رَسولُ اللہ
صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”لَا عَدْوٰی وَلَا صَفَرَ وَلَا ھَامَۃ“یعنی نہ بیماری کا اُڑ کر لگنا ہے، نہ صَفَر کی نحوست ہے نہ اُلّو کی
نحوست ہے۔ ایک اعرابی نے عرض کی: یارسولَ اللہ! پھرکیا وجہ ہے کہ میرے
اونٹ مٹی میں ہرن کی طرح (چست،تندرست و توانا)ہوتے ہیں،تو ایک خارش زدہ اونٹ ان میں داخل ہوتا ہے اور ان کو بھی
خارش زدہ کر دیتا ہے ؟تو حضور علیہ الصّلوٰۃو السَّلام نے فرمایا: پہلے کو
کس سے خارش لگی ؟ (بخاری،4/26،حدیث:5717)
تعدیہ مرض سے کیا مراد ہے؟”اَلْعَدْوَی“
سے مراد یہ ہے کہ بیماری ایک شخص
سے بڑھ کر دوسرے کو لگ جائے۔ ”لَا عَدْوَی“ والی
حدیث اسی سےہے یعنی ایک شے دوسری شے کی طرف مُتَعَدِّی (یعنی منتقل
Transfer) نہیں ہوتی۔ (التوقیف علی مہمات التعاریف، ص238)
بیماری اُڑ کر لگنے کے بارے میں
اسلامی نقطہ نظر
(1)ایک کی بیماری یا مرض کااُڑ کر
دوسرے کو لگ جانا یا کسی مریض سے مرض تجاوُز کرکے صحیح سلامت تندرست آدمی میں
منتقل ہوجانا!یہ بالکل باطل ہے۔اس کا کوئی
اعتبار نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے بیماری خود اُڑ کر دوسرے
کو لگ جاتی ہے، خدا تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی دخل نہیں بلکہ یہ خود ہی مؤثر ( یعنی بذاتِ خود اثر انداز ہونے
والی) ہے۔ حدیثِ
پاک میں اسی نظریے کا ردفرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:”لَاعَدْوَی“ یعنی بیماری کا اُڑ کر لگنا کچھ نہیں
ہے۔ یہی وجہ
تھی کہ آپ نے مجذوم(جذام کے مریض) کے
ساتھ کھانا بھی کھایا تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ مرض اڑ کر دوسرے کو نہیں لگتا۔ (2) تعدیۂ جراثیم یعنی ”مرض کے جراثیم کا اُڑ کر
دوسرے کو لگنا“کھلی حقیقت ہے، جراثیم خود مرض نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہے جو
صرف خردبین یا
الٹرامائکرواسکوپ (Ultra-Microscope)کے ذریعے ہی نظر آتی ہے اور یہ جراثیم
مرض کا سبب بنتے ہیں۔ پہلے زمانے کے لوگ ان جراثیم سے واقف نہ تھے تو انہوں نے یہی
نظریہ بنا لیا کہ مرض مُتَعَدِّی ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے اس کی نفی فرمائی
کہ کوئی مرض مُتَعَدِّی نہیں ہوتا اسلام کے تعدیہ مرض کی نفی کرنے سے جراثیم کے مُتَعَدِّی
ہونے کی نفی قطعاً نہیں ہوتی۔فتح الباری میں ہے:تعدیہ کی نفی سے مراد یہ ہے کہ کوئی
شے اپنی طبیعت کے اعتبار سے دوسری چیز کو نہیں لگتی، چونکہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ
اعتقاد رکھتے تھے کہ امراض اپنی طبیعت کے اعتبار سے مُتَعَدِّی ہوتے ہیں اور وہ ان
کی نسبت اللّٰہ تعالٰی کی طرف نہیں کرتے تھے،
لہذا اس اعتقاد کی نفی کی گئی اورنبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ وسلَّم نے ان کے اعتقاد کو باطل فرمایا اور مجذوم کے ساتھ کھانا
کھایا تا کہ آپ انہیں بیان کردیں کہ اللہ ہی بیمار کرتا ہے اور شفا دیتا ہے۔(فتح الباری لابن حجر،11/136،تحت الحدیث: 5707)
مراٰۃ المناجیح میں ہے:اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں
میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے۔ وہ
پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم
ڈاکٹر سات بیماریوں کو مُتَعَدِّی مانتے
ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوبِِ چشم،وبائی بیماریاں اس
حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔اس معنیٰ سے مرض کا اُڑ کر لگنا باطل
ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری
کا مادہ ہو وہ اس تَعَفُّنْ سے اثر لے کر بیمار ہوجائے اس معنیٰ سے تَعَدِّی ہوسکتی
ہے اس بنا پر فرمایا گیا کہ جذامی سے بھاگو لہٰذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں۔
غرضکہ عدویٰ یا تَعَدِّی اور چیز ہے کسی بیمار کے پاس بیٹھنے سے بیمار ہوجانا کچھ
اور چیز ہے۔“(مراٰۃ المناجیح ،6/256)