پچھلے مضمون میں اسی سوال کا جواب دیا گیا تھا اور اِس مضمون میں اسی کی تکمیل ہے۔ خلاصۂ کلام یہ تھا کہ دین علماء نے مشکل نہیں کیا بلکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین ہے جسے ہر مسلمان کو دل و جان سے ماننا ہی ہوگا اب یہ کام اعتراض کرنے والوں کا ہے کہ وہ ہمیں بیان کریں کہ وہ کون سے کام ہیں جنہیں علماء نے مشکل بنایا ہے۔

ہم نے عبادات کی مثال دی تھی کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج تو اللہ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں اگر دل مانے تو کرنا اور دل نہ مانے تو بھی کرنا ہی ہے۔

اب آئیے ذرا دیگر احکام کی طرف۔اِس وقت دنیا کا معاشی نظام سُودی معیشت پر مبنی ہے، بینُ الاقوامی، قومی اور نجی مالی معاملات میں سُود کا عمل دخل ہے اور علماء اس کی حرمت و شناعت و قباحت پر وقتاً فوقتاً کلام کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور یہ سب کلام اُن کا اپنی طرف سے نہیں اور نہ ہی انہوں نے سُود کو خود سے حرام کیا ہے بلکہ سُود کی حرمت قرآن نے بیان کی ہے اور ایک دو آیتوں میں نہیں، بہت سی آیات میں اور ایک دو حدیثوں میں نہیں بلکہ درجنوں احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ اب اگر کسی کو سود کی لَت لگی ہے یا اُس کی نظر میں گویا نظامِ کائنات ہی سود پر چل رہا ہے تو وہ جو مرضی سمجھے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے اسے سود سے بچنا فرض ہے اور سود کی حرمت اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتی اور اب اگر اِس حکم میں کسی کو مشکل یا بہت مشکل یا بہت ہی مشکل نظر آتی ہے تو اسے یہی عرض ہے کہ جنابِ عالی سُود کو ربُّ العالمین نےحرام کیااوررحمۃٌ لِّلعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنےاسے بارباربیان کیا ہے۔یہ علماء کی کوئی ذاتی خواہش و ایجاد نہیں ہے،لہٰذا غریب ہو یا امیر، ریڑھی والا ہویا بزنس مین،کسی بینک کا سربراہ ہویا بڑی بڑی انشورنس کمپنیوں کا مالک ہر ایک کو اس کی حرمت پر یقین رکھتے ہوئے اس سے ہر حال میں بچنا ہی پڑے گا۔

یونہی کوئی سمجھتا ہے کہ سرکاری دفتروں میں فائل کو پہیے لگانے پڑتے ہیں یعنی فائل کے ساتھ رشوت کے پیسے دینے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر کام نہیں ہوتا تو علماء اسے حرام ہی کہیں گے کیونکہ باطل طریقے سے مال کھانے کو قرآن نے حرام قرار دیا اور رشوت لینے دینے والے کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلَّم نے جہنمی قرار دیا۔ اب اگر کسی کو رشوت کے بغیر کام کرنے یا کرانے میں مشکل لگتی ہے اور رشوت کی حرمت اُس پر دشوار ہے یا جو بھی ہے لیکن بہرحال یہی طے ہے کہ یہ سختی و مشکل علماء نے تیار نہیں کی بلکہ خداوندِ عالم نے نظامِ عالم کی صلاح و فلاح کے لئے یہ بہترین احکام دئیے ہیں۔

اسلام میں عقائد و معاملات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی ایک پورا باب ہے جن میں حسنِ اخلاق، صبر، شکر، توکل اور صلہ رحمی وغیرہ چیزیں ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کئی جگہ تذکرہ موجود ہے مثلاً لوگوں کو معاف کیا کرو،صبر سے کام لو اللہصبرکرنے والوں کے ساتھ ہے،مسلماناللہ کا شکر بجالائیں اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں اوران سےاچھے انداز میں گفتگو کریں۔ اخلاقیات کے باب پر تو شاید کسی کو اتنا کلام نہ ہوکہ اچھےاخلاق اپنانےکی دعوت توسبھی دیتےہیں لیکن عمومی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات میں فرق ہے مثلاًاپنی ذات کی خاطرغصہ کرنے سے تو دونوں طرح کی اخلاقیات میں منع کیا جاتا ہے لیکن اس سے آگے عمومی اخلاقیات ملک و وطن کی خاطر غصہ کرنے کی تو اجازت دیتی ہے لیکن خدا و رسول کی خاطر اور دین کے لئے غصہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی اور یہی بھاشن سیکولر اور لبرل لوگ دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی اخلاقیات ہمیں اللہ و رسول کی خاطر غصہ کرنے کی اجازت بلکہ حکم دیتی ہے جیسے اگر مَعَاذَ اللہ ان ہستیوں کی گستاخی کی جائے تو غصہ کرنا تقاضائے ایمان ہےاور ایسی جگہ رواداری یا اس کے بھاشن غیرتِ ایمانی کے منافی ہیں۔ یونہی خدا و رسول کے منکروں کو سخت ناپسند کرنا اور خدا کے احکام کی پامالی پرکم از کم دل میں برا جاننااسلامی اخلاقیات ہے۔ یہ اخلاقیات قرآن و احادیث میں جگہ جگہ بیان کی گئی ہیں۔ اب سیکولر، لبرل لوگ اس پر جتنا مرضی منہ بگاڑیں، اعتراض کریں ، مشکل کہیں بلکہ مَعَاذَ اللہ بداخلاقی کہیں اور سارا الزام اٹھا کر علماء پر ڈال دیں، بہرحال یہ معلوم ہے کہ یہ احکام علماء نے نہیں بنائے بلکہ قرآن و احادیث میں موجودہیں۔ جو چاہے وہ اَلْحُبُّ فِی اللہ وَالْبُغْضُ فِی اللہ کے عنوان کے تحت آیات و احادیث دیکھ لے۔

اوپر بیان کردہ سوداورایمانی غیرت وہ احکام ہیں جن کا الزام عموماً دین سے دور لوگ علماء پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سیکولر، لبرل لوگوں کو جس مسئلے کا زیادہ غم لگا ہوا ہے وہ پردے کا مسئلہ ہے۔ انہیں علماء کا عورتوں کو پردے کی ترغیب دینا بہت تکلیف دیتا ہے۔ان افراد کے لئے عورت کا پردہ صرف ایک چادر نہیں بلکہ اپنی شیطانی خواہشات کے لئے تنگ کفن محسوس ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر خواہشات کے لذیذ کباب میں حیا کی ہڈی محسوس ہوتا ہے حالانکہ پردہ خواہشات کے اِس ناپاک زہریلے کباب سے روکنے کا ذریعہ ہے۔بہرحال اسی پردے اور حیا کے لباس کو تار تار کرنے کے لئے کبھی عورت کی آزادی کے نام پر،کبھی عورت کی نوکری کے نام پر اور کبھی دوسرے حیلوں سے پردے کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ خود قرآنِ پاک حیا اور پردے کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے کہ مسلمان مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور مسلمان عورتیں بھی نظریں نیچی رکھیں اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔اب اگر کسی کادل مانےیا نہ مانے پردہ تو کرناہی ہوگا اور وہ بات بھی یہاں یاد رکھیں کہ یہ احکام علماء کے خود ساختہ نہیں بلکہ قرآن اور حدیث کے ہیں۔

ایک اور چیز ہے جس پر علماء کا کلام دین بیزار لوگوں کے لئےغم و غصہ کا باعث بنتا ہے اور وہ ہے ناچ، گانا، ٹھمکے، مجرے، جسے آج کی شیطانی زینت کے الفاظ میں لپیٹ کرموسیقی، ڈانس، شامِ موسیقی، روح کے نغمے، جشنِ طرب، فن کار، کلاکار اور نجانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ اسے بھی علماء ناجائز و حرام کہتے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور پوری امت کے اتفاق و اجماع سے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علماء پر تبرا کرکے حرام کام، حلال نہیں ہوجائیں گے۔اس لئے خدا سے ڈریں اور حیلے بہانے کر کے گناہ کرنے کی بجائے اللہ و رسول کے احکامات کی طرف آجائیں اور علمائے کرام کی رہنمائی میں زندگی گزاریں۔

دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے

شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں