جن خوش نصیبوں  نے اىمان کے ساتھ سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کى صحبت پائى، چاہے یہ صحبت اىک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر اِىمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے۔ یوں توتمام ہی صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہم عادل، متقی ،پرہیز گار، اپنے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانےکے ساتھ ساتھ بے شمارفضائل و کمالات رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضیَ اللہُ عنہم کی ہے جوایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان میں سرِ فہرست وہ عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت سیّدنا محمد بن حنفیہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضیَ اللہُ عنہ سے پوچھا: رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ۔([1]) اے عاشقانِ رسول!آئیے حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق چند ایسے فضائل و کمالات پڑھئے جن میں آپ رضیَ اللہُ عنہ لاثانی و بے مثال ہیں۔

(1،2)ثَانِیَ اثْنَیْنِ: اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ(دو میں سے دوسرا)فرمایا،([2]) یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔

(3)نام صِدِّیق: آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے رب نے رکھا،آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا۔

(4)رفیقِ ہجرت: جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے رفیقِ ہجرت تھے۔

(5)یارِ غار: اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یارِ غار رہے۔([3])

(6)صرف ابو بکر کا دروازہ کُھلا رہے گا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا: مسجد (نبوی) میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابوبکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔([4])

(7)جنّت میں پہلے داخلہ: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جبریلِ امین علیہِ السَّلام میرے پاس آئےاور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہوگی۔ حضرت سیّدناابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ابوبکر! میری اُمّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔([5])

(8)تین لُقمے اور تین مبارک بادیں: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہمکو بُلایا، سب کو ایک ایک لُقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کو تین لُقمے عطا کئے۔ حضرت سیّدنا عباس رضیَ اللہُ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے عتیق! تجھے مبارک ہو ،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے رفیق! تجھے مبارک ہو، تیسرا لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا: اے صدیق! تجھے مبارک ہو۔([6])

(9)سب سے افضل: حضرت سیّدنا ابو دَرْدَاء رضیَ اللہُ عنہ کا بیان ہےکہ نبیوں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کے آگےچلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا: کیا تم اس کے آگے چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ نبیوں اور رسولوں کے بعد ابوبکر سے افضل کسی شخص پر نہ تو سورج طلوع ہوااور نہ ہی غروب ہوا۔([7])

(10)گھر کے صحن میں مسجد: ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت سیّدتنا عائشہ رضیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دینِ اسلام پر عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن کے دونوں کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔ پھر حضرت ابوبکر کو خیال آیا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالیں، پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھےاور (بلند آواز سے) قراٰنِ مجید پڑھتے تھے،مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور حضرت ابوبکر کی طرف دیکھتے تھے۔([8])

(11)سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ یوں ارشاد فرمایا: جس شخص کی صحبت اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ابوبکر ہے اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے میں کسی کو خلیل( گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے۔([9])

(12)حوضِ کوثر پر رَفاقت: پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دفعہ حضرت صدیق رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: تم میرے صاحب ہوحوضِ کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔([10])

(13)سب سے زیادہ مہربان: شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام سے اِسْتِفْسار فرمایا: میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ تو سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام نے عرض کی: ابو بکر (آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے)، وہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ اُمّت میں سے سب سے افضل اوراُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔([11])

(14)صدیقِ اکبر کے احسانات: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا۔([12])

(15)خاص تجلّی: پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اُونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی: یا رسولَ اللہ!اس پر سوار ہوجائیے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوار ہوگئے پھر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! اللہ پاک تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائے۔ عرض کی: وہ کیا ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک تمام بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا۔([13])

وصال و مدفن:آپ رضی اللہ عنہ کا وصال 22 جُمادَی الاخریٰ 13ھ شب سہ شنبہ (یعنی پیر اور منگل کی درمیانی رات) مدینۂ منورہ (میں) مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ (63) سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت سیّدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی([14]) اور آپ رضی اللہ عنہ کوپیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔([15])اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])بخاری، 2/522، حدیث:36717

([2])پ10، التوبۃ:40

([3])تاریخ الخلفاء، ص: 46ملتقطاً

([4])بخاری، 1/177، حدیث:466،تفہیم البخاری، 1/818

([5])ابو داؤد، 4/280،حدیث:4652

([6])الحاوی للفتاویٰ، 2/51

([7])فضائل الخلفاء لابی نعیم، ص38، حدیث:10

([8])بخاری، 1/180، حدیث:476،تفہیم البخاری، 1/829

([9])بخاری، 2/591، حدیث: 3904

([10])ترمذی، 5/378، حدیث:3690

([11])جمع الجوامع، 11/39، حدیث:160

([12])ترمذی،5/374، حدیث:3681

([13])الریاض النضرۃ، 1/166

([14])کتاب العقائد، ص43

([15])طبقاتِ ابن سعد،3/157