رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اسلافِ امت نے اہلِ اسلام کو قیامت کے دن کی تیاری کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی نصیحتیں کرنے
کے ساتھ ساتھ کئی ایسی علامات و اسباب کا بھی ذکر کیا جن کے بعد قیامت قائم ہوگی۔
انہیں اسلامی اصطلاح میں علاماتِ قیامت کہا جاتاہے۔ قیامت کی ان علامات میں سے ایک
بہت ہی فکرانگیز علامت علمائے دین کا انتقال فرماجانا بھی ہے۔ فی زمانہ اگر غور کیا جائے تو یہ علامتِ قیامت اپنا آپ ظاہر کرچکی ہے۔ علما کا وصال ایک
ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ علما کا دنیا سے
جانا دراصل علم کا اُٹھنا ہے اور دنیا کا
علم سے محروم ہونا کائنات کا سب سے بڑا
نقصان ہے۔
امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”قیامت قریب ہے ، اچھے لوگ اُٹھتے جاتے ہیں ، جو جاتا ہے اپنا نائب نہیں
چھوڑتا، امام بخاری نے انتقال فرمایا تو نوّے ہزار شاگرد محدّث چھوڑے، سیدنا امامِ
اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
انتقال فرمایا اور ایک ہزار مجتہدین اپنے شاگرد چھوڑے، محدّث ہونا علم کا پہلا زینہ
ہے اور مجتہد ہونا آخری منزل! اور اب ہزار مرتے ہیں اور ایک بھی ( نائب ) نہیں چھوڑتے۔( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص238)
امامِ اہلِ سنّت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا
خان رحمۃ
اللہ علیہ کا یہ فرمان بہت ہی قابل فکر و تشویش ہے۔یہ بات آپ نے 100سال سے بھی پہلے فرمائی تھی تو آج
100سال بعد بھلا کیا حال ہوگا؟ وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
مسندِ احمد میں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا:”امت اس وقت تک شریعت پر قائم رہے گی جب تک کہ ان میں تین چیزیں ظاہر
نہ ہوجائیں:(1)علم کا قبض ہونا(2)ولدالزنا کی کثرت اور (3)صقارون، عرض کی گئی
یارسول اللہ ! صقارون کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ آخری زمانہ
کے لوگ ہیں جن کی باہم ملتے وقت کی تحیت ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہوگی۔“(مسند احمد
جلد 24، صفحہ 391، حدیث: 15628)
اس حدیث پاک کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیامت کی یہ نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ہر آئے دن کوئی نہ کوئی عظیم و جلیل القدر عالم دین دنیا سے رخصت
ہورہے ہیں۔
خطبہ حجۃ الوداع میں سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو! علم لے لو اس سے پہلے کہ وہ
قبض کرلیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے۔(مسند احمد، جلد36، صفحہ621،
حدیث:22290)
علم کا اٹھ جانا کس قدر ناقابلِ تلافی نقصان ہے
اس کی حقیقت وہی سمجھ سکتا ہے جو علم اور اس کے فوائد و ثمرات کو جانتا اور سمجھتاہے۔ ایک عالم دین کا دنیا سے جانا گویا کہ ہمارا
وراثت انبیاء سے محروم ہونا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی وراثت علم ہے اور اس وراثت
کے حامل علما ہی ہیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے علم کے اٹھ جانے کی کیفیت اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی خبر ان
الفاظ میں ارشاد فرمائی:”اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ
العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ
بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ
النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ،
فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا “ یعنی
اﷲ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما
کی وفات سےعلم اٹھائے گا، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا
بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، تو وہ خودبھی گمراہ
ہوں گے اور
(دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔( بخاری، 1/54حدیث:100)
اہلِ معرفت و علم کے نزدیک علماء کے وصال کا نقصان
(1) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ کریم لوگوں کو علم دینے کے بعد ان سے واپس نہیں کھینچتا، بلکہ علماء کو لےجاتاہے، پس جب بھی کسی عالم کو لے جاتاہے تو اس کے ساتھ اس کا علم بھی چلاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ باقی رہ جائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہ ہوگا پس وہ گمراہ ہوں گے۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 32)
(2) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: عالم کی موت ایک ایسی مصیبت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں، ایسا شگاف ہے جو بند نہیں ہوسکتا، ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، ایک عالم کی موت کی نسبت پورے قبیلے کی موت آسان ہے(یعنی جو نقصان پورے قبیلے کی موت سے ہوتاہے، عالم کی موت کے نقصان سے بہت کم ہے)(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ170، رقم:179)
(3) امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کریم کے مقرر کردہ حلال اور حرام کی سمجھ رکھنے والے ا یک عالم کی موت کے آگے ایسے ہزارعبادت گزاروں کی موت بھی کم ہے جو دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے ہوں۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص42، رقم:115)
(4) شیرِ ِخدا حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے منقول ہے :جب عالم وفات پاتا ہے تو 77 ہزار مقربین فرشتے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام میں ایسا رَخْنَہ ہے جسے قیامت تک بند نہیں کیا جاسکتا۔( الفقیہ و المتفقہ، 2/198، رقم :856)
(5) حضرت سیّدنا سعید بن جُبیر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ علما کا دنیا سے جانا لوگوں کی ہلاکت کی علامت ہے۔( سنن دارمی،1/90، حدیث :241)
(6) حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)
(7) حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)
(8) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)