تربیت کے سلسلے میں نیک ماحول اور اچّھی صحبت کا بڑا عمل
دخل ہے، کسی کا ذہن بنا کر اسے نیک ماحول میں لانا اس کی بہترین تربیت کا سبب بن
سکتا ہے۔ حضرت عبدُالقادر عیسیٰ شاذِلی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درِشفا سے
وابستہ رہتے تھےاور آپ ان کا تَزْ کِیہو تربیت (یعنی نَفْس و قَلْب کو پاک صاف) فرماتے تھے۔)[i](
قول و فعل میں یکسانیت: تربیت کرنے
والے کے لئے جن باتوں کا لِحاظ رکھنا ضَروری ہے ان میں سے ایک انتہائی اہم چیز قول
و فعل کا ایک ہونا بھی ہے۔ اپنی ذات کو عملی نَمونہ(Practical
Model) بنا کر پیش کرنے سے زیرِ تربیت افراد کا ذہن بنانے میں بہت آسانی رہتی ہے جبکہ
قول و فعل میں پایا جانے والا تَضاد (Difference)
ان کے دِلوں کی تشویش کا باعث بن سکتا ہے کہ فلاں کام یہ
خود تو کرتا نہیں اور ہمیں کرنے کا کہتا رہتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لوگ
اس کی بات پر توجہ نہیں کرتےاور عمل کرنے کی طرف راغب نہیں ہوتے۔تربیت کرنے والے
کا خود اپنا کِردار (Character)
مثالی ہونا چاہئے، اس کا لوگوں پر بڑا گہرا اَثر (Impact) پڑتا ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی زبانی
تربیت جہاں صَحابۂ کرام رضی
اللہ عنہم کی فِکْر و عمل کو جِلا بخش رہی تھی وہیں آپ کی عملی زندگی (Practical Life)نے بھی صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بے حد متأثر کیا، جو اِرشاد فرماتے آپ
کی زندگی خود اس کی آئینہ دار ہوتی۔ جب آدَمی کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو تو
لوگوں کو اس سے مَحبَّت ہوجاتی ہے اور یہی مَحبَّت تربیت اور کردار سازی (Character Building) میں مُعاوِن ثابت ہوتی ہے۔
جُود و سَخاوَت: سرکارِ دوعالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےخود بھی
سخاوت کا مظاہرہ کیا اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا جابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّمسے جب بھی کچھ مانگا جاتا تو آپ جواب
میں ”لَا“ یعنی”نہیں“نہ فرماتے تھے۔)[ii](ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر سوال کیا تو آپ نے اسے اتنی بکریاں (Goats)عطا فرمائیں جس سے دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھر گئی تو وہ سائل اپنی قوم
کے پاس جا کر کہنے لگا:تم سب اسلام قبول کر لو، بے شک حضرت محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم) اتنا عطا فرماتے ہیں کہ فاقے کا خوف نہیں رہتا۔)[iii](اور امت کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شکاللہ پاک نے اس دین کو اپنے لئے خاص کیااور تمہارے دین کے لئے سخاوت اور حُسن
اخلاق ہی مناسب ہیں لہٰذا اپنے دین کو ان دونوں کے ساتھ زینت دو۔)[iv](اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:سخاوت اللہ پاک کے جُود و کرم سے ہے، سخاوت کرو
اللہ کریم مزید عطا فرمائے گا۔)[v](
زُہد و قَناعَت: رَحْمتِ عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بھی زُہد و قناعت والی زندگی بسر فرمائی
اور اُمّت کو بھی اسی کی تعلیم ارشاد فرمائی۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے کندھے پکڑکر ارشاد فرمایا:دنیا میں
اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو۔)[vi]( ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: دنیا اُس کا گھر ہے
جس کا کوئی گھر نہ ہو اور اُس کا مال ہے
جس کا کوئی مال نہ ہو اور اِس کے لئے وہ جمع کرتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔)[vii](
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا اپنا یہ عالَم تھا کہ چٹائی پر سوتے تھے جس
سے جِسْمِ اَقدس پر چٹائی کے نشانات بن جاتے تھے۔ آپ اور آپ کے اَہل و عِیال (Family Members) نے کبھی تین دن مسلسل (Continuous) روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور نہ ہی کبھی آپ کے لئے
آٹا چھان کر پکایا گیا۔ ”ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا نے (جَو کی) روٹی کا ایک ٹکڑا خدمتِ اَقدس میں پیش
کیا تو اِرشادفرمایا:یہ پہلا کھانا ہے جو تین دن کے بعد تمہارے والد کے منہ میں داخل
ہوا ہے۔“)[viii](یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حُضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عطا سے
ہر چیز کے مالک ہیں، آپ جیسی چاہتے ویسی شاہانہ زندگی بَسر فرما سکتے تھے مگر آپ لوگوں
کو زُہد و قَناعَت کی جو تعلیم دیتے تھے اس کا عملی نَمونہ خود پیش فرمانا چاہتے تھے۔الغرض یہ کہ اگر ہم کسی سے کوئی نیک عمل
کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اسے اپنی ذات پر نافذ کرنا ہوگا ورنہ
اچھے نتائج کی اُمّید رکھنا حَماقَت ہے۔
دِلی ہمدردی و خیر
خواہی: تربیت کرنے والا جس کی تربیت کرنا
چاہتا ہے اس کے ساتھ اسے دلی ہمدردی ہو، اس کی اِصلاح و تربیت کے حوالے سے اپنے دل
میں کُڑھتا ہو اور اس کے ساتھ خیرخواہی کے جذبات اس میں موجود ہوں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ صِرف صَحابہ کے حوالے سے فِکْر مند رہتے بلکہ
ایمان نہ لانے والے کافروں کی ہدایت کے لئے بھی انتہائی غمگین رہا کرتے تھے،چنانچہ
قراٰن پاک میں ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ
اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶)
تَرجَمۂ کنزُ العِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان
کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔)[ix](حالانکہ مشرکینِ
مکّہ آپ کو اور آپ کے غلاموں کو پریشان کرتے تھے، ظُلْم و سِتَم کے پہاڑ توڑتے تھے، مگر رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ان کے ساتھ طرزِ عمل یہ ہوتا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے
کے باعث انتہائی غمزَدہ رہا کرتے۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ان بیان کردہ راہ نما اُصولوں کو اپنا تے ہوئے
معاشرے کے افراد کی تربیت میں اپنا حصّہ ملائیے اور اس حوالے سےمخلص ہوجائیے اِنْ شَآءَ اللہ معاشرہ نیکی کی
راہ کی طرف گامزن ہوجائے گا۔