پاک
و ہند میں ایک وقت وہ تھا کہ مسلمانوں
کو اپنے ایمان کی حفاظت اور عقیدے کی
پہچان کے لئے کسی مضبوط اور منظم پلیٹ
فارم کی ضرورت تھی۔ اگرچہ حفاظتِ دین و ایمان کا کام سرانجام دینے کے لئے کئی
جماعتیں میدانِ عمل میں تھیں لیکن ان کے دائرۂ کار اتنے وسیع نہ تھے کہ وہ ملک و
بیرونِ ملک یا دنیا بھر کے مسلمانوں کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر سکیں ۔
ایسے
میں اللہ پاک کے
فضل اور نبیٔ کریم ﷺ کی رحمت سے علمائے کرام نے 2 ستمبر 1981ء کو ”دعوتِ
اسلامی “ کی صورت میں ایک پودا لگا کر امیرِ اہلِ سنّت کو اس کی نگہبانی و نگرانی
پر مقرر کر دیا۔ اس خُودار،محنتی،دُھن کے پکے،قول و فعل کے سچے، مہربان و مشفق ”نگہبان“ کا کیا کہنا! مولانا الیاس قادری
صاحب نے دعوتِ اسلامی کے اس ننھے پودے کی
بقا ، نگہداشت ،موسموں کی سردی و گرمی اور مخالف ہواؤں کے تھپیڑوں سے حفاظت کے عمل کو نہ صرف جی جان سے نبھایا بلکہ اس کی ترقی
و بڑھوتری کے لئے اپنا خون پسینہ تک بہانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔