شام کے وقت چاچُو گھر
پہنچے تو انہیں حیرت ہوئی کہ شرارتی ننّھے میاں صوفے پر مُنہ
لٹکائے بیٹھے ہیں اور ان کی خالہ کے بیٹے سُہیل اورسلیم کھیل کود رہے ہیں، دن
بھرکے کام کاج کی تھکاوٹ کے باوجود چاچو سیدھا ننھے میاں کے پاس آگئے۔
آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟
بچّوں کے ساتھ کھیل کیوں نہیں رہے؟ چاچو نے پوچھا۔ میرا دل نہیں چاہ
رہا، ننھے میاں نے رُوٹھے منہ جواب دیا۔ چلو! جب آپ کا دل کرے تب کھیل لینا، چاچو نے ننّھے میاں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ننّھے میاں کافی دیر بعد
بھی صوفے سے نہیں اُٹھے تو چاچو قریب آکر بولے: کیا ہوا ہے؟ آج ہمارے ننھے میاں
اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل ہی نہیں رہے۔مجھے کسی کے ساتھ نہیں کھیلنا، میں دادی
سے ناراض ہوں، ننّھے میاں نے غُصّہ میں منہ دوسری طرف کر لیا۔
دادی نے ایسا کیا کردیا
جو آپ ان سے ناراض ہیں؟ چاچو نے پوچھا، مگر ننّھے میاں نے کوئی جواب نہیں دیا۔یہ بات آہستہ آہستہ پورے گھر میں پھیل گئی کہ
ننّھے میاں دادی جان سے ناراض ہیں، دادی جان تک خبر پہنچی تو وہ اپنے کمرے سے چشمہ پہنے بغیر ہی اپنے لاڈلے پوتے کے پاس چلی
آئیں۔
ارے! میرا چاند مجھ سے
ناراض ہےاور مجھے پتا ہی نہیں۔ لیکن! کس بات نے میرے لال کو اپنی دادی سے ناراض کیا
ہے؟ ننھے میاں سے دادی نے پوچھا: دادی!
آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ میں سُہیل اور
سلیم کے ساتھ کھیل رہا تھا، آپ آئیں اورسُہیل اور سلیم کو 5 اخروٹ دئیے اور مجھے
صرف 4 اخروٹ۔ ان 4میں سے بھی ایک اخروٹ خالی تھا۔ ننّھے میاں نے ناراض ہونے کی وجہ بتائی ۔
گھر کے سب لوگ قریب آچکے
تھےاور ننھے میاں کی باتوں پر حیران ہورہے تھے۔ ارے بھئی! میں نے تومُٹّھی بھر کر
اخروٹ دئیے تھے ان کو 5 مل گئے اور آپ کو چار۔تم تو میرے لاڈلے ہو، ایک نہیں بلکہ
2 اخروٹ اور دوں گی مگر! اس کے لئے تم کو ایک سچی کہانی سننی ہو گی اور اس پرعمل
کرنا ہوگا۔ دادی نےاخروٹ کی لالچ دیتے ہوئے کہا۔ ”2 اخروٹ!! جلدی بتائیے، میں ضرور
عمل کروں گا۔“ ننّھے میاں نے جلدی جلدی کہا۔
کہانی سننے کے لئے گھر کے
بڑے بھی ننّھے میاں کی طرح اپنے بچپن میں لوٹ گئے اور خاموش ہوکر توجّہ سے سننے
لگے۔ دادی نے کہانی شروع کی:
ایک مرتبہ ایک بُھوکا شخص ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّمکے
پاس آیااور کھانا مانگنے لگا اس وقت آپ کے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ پھر
ہمارے مدنی آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بُھوکے شخص کو کیا جواب دیا۔
ننّھے میاں نے دادی جان سے سوال کیا۔ دادی جان نے بتایا کہ آپ نے لوگوں سے پوچھا: اسے کون مہمان بنائے گا؟ ایک
صحابی کھڑے ہوئے اور اس شخص کو مہمان بناکر گھر لے گئے۔
کچھ کھانے کو ہے؟ گھر پہنچ
کر اپنی بیوی سےپوچھنےلگے۔ وہ بولیں:صرف بچّوں کا کھانا رکھا ہوا ہے۔ان صحا بی نے
کہا: بچّوں کو ایسے ہی سُلادو اور وہ کھانا مہمان کےلئے لے آؤ۔ جب ہمارا مہمان
کھانا کھانے لگے تو تم چراغ بُجھادینا۔ ہم مہمان کے پاس بیٹھے رہیں گے اور مہمان یہ
سمجھے گا کہ ہم دونوں اس کے ساتھ کھارہے ہیں۔
ان صحابی کی بیوی نے ایسا
ہی کیا اور مہمان یہی سمجھتا رہا کہ دونوں میاں بیوی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔
اس طرح دونوں میاں بیوی خود تو بُھوکے رہے مگر! اپنے مہمان کی بُھوک کو ختم کردیا۔
دادی نے کہانی کے بعد ننّھے
میاں کو سمجھاتے ہوئے کہا: اچھے لوگ اپنے مہمانوں کی بہت عزّت (Respect) کرتے ہیں۔ سلیم اور سُہیل بھی ہمارے مہمان(Guest) ہیں اگر کبھی کوئی چیز انہیں زیادہ مِل جائے اور
آپ کو کم ملے یا آپ کی چیز خراب نکلے تو اس پر ناراض نہ ہوا کریں اور نہ بُرا مانا
کریں۔
ننّھےمیاں نے ہاں میں سَر
ہِلاتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے دادی!مہمان کو جو چیز دی جائےگی میں اس پر ناراض
نہیں ہوا کروں گا۔ اب جلدی سے مجھے اخروٹ دیجئے ، ننّھے میاں کی بات سُن کر سب مسکرا دئیے۔