از قلم مفتی علی اصغر
8 ذو الحجہ 1441 شب بمطابق پاکستان
29
جولائی 2020 بروز بدھ
مناسک حج کا آغاز ہو چکا ہے اور آج حجاج کرام منی
میں رات گزاریں گے اور کل عرفات روانہ ہوکر حج کا رکن اعظم یعنی وقوف عرفات ادا کریں خوش نصیب حاجیوں نے اس انداز پر آج طواف کیاجو
تصویر میں موجود ہے
میں سوچ رہا ہوں کہ کرونا کے باعث لاکھوں لاکھ لوگ جو اس سال حج کی سعادت سے
محروم رہے اس کا دکھ اپنی جگہ لیکن حج تو ہو رہا ہے، دین اسلام کے ایک
رکن کی ادائیگی تو ہو رہی ہے
جو نا جا سکے عذر اپنی جگہ پر لیکن خالی خالی
مطاف دیکھ کر صفا و مروہ پر وہ کندھے سے
کندھا چھلنے کا نظارہ نا پا کر
منی کی
غیر آباد گلیاں دیکھ کر
عرفات میں وہ دعا و گریہ کرنے والوں کا ہجوم نا
پا کر
وہ جبل
رحمت کے گرد لباس احرام کی چاندی کے نہ ہوتے ہوئے
مسجد
نمرہ کے کشادہ راستوں کی بھیڑ نظر نا آنے پر
پھر میدان مزدلفہ تو 10 کی شب پورا سفید ہی سفید
ہوتا تھا احرام کی چاندنی چاند کے ساتھ مل کر اسے بقعہ نور بنا دیا کرتی تھی لیکن اب تو وہ میدان بھی خالی ہوگا
رمی کرنے والوں کا وہ رش میں جا کر فریضہ ادا
کرنے کا ولولہ اب آنکھوں کے سامنے نہ ہوگا
یہ سب احساسات اپنی جگہ پر
لیکن نا تو میدان عرفات پر رحمت خداوندی میں کوئی
کمی آنی ہے
اور نہ ہی وقت فجر میدان مزدلفہ پر نازل ہونے
والی سعادتوں میں کچھ قلت واقع ہونی ہے بلکہ واسع و کریم رب کی رحمتیں اس سال بھی
مشاعر مقدسہ کو گھیرے ہوں گی
رمی
اور طواف کرنے والوں کے لئے انوار و برکات میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی
رش نہیں ہے تو کیا ہوا؟
اپنی توجہ میں،
یادوں میں
اور دل
کے میلان میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے
کہ کہیں
ایسا تو نہیں کہ رش اور بھیڑ ہماری توجہ کا مرکز ہوتا ہے نا کہ اصل افعال کی ادائیگی
اور روحانی اہمیت
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رش اور بھیڑ
مشاعر مقدسہ کی رونق ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں یوں بھی زیادہ متوجہ کرتی ہیں کہ کسی
کا جاننے والا،
محلے دار،
شہر کا آدمی جب گیا ہوتا ہے تو اس کے خیال سے بھی
فطری طور پر ایک خیال آتا ہے کہ فلاں اب یہاں ہوگا اور اب یہاں.
یہ محرک اس سال نہ ہونے کے برابر ہے
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کعبے کی رونق و رعنائی
ہو یا مسجد نبوی کی تابانیاں یہ سب ظاہری حسن کی محتاج نہیں
ھیبیت والی اور خوبصورت بلڈنگ، روشنیاں بھیڑ، رش ظاہری طور پر نظر آنے والی خوبصورتیاں
ہیں اور اللہ تعالی ان میں مزید اضافہ کرے
اصل چیز تو یہاں پر اللہ تعالی کی نازل ہونے والی
رحمت ہے
ان مقامات
کی دینی اہمیت ہے
یہ مقامات نزول ملائکہ کی جگہیں ہیں
یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں
یہاں پہنچنے والے کو مغفرت کی بشارتیں سنائیں گئی
ہیں
یہاں اعمال کا ثواب بڑھ جاتا ہے
یہاں پہنچ کر بندہ جو روحانیت اور سرور اور لذت
محسوس کرتا ہے وہ لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ہے
یہاں سے پلٹنے والا اپنے اپنے نصیب کے مطابق
جھولیاں بھر کر جاتا ہے.
کوئی مغفرت
کوئی برکات،
کوئی اصلاح اعمال
کوئی بھلی تقدیر
اور نہ جانے
کیا کچھ لے کر لوگ واپس پلٹتے ہیں
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف جسم پلٹتے ہیں دل و
جان اور روح تو وہیں رہ جاتی ہے
بقول بہزاد لکھنوی
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام
وہ صلاۃِ سکوں آفریں رہ گئی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی
جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی
جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر
وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی
پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب
جب ہوئے ہم رواں سوئے کوئے حبیب
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دل و جاں وہ روح و نظر
یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا
ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر
یہ تمنائے قلبِ حزیں رہ گئی
اللہ تعالی ان لوگوں کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے جو اسے پیارے ہیں
اللہ تعالی ان سب مسلمانوں کو حرمین طبین کی حاضری اور حج مقبول کی سعادت بخشے جو آنا چاہتے ہیں پر بلاوے کے منتظر ہیں۔