ماہ
ِرَجَبُ المُرَجَّبکو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی میں سے
ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی
کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی
تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام
جعفر صادق رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں۔
نام ونسب:آپ کانام”جعفر“
اورکُنیّت”ابوعبداللہ‘‘ہے ۔آپ
کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی،آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط
اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ
والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن
محمد بن ابوبکر صدیق ہیںرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں
والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ہیں۔سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو”صادِق‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔(سیر اعلام النبلا، 6/438)
تعلیم و تربیت :آپ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی
فضا میں آنکھ کھولی
اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر،
حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر
حضرت سیّدناعُروہ
بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃکے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔(تذکرۃ الحفاظ،1 /126)دو جَلیلُ القدر صحابۂ
کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف
ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتابعی ہیں ۔(سیر اعلام النبلا، 6/438)
دینی خدمات: کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی
اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں
سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد)
اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی
فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ
کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت
سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔(تذکرۃ الحفاظ ، 1/125، سیر اعلام
النبلا ،6 / 439)
قابلِ رشک اوصاف ومعمولات: خوش اَخلاقی آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی
طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں
پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ
مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ
کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہیبت وتعظیم
کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور
تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ
کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔(الشفا مع نسیم الریاض، 4/488ملخصاً) آپ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ کےرویّےمیں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار
سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ
حیدری نظر آتی، آپ کے عفوودَرگُزر کی
ایک جھلک مُلاحَظَہ کیجیے:(حکایت)ایک مرتبہ غلام نے ہاتھ دُھلوانے کے لئے پانی ڈالا مگر
پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گرگیا،
آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے نہ تو جھاڑا، نہ ہی سزا دی بلکہ اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا۔ (بحرالدموع،ص 202 ملخصاً)