سچے
عاشقِ رسول،ولیِّ کامِل ،اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کا67
اشعار پر مبنی”قصیدۂ معراجیہ“ شعر و
ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اس مُبارَک قصیدے کے 3 اشعارمع شرح پیشِ خدمت ہیں۔
نمازِ
اَقصٰی میں تھا یہی سِر،عیاں ہومعنیِ اول آخر
کہ دست
بستہ ہیں پیچھے حاضرجوسلطنت آگے کر گئے تھے
(حدائقِ بخشش،ص232مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ)
الفاظ و معانی:سِر:راز۔عِیاں:ظاہر۔دست بستہ: ہاتھ باندھ کر۔آگے:گزشتہ
زمانے میں۔شرح کلامِ رضاؔ: نبیوں کے
سرتاج صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے شبِِ معراج مسجدِ اقصیٰ میں موجود تمام
انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی امامت فرمائی ، اس نماز کی بدولت اوّل
اور آخر کا راز ظاہر ہوگیاکہ سرکارِ مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اگرچہ تمام انبیا ئے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد دنیا میں تشریف لائے لیکن اِس نماز میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے پہلےتشریف
لانے والے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ہاتھ
باندھ کر آپ کے پیچھے نماز میں شریک ہوئے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ تمام
انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام سے افضل ہیں۔ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے
ہیں: امام اُسی کو بنایا جاتا ہے جو سب سے زیادہ عالِم
اور اَفضل ہو۔معراج میں سارے نبیوں کی امامت حضورِ اَنور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ) نے کی،سب نے آپ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ)کے پیچھے نماز پڑھی کیونکہ
آپ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ)ان سب حضرات سے افضل اور بڑے عالم تھے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/354)
تَبَارَکَ
اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تووہ جوشِ لَنۡ تَرَانِی کہیں تقاضے وِصال کے تھے
(حدائقِ بخشش،234 مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ)
الفاظ و معانی:زیبا:زیب دینے والا۔بے نیازی: کسی کا محتاج نہ ہونا۔تقاضا:طلب
کرنا۔ وصال: ملاقات۔ شرح کلامِ رضاؔ: اے ہمارےپیارےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!توبڑی برکت والاہے اور تیری شانِ عظمت نشان نہایت بلند
و بالا ہے،کسی کا محتاج نہ ہونا تیرے ہی شایانِ شان ہے۔حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے
جب دیدارِ خداوندی کا مطالبہ کیاتوان سے کہا گیا: (لَنْ تَرَانِیْ) یعنی تومجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ (پ9، الاعراف:143) جبکہ
شبِ معراج اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد
فرمایاگیا:یَامُحَمَّدُ!
اُدۡنُ اُدۡنُ یعنی اےمحمد! قریب
ہو جاؤ، قریب ہوجاؤ۔ (الشفاء، 1/202)
خداکی قدرت کہ چاندحق کے، کروڑوں
منزِل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی، کہ
نور کے تڑکے آلیے تھے
(حدائقِ بخشش،237 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
الفاظ و معانی:تاروں کی چھاؤں: تاروں کی روشنی۔ نور کا تڑکا:صبح صادق۔شرح کلامِ رضاؔ: اللہ رب العزت عَزَّ وَجَلَّ
کی قدرت سے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہزاروں لاکھوں
میل پرمشتمل سفرِمعراج انتہائی قلیل(یعنی
بہت ہی تھوڑے سے) وقت میں مکمل
کرکے راتوں رات واپس تشریف لے آئے تھے۔ تمام نبیوں کے سرتاج صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَسفرِمعرا ج پرروانہ ہونے سے پہلے جس بچھونے پر
آرام فرما رہے تھے،واپس تشریف لائے تو وہ
بچھونا ابھی تک گرم تھا۔تشریف لے جاتے ہوئے درخت کی جس ٹہنی سے عمامہ شریف ٹکرایا
تھاواپسی پر وہ ٹہنی ہل رہی تھی۔(روح المعانی،8 /18، جزء:15)تشریف لے جاتے وقت جس پانی سے وضو فرمایا تھا وہ
پانی ابھی تک پوری طرح نہ بہا تھا(یعنی
ابھی تک اُس کے بہنے کا عمل جاری تھا)۔(روح البیان، 5 /125)