اُمُّ المومنین حضرتِ سیّدَتُنا سَودہ
بنتِ زَمْعہ رضیَ
اللہُ عنہا اُن
ازواجِ مطہرات میں سے ہیں جن کا تعلق خاندانِ قریش سے ہے، آپ کے والد کا نام ”زَمعَہ“
اور والدہ کا نام ”شَموس بنتِ عَمرو“ ہے، آپ پہلے اپنے چچا زاد ”سَکران بن عَمرو“ کے
نکاح میں تھیں، اِسلام کی ابتدا ہی میں یہ دونوں میاں
بیوی مسلمان ہوگئے تھے، ایک قول کے مُطابق ہجرتِ
حبشہ سے واپسی پر مکۂ مُکَرَّمہ زادھَا اللہ شَرفاً وَّ تَعظِیماً
میں حضرتِ
سودہ رضیَ اللہُ عنہَا کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ (المواہب اللدنیہ، 1/405)
حضرتِ
سیّدَتُنا سودہ بنتِ زَمعہ رضیَ اللہُ عنہا بہت ہی دِین دار، سلیقہ
شعار اور بے حد خدمت گزار خاتون تھیں، آپ حُضُور علیہِ الصَّلٰوۃ
وَالسَّلام کے اَحکامات پر خوب عمل پیرا ہوتی تھیں۔(زرقانی علی المواھب، 4/380۔
377 ملخصاً)
قابلِ رَشک خاتون: آپ دراز
قد جبکہ حسن و جمال اور سیرت میں منفرد
تھیں۔(جنتی زیور،ص482) اُمُّ المُومنین حضرت سیّدَتُنا
عائشہ صِدِّیقہ
رضیَ اللہُ عنہا آپ کے اَوصافِ حَسَنہ (یعنی
اچھی خوبیوں) کو دیکھ کر
آپ پر بہت زیادہ رشک فرمایا کرتی تھیں۔(زرقانی علی المواھب ، 4/380 ملخصاً)
حُضُور سے نکاح: جب
حضرتِ سیّدَتُنا خدیجہ رضیَ اللہُ عنہا کا اِنتقال ہوگیا تو حضرتِ خولہ بنتِ حکیم نے بارگاہِ
رِسالت میں عَرض
کی: یَا رَسُوْلَ اﷲ صلَّی اللہُ علیہِ وَاٰلہٖ وسلَّم! آپ سودہ
بنتِ زمعہ سے نکاح فرما لیں۔ آپ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ خولہ رضیَ اللہُ عنہا کے اِس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرما لیا چنانچہ حضرتِ خولہ رضیَ اللہُ عنہا نے پہلے حضرتِ سودہ رضیَ اللہُ عنہا سے بات کی تو اُنہوں نے رِضا مندی ظاہر کی، پھر آپ کے والد سے بات کی تو اُنہوں نے بھی خوشی سے اجازت
دے دی، یوں اعلانِ نبوت کے دسویں سال میں یہ بابرکت نکاح منعقد ہوا۔(سیر اعلام النبلاء،3/513)
پردہ کا اہتمام: آپ پردے کا اتنا اہتمام کرتی تھیں
کہ بِلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا بھی پسند نہ فرماتیں چنانچہ آپ نے جب فرض
حج ادا فرما لیا تو کہا: میرے ربّ نے مُجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے، لہٰذا
خدا کی قسم! اب موت آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی، راوی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی قسم! آپ
گھر سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔(در منثور، 6/599)
سخاوت: ایک
مَرتبہ حضرتِ سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں درہموں سے بھرا ہوا ایک
تھیلا حضرت بی بی سودہ رضیَ اللہُ عنہا کے پاس بھیج دیا آپ نے اُسی وَقت اُن تمام درہموں کو مدینۂ مُنوَّرہ زادھَا
اللہ شَرفاً وَّتَعظِیماً کے فقراء و مساکین کے درمیان تقسیم کردیا۔ (طبقات الکبری،8/45 ملخصاً)
وِصال:ایک
قول کے مطابق آپ رضیَ
اللہُ عنہا کا وِصال ماہ ِشوّالُ
المکرّم 54ہجری کو حضرتِ امیر مُعاویہ رضیَ
اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوا۔(فیضانِ اُمَّہات المومنین،ص66) آپ رضیَ اللہُ
عنہا کی قبر مُبارک جنت البقیع
شریف میں ہے۔
آپ رَضِیَ
اللہُ عَنْہا کی سیرت کے متعلق مزید
جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”فیضانِ امہات
المؤمنین“ پڑھئے۔