انسان کی پہچان اس کا نام ہوتا ہے یہ  اس کے لیے والدین کی طرف سے پہلا تحفہ قرار پاتا ہے ، جب یہ تحفہ انسان کو ملتا ہے اس وقت محض ایک نام ہوتا ہے بعد میں وہ انسان اپنے کارناموں کے بل بوتے پر والدین کی طرف سے عطا کردہ اس سادے سے تحفے کو اتنا اونچا اور روشن کردیتا ہے کہ لوگ اس کا نام احترام سے لیتے ہیں، اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس کے کارناموں کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں، زمانے کے دانش ور اسے القابات سے نواز تے ہیں، مختلف میدانوں کے سرخیل اسے اپنا امیر سمجھتے ہیں، راہ ہدایت کے متلاشی اس کے دامن میں وابستگی کے بعد سرخ روئی کی امید پالیتے ہیں۔ دور حاضر میں ایسی عظیم الشان اور کثیر الجہات شخصیت جس نے اپنی ولادت پر سب سے پہلے ملنے والے تحفے ”محمد الیاس“ کو اپنی لاثانی خدمات کے ذریعے اتنا بلند اور روشن مَنارہ بنادیا جس کی روشنی رفتہ رفتہ دنیا کے اکثر ممالک میں پھیل گئی۔ اس مُدَبّرانہ صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت نے 1401 سنِ ہجری بمطابق 1981 سن عیسوی میں تبلیغِ دین اور اِشاعتِ اسلام کے لیے ”دعوتِ اسلامی“ کے نام سے ایک ایسی تنظیم بنائی جس کے مُنَظَّم نظام نے دنیا بھر میں اسلام و سنیت کا ڈنکا بجادیا، حق کی تلاش میں پھرنے والوں کو اسلام کی روشنی میسر آئی،علم کے پیاسے باعمل عالم بنے،معرفت کے خواہش مند بحر ِ طریقت کے شناور بنے، بے عملی کے دلدل میں غوطہ کھانے والے سنتوں کی تعلیم دینے والے بنے۔ اس عظیم الشان اور کثیر الجہات شخصیت کے بے مثال کارناموں کی بدولت بچپن میں ملنے والے نام کا تحفہ ”محمد الیاس“ سادہ سے دو کلمات سے بڑھ کر ”شیخِ طریقت،امیرِ اہل سنَّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ “قرار پایا ۔