بِعثَت کے گیارھویں سال،27 رَجَبُ
المُرَجَّب کی رات محبوبِِ ربُّ العلیٰ، امامُ الانبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اپنی چچازاد بہن حضرت اُمِّ ہانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر آرام فرما تھے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حاضر ہوئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کووہاں سے مسجد حرام لاکر حطیمِ
کعبہ میں لِٹا دیا، سینۂ اقدس چاک کرکے قلبِ اطہر باہر نکالا، آبِِ
زم زم شریف سے غسل دیا اور ایمان و حکمت
سے بھر کر واپس اُسی جگہ رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک سواری پیش کی گئی
جس کانام بُراق تھا۔حضور سیدِ عالَم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اس پر سوار ہو کر بیت المقدس روانہ ہوئے ، راستے
میں عجائبات ِ قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے بیت المقدس تشریف لے آئے جہاں مسجدِ اَقصی
میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ عالی کے اظہار کیلئے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جمع تھے ۔آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی، پھر مسجدِاَقصیٰ سے آسمانوں کی طرف سفر شروع ہوا۔ آسمانوں کے دروازے آپ کے لئے کھولے جاتے رہے اور
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ وَالسَّلَام سے ملاقات فرماتے ہوئے ساتویں آسمان پر سِدْرَۃُ المُنْتَہیٰ کے پاس تشریف لائے۔ جب آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سِدْرَۃُ
المُنْتَہیٰ
سے آگے بڑھے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں ٹھہر گئے اور آگے جانے سے معذرت خواہ ہوئے ۔ آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ آگے بڑھے اور بلندی کی طرف سفر
فرماتے ہوئے مقام ِمُستویٰ پر تشریف لائے پھر یہاں سے آگے بڑھے تو عرش آیا، آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اس سے بھی آگے لامکاں تشریف لائے جہاں اللّٰہ ربُّ
العزّت نے اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو وہ قُرْبِِ خاص عطا فرمایا کہ نہ
کسی کو ملا، نہ ملےگا۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے بیداری کے عالَم میں سر کی آنکھوں سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا دیدار کیا اور بے واسطہ کلام کا شَرَف بھی حاصل کیا ۔ اس موقع پر نماز فرض کی گئی۔ اس
کے بعد آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سِدْرَۃُ
المُنْتَہیٰ پر تشریف لائے، یہاں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو جنّت میں لایا گیا ،
جنّت کی سیر
کے دوران نہرِ کوثر کو بھی ملاحظہ فرمایا۔ اس کے بعدجہنَّم کا مُعایَنہ کروایا گیا، بعد
ازاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ واپس سِدْرَۃُ
المُنْتَہیٰ تشریف لائے جس کے بعد
واپسی کا سفر شروع ہوا۔ (فیضانِ معراج ، ص:13تا41 ، ملتقطاً)
اور کوئی غیب
کیا، تم سے نِہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی
چھپا، تم پہ کروڑوں درود
(حدائق بخشش،
ص:264)
حضور صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کوعطا
کردہ کثیر معجزات میں سے ایک مشہور معجزہ واقعۂ معراج ہے جو اپنے ضمن میں بھی
کافی معجزات لئے ہوئے ہے جیساکہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے
ہیں: تمام معجزات اور درجات جو انبیا کو علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے گئے وہ
تمام بلکہ ان سے بڑھ کر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں: (1) حضرت موسی عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ درجہ ملا کہ وہ کوہِ طور پر جا
کر رب عَزَّوَجَلَّ سے کلام کرتے تھے، حضرت
عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چوتھے آسمان پر بلائے گئے اور حضرت ادریس عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جنت میں بلائے گئے تو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معراج دی گئی جس میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے کلام بھی ہوا، آسمان کی سیر بھی ہوئی، جنّت و دوزخ کا
معاینہ بھی ہواغرضکہ وہ سارے مراتب ایک معراج میں طے کرا دئیے۔ (2) تمام پیغمبروں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور جنت و دوزخ کی گواہیاں دیں اور اپنی امتوں سے پڑھوایا
کہ اَشْھَدُاَنْ
لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مگر ان حضرات میں سے کسی
کی گواہی دیکھی ہوئی نہ تھی، سنی ہوئی تھی اور گواہی کی انتہا دیکھنے پر ہوتی ہے
تو ضرورت تھی کہ اس جماعت پاک انبیا میں کوئی وہ ہستی بھی
ہو جو اِن تمام چیزوں کو دیکھ کر گواہی دے ، اس کی گواہی پر شہادت کی تکمیل ہو جائے۔اس شہادت کی تکمیل حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی
ذات پرہوئی۔( شان حبیب الرحمٰن، ص:
106 ملتقطاً)
ہے عبد کہاں
معبود کہاں ، معراج کی شب ہے راز ِ نِہاں
دو نور حجابِ نور
میں تھے، خود رَبّ نے کہا سُبْحانَ اللّٰہ
(بیاض پاک:ص33)
حضور سیّدُ الکونین ، صاحبِ قابَ قَوْسَین
صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّمْ نے شبِ معراج کروڑوں عجائباتِ قدرت ملاحظہ فرمائے۔
جنت میں تشریف لے جاکر اپنے غلاموں کے جنتی محلَّات و مقامات ملاحظہ فرمائے نیز
جہنم کا مُعایَنہ فرما کر جہنمیوں کو ہونے والے دردناک عذاب بھی دیکھے پھر ا ن میں سے کچھ امت کی ترغیب و ترہیب کے
لیے بیان فرما دیا تاکہ لوگ نیک اور اچھے اعمال کے ذریعے جہنم سے بچنے کی تدبیر
کریں اور جنت کی لازوال نعمتوں کا سن کر انہیں پانے کیلئے کوشاں ہوں، ان میں سے
چند ایک واقعات و مشاہدات پیش خدمت ہیں: شب
معراج آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے موتیوں سے بنے ہوئے گُنبد نُما
خیمے مُلاحَظہ فرمائے جن کی مٹی مُشک کی تھی۔ عرض کیا گیا : یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے اَئِمَّہ ومُؤذِّنِین کے لئے ہیں۔ (المسند للشاشی،321/3 ،حدیث: 1428) چند بلند و بالا محلَّات مُلاحَظہ فرمائے ، عرض کیا گیا :
یہ غصہ پینے والوں اور دَرگزر کرنے والوں کے لئے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ احسان کرنے والوں کوپسندفرماتا ہے۔(مسند الفردوس، 255/2، حدیث:3188)
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ
اٰلِہِ وَسَلَّمْ کوجہنم میں کچھ لوگ نظر آئے جو مُردار
کھا رہے تھے ،عرض کیا گیا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے(یعنی غیبت کیا کرتے )تھے۔ (مسند احمد، 1/553، حدیث:2324)
کچھ لوگوں کےپیٹ
مکانوں کی طرح (بڑے
بڑے) تھے،جن
کے اندرموجود سانپ باہر سے نظر آ رہے
تھے، عرض کیا گیا: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ، 3/71،
حدیث:2273) کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے جو ہر
بار کچلنے کے بعد درست ہو جاتے تھے، اس معاملے میں ان سے کوئی سستی نہیں برتی جاتی
تھی۔ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نماز سے بوجھل ہو جاتے تھے۔(مجمع الزوائد،/1236،
حدیث: 235)
عَفْو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا
گر کرم کردے تو جنّت میں رہوں گا یارب!
(وسائل بخشش مُرَمَّم،
ص:85،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)