اللہ کریم کے جن نیک بندوں نے اصلاحِ اُمّت اور اشاعتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں،ان میں ایک بڑا نام سلطانُ الہند،خواجہ غریب نواز حضرت سیّد معینُ الدّین حسن سنجری چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ آپ کی ولادت 537 ہجری کو سیستان (موجودہ ایران) کے علاقہ ”سَنجر“ میں ہوئی۔ (اقتباس الانوار،ص345)آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً 81 سال راہِ خدا میں علم کے حصول اور مخلوقِ خدا کی اصلاح میں گزارے اور کئی کتابیں بھی تحریر فرمائیں۔آپرحمۃ اللہ علیہکا وصال 6رجب المرجب633ہجری کو ہوا۔(فیضانِ خواجہ غریب نواز، ص17، 25) خوش نصیب مسلمان ہر سال 6رجب المرجب کو چَھٹی شریف کے نام سے آپ کا عُرس مناتے اور ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں عُرسِ خواجہ غریب نوازاہتمام کے ساتھ منایا جاتاہے، رجب المرجب کے پہلے 6دنوں میں روزانہ مدنی مذاکروں کا سلسلہ ہوتا ہے،ان ایّام میں ملک و بیرونِ ملک یہ مدنی مذاکرے دیکھے جانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں عاشقانِ رسول دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں حاضر ہوکر فیضانِ خواجہ غریب نوازکی برکتیں حاصل کرتے ہیں۔6رجب المرجب کو دُنیا بھر میں باقاعدہ ”اجتماعِ یومِ غریب نواز“ کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔

خواجہ غریب نواز کے ملفوظات حضرت سیّدنا خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کے مریدِ صادق اورخلیفۂ اکبر حضرت خواجہ قطبُ الدِّین بختیار کاکیرحمۃ اللہ علیہنے اپنے پیر و مرشد کے ملفوظات پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ’’دلیل العارفین‘‘ رکھا۔اس کتاب میں سے حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ملاحظہ کیجئے۔ نماز تمام مقامات سے بڑھ کرمقام ہے۔نمازحق تعالیٰ سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔ (دلیل العارفین، ص75) وہ لوگ کیسے مسلمان ہیں جو فرض نماز میں اس قدر تاخیر کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ہی گزر جاتا ہے( اور پھر قضا پڑھتے ہیں) ان کی مسلمانی پر 20 ہزار مرتبہ افسوس ہے جو مولا کریم کی عبادت میں کوتاہی کرتے ہیں۔

حکایت ایک دفعہ یوں ارشاد فرمایا کہ میرا گزر ایک ایسے شہر سے ہوا جہاں کے لوگ وقت سے پہلے ہی نماز کے لئے تیار ہوجاتے اور بَروقت نماز کی ادائیگی کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جلدہی نماز کی تیاری نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے اس کا وقت نکل جائے پھر کل قیامت کے روز کس طرح یہ منہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دکھاسکیں گے؟ (دلیل العارفین، ص83) نماز ایک امانت ہے جو اللہپاک نے اپنے بندوں کے سپرد کی ہے،لہٰذا بندوں پر لازم ہے کہ وہ اس امانت میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔(دلیل العارفین، ص83) جو شخص قراٰنِ مجید کو دیکھتا ہے اللہ کریم کے فضل سے اس کی بینائی تیز ہوجاتی ہے ،اس کی آنکھ نہ دُکھتی ہے نہ خشک ہوتی ہے۔(دلیل العارفین، ص92) جس نے جو کچھ پایا خدمتِ مرشد سے پایا۔ پس مُرید پر لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرّہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔ پیر صاحب جو کچھ اسے نماز، تسبیح اور اوراد وغیرہ کے بارے میں فرمائیں، اسے غور سے سُنے اور اس پر عمل کرے کیونکہ پیر، مُرید کو سنوارنے کے لئے اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے عمل کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔(دلیل العارفین، ص75)