خلیفۂ چہارم،امیرُ
المؤمنین حضرت سیّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم عامُ الفیل کے تیس برس بعد جبکہ حضورِاکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ
وسَلَّم کے اعلانِ نَبُوَّت فرمانے سے دس سال قبل پیدا
ہوئے۔(تاریخ
ابن عساکر، 41/361) حضرت علی کَرَّمَ
اللہُ وَجہَہُ الْکریم چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے،بہن
بھائیوں میں سے حضرت عقیل اورحضرت جعفر، حضرت امِّ ہانی اور حضرت جُمانہ علیہِمُ الرِّضْوَان دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد 11/88،ریاض
النضرہ، 2/104، مصنف عبد الرزاق، 7/134، حدیث: 12700) پرورش،
لقب و کنیت حضرت مولیٰ علی رضی
اللہ عنہ نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی محمّد
رّسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا جمالِ جہاں آراء دیکھا، حضورِانور ہی کی
باتیں سنیں، عادتیں سیکھیں، ہرگز ہرگزبتوں کی نجاست سے آپ کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا۔ اسی لئے لقبِ
کریم کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہ ملا۔ (فتاویٰ رضویہ، 28/436 بتغیر) آپ رضیَ اللہُ عنہ کی کنیت ابو الحسن اور ابو تُراب ہے۔ نکاح آپ رضیَ اللہُ عنہ اور حضرت سیّدَتُنابی
بی فاطمہ رضیَ
اللہُ عنہَا کا بابرکت نکاح 2 ہجری ماہِ صفر، رجب یا رمضان میں ہوا۔ (اتحاف السائل للمناوی، ص:2 ) جہیزو رہائش حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کے جہیز میں ایک چادر، کھجور کی چھال سے بھرا
ہوا ایک تکیہ، ایک پیالہ، دو مٹکے اور آٹا
پیسنے کی دو چکّیاں تھیں۔ (مسند احمد، 1/223،حدیث، 819، معجم کبیر، 24/137، حدیث: 365) بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی رہائش کے لئے حضرت علیکرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کا گھر
کاشانۂ اقدس صلَّی
اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے دور تھا اس لئے
حضرت سیّدُنا حارثہ بن نعمان رضیَ اللہُ عنہ نے کاشانۂ اقدس سے
قریب اپنا ایک گھر حضرت علی و فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے لئے پیش
کردیا۔(طبقات
ابن سعد، 8/19 ملخصاً) ابتدائی تین دن ان دونوں مُقدّس ہستیوں نے دن روزے میں اور رات عبادتِ
الٰہی میں بسر کی۔ (روض الفائق، ص: 278) کام کاج کی
ذمّہ داری گھر
کے کام کاج(مثلا
ً چکی پیسنے ،جھاڑو دینےاور کھانا پکانےکے کام وغیرہ ) حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کرتی تھیں اور باہر کے کام (مثلاً بازار سے سودا سلف
لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ
الْکریم کے ذمّہ داریوں میں شامل تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 8/157،
حدیث: 14) والدہ کی خدمتحضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ
الْکریم کی والدہ ماجدہ کی خدمت بھی کیا کرتی تھیں چنانچہ
حضرت علی کَرَّمَ
اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی والدہ کی خدمت میں کہا:
فاطمہ زہرا آپ کوگھر کے کاموں سے بے پروا کردیں گی۔ (الاصابہ، 8/269ملخصاً) ایک
بستر حضرت
علی اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے پاس ایک ہی بسترتھا
اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال، جسے رات
کو بچھاکر آرام کیا جاتا پھر صبح کو اسی کھال پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کے لئے
چارے کا انتظام کیا جاتا اور گھر میں کوئی خادم بھی نہ تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 8/18) گھر والوں کا احساس ایک روز رسولِ خدا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ
وسَلَّم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: میرے بچّے (یعنی حسن و حسین) کہاں ہیں؟ حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے عرض کی: آج ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی نہ تھی جس کو کوئی چکھ
سکے، بچّوں کے والد نے کہاکہ میں ان دونوں کو لے کر باہر جاتا ہوں اگر گھر پر رہیں
گے تو تمہارے سامنے روئیں گے اور تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہ کھلاکر چپ کرواسکو چنانچہ وہ فلاں یہودی کی طرف گئے ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ
وسَلَّم وہاں تشریف لے گئے، دیکھاکہ دونوں بچّے ایک صُراحی
سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچی کھچی کھجوریں ہیں۔ رسولِ محترم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ
وسَلَّم نے فرمایا: علی! دھوپ تیز ہونے سے پہلے بچّوں کو
گھر لے چلو، آپ نے عرض کی: یانبیَّ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! آج صبح سے گھر میں ایک
دانہ نہیں ہے اگر آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لئے کچھ بچی کھچی کھجوریں
جمع کرلوں۔ یہ سُن کر رحمتِ عالَم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بیٹھ گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے کچھ کھجوریں
جمع کرکے ایک کپڑے میں باندھ لیں۔ (معجم کبیر، 22/422، حدیث:
1040) بچّوں کی صحت یابی کے لئے مَنّت ایک مرتبہ حسنینِ کریمَین رضیَ اللہُ عنہُما بیمار ہوئے، حضرت علی مرتضٰی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ
الْکریم اور
حضرت فاطمہ رضیَ
اللہُ عنہَا نے
بچّوں کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی مَنّت مان لی، اللہ تعالیٰ
نے صحت دی، منّت پوری کرنے کا وقت آیا تو
روزے رکھ لئے گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم ایک یہودی سےکچھ کلو جَو لائے، حضرت خاتونِ جنّت
نے تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز
مسکین، ایک روز یتیم، ایک روز قیدی آگیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو
دے دی گئیں اورگھر والوں نے صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا۔ (خزائن العرفان، پ29، الدھر،تحت الآیۃ:8 ص:1073 ملخصاً) عید
کا دن امیرُ المؤمنین حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے پاس ایک مرتبہ عیدُ الاضحیٰ کے دن کچھ مہمان آئے تو آپ نے انہیں خزیرہ (آٹے اور گوشت سے تیار ایک
قسم کا کھانا)
پیش کیا، یہ دیکھ کر انہوں نے کہا :
اللہ آپ کا بھلا
کرے آپ ہمیں مرغابی کھلائیے، ارشاد
فرمایا: اللہ کے رسول صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا ہے کہ خلیفہ کے لئے اللہ کے مال سے صرف دو ہی برتن
حلال ہیں ایک وہ جس میں خلیفہ اور اس کے
گھر والے کھائیں، دوسرا وہ برتن جسے وہ لوگوں کے سامنے رکھے۔ (مسنداحمد، 1/169، حدیث: 578) وصیت پر عمل بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی بہن حضرت زینب رضیَ اللہُ عنہَا کی ایک صاحبزادی حضرت اُمامہ رضیَ اللہُ عنہَا تھیں، حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ اُمامہ
سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضیَ اللہُ عنہ نے وصیت پر
عمل کرتے ہوئے ان سے نکاح کرلیا۔ (زرقانی علی المواھب، 2/358) مہمان نوازی جب آپ نے اُمُّ البنین بنتِ حازم رضیَ اللہُ عنہَا سے نکاح کیا تو ان کے پاس 7 دن ٹھہرے ساتویں دن
کچھ عورتیں آپ کی زوجہ سے ملنے آئیں، یہ
دیکھ کر آپ نےاپنے غلام کو درہم عطا کیا اور فرمایا: مہمانوں کیلئے اس سے انگور
خرید لاؤ۔ (ابن
ابی الدنیا، الجوع، 4/127، رقم:281) ازواج کے درمیان انصاف
حضرت علی کَرَّمَ
اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی دو بیویوں میں اس طرح
تقسیم کاری کررکھی تھی کہ پہلی بیوی کے
پاس دن گزارتے تو اس کے لئے نصف درہم کا گوشت خریدتے دوسری کے پاس دن گزارتے تو اس
کے لئے بھی نصف درہم کاگوشت خریدتے۔(الزہد لاحمد، ص157، رقم :696) نکاح
و اولاد حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی زندگی
میں حضرت علی کَرَّمَ
اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو دوسرے نکاح کی اجازت نہ تھی، لیکن
ان کے وصال کے بعدحضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے یکے بعد دیگرے کئی نکاح کئے ، آپ کے 14 لڑکے اور 18 لڑکیاں تھیں، بی بی فاطمہ
زہرا رضیَ
اللہُ عنہَا کے بطنِ مبارَک سے امام حسن ،حسین، محسن، بی بی زینب
اور بی بی اُمِّ کُلثوم علیہِمُ الرِّضْوَان پیدا ہوئے، حضرت
محسن کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔(ریاض النضرہ، 2/239)