے ہوئے گُنبد نُما خیمے مُلاحَظہ فرمائے جن کی مٹی مُشک کی تھی۔ عرض کیا گیا : یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے اَئِمَّہ ومُؤذِّنِین کے لئے ہیں۔ (المسند للشاشی،321/3 ،حدیث: 1428) چند بلند و بالا محلَّات مُلاحَظہ فرمائے ، عرض کیا گیا : یہ غصہ پینے والوں اور دَرگزر کرنے والوں کے لئے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ احسان کرنے والوں کوپسندفرماتا ہے۔(مسند الفردوس، 255/2، حدیث:3188)

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّمْ کوجہنم میں کچھ لوگ نظر آئے جو مُردار کھا رہے تھے ،عرض کیا گیا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے(یعنی غیبت کیا کرتے )تھے۔ (مسند احمد، 1/553، حدیث:2324) کچھ لوگوں کےپیٹ مکانوں کی طرح (بڑے بڑے) تھے،جن کے اندرموجود سانپ باہر سے نظر آ رہے تھے، عرض کیا گیا: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ، 3/71، حدیث:2273) کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے جو ہر بار کچلنے کے بعد درست ہو جاتے تھے، اس معاملے میں ان سے کوئی سستی نہیں برتی جاتی تھی۔ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نماز سے بوجھل ہو جاتے تھے۔(مجمع الزوائد،/1236، حدیث: 235)

عَفْو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا

گر کرم کردے تو جنّت میں رہوں گا یارب!

(وسائل بخشش مُرَمَّم، ص:85،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)


اشعار کی تشریح

Wed, 18 Mar , 2020
4 years ago

سچے عاشقِ رسول،ولیِّ کامِل ،اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کا67 اشعار پر مبنی”قصیدۂ معراجیہ“ شعر و ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اس مُبارَک قصیدے کے 3 اشعارمع شرح پیشِ خدمت ہیں۔

نمازِ اَقصٰی میں تھا یہی سِر،عیاں ہومعنیِ اول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضرجوسلطنت آگے کر گئے تھے

(حدائقِ بخشش،ص232مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

الفاظ و معانی:سِر:راز۔عِیاں:ظاہر۔دست بستہ: ہاتھ باندھ کر۔آگے:گزشتہ زمانے میں۔شرح کلامِ رضاؔ: نبیوں کے سرتاج صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے شبِِ معراج مسجدِ اقصیٰ میں موجود تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی ، اس نماز کی بدولت اوّل اور آخر کا راز ظاہر ہوگیاکہ سرکارِ مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اگرچہ تمام انبیا ئے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد دنیا میں تشریف لائے لیکن اِس نماز میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے پہلےتشریف لانے والے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ہاتھ باندھ کر آپ کے پیچھے نماز میں شریک ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہیں۔ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: امام اُسی کو بنایا جاتا ہے جو سب سے زیادہ عالِم اور اَفضل ہو۔معراج میں سارے نبیوں کی امامت حضورِ اَنور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ) نے کی،سب نے آپ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ)کے پیچھے نماز پڑھی کیونکہ

آپ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ)ان سب حضرات سے افضل اور بڑے عالم تھے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/354)

تَبَارَکَ اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

کہیں تووہ جوشِ لَنۡ تَرَانِی کہیں تقاضے وِصال کے تھے

(حدائقِ بخشش،234 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

الفاظ و معانی:زیبا:زیب دینے والا۔بے نیازی: کسی کا محتاج نہ ہونا۔تقاضا:طلب کرنا۔ وصال: ملاقات۔ شرح کلامِ رضاؔ: اے ہمارےپیارےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!توبڑی برکت والاہے اور تیری شانِ عظمت نشان نہایت بلند و بالا ہے،کسی کا محتاج نہ ہونا تیرے ہی شایانِ شان ہے۔حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب دیدارِ خداوندی کا مطالبہ کیاتوان سے کہا گیا: (لَنْ تَرَانِیْ) یعنی تومجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ (پ9، الاعراف:143) جبکہ شبِ معراج اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایاگیا:یَامُحَمَّدُ! اُدۡنُ اُدۡنُ یعنی اےمحمد! قریب ہو جاؤ، قریب ہوجاؤ۔ (الشفاء، 1/202)

خداکی قدرت کہ چاندحق کے، کروڑوں منزِل میں جلوہ کرکے

ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی، کہ نور کے تڑکے آلیے تھے

(حدائقِ بخشش،237 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

الفاظ و معانی:تاروں کی چھاؤں: تاروں کی روشنی۔ نور کا تڑکا:صبح صادق۔شرح کلامِ رضاؔ: اللہ رب العزت عَزَّ وَجَلَّ کی قدرت سے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہزاروں لاکھوں میل پرمشتمل سفرِمعراج انتہائی قلیل(یعنی بہت ہی تھوڑے سے) وقت میں مکمل کرکے راتوں رات واپس تشریف لے آئے تھے۔ تمام نبیوں کے سرتاج صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَسفرِمعرا ج پرروانہ ہونے سے پہلے جس بچھونے پر آرام فرما رہے تھے،واپس تشریف لائے تو وہ بچھونا ابھی تک گرم تھا۔تشریف لے جاتے ہوئے درخت کی جس ٹہنی سے عمامہ شریف ٹکرایا تھاواپسی پر وہ ٹہنی ہل رہی تھی۔(روح المعانی،8 /18، جزء:15)تشریف لے جاتے وقت جس پانی سے وضو فرمایا تھا وہ پانی ابھی تک پوری طرح نہ بہا تھا(یعنی ابھی تک اُس کے بہنے کا عمل جاری تھا)۔(روح البیان، 5 /125)


حضرت سیّدنا امیر معاویہ

Tue, 17 Mar , 2020
4 years ago

صحابیِّ رسول، کاتبِ وحی، خالُ المؤمنین و خلیفۃُ المسلمین حضرتِ سَیِّدُنا امیر ِمُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ (جو کہ اوّل ملوکِ اسلام (پہلے سلطانِ اسلام) بھی ہیں) بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ (دلائل النبوۃللبیھقی،6/243، ملتقطاً۔ تاریخ ابن عساکر، 3/208۔ الاصابۃ، 6/120، بہارشریعت،1/258)آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صحابی رسول حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے بیٹے اور اُمّ المومنین حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاکے بھائی ہیں۔آپ کی شان میں کئی احادیث مروی ہیں۔ حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کے بارے میں یوں دعا فرمائی:اے اللہ! انہیں(امیر معاویہ کو) ہدایت دینے والا،ہدایت یافتہ بنا اور اِن کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔(ترمذی، 5/455، حدیث: 3868) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ چالیس سال تک حکومتی مَنْصَب پر جلوہ اَفروز رہے۔(فیضان امیر معاویہ، ص 103)جن میں 10سال امیر المومنین حضرتِ سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جیسے عادل و نَقَّاد خلیفہ کا سنہری دور بھی شامل ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرمایا کرتے: تم قیصر و کِسریٰ اور ان کی عقل و دانائی کا تذکرہ کرتے ہو جبکہ معاویہ بن ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ موجود ہیں۔(تاریخ طبری، 3/264) حضرت سَیِّدُناامیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے زمانَۂ خلافت میں اِسلامی سلطنت خُراسان سے مغرب میں واقع افریقی شہروں اور قُبْرُص سے یَمَن تک پھیل چکی تھی۔ (فیضان امیر معاویہ، ص 110)

آپ کے چند انقلابی کارنامے پیش کئے جاتے ہیں: اسلامی شہروں سازشوں کے ذریعے فتنہ پھیلانے والے خَوارِج کی سرکوبی فرمائی، یہاں تک کہ فتنہ مکمل طور پر ختم ہوگیا۔(فیضان امیر معاویہ، ص 128)آپ کے حکم سے تاریخ کی پہلی کتاب کتابُ المُلُوك وَ اَخبَارُ الْمَاضِین لکھی گئی۔(التراتیب الاداریہ، 2/322) 28ہجری میں اسلام کی سب سے پہلی بحری فوج کی قیادت فرمائی اور قُبْرُص کو فتح کیا۔(شرح ابن بطال ، 5/11، تحت الحدیث: 2924) بحری جہاز بنانے کے لئے 49ہجری میں کارخانے قائم فرمائے اور ساحل پر ہی تمام کاریگروں کی رہائش وغیر ہ کا انتظام کردیا تاکہ بحری جہاز بنانے کے اہم کام میں خَلل واقع نہ ہو۔(فتوح البلدان،ص161) مکتوبات پر مہر لگانے کا طریقہ رائج فرمایا جس کا سبب یہ بنا کہ آپ نے ایک شخص کیلئے بَیْتُ المال سے ایک لاکھ درہم دینے کا حکم تحریر فرمایا لیکن اس نے تَصَرُّف کرکے اسے ایک کے بجائے دو لاکھ کردیا،آپ کو جب اس خیانت کا عِلْم ہوا تو اُس کا مُحاسَبَہ فرمایا اور اس کے بعد خُطوط پر مہر لگانے کا نِظام نافِذ فرما دیا۔(تاریخ الخلفا، ص160) سرکاری خُطوط کی نقل محفوظ رکھنے کا نظام بنایا۔(تاریخ یعقوبی، 2/145)سب سے پہلے کعبہ شریف میں منبر کی ترکیب بنائی۔ (تاریخ یعقوبی، 2/131) اور سب سے پہلے خانہ کعبہ پر دِیبا و حَرِیر (یعنی ریشم) کا قیمتی غلاف چڑھایا اور خدمت کے لیے مُتَعَدِّد غلام مُقَرَّر کیے۔(تاریخ یعقوبی، 2/150) عوام کی خیرخواہی کیلئے شام اور روم کے درمیان میں واقع ایک مَرْعَش نامی غیر آباد علاقے میں فوجی چھاؤنی قائم فرمائی۔(فتوح البلدان، ص265) اَنْطَرطُوس، مَرَقِیَّہ جیسے غیر آباد علاقے بھی دوبارہ آباد فرمائے۔(فتوح البلدان، ص182) نئے آباد ہونے والے علاقوں میں جن جن چیزوں کی ضرورت تھی،اُن کا انتظام فرمایا مثلاً لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے نہری نظام قائم فرمایا۔(فتوح البلدان، ص499) رعایاکی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے محکمہ بنایا جس کے تحت ہر علاقے میں ایک ایک افسرمقررتھاتاکہ وہ لوگوں کی معمولی ضرورتیں خودپوری کرے اوربڑی ضرورتوں سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہکو آگاہ کرے نیزان کوکسی بھی گھر میں آنے والے مہمان یا بچے کی ولادت کے بارے میں معلومات رکھنے کا حکم دیا تاکہ ان کے وظائف کی ترکیب بنا سکیں۔(البدایہ و النہایہ،8/ 134،مراٰۃ المناجیح،5/ 374 )


بیماری اُڑ کر نہیں لگتی

Mon, 16 Mar , 2020
4 years ago

رَسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لَا عَدْوٰی وَلَا صَفَرَ وَلَا ھَامَۃیعنی نہ بیماری کا اُڑ کر لگنا ہے، نہ صَفَر کی نحوست ہے نہ اُلّو کی نحوست ہے۔ ایک اعرابی نے عرض کی: یارسولَ اللہ! پھرکیا وجہ ہے کہ میرے اونٹ مٹی میں ہرن کی طرح (چست،تندرست و توانا)ہوتے ہیں،تو ایک خارش زدہ اونٹ ان میں داخل ہوتا ہے اور ان کو بھی خارش زدہ کر دیتا ہے ؟تو حضور علیہ الصّلوٰۃو السَّلام نے فرمایا: پہلے کو کس سے خارش لگی ؟ (بخاری،4/26،حدیث:5717)

تعدیہ مرض سے کیا مراد ہے؟اَلْعَدْوَیسے مراد یہ ہے کہ بیماری ایک شخص سے بڑھ کر دوسرے کو لگ جائے۔لَا عَدْوَیوالی حدیث اسی سےہے یعنی ایک شے دوسری شے کی طرف مُتَعَدِّی (یعنی منتقل Transfer) نہیں ہوتی۔ (التوقیف علی مہمات التعاریف، ص238)

بیماری اُڑ کر لگنے کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر

(1)ایک کی بیماری یا مرض کااُڑ کر دوسرے کو لگ جانا یا کسی مریض سے مرض تجاوُز کرکے صحیح سلامت تندرست آدمی میں منتقل ہوجانا!یہ بالکل باطل ہے۔اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے بیماری خود اُڑ کر دوسرے کو لگ جاتی ہے، خدا تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی دخل نہیں بلکہ یہ خود ہی مؤثر ( یعنی بذاتِ خود اثر انداز ہونے والی) ہے۔ حدیثِ پاک میں اسی نظریے کا ردفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:”لَاعَدْوَییعنی بیماری کا اُڑ کر لگنا کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجذوم(جذام کے مریض) کے ساتھ کھانا بھی کھایا تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ مرض اڑ کر دوسرے کو نہیں لگتا۔ (2) تعدیۂ جراثیم یعنی ”مرض کے جراثیم کا اُڑ کر دوسرے کو لگنا“کھلی حقیقت ہے، جراثیم خود مرض نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہے جو صرف خردبین یا الٹرامائکرواسکوپ (Ultra-Microscope)کے ذریعے ہی نظر آتی ہے اور یہ جراثیم مرض کا سبب بنتے ہیں۔ پہلے زمانے کے لوگ ان جراثیم سے واقف نہ تھے تو انہوں نے یہی نظریہ بنا لیا کہ مرض مُتَعَدِّی ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے اس کی نفی فرمائی کہ کوئی مرض مُتَعَدِّی نہیں ہوتا اسلام کے تعدیہ مرض کی نفی کرنے سے جراثیم کے مُتَعَدِّی ہونے کی نفی قطعاً نہیں ہوتی۔فتح الباری میں ہے:تعدیہ کی نفی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شے اپنی طبیعت کے اعتبار سے دوسری چیز کو نہیں لگتی، چونکہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ امراض اپنی طبیعت کے اعتبار سے مُتَعَدِّی ہوتے ہیں اور وہ ان کی نسبت اللّٰہ تعالٰی کی طرف نہیں کرتے تھے، لہذا اس اعتقاد کی نفی کی گئی اورنبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ان کے اعتقاد کو باطل فرمایا اور مجذوم کے ساتھ کھانا کھایا تا کہ آپ انہیں بیان کردیں کہ اللہ ہی بیمار کرتا ہے اور شفا دیتا ہے۔(فتح الباری لابن حجر،11/136،تحت الحدیث: 5707)

مراٰۃ المناجیح میں ہے:اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے۔ وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو مُتَعَدِّی مانتے ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوبِِ چشم،وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔اس معنیٰ سے مرض کا اُڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تَعَفُّنْ سے اثر لے کر بیمار ہوجائے اس معنیٰ سے تَعَدِّی ہوسکتی ہے اس بنا پر فرمایا گیا کہ جذامی سے بھاگو لہٰذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں۔ غرضکہ عدویٰ یا تَعَدِّی اور چیز ہے کسی بیمار کے پاس بیٹھنے سے بیمار ہوجانا کچھ اور چیز ہے۔“(مراٰۃ المناجیح ،6/256)


امیرالمؤمنین حضرت سیِّدنا عُمر بن عبدُالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابوحَفص،نام عمربن عبدالعزیزہے، آپ کی والدہ حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی سیّدتنا اُمِّ عاصم بنتِ عاصم تھیں۔(الثقات لابن حبان،2/354 ملخصاً)آپ عابدو زاہد،بُردبَار، عاجِزی واِنکِساری کے پیکر، خوفِ خداسے لَبْریز، عَدْل وانصاف قائم کرنے، بھلائی اور نیکیوں کو محبوب رکھنے، نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے مَنْع کرنے والے تھے۔ آپ کا شمار اُن خُلَفا میں ہوتا ہے جو خلیفہ ہونے کے باوجود شان و شوکت اور عیش وعِشْرت کی زندگی سے دور رہے۔ (ماخوذ از طبقات ابن سعد، 5/260) آپ نےصرف 29 ماہ کےعرصے میں دنیا کےایک بڑے حصے میں خوشحالی کاایسااِسلامی اِنقلاب برپاکیاجس کی مثال صَدْیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ملتی، آپ نے عَہْدِ خُلفائے راشِدین کی یاد تازہ کردی۔آپ کو عمُرِثانی بھی کہا جاتا ہے۔ (الثقات لابن حبان، 2/354،مرقاۃ المفاتیح،9/245،تحت الحدیث:5375- 5376) آپ رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ منتخَب ہوئے تو اس وقت مُعاشَرے کی حالت بہت بری تھی،اُمَراء نے لوگوں کی جائیداوں پر ناحق قبضے کئے ہوئے تھے،دین سے بے راہ روی عام تھی، شراب نوشی عام ہونے کے علاوہ بہت سی ممنُوعاتِ شرعیہ مَملکتِ اسلامیہ میں رائج ہوچکی تھیں۔ آپ نےدینی،حکومتی اورمُعاشرتی شعبہ جات میں اِصلاح کے لئے انقلابی کوششیں فرمائیں۔ دعوتِ دین آپ نے دینِ اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے تِبَّت، چین اور دُوردراز مَمالک میں وُفود روانہ کئےاور وہاں کے حکمرانوں کو دعوتِ اِسلام پیش کی جس کے اثر سے مشرق و مغرب میں کئی بادشاہوں اور راجاؤں نے اسلام قبول کیا۔(مجددین اسلام نمبر، ص59ملخصاً) عدل و انصاف آپ رحمۃ اللہ علیہ نےمجبوروں، مظلوموں اور مَحْروموں کوان کی وہ جائیدادیں واپس دلائیں جنہیں شاہی خاندان کے افراد، حُکومتی اَہلکاروں اور دیگر اُمَرا نے اپنے تَصَرُّف میں لے رکھا تھا۔ (سیدناعمربن عبدالعزیز کی 425حکایات، ص162ملخصاً) تدوینِ حدیث آپ نے نبیِّ اکرم،رحمتِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیثِ مبارکہ مِٹ جانے کے خوف سے ان کوجمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔(سنن دارمی، 1/137، حدیث:488ملخصاً) غیر شرعی اُمور کا خاتمہ شراب نوشی کے خاتِمہ کے لئے مختلف تدبیریں فرمائیں مثلاً شرابیوں کو سخت سزائیں دیں اورذِمّیوں کو بھی حکم فرمایاکہ وہ ہمارے شہروں میں ہرگز شراب نہ لائیں۔ (طبقات الکبریٰ،5/283 ملخصاً) غیر مسلموں کے مذہبی تَہْوارکے موقع پر مسلمانوں کوتحفے تحائف(Gifts)بھیجنے سے روکا۔ (طبقات الکبریٰ، 5/291) آپ رحمۃ اللہ علیہ کو صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اس قدر مَحبّت تھی کہ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ اور حضرت سیّدنا امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہما کی شان میں نازیبا الفاظ بکنے والوں کوسختی سے منع فرمایا ۔( تاریخ الخلفاء، ص195، الاستیعاب، 3/475) نیز یزید کو امیرُالمومنین کہنے والے کو بھی کوڑے لگوائے۔(سیراعلام النبلاء، 5/84ملخصاً) فلاح عامہ آپ نے ایک لنگر خانہ قائم کیا جس میں فُقراو مساکین اورمسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔(تاریخ دمشق، 45/218)اسی طرح مُسافروں کے لئے سرائے خانے اور ان کی سُوارِیوں کے لئے اَصْطَبل تعمیر کروائے، نابیناؤں، فالج زدہ، یتیموں اور معذوروں کی خدمت کے لئے غلام اور اَخراجات عطا فرمائے اور بچوں کے وظائف بھی مُقرّر فرمائے۔ (سیدناعمربن عبدالعزیز کی425 حکایات، ص447تا452 ملخصاً) مَعاشی انقلاب آپ کے عدل وانصاف اورحُسنِ انتظام سےایسا انقلاب (Revolution) آیاکہ زکوٰۃ لینے والے دینے والے بن گئے اورزکوٰۃ دینےوالوں کو فُقراتلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ (سیرۃ ابن عبدالحکم ،ص59)


پچھلے مضمون میں اسی سوال کا جواب دیا گیا تھا اور اِس مضمون میں اسی کی تکمیل ہے۔ خلاصۂ کلام یہ تھا کہ دین علماء نے مشکل نہیں کیا بلکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین ہے جسے ہر مسلمان کو دل و جان سے ماننا ہی ہوگا اب یہ کام اعتراض کرنے والوں کا ہے کہ وہ ہمیں بیان کریں کہ وہ کون سے کام ہیں جنہیں علماء نے مشکل بنایا ہے۔

ہم نے عبادات کی مثال دی تھی کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج تو اللہ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں اگر دل مانے تو کرنا اور دل نہ مانے تو بھی کرنا ہی ہے۔

اب آئیے ذرا دیگر احکام کی طرف۔اِس وقت دنیا کا معاشی نظام سُودی معیشت پر مبنی ہے، بینُ الاقوامی، قومی اور نجی مالی معاملات میں سُود کا عمل دخل ہے اور علماء اس کی حرمت و شناعت و قباحت پر وقتاً فوقتاً کلام کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور یہ سب کلام اُن کا اپنی طرف سے نہیں اور نہ ہی انہوں نے سُود کو خود سے حرام کیا ہے بلکہ سُود کی حرمت قرآن نے بیان کی ہے اور ایک دو آیتوں میں نہیں، بہت سی آیات میں اور ایک دو حدیثوں میں نہیں بلکہ درجنوں احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ اب اگر کسی کو سود کی لَت لگی ہے یا اُس کی نظر میں گویا نظامِ کائنات ہی سود پر چل رہا ہے تو وہ جو مرضی سمجھے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے اسے سود سے بچنا فرض ہے اور سود کی حرمت اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتی اور اب اگر اِس حکم میں کسی کو مشکل یا بہت مشکل یا بہت ہی مشکل نظر آتی ہے تو اسے یہی عرض ہے کہ جنابِ عالی سُود کو ربُّ العالمین نےحرام کیااوررحمۃٌ لِّلعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنےاسے بارباربیان کیا ہے۔یہ علماء کی کوئی ذاتی خواہش و ایجاد نہیں ہے،لہٰذا غریب ہو یا امیر، ریڑھی والا ہویا بزنس مین،کسی بینک کا سربراہ ہویا بڑی بڑی انشورنس کمپنیوں کا مالک ہر ایک کو اس کی حرمت پر یقین رکھتے ہوئے اس سے ہر حال میں بچنا ہی پڑے گا۔

یونہی کوئی سمجھتا ہے کہ سرکاری دفتروں میں فائل کو پہیے لگانے پڑتے ہیں یعنی فائل کے ساتھ رشوت کے پیسے دینے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر کام نہیں ہوتا تو علماء اسے حرام ہی کہیں گے کیونکہ باطل طریقے سے مال کھانے کو قرآن نے حرام قرار دیا اور رشوت لینے دینے والے کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلَّم نے جہنمی قرار دیا۔ اب اگر کسی کو رشوت کے بغیر کام کرنے یا کرانے میں مشکل لگتی ہے اور رشوت کی حرمت اُس پر دشوار ہے یا جو بھی ہے لیکن بہرحال یہی طے ہے کہ یہ سختی و مشکل علماء نے تیار نہیں کی بلکہ خداوندِ عالم نے نظامِ عالم کی صلاح و فلاح کے لئے یہ بہترین احکام دئیے ہیں۔

اسلام میں عقائد و معاملات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی ایک پورا باب ہے جن میں حسنِ اخلاق، صبر، شکر، توکل اور صلہ رحمی وغیرہ چیزیں ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کئی جگہ تذکرہ موجود ہے مثلاً لوگوں کو معاف کیا کرو،صبر سے کام لو اللہصبرکرنے والوں کے ساتھ ہے،مسلماناللہ کا شکر بجالائیں اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں اوران سےاچھے انداز میں گفتگو کریں۔ اخلاقیات کے باب پر تو شاید کسی کو اتنا کلام نہ ہوکہ اچھےاخلاق اپنانےکی دعوت توسبھی دیتےہیں لیکن عمومی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات میں فرق ہے مثلاًاپنی ذات کی خاطرغصہ کرنے سے تو دونوں طرح کی اخلاقیات میں منع کیا جاتا ہے لیکن اس سے آگے عمومی اخلاقیات ملک و وطن کی خاطر غصہ کرنے کی تو اجازت دیتی ہے لیکن خدا و رسول کی خاطر اور دین کے لئے غصہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی اور یہی بھاشن سیکولر اور لبرل لوگ دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی اخلاقیات ہمیں اللہ و رسول کی خاطر غصہ کرنے کی اجازت بلکہ حکم دیتی ہے جیسے اگر مَعَاذَ اللہ ان ہستیوں کی گستاخی کی جائے تو غصہ کرنا تقاضائے ایمان ہےاور ایسی جگہ رواداری یا اس کے بھاشن غیرتِ ایمانی کے منافی ہیں۔ یونہی خدا و رسول کے منکروں کو سخت ناپسند کرنا اور خدا کے احکام کی پامالی پرکم از کم دل میں برا جاننااسلامی اخلاقیات ہے۔ یہ اخلاقیات قرآن و احادیث میں جگہ جگہ بیان کی گئی ہیں۔ اب سیکولر، لبرل لوگ اس پر جتنا مرضی منہ بگاڑیں، اعتراض کریں ، مشکل کہیں بلکہ مَعَاذَ اللہ بداخلاقی کہیں اور سارا الزام اٹھا کر علماء پر ڈال دیں، بہرحال یہ معلوم ہے کہ یہ احکام علماء نے نہیں بنائے بلکہ قرآن و احادیث میں موجودہیں۔ جو چاہے وہ اَلْحُبُّ فِی اللہ وَالْبُغْضُ فِی اللہ کے عنوان کے تحت آیات و احادیث دیکھ لے۔

اوپر بیان کردہ سوداورایمانی غیرت وہ احکام ہیں جن کا الزام عموماً دین سے دور لوگ علماء پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سیکولر، لبرل لوگوں کو جس مسئلے کا زیادہ غم لگا ہوا ہے وہ پردے کا مسئلہ ہے۔ انہیں علماء کا عورتوں کو پردے کی ترغیب دینا بہت تکلیف دیتا ہے۔ان افراد کے لئے عورت کا پردہ صرف ایک چادر نہیں بلکہ اپنی شیطانی خواہشات کے لئے تنگ کفن محسوس ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر خواہشات کے لذیذ کباب میں حیا کی ہڈی محسوس ہوتا ہے حالانکہ پردہ خواہشات کے اِس ناپاک زہریلے کباب سے روکنے کا ذریعہ ہے۔بہرحال اسی پردے اور حیا کے لباس کو تار تار کرنے کے لئے کبھی عورت کی آزادی کے نام پر،کبھی عورت کی نوکری کے نام پر اور کبھی دوسرے حیلوں سے پردے کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ خود قرآنِ پاک حیا اور پردے کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے کہ مسلمان مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور مسلمان عورتیں بھی نظریں نیچی رکھیں اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔اب اگر کسی کادل مانےیا نہ مانے پردہ تو کرناہی ہوگا اور وہ بات بھی یہاں یاد رکھیں کہ یہ احکام علماء کے خود ساختہ نہیں بلکہ قرآن اور حدیث کے ہیں۔

ایک اور چیز ہے جس پر علماء کا کلام دین بیزار لوگوں کے لئےغم و غصہ کا باعث بنتا ہے اور وہ ہے ناچ، گانا، ٹھمکے، مجرے، جسے آج کی شیطانی زینت کے الفاظ میں لپیٹ کرموسیقی، ڈانس، شامِ موسیقی، روح کے نغمے، جشنِ طرب، فن کار، کلاکار اور نجانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ اسے بھی علماء ناجائز و حرام کہتے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور پوری امت کے اتفاق و اجماع سے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علماء پر تبرا کرکے حرام کام، حلال نہیں ہوجائیں گے۔اس لئے خدا سے ڈریں اور حیلے بہانے کر کے گناہ کرنے کی بجائے اللہ و رسول کے احکامات کی طرف آجائیں اور علمائے کرام کی رہنمائی میں زندگی گزاریں۔

دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے

شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

حضرت سیّدنا امیر معاویہ

Wed, 11 Mar , 2020
4 years ago

صحابی ابنِ صحابی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مل جاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ 6ہجری میں صلحِ حُدیبیہ کے بعد دولتِ ایمان سے مالامال ہوئے مگر اپنا اسلام ظاہر نہ کیا۔ پھر فتحِ مکّہ کے عظمت والے دن والدِ ماجد حضرت ابوسفیان رضیَ اللہُ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اس کا اظہار کیا تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مرحبا فرمایا۔(طبقاتِ ابن سعد، 7/285) حُلْیۂ مبارکہ حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے، چہرہ نہایت وجیہ اور رُعْب و دبدبے والا تھا۔ زرد خِضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے۔ (تاریخ الاسلام للذھبی، 4/308)فضائل و مناقب آپ رضیَ اللہُ عنہ کے اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کتبِ احادیث و سِیَر اور تواریخِ اسلام کے روشن اوراق پر نور کی کِرنیں بکھیر رہے ہیں۔ آپ کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔(معجم کبیر، 5/108، حدیث: 4748) دعائے مصطَفٰے کئی مرتبہ مصطفٰے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعاؤں سے نوازا کبھی علم وحِلم کی یوں دعا دی:اے اللہ!معاویہ کو علم اور حلم (بردباری) سے بھر دے۔(تاریخ کبیر، 8/68،حدیث:2624) کبھی ہدایت کا روشن ستارہ یوں بنایا: یااللہ!معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لئے ذریعۂ ہدایت بنا۔ (ترمذی، 5/455،حدیث:3868)کبھی نوازشوں کی بارش کو یوں برسایا: اے اللہ! معاویہ کو حساب و کتاب کا عِلم عطا فرما اور اس سے عذاب کو دور فرما۔ (مسنداحمد، 6/85، حدیث: 17152)کبھی خاص مجلس میں ان کی عظمت پر یوں مہر لگائی:معاویہ کو بلاؤ اور یہ معاملہ ان کے سامنے رکھو، وہ قَوی اور امین ہیں۔(مسند بزار، 8/433،حدیث:3507)کبھی سفر میں خدمت کا شرف بخشا اور وضو کرتے ہوئے نصیحت فرمائی: معاویہ! اگر تم کو حکمران بنایا جائے تو اللہ پاک سے ڈرنا اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر رکھنا۔(مسند احمد، 6/32، حدیث: 16931) اوصافِ مبارکہ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ اخلاص اور عہد و وفا، علم و فضل اور فقہ و اجتہاد، حسن ِسلوک، سخاوت، تقریر و خطابت، مہمان نوازی، تحمل و بُردباری، غریب پروری، خدمتِ خَلق، اطاعتِ الٰہی، اتّباعِ سنّت، تقویٰ اور پرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف سے مُتَّصِف تھے۔ بُردباری ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہسے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو۔ (حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، ص:22) اصلاحِ نفس کا جذبہ آپ رضیَ اللہُ عنہ اپنے کام کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لئے نصیحت ہو۔ (ترمذی، 4/186، حدیث: 2422مختصراً) فرمانِ مولیٰ مشکل کُشا جنگِ صِفِّین کے بعد امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے بارے میں فرمایا: معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن (پھل)۔ (یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے)۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 8/724، رقم: 18) شیرِ خدا سے مَحبّت حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت سیّدُنا ضرار رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کریں۔ جب حضرت ضرار رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کئے تو آپ رضیَ اللہُ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔(حلیۃ الاولیاء،1/126مختصراً) اہلِ بیت کی خدمت حضرت سیّدُنا امام حُسین رضیَ اللہُ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے: فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔ (کشف المحجوب، ص77ماخوذاً) کعبہ میں نماز جب آپ رضیَ اللہُ عنہ مکۂ مُکرّمہ میں داخل ہوئے تو حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عمر رضیَ اللہُ عنہُما سے سوال کیا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ میں کس جگہ نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: دیوار سے دو یا تین ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لیجئے۔(اخبارِ مکۃ للازرقی،1/378) موئے مبارک کا دھووَن پیا ایک بار آپ رضیَ اللہُ عنہ مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہَا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِدا (یعنی چادر) مُقدّسہ اور موئے مبارک ہیں، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں، حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ نے حصولِ بَرَکت کے لئے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا۔ (تاریخ ابنِ عساکر، 59/153) وصالِ مبارک آپ رضیَ اللہُ عنہ کے پاس حضور سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تَبرّکات میں سے اِزار (تہبند) شریف، ردائے اقدس، قمیصِ اطہر، موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے مقدّس تراشے تھے، تَبرّکات سے برکات حاصل کرنے اور اہلِ بیت و صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفرِِ زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بَوقتِ انتقال وصیّت کی کہ مجھے حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِزار شریف و ردائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دینا۔(تاریخ ابن عساکر، 59/229تا231) کاتبِ وحی، جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ نے 22رجب المرجب(1)60ھ میں 78سال کی عمر میں داعیِ اَجل کو لبیک کہا۔(معجم کبیر، 19/305، رقم: 679، استیعاب، 3/472) حضرت سیّدُنا ضَحّاک بن قَیس رضیَ اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر کو آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔ (الثقات لابن حبان،1/436) بدگوئی سے توبہ شمسُ الائمہ امام سَرْخَسی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات: 483ھ) نے مبسوط میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ پہلے پہل امامِ جلیل محمد بن فضل الکماری رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات: 381ھ) حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے خلاف بدگوئی اور عیب جوئی میں مبتلا ہوگئے تھے پھر ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ان کے منہ سے لمبے لمبے بال نکل کر پاؤں تک لٹک گئے ہیں اور وہ ان بالوں کو اپنے پاؤں میں روندتے چلے جارہے ہیں جبکہ زبان سے خون جاری ہے جس سے ان کو سخت تکلیف اور اذیت ہورہی ہے، بیدار ہونے کے بعد انہوں نے تعبیر بتانے والے سے اس کی تعبیر پوچھی تو اس نے کہا: آپ کِبار صحابہ علیہمُ الرِّضوان میں سے کسی صحابی کی بدگوئی اور ان پر طعن کرتے ہیں، اس فعل سے بچئے اور اجتناب کیجئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس سے فوراً تائب ہوگئے۔ (المبسوط،جز:24، 12/57)

ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

صدیق و عمر بھی جنّتی جنّتی

عثمانِ غنی جنّتی جنّتی

فاطمہ و علی جنّتی جنّتی

حسن و حسین بھی جنّتی جنّتی

امیرِ معاویہ بھی جنّتی جنّتی

(1) 4 اور 15 رجب المرجب بھی مروی ہے۔

ماہ ِرَجَبُ المُرَجَّبکو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں۔

نام ونسب:آپ کانام”جعفر“ اورکُنیّت”ابوعبداللہ‘‘ہے ۔آپ کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی،آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیںرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ہیں۔سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو”صادِق‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔(سیر اعلام النبلا، 6/438)

تعلیم و تربیت :آپ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدناعُروہ بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃکے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔(تذکرۃ الحفاظ،1 /126)دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتابعی ہیں ۔(سیر اعلام النبلا، 6/438)

دینی خدمات: کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔(تذکرۃ الحفاظ ، 1/125، سیر اعلام النبلا ،6 / 439)

قابلِ رشک اوصاف ومعمولات: خوش اَخلاقی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔(الشفا مع نسیم الریاض، 4/488ملخصاً) آپ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ کےرویّےمیں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدری نظر آتی، آپ کے عفوودَرگُزر کی ایک جھلک مُلاحَظَہ کیجیے:(حکایت)ایک مرتبہ غلام نے ہاتھ دُھلوانے کے لئے پانی ڈالا مگر پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گرگیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے نہ تو جھاڑا، نہ ہی سزا دی بلکہ اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا۔ (بحرالدموع،ص 202 ملخصاً)

وصال و مَدْفَن:آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال 15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو68سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔(الثقات لابن حبان،3 / 251،وفیات الاعیان، 1/168)

خلیفۂ چہارم،امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم عامُ الفیل کے تیس برس بعد جبکہ حضورِاکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے اعلانِ نَبُوَّت فرمانے سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔(تاریخ ابن عساکر، 41/361) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے،بہن بھائیوں میں سے حضرت عقیل اورحضرت جعفر، حضرت امِّ ہانی اور حضرت جُمانہ علیہِمُ الرِّضْوَان دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد 11/88،ریاض النضرہ، 2/104، مصنف عبد الرزاق، 7/134، حدیث: 12700) پرورش، لقب و کنیت حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی محمّد رّسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا جمالِ جہاں آراء دیکھا، حضورِانور ہی کی باتیں سنیں، عادتیں سیکھیں، ہرگز ہرگزبتوں کی نجاست سے آپ کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا۔ اسی لئے لقبِ کریم کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہ ملا۔ (فتاویٰ رضویہ، 28/436 بتغیر) آپ رضیَ اللہُ عنہ کی کنیت ابو الحسن اور ابو تُراب ہے۔ نکاح آپ رضیَ اللہُ عنہ اور حضرت سیّدَتُنابی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کا بابرکت نکاح 2 ہجری ماہِ صفر، رجب یا رمضان میں ہوا۔ (اتحاف السائل للمناوی، ص:2 ) جہیزو رہائش حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کے جہیز میں ایک چادر، کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک تکیہ، ایک پیالہ، دو مٹکے اور آٹا پیسنے کی دو چکّیاں تھیں۔ (مسند احمد، 1/223،حدیث، 819، معجم کبیر، 24/137، حدیث: 365) بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی رہائش کے لئے حضرت علیکرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کا گھر کاشانۂ اقدس صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے دور تھا اس لئے حضرت سیّدُنا حارثہ بن نعمان رضیَ اللہُ عنہ نے کاشانۂ اقدس سے قریب اپنا ایک گھر حضرت علی و فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے لئے پیش کردیا۔(طبقات ابن سعد، 8/19 ملخصاً) ابتدائی تین دن ان دونوں مُقدّس ہستیوں نے دن روزے میں اور رات عبادتِ الٰہی میں بسر کی۔ (روض الفائق، ص: 278) کام کاج کی ذمّہ داری گھر کے کام کاج(مثلا ً چکی پیسنے ،جھاڑو دینےاور کھانا پکانےکے کام وغیرہ ) حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کرتی تھیں اور باہر کے کام (مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے ذمّہ داریوں میں شامل تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 8/157، حدیث: 14) والدہ کی خدمتحضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی والدہ ماجدہ کی خدمت بھی کیا کرتی تھیں چنانچہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی والدہ کی خدمت میں کہا: فاطمہ زہرا آپ کوگھر کے کاموں سے بے پروا کردیں گی۔ (الاصابہ، 8/269ملخصاً) ایک بستر حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے پاس ایک ہی بسترتھا اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال، جسے رات کو بچھاکر آرام کیا جاتا پھر صبح کو اسی کھال پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کے لئے چارے کا انتظام کیا جاتا اور گھر میں کوئی خادم بھی نہ تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 8/18) گھر والوں کا احساس ایک روز رسولِ خدا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: میرے بچّے (یعنی حسن و حسین) کہاں ہیں؟ حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے عرض کی: آج ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی نہ تھی جس کو کوئی چکھ سکے، بچّوں کے والد نے کہاکہ میں ان دونوں کو لے کر باہر جاتا ہوں اگر گھر پر رہیں گے تو تمہارے سامنے روئیں گے اور تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہ کھلاکر چپ کرواسکو چنانچہ وہ فلاں یہودی کی طرف گئے ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم وہاں تشریف لے گئے، دیکھاکہ دونوں بچّے ایک صُراحی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچی کھچی کھجوریں ہیں۔ رسولِ محترم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: علی! دھوپ تیز ہونے سے پہلے بچّوں کو گھر لے چلو، آپ نے عرض کی: یانبیَّ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! آج صبح سے گھر میں ایک دانہ نہیں ہے اگر آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لئے کچھ بچی کھچی کھجوریں جمع کرلوں۔ یہ سُن کر رحمتِ عالَم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بیٹھ گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے کچھ کھجوریں جمع کرکے ایک کپڑے میں باندھ لیں۔ (معجم کبیر، 22/422، حدیث: 1040) بچّوں کی صحت یابی کے لئے مَنّت ایک مرتبہ حسنینِ کریمَین رضیَ اللہُ عنہُما بیمار ہوئے، حضرت علی مرتضٰی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے بچّوں کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی مَنّت مان لی، اللہ تعالیٰ نے صحت دی، منّت پوری کرنے کا وقت آیا تو روزے رکھ لئے گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم ایک یہودی سےکچھ کلو جَو لائے، حضرت خاتونِ جنّت نے تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین، ایک روز یتیم، ایک روز قیدی آگیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اورگھر والوں نے صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا۔ (خزائن العرفان، پ29، الدھر،تحت الآیۃ:8 ص:1073 ملخصاً) عید کا دن امیرُ المؤمنین حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے پاس ایک مرتبہ عیدُ الاضحیٰ کے دن کچھ مہمان آئے تو آپ نے انہیں خزیرہ (آٹے اور گوشت سے تیار ایک قسم کا کھانا) پیش کیا، یہ دیکھ کر انہوں نے کہا : اللہ آپ کا بھلا کرے آپ ہمیں مرغابی کھلائیے، ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا ہے کہ خلیفہ کے لئے اللہ کے مال سے صرف دو ہی برتن حلال ہیں ایک وہ جس میں خلیفہ اور اس کے گھر والے کھائیں، دوسرا وہ برتن جسے وہ لوگوں کے سامنے رکھے۔ (مسنداحمد، 1/169، حدیث: 578) وصیت پر عمل بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی بہن حضرت زینب رضیَ اللہُ عنہَا کی ایک صاحبزادی حضرت اُمامہ رضیَ اللہُ عنہَا تھیں، حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ اُمامہ سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضیَ اللہُ عنہ نے وصیت پر عمل کرتے ہوئے ان سے نکاح کرلیا۔ (زرقانی علی المواھب، 2/358) مہمان نوازی جب آپ نے اُمُّ البنین بنتِ حازم رضیَ اللہُ عنہَا سے نکاح کیا تو ان کے پاس 7 دن ٹھہرے ساتویں دن کچھ عورتیں آپ کی زوجہ سے ملنے آئیں، یہ دیکھ کر آپ نےاپنے غلام کو درہم عطا کیا اور فرمایا: مہمانوں کیلئے اس سے انگور خرید لاؤ۔ (ابن ابی الدنیا، الجوع، 4/127، رقم:281) ازواج کے درمیان انصاف حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی دو بیویوں میں اس طرح تقسیم کاری کررکھی تھی کہ پہلی بیوی کے پاس دن گزارتے تو اس کے لئے نصف درہم کا گوشت خریدتے دوسری کے پاس دن گزارتے تو اس کے لئے بھی نصف درہم کاگوشت خریدتے۔(الزہد لاحمد، ص157، رقم :696) نکاح و اولاد حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی زندگی میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو دوسرے نکاح کی اجازت نہ تھی، لیکن ان کے وصال کے بعدحضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے یکے بعد دیگرے کئی نکاح کئے ، آپ کے 14 لڑکے اور 18 لڑکیاں تھیں، بی بی فاطمہ زہرا رضیَ اللہُ عنہَا کے بطنِ مبارَک سے امام حسن ،حسین، محسن، بی بی زینب اور بی بی اُمِّ کُلثوم علیہِمُ الرِّضْوَان پیدا ہوئے، حضرت محسن کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔(ریاض النضرہ، 2/239)


حیا میں حیات ہے

Sat, 7 Mar , 2020
4 years ago

ملازِمہ نے کسی باحِجاب خاتون کی آمد کی اطلاع دی تو فریحہ نے اسے ڈرائنگ رُوم میں بٹھانے کا کہا، کچھ وقفے کے بعد ڈرائنگ روم میں داخل ہونے پرسامنے بیٹھی عورت کو دیکھ کر اس کے منہ سے خوشی اور خیرت میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی : فَرْوَہ تم!!!

جی ہاں! میں، آپ نے تو ہمیں بُھلا ہی دیا تھا تو سوچا خود ہی ملنے چلی آؤں۔ فَرْوَہ نے مَحبّت سے فریحہ کو گلے لگاتے ہوئے جواب دیا۔

کہاں غائب تھی شادی کے بعد سے؟ اور یہ کیا نیک پروین بی بی جیسا حُلیہ بنا لیا ہے؟ میلاد والی باجی بن بیٹھی ہو کیا؟ فَرْوَہ اور فریحہ نے اسکول اور کالج کے تعلیمی مَراحِل ایک ساتھ طے کئے تھے، پورے کالج میں دونوں فیشن سمبل (Symbol) کے طور پر مشہور تھیں، کون سا فیشن آج کل چل رہاہے اور کون سا پُرانا ہو چکا، اس کی اِطِّلاع بھی دوسری لڑکیوں کو انہی کے ذریعے ملتی تھی، اور یہی یکساں شوق (Common Hobby) دونوں کی گہری دوستی کا سبب بھی تھا، لیکن ماضی کے بَرعَکس فَرْوَہ کو باپردہ دیکھ کر فریحہ کی حیرانی طنزیہ سُوال میں ڈھل گئی تھی۔

باتیں ہی سناؤگی یا چائے پانی بھی پوچھوگی؟ فروہ نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے شائستہ لہجے میں جواب دیا۔

اوہ! تمہیں دیکھ کر تو سب کچھ بھول گئی تھی، اتنا کہہ کر فریحہ باہَر چلی گئی۔ ملازمہ کو مہمان نوازی کی ہدایت دے کر واپس آئی تو فروہ کے پاس ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگی: اب بتاؤ، کہاں غائب ہو گئی تھی؟

میرے بچّوں کے ابّو کا پروفیشن تو آپ جانتی ہی تھیں تو اسی سلسلے میں شادی کے بعد ہم کراچی شفٹ ہوگئے تھے، فروہ نے جواب دیا۔

اتنے میں ملازمہ مہمان نوازی کے لَوازِمات سے بھرپور ٹرالی لے آئی، فریحہ نے چائے کا کپ اسے دیتے ہوئے کہا: اور یہ تبدیلی کیسے آ گئی؟ اس کا اشارہ فروہ کے حجاب کی طرف تھا۔

دیکھو! حجاب نہ صرف عورت کی ضَرورت ہے بلکہ اسی میں عورت کی عظمت بھی ہے۔ فروہ اتنا کہنے کے بعد چائے کا گھونٹ بھرنے کے لئے رُکی۔

واہ!یعنی اگر میں حِجاب نہیں کرتی تو میں باعظمت بھی نہیں؟

کل تک تَو تم بھی بے پردہ گھومتی تھی۔ فریحہ نے فروہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی غصّے سے بیچ میں کاٹ دی تھی۔

فروہ نے مَحبّت سے اس کا ہاتھ تھامتےہوئے کہا: فریحہ آپ نے میری تبدیلی کا سبب پوچھا تھا جس سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یوں غصّہ کرنا تو بِالکل مناسب نہیں ہے،آپ اجازت دیں تو میں اپنی بات مکمل کر سکتی ہوں؟

ماضی میں جیسے کو تیسا جواب دینے والی فروہ کے مِزاج کی مُثْبَت تبدیلی(Positive Change)فریحہ پہلے ہی محسوس کر چکی تھی، اور اپنے طنز اور غصّے کے جواب میں ملنے والی مُسکراہٹ اور نرم رویّے نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ فروہ کا صرف لباس اور سوچ ہی نہیں بدلی بلکہ ساری کی ساری شخصیت (Personality) بدل چکی ہے۔اپنے ردِّ عمل (Reaction) پر شرمندگی محسوس ہوئی تو اُس نے مَعْذِرَت خواہانہ لہجے میں کہا: سوری! نہ جانے اچانک مجھے کیا ہوگیا؟خیر بتاؤ کہ تمہیں حِجاب (یعنی پردے)کی ضرورت اور عَظمت کا احساس کیسے ہوا؟

دیکھیں فریحہ! اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ آج کی عورت کو مَردوں کی طرف سے مختلف مَسائل کاسامنا رہتا ہے،جن پہ مختلف فورمز پر آئے روز بَحْث و مُباحَثَہ اور قانون سازی بھی کی جاتی ہے لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں، آخر کیوں؟

بھئی مجھے کیا پتا؟ فریحہ نے ہنستے ہوئے فروہ کی ”کیوں“ کا جواب دیا۔

کیونکہ انہیں اس شے کا علم ہی نہیں ہے کہ جس میں عورت کی عظمت ہے،اس کی حفاظت ہے،تمہاری طرح پہلے میں بھی اس ”کیوں (Why) کے جواب سے لَاعِلْم تھی، دیگر لوگوں کی طرح صِرف مَردوں کو قُصوروار گَردانتی اور اس مَرَض کا علاج صرف اور صرف عورت کی آزادی میں دکھائی دیتا تھا۔

تواورکیا؟ عورت کی آزادی کے علاوہ اس کا کوئی سنجیدہ حل (Solution) نہیں ہے،عورت جب تک چادر اور چار دیواری میں قید رہے گی، ظُلم و سِتم کا شِکار رہے گی۔ فریحہ نے جذباتی انداز میں فروہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

فروہ کے چہرے پر مُسکراہٹ بکھر گئی اور پھر نرم لہجے میں بولی: اسلام اور فطرتِ انسانی (Human Nature) سے لَاعِلْم لوگوں کو یہ جذباتیت بھرا نعرہ بہت اپیل کرتا ہے لیکن زمینی حقائق (Ground Realities) جذباتیت کے تابع نہیں ہوتے، ان کی اپنی سچّائی ہوتی ہےاور معذرت کے ساتھ زمینی حقیقت یہی ہے کہ جن مُعاشروں میں عورت کو آزادی مِلی وہاں عورت کی حفاظت کے مَسائل تو کیا حَل ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ سنگین مسائل نے جَنم لیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں،جس روز ہماری بہنوں کو اس حقیقت کا علم ہوگیا اس دن انہیں پتا چل جائے گا کہ چودہ صدیاں پہلے اسلام نے عورت کی حفاظت اور عظمت کیلئے جو پردے کا نُسخہ تجویز کیا تھا وہی واحد اور بہترین حَل ہے جس کی آج کے ترقّی یافتہ لیکن خوفِ خُدا سے عاری مُعاشرے میں اہمیت (Importance) پہلے سے کئی گُنا بڑھ چکی ہے۔

فروہ کی باتوں سے چَھلکنے والا یقین بتا رہا تھا کہ بہت جُسْتْجو کے بعد اس نے جینے کا سلیقہ سیکھاہے، جس میں خالی جذباتیت نہیں بلکہ اپنے دِین پَر اعتماد بھی ہے اور آفاقی سچّائی بھی ہے۔

فریحہ ایک بے جان تصویر کی طرح حیرت سے فروہ کا منہ تک رہی تھی۔ سالوں سے میڈیا کی جذباتی یَلغار سے اس کے ذہن میں تعمیر ہونے والی خَیالات کی عمارت ایک عِلمی سچّائی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرسکی، فریحہ اس کی بنیادوں کی واضح لَرزِش محسوس کر رہی تھی، پوچھنے لگی: تمہاری بات میری سمجھ میں آگئی ہے،لیکن یہ بتاؤ  کہ تم میں یہ تبدیلی آئی کہاں سے؟

فروہ نے اعتراف کیا کہ  دعوتِ اسلامی نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے، میرا تو تم سمیت تمام اسلامی بہنوں کو مشورہ ہےکہ اپنے کِردار و عمل میں مُثْبَت تبدیلی کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں اور اپنے علاقےمیں ہونے والے اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنالیں۔

مشہور جملہ ہے کہ دین بہت مشکل ہے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دین مشکل نہیں تھا لیکن مولویوں نے مشکل بنا دیا۔ کیا واقعی اسلام بہت مشکل دین ہے یا یہ ایک وسوسہ اور پروپیگنڈا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پست ہمت آدمی کے لئے معمولی سا کام بھی مشکل ہوتا ہے جبکہ باہمت کے لئے بھاری کام بھی آسان ہوتا ہے، جیسی نیت ویسی مراد۔ مومن کو باہمت ہونا چاہیے، حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ بلند ہمتی والے کام پسند فرماتا ہے۔(معجم اوسط، 2/179، حدیث:2940)

اسلام کامعاملہ یہ ہے کہ انسان کی طاقت وقوت اور ہمت و حوصلہ کے اعتبار سے بنیادی طور پر اسلام آسان ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ (پ3، البقرۃ:286) اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔“ اور فرمایا: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ (پ17، الحج:78) ”اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔“ اور فرمایا: ﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(پ2، البقرۃ: 185) ’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔‘‘ اور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ”بےشک دین بہت آسان ہے۔“ (بخاری،1/36، حدیث:39) مذکورہ آیات اور حدیث سے مجتہدین ِ کرام نے یہ اصول بنایا ہے: اَلْحَرَجُ مَدْفُوْعٌ ”حرج دور ہے یعنی اسے دور کیا جاتا ہے۔“ (المبسوط للسرخسی، 16/108) اور اَلْمَشَقَّۃُ تَجْلُبُ التَّیْسِیْرَ ”مشقت آسانی لاتی ہے۔“ (الاشباہ والنظائر،ص64) یعنی جہاں بہت مشقت آجائے تو وہاں شریعت آسانی پیدا کردیتی ہے۔

ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقت میں طاقت وہمت کے اعتبار سے شرعی احکام آسان ہیں اگرچہ بعض احکام دوسرے بعض کی نسبت یا بعض حالات میں مشکل ہوتے ہیں لیکن کبھی ایسے مشکل نہیں ہوتے کہ ناقابلِ برداشت ہوجائیں اور دنیا جہان کے اکثر کاموں میں حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ہرکام کے لئے کچھ نہ کچھ ہمت، کوشش اور مشقت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ اب رہا یہ کہ یہ کچھ نہ کچھ مشقت بھی بہت مشکل ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ آخر یہ مشقت دین کے معاملے میں ہی کیوں یاد آتی اور محسوس ہوتی ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر مشقت کا سامنا زندگی کے اکثر ضروری معاملات میں کرنا پڑتا ہے۔ آئیے! ذرا ان معاملات پر نظر دوڑائیں:

بچپن اور تعلیم دیکھ لیں، بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلے بیٹھنا، کھڑا ہونا، چلنا اور دوڑنا سیکھتا ہے پھر چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسکول جاتا، محنت سے پڑھائی کرتا، اسکول سے واپسی پر ٹیوشن پڑھتا، وہاں یا گھر پر ہوم ورک کرتا، اسباق سمجھتا، یاد کرتا اور دن رات ایک کرکے امتحانات کی تیاری کرتا ہے۔ محنت کا یہ سلسلہ عموماً 12، 14 یا 16 سال جاری رہتا ہے۔ پھر اِس تعلیم میں بھی اگر سائنس، میڈیکل، انجیئنرنگ وغیرہ کے اسٹوڈنٹس کو دیکھیں تو مشقت کا حقیقی معنی پتہ چل جاتا ہے کہ نہ دن کا پتہ اور نہ رات کی خبر، بندہ ہے اور کتابیں، کالج کی دوڑ ہے اور پاس ہونے کی فریادیں۔ کیا یہ مشقت دین پر عمل کی مشقت سے کم ہے؟ نہیں نہیں، بہت زیادہ ہے۔

اس کےبعد نوکری دیکھ لیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر بیٹھے نوکری نہیں مل جاتی بلکہ اچھی نوکری کےلئے کئی جگہوں کے چکر لگانے اور دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ کبھی نوکری کی جگہ نہیں اور کبھی جگہ تو دس افراد کو رکھنے کی ہے لیکن انٹرویو کے لئے چار سو محنت مشقت سے پڑھے ہوئے امیدوار بیٹھے ہیں۔ انٹرویو کی بھرپور تیاری کے بعد بھی یا تو انٹرویو میں فیل ہو جاتے ہیں یا پاس ہونے کے باوجود ٹاپ ٹین میں نام نہ آنے کی وجہ سے نوکری سے باہر۔ اب دوبارہ وہی دفتروں کے چکر، افسروں کی خوشامدیں، رشوتوں کے لین دین پھر بھی لیلیٰ مقصود رسائی سے دور، قلب، محبوب نوکری کے عدمِ حصول سے مہجور اور صدموں سے چُورچُور۔ اگر پوچھیں کہ بھائی کیوں اتنی مشقت کرتے اور خواری اٹھاتے ہو تو جواب ملے گا کہ یہی ہے زمانے کا دستور۔ واہ! کہاں دین پر عمل کے لئے تھوڑی سی مشقت پر سینہ کوبی اور آہ و زاری اور کہاں نوکر بننے کی خاطر یہ ذوق شوق اور بےقراری۔ اب ہزار محنت اور کوشش کے باوجود نوکری مل بھی گئی تو کیا بیٹھے بٹھائے تنخواہ مل جاتی ہے؟ نہیں، وہاں بھی وقت کی پابندی، ماتحتوں کی کام چوری اور اوپر والوں کی سینہ زوری سب برداشت کر کے مطلوبہ نتیجہ دے کر ہی تنخواہ ملتی ہے ورنہ نوکری سے چھٹی۔

کاروبار کا معاملہ دیکھ لیں، کاروبار شروع کرنے میں مشکلات کے بیسیوں مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ نقصان ہوجائے تو کام تمام یا اس کے ازالے کے لئے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے پھر جب پیسہ آ جاتا ہے تو دشمنیاں، حسد، بیماریاں، چوروں اور ڈاکوؤں کے خطرات بھی ساتھ ہی آتے ہیں لیکن دین کو مشقت سمجھنے والے دنیوی زندگی کے تھوڑے سے مزے کے لئے یہ ساری مشکلات برداشت کرتے ہیں۔

شادی دیکھ لیں، جب شادی کا مرحلہ آتا ہے تو شادی کے بعد چار دن کی چاندنی ہوتی ہے اور پھر آزمائشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اولاد نہ ہو تو طعنے، احساسِ محرومی اور اگلی شادی کی سوچ اور اگر اولاد ہو جائے تو ایک طرف ماں اس کے کھانے پینے، راحت و آرام کا خیال رکھ کر مشقت برداشت کرتی ہے اور دوسری طرف باپ دن رات ایک کرکےسردی گرمی، دھوپ بارش وغیرہ ہر طرح کے حالات میں بچے کو کھلانے کے لئے محنت کرتا ہے ۔

یونہی لائف اسٹائل کے لئے مشقتیں دیکھ لیں، اگر کسی آدمی نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوکہ اسے اچھی گاڑی، رہائش کے لئے عالیشان بنگلہ چاہیے تو اسے گھر بیٹھے دولت نہیں مل جائے گی بلکہ بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی، راتوں کو جاگنا پڑے گا، گرمی سردی برداشت کرنا پڑے گی، محنت کرنی پڑے گی تبھی منزل پر پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ تمام مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، بغیر مشقت دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔

اب عرض ہے کہ جب زندگی مشقت اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے تو اسلام بھی اسی زندگی کا حصہ بلکہ اس کی روح ہے اور اس عظیم روح یعنی اسلام پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے امورِ حیات کی نسبت بہت کم مشقتیں رکھی ہیں مثلاً عبادات کو دیکھ لیں، نماز ایک ڈسپلن ہے جس کا دورانیہ پانچ نمازوں میں تقریباً ڈیڑھ سے اڑھائی گھنٹے ہیں لیکن اس کے مقابلےمیں فوج کے ڈسپلن میں اس سے کئی گنا زیادہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے، یونہی کسی آفس میں کام کرنے میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی اور اس کے ڈسپلن کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ حیرت ہے کہ اُس سخت ڈسپلن اور مشقت پر کوئی کلام نہیں کرتا جبکہ ڈیڑھ گھنٹے کی نماز کی ادائیگی کو بہت بڑی مشکل کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔

اصل بات یہ ہے مشقت اٹھانے کا دار و مدار مقصد کے ساتھ لگن پر ہوتا ہے۔اچھی سواری، اچھی رہائش اور پرسکون زندگی کے حصول کی لگن چونکہ دل کی گہرائیوں میں موجود ہوتی ہے اس لئے ساری مشقتیں قابلِ برداشت ہوجاتی ہیں جبکہ آخرت کی ابدی زندگی، دائمی جنت کی اعلیٰ نعمتیں، رضائے الٰہی اور قرب ِ خداوندی کی لگن مَعَاذَ اللہ دلوں میں اُتنی راسخ نہیں ہے، اس لئے دین پر عمل کی محنت پہاڑ جیسی مشکل معلوم ہوتی ہے حالانکہ جنت کی دائمی نعمتیں اور دیدارِ الٰہی وہ اعلیٰ ترین مقاصد ہیں کہ کروڑوں زندگیاں تلواروں کے لاکھوں واروں پر کٹوا کٹوا کر قربان کردی جائیں تو بھی سودا مفت ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین مشکل نہیں، پست ہمتی اور کم حوصلگی اسے مشکل بنا دیتی ہیں۔

اب رہی یہ بات کہ مولویوں نے دین کو مشکل بنادیا ہے، اس کا جواب اگلی قسط میں دیا جائے گا۔