ایک نامور شخصیت جو اپنے شعبے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے
ہیں، انہوں نے اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کیا:میں اس وقت چَھٹی (6th) کلاس میں پڑھتا تھا، سالانہ امتحان کا
رزلٹ آیا تو میں فیل ہوگیا، ایک رشتے دار خاتون میری امّی سے کہنے لگیں: اس نے پڑھناپڑھانا تو ہے نہیں!
اسے ”خَراد“([1]) کا کام
سیکھنے پر لگا دیں، مجھے ان کی بات بُری تو بہت لگی لیکن میں نے دل میں ٹھان لی کہ اب میں صرف پاسنگ مارکس نہیں بلکہ
پوزیشن لے کر دکھاؤں گا، میری محنتوں کا پھل اس وقت ملا جب اگلے ہی سال میں نے فرسٹ پوزیشن لی اور پھر
آگے بڑھتا چلا گیا، آج مجھے عزّت، دولت، شہرت! کیا کچھ حاصل نہیں ہے۔
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے
قارئین! انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہے، کسی تعلیمی امتحان (Educational
exam) میں کامیابی درکار ہو یا ملازمت وغیرہ کے حصول میں کامرانی! ہمیں Success کے ساتھ Failure کا امکان بھی
پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ لیکن ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنی توقعات کا لیول اتنا بُلند کر
لیتے ہیں کہ جب ناکام ہوتے ہیں تو مایوسی کی حد سے گزر جاتے ہیں،جس کی وجہ سے کچھ
لوگ تو نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں، کچھ نشے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور بعض بے
چارے تو اتنے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگا کر خُودکشی
جیسا حرام کام کر گزرتے ہیں۔ چند مہینوں کے دوران کچھ خبریں ایسی سامنے آئیں جس نے مجھے تشویش میں مبتلاکردیا،
وہ خبریں ایسے نوجوانوں کی تھیں جنہوں نے امتحان میں فیل ہونے یا کم نمبر آنے یا
کسی خاص کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے گلے میں پھندا لگا کر یا
کسی اونچی بلڈنگ سے کُود کر یا کسی دریا وغیرہ میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کر لی ۔
بطورِ نمونہ تین افسوس ناک
خبریں ملاحظہ کیجئے :’’میرے پیارے ابو اور میری ماں، مجھے معاف کردینا۔ میرا رزلٹ
بہت گندا آیا ہے۔ اور جس کی وجہ سے اب کوئی عزت میری نہیں رہے گی۔ مگر میں نے نمبر
لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کردینا۔ اللہ حافظ۔‘‘یہ الفاظ اس پرچی پر
لکھے تھے جو ملتان میں فرسٹ ایئر کے طالبِ علم نے اپنے والدین کے نام مُبَیِّنہ
طور پر لکھی تھی۔(ایکسپریس نیوز،15 اکتوبر2019) گیارہویں کلاس کے
ایک طالب علم نے فائنل امتحانات میں ناکامی کے بعد خودکشی کرلی۔ ایک ہفتہ قبل ہی
ایک اور طالب علم بھی خودکشی کرچکا ہے، وہ سیکنڈ ایئر میں زیرِ تعلیم تھا۔ (اردوپوائنٹ ویب سائٹ، 14اپریل 2018) مصر میں میٹرک کی طالبہ نے امتحان میں ناکامی کے
خوف سے ایک عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی، بلڈنگ سے گِر کر لڑکی کے جسم پر
شدید چوٹیں آئیں اس کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے دَم توڑ گئی۔
(اےآروائی
نیوز، 5جون2018)
اے عاشقانِ رسول !ناکام
ہونے والے تو دُنیا سے چلے گئے لیکن اپنے
ماں باپ بہن بھائیوں کو حسرت و یاس کی داستان بنا گئے، آج ان کے والدین سے پوچھا
جائے کہ زندہ سلامت اولاد چاہئے یا امتحان میں کامیابی اور پوزیشن! تو بلاتاخیر ان
کا جواب یہی ہوگا کہ ہمیں اپنی اولاد سلامت چاہئے۔ لیکن ایسے والدین اور رشتے
داروں کو سوچنا ہوگا کہ کس کے طعنوں کے خوف، کس کی طرف سے بُرا بھلا کہنے کے
اندیشے نے ایک انسان کو اپنی ہی جان لینے پر مجبور کیا؟ تو شاید جواب کے آئینے میں
انہیں اپنا ہی وجود کھڑا دکھائی دے۔ فیل ہوجانے والا پہلے ہی صدمے سے دوچار ہوتا
ہے ایسے میں اُسے سہارے، ہمدردی اور دلجوئی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن افسوس! خاندان
والے مل کر اس کی وہ کلاس لیتے ہیں اور کیا چھوٹا کیا بڑا! ایسی ایسی باتیں سُناتے
ہیں اور ایسا دل توڑتے ہیں کہ ہتھوڑے سے بھی کیا ٹُوٹتا ہوگا! ایک سے زیادہ بار
فیل ہونے والے سے تو ایسا رویّہ رکھا جاتا ہے جیسے اس نے دنیا کا سب سے بڑا جُرم
کرلیا ہو۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ فیل ہوجانا بُرا سہی لیکن اس پر ہمارا ردِّعمل تو
مہذّب اور شائستہ ہونا چاہئے۔ فیل ہونے والے کا حوصلہ بڑھایا جائے گا، اس کے مسائل
سُن کر حل نکالا جائے گا تو ہی وہ آئندہ پاس ہونے یا پوزیشن لینے کی سوچے گا! کم
از کم اس کا یہ ذہن تو بناہی دیا جائے کہ فیل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا ہی ختم
ہوگئی ہے، خدارا! اپنے جگر کے ٹکڑے کو اتنا اعتماد تو فراہم کردیجئے کہ خدانخواستہ
فیل ہونے کی صورت میں وہ پلٹ کر گھر آسکے، آپ اسے زندہ سلامت دیکھ سکیں۔ خیال رہے
کہ بہت سارے کیسز میں والدین نہیں بلکہ دیگر رشتہ داروں کے رویّے بھی کارفرما ہوتے
ہیں، بہرحال ہمیں کسی کو تباہ کرنے کے لئے جمع نہیں ہونا چاہئے۔
امیرِ اہلِ
سنّت کا انداز: امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس
عطّار قادری دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ایک مرتبہ جامعۃُ المدینہ کے طلبہ میں اچھی پوزیشن لینے والوں میں
انعامات تقسیم فرما رہے تھے، اختتام پر آپ نے دریافت فرمایا کہ سب سے کم نمبر کس
کے آئے ہیں؟ جواب میں جس طالبِ علم نے ہاتھ اٹھایا، آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اسے انعام دیا اور یہ مدنی پھول عطا کیا کہ کامیاب ہونے والوں کی حوصلہ
افزائی تو ہر کوئی کرتا ہے، کم نمبر لینے والوں کا بھی حوصلہ بڑھانا چاہئے تاکہ وہ
آئندہ اچھے نمبر لے سکیں۔
محترم والدین! آپ کو بھی
چاہئے کہ اپنی اولاد کی ذہانت، صلاحیت اور ہمّت دیکھ کر اس سے توقعات باندھیں،
بچّوں کا یہ ذہن بنائیں کہ تم جو کچھ پڑھ رہے ہو وہ تمہیں آنا چاہئے، تمہیں اچّھا
اسٹوڈنٹ بننا ہے، اگر پوزیشن لوگے تو تمہیں فلاں انعام ملے گا، پوزیشن نہ لے سکے
تو ”کچھ نہیں کہا جائے گا“، اس کے برعکس بچّوں کو اس پریشر میں رکھنا کہ چاہے کچھ
بھی ہوجائے تمہیں پوزیشن لینی ہے ورنہ تم ناکام اور نااہل سمجھے جاؤ گے! اس کے لئے
نہ اسے مناسب آرام کرنے دیتے ہیں، نہ ذہن کو فریش کرنے دیتے ہیں، اُسے کتابی کیڑا
بنا دیتے ہیں جو خوراک کھانے کے لئے باہر نکلتا ہے پھر دوبارہ کتاب میں گھس جاتا
ہے۔ امتحانات میں پوزیشن آنا اچھی بات ہے لیکن معذرت کے ساتھ یہ غلط فہمی بھی دُور
کرلیجئے کہ صرف پوزیشن لینے والے ہی زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں، پوزیشن تو بائی
چانس بھی آسکتی ہے کہ جو سوالات اچھی طرح تیار کئے وہی پیپر میں آگئے اور پوزیشن
آگئی۔ آپ اردگرد کے جن لوگوں کو کامیاب سمجھتے ہیں ان میں سے چند نام ایک لسٹ میں
لکھ لیجئے اور دیکھئے کہ کیا یہ سب پوزیشن ہولڈر تھے؟میرا اپنا مُشاہَدَہ ہے کہ
بہت مرتبہ پوزیشن ہولڈر دیکھتے رہ گئے اور عَمَلی زندگی میں کامیابی کا میڈل کوئی
اور لے اُڑا۔ پھر اگر پوزیشن لینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عزیزوں دوستوں میں
فخر سے کہہ سکیں:جناب! ہمارے بچّے کی فرسٹ پوزیشن آئی ہے، اسے سوشل میڈیا پر شئیر
کرکے اپنا قد بڑھا سکیں، تو اس کے لئے اپنی اولاد کو تختۂ مشق بنانا سِتم ظریفی
ہے یا نہیں! اس کا جواب اپنے دل سے لے لیجئے۔نیز کہیں ایسا تو نہیں جو آپ سے نہ
ہوسکا وہ اپنی اولاد سے کروانا چاہتے ہوں، ایک دلچسپ مگر فرضی حکایت پڑھئے اور
اپنے رویّے پر ٹھنڈے دماغ سے نظرِ ثانی کرلیجئے:
یہ آپ کی مارک شیٹ
ہے! ایک شخص شام کو تھکا ہارا گھر پہنچا، جاکر صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ سامنے
میز پر پانچویں کلاس کی مارک شیٹ دکھائی دی، وہ سمجھا کہ اس کی بیوی نے رکھی ہے
تاکہ اپنے بیٹے کا رزلٹ دیکھ سکے، نمبر دیکھنا شروع کئے تو اس کا پارہ بھی چڑھنا
شروع ہوگیا، بیٹے کو بُلاکر سامنے کھڑا کیا اورلال پیلا ہونا شروع ہوگیا:یہ دیکھو Maths میں صرف 55 نمبر، Science میں45، کمپیوٹر میں صرف 40! اتنے کم
نمبر!تمہارے دماغ میں بُھس بھرا ہوا ہے! وہ بے تکان بولتا چلاجارہا تھا، بیٹا
حیران پریشان کھڑا تھا کہ خدایا!یہ اچانک ابو کو کیا ہوگیا ہے! اس کی گرما گرم
آوازیں سُن کر بیوی بھی کچن چھوڑ کر بھاگی چلی آئی اور کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ
تو کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں تھا، جب اس نے مارکس شیٹ پر اچھی طرح تبصرہ کرلیا
تو بیوی ہمت کرکے بولی: میرے سرتاج! سنئے تو سہی، یہ مارک شیٹ آپ کے بیٹے کی نہیں
ہے،اس کا رزلٹ تو کل آئے گا۔وہ حیرت سے کہنے لگا: پھر کس کی ہے؟ ”وہ میں پرانے
کاغذات درست کررہی تھی اس میں سے آپ کی پُرانی مارک شیٹ نکل آئی تو میں نے یادگار
کے طور پر دکھانے کے لئے یہاں ٹیبل پر رکھی تھی کہ آپ آئیں گے تو دکھاؤں گی۔“ بیوی
کاجواب سُن کر شوہر کے کانوں میں کچھ ہی دیر پہلے کئے جانے والے تبصرے کی آوازیں
گُونجنے لگیں، اب اسے اپنی شرمندگی اور جھینپ مٹانے کے لئے کوئی بہانہ نہیں مل رہا
تھا، لہٰذا وہ خاموشی سے واش رُوم کی طرف بڑھ گیا، جاتے ہوئے چور نظروں سے دیکھا
تو بیوی اور بیٹا منہ چُھپا کر ہنس رہے تھے۔