اےکاش ہم بھی ایسے ہوجائیں

4 جُمادَی الاُخریٰ 1438ھ بروز پیر بعد نمازِ عشا ”مدنی چینل“ کے براہِ راست (Live) سلسلہ ”میرے ربّ کا کلام“ سے فارغ ہو کر سوئے مَطار (ائیر پورٹ) جانے کی تیاری تھی، آج رات مجھے ایسے مُلک کی طرف سفر کرنا تھا جہاں ایک ”اَہَم شخصیت“ کی صحبت بابرکت کا شرف حاصل ہونا تھا، میری نیت تھی کہ ان کے پاس حاضر ہو کر سَحری کرنے اور روزہ رکھنے کی سعادت حاصل کروں گا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بابُ المدینہ (کراچی) سے بذریعہ جَہاز روانہ ہوا، دورانِ سفر ایک ایسے عاشقِ رسول سے ملاقات ہوئی جو عُمرے پر جا رہے تھے، یوں تو وہ مجھے پہچانتے تھے مگر ملاقات پہلی بار ہوئی تھی، انہوں نے بتایا کہ میں امیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی حج و عمرہ کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب ”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“ گھر سے لانا بھول گیا ہوں اور مجھے تو احرام باندھنا بھی نہیں آتا۔ اللہ کے فضل سے یہ کتاب میرے ٹیبلٹ (Tablet) میں موجود تھی، میں نے ”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“ کے وہ صفحات دکھائے جن کی انہیں ضرورت تھی، انہوں نے اپنے موبائل کے ذریعے ان صفحات کی تصاویر لے لیں۔ اس میں خاص لُطف کی بات یہ تھی کہ مجھے اپنے حج و عمرہ کے اَیَّام یاد آگئے۔ کیا پُر بہار دن تھے وہ!اسی گُفتگو وغیرہ کے دوران میرا مطلوبہ ملک آگیا، میں جَہاز سے اترا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جیسے ہی میں سَحری سے کچھ دیر قبل اس عظیم عِلمی و رُوحانی شخصیت کی بارگاہ میں پہنچا تو انھوں نے پُرتَپاک انداز میں خوش آمدید کہا، یہ ان کی ذَرَّہ نوازی تھی ورنہ مَنْ آنَمْ کہ مَنْ دَانَمْ (یعنی میں جانتا ہوں کہ میری اوقات کیا ہے)۔ میرا ان کے ساتھ جو کم و بیش ایک دن گزرا اس میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ تھا، یہ بات سمجھ میں آئی کہ عبادت، ریاضت اور نیکیاں کمانے کا مَدَنی ذہن ہو تو تنہائی یا ایک ہی رفیق کے ساتھ، سفر کی حالت میں بھی نیکیوں بھرے ایام گزارے جاسکتے ہیں۔

اُن کے معمولات کچھ یوں تھے:٭حتی الْاِمکان روزانہ روزہ رکھنے کے لئے سحری و افطاری کرنا اور بھوک سے کم کھانا ٭قِبلہ رو بیٹھنے کا اہتمام کرنا ٭بذریعہ فون عیادت، تعزیت اور دلجوئی جیسی بھلائیاں اور نیکیاں بجالانا ٭امراض پر صبر کرنا ٭اصلاحِ اُمّت کے جذبے کے تحت تحریری کام کرنا ٭خیر خواہیِ اُمّت کے لئے غور و خوض اور مدنی مشورے دینا ٭ اسلامی بھائیوں کے لئے لبوں پر مُسکراہٹ اور دل غمِ آخرت میں ڈوبا ہونا ٭انتہائی اَہَم بات زَبان سے کرنا ورنہ اشاروں کے ذریعے سمجھانا، یوں زَبان کا قفلِ مدینہ لگانا ٭پَنْجگَانہ نماز کے ساتھ ساتھ نوافل مثلاً نمازِ تَہَجُّد، اِشراق و چاشت اوراَوَّابِین کا اہتمام کرنا ٭نماز کامل اطمینان اورسُکون سے ادا کرنا ٭گھر میں بھی عمامہ شریف سجائے رکھنا ٭رابطہ کرنے والوں کو بَروَقت رِپلائی دینا ٭انٹرنیٹ کا صرف ضروری استعمال مثلاً ای میل (E Mail) وغیرہ کا جواب دینا اور نیکی کی دعوت پر مبنی مَدَنی گلدستے بھیجنا ٭گھر کی دیواروں اور دروازوں پر دعائیں اور ا َوراد و وَظائف لگانا تاکہ پڑھنے میں آسانی رہے ٭گھر سے نکلتے ہوئے اچھی اچھی نیتیں کرنا مثلاً دورانِ سفر آنکھوں کی حفاظت کروں گا، پریشان نظری سے بچوں گا وغیرہ ٭اس دوران انگلی میں ڈیجیٹل تسبیح رکھنا تاکہ زَبان ذِکر و دُرُود سے تَر رہے ٭ہر رات سُوْرَۂ یٰسٓ اور سُوْرَۃُ الْمُلْک پڑھنے کا اہتمام کرنا ٭ملنے والوں کے ساتھ انتہائی ملنساری اور دلجوئی کا برتاؤ کرنا۔ یہ تقریباً ڈبل 12 گھنٹوں کا آنکھوں دیکھا حال ہے، یہ عظیم عِلمی و رُوحانی شخصیت کوئی اور نہیں، میرے پیر و مرشد، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مبارک ذات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جس طرح یہ عبادت و ریاضت اور نیکی کی دعوت عام کرنے کے جذبے کے ساتھ شَب و روزگزار رہے ہیں، غیبت و بدگمانی اور دیگر جملہ بُرائیوں سے بچنے کی ترکیبیں فرما رہے ہیں، اے کاش! ہم بھی اپنی زندگی اسی طرح بَسر کریں، مگر افسوس کہ نفس و شیطان ہمیں گھیر گھار کر نیکیوں سے دُور کرتے ہوئے بُرائیوں اور گناہوں کے گھنے جنگل میں لے جاتے ہیں جہاں ہمیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا، اے کاش! ہم نفس و شیطان پر قابو پانے والے بن جائیں، نیکیوں پر اِستقامت اختیار کر لیں، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ کیا اس انداز سے ہمارا کوئی ایک دن بھی گزرا جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گناہوں کا نام و نشان نہ ہو؟ آہ! ہمارا کیا بنے گا؟



سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومُفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ حال ہی میں پریمئیم پرائز بانڈ (Premium Prize Bond ) کے نام سے ایک نیا بانڈ جاری کیا گیا ہے جس میں ششماہی بنیاد پر نفع بھی ملے گا اور ہر تین مہینے بعد بذریعہ قرعہ اندازی حاملانِ بانڈ (جن کے پاس پرائز بانڈ ہو ان) میں سے کچھ افراد کو مختلف انعامی رقم بھی دی جائے گی جس طرح کہ عام پرائز بانڈ میں دی جاتی ہے۔ البتہ پریمئیم پرائز بانڈ سے متعلق آفیشل ویب سائٹ:savings.gov.pk پر اس بانڈ سے متعلق جو اشتہار آویزاں ہے اس میں مزید کچھ باتوں کی صراحت ہے۔

(1)Issued in the name of investor with direct crediting facility of Prize money and Profit into Investor's Bank Account.

ترجمہ:یہ بانڈ انویسٹر کے نام پر جاری ہوگا اور نفع اور انعام ڈائریکٹ (Direct) اس کے بینک اکاؤنٹ میں ڈالا جائے گا۔

(2)No Risk of Loss/Theft/Burnt.

ترجمہ:اس بانڈ کے گم ہونے، چوری ہونے یا جل جانے پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یعنی انویسٹر کو نقصان نہ ہوگا بلکہ وہ اس کا متبادل حاصل کرسکے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس بانڈ کا خریدنا، بیچنا کیسا ہے؟ اور اس پر حاصل ہونے والاششماہی نفع (Six Monthly Profit) اور ہر 3مہینے بعد بذریعہ قرعہ اندازی جو انعامات نکلیں گے ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ جائز وحلال ہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پریمئیم پرائز بانڈ (Premium Prize Bond ) ایک سودی بانڈ ہے جو کہ محض ایک سودی اکاؤنٹ میں جمع کردہ قرض کی رسید ہے جس پر واضح طور پر دلیل آفیشل اشتہار (Official Advertisement) کے یہ الفاظ ہیں۔ اس بانڈ کے گم ہونے، چوری ہونے یا جل جانے پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یعنی اگر کسی کا یہ بانڈ چوری ہوجائے یا گم ہوجائے تو چور کے لئے یہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں کہ اس سے وہ نفع اٹھا سکے بلکہ اصل مالک جس کے نام پر یہ جاری ہوا ہے وہ اس رسید کا مُتَبَادل (Duplicate) حاصل کرسکتا ہے یہ صراحت ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ بانڈ خود مال نہیں بلکہ جمع شدہ مال کی رسید ہےکیونکہ اگر یہ خود مال ہوتا تو دیگر بانڈز اور کرنسی نوٹوں کی طرح گم ہونے، جل جانے یا چوری ہوجانے پر مالک کو نقصان ہوتا اور چور کے لئے وہ ایک قابلِ نفع مال ہوتا حالانکہ پریمئیم بانڈ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت قومی بچت بینک (National Saving Bank) کے سیونگ اکاؤنٹ (Saving Account) کے سرٹیفکیٹ (Certificate) جیسی ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ سیونگ سرٹیفکیٹ پر نفع زیادہ ملتا ہے اس میں نفع کم ملے گا اور سیونگ سرٹیفکیٹ پر قرعہ اندازی کے ذریعے سے انعامات کا سلسلہ نہیں ہوتا جبکہ پریمئیم بانڈ میں پرائز بانڈ کی طرز پر انعام بھی رکھا گیا ہے۔

پریمئیم بانڈ پر ششماہی ملنے والا نفع اور ہر 3ماہ پربذریعہ قرعہ اندازی بنام انعام ملنے والا نفع دونوں ہی خالصتاً سود (Interest) ہیں اسی لئے پریمئیم بانڈ خریدنا، بیچنا ناجائز وحرام اور کبیرہ گناہ ہے بلکہ سود ہونے کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ ورسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (1)﴿وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواؕ ترجمہ:اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔(پ 3، البقرۃ:275)(2)﴿یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ

ترجمہ:اللہسود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (پ 3، البقرۃ:276)(3)﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾ فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖۚ ترجمہ:اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔(پ 3، البقرۃ:279،278)

حدیث مبارک میں ہے:کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفِعَۃً فَھُوَ رِبًا ترجمہ: قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔

(کنز العمال، جزء6، 3/99،حدیث:15512)

نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے سود لینے اور دینے پر لعنت فرمائی اور سب کو گناہ میں برابر قرار دیا، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:’’لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ وسلَّم اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ ھُمْ سَوَاءٌ ترجمہ:رسول اللہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہِ واٰلِہٖ وسَلَّم نے سود لینے والے، دینے والے، اسے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔

(مسلم،ص663،حدیث:4093)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ دنیاوی لالَچ وحِرْص میں پریمئیم پرائز بانڈ کے ذریعہ سود جیسے کبیرہ گناہ میں گرفتار ہوکر دنیا و آخرت کی تباہی وبربادی اور رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی اپنے سر نہ لیں بلکہ فقط حلال پر ہی اِکتفاء کریں اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی میں برکت دے گا جبکہ سود میں برکت تو دور کی بات ہے یہ تو دنیاوی مال میں بھی ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔

اللہ تعالٰیمسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور سود جیسی نحوست سے ہمارے معاشرہ کو محفوظ فرمائے۔اٰمین!

تنبیہ یہ حکم اس خاص پرائز بانڈ کا ہے جو پریمئیم کے نام سے پاکستان میں پہلی مرتبہ 40،000 کا جاری ہوا ہے جبکہ پہلے سے جاری شدہ دیگر پرائز بانڈ جن کی خرید وفروخت کی جاتی ہے وہ جائز ہیں اور ان پر حاصل ہونے والا انعام بھی جائز ہے کیونکہ وہ قرض کی رسید نہیں بلکہ خود مال ہیں اسی لئے گُم ہونے، جل جانے یا چوری ہوجانے کی صورت میں ان کا کوئی بدل نہیں دیا جاتا بلکہ جس کے ہاتھ میں ہو اُسے ہی مالک سمجھا جاتا ہے اسی لئے اسٹیٹ بینک (State bank) اور ہر مالیاتی ادارہ بلکہ ہر شخص کرنسی کی طرح ہی ان بانڈ کی خرید وفروخت کرتا ہے کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ کسی قرض کی رسید نہیں بلکہ خود مال ہے یہی وہ واضح فرق ہے جو عام پرائز بانڈ اور پریمئیم پرائز بانڈ کے مابین ہے جس کی وجہ سے دونوں کا حکم جدا جدا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ ورَسُوْلُہُ اَعْلَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم

مُجِیْب

ابو مصطفی محمد کفیل رضا عطاری المدنی

مُصَدِّق

ابو الصالح محمد قاسم القادری


افسوس ناک خبر: بیٹا کیوں پیدا نہیں ہوا؟ جہیز کیوں نہیں لائی؟ ساس کے طعنوں سے تنگ آکر ماں نے بچیوں سمیت زہر کھا کر خودکُشی کرلی۔ اہلِ محلہ کے مطابق 30سالہ خاتون کو جہیز نہ لانے اور بیٹیوں کی پیدائش پر آئے روز لڑائی جھگڑوں کا سامنا تھا۔ وہ ساس کی جانب سے شوہر کی دوسری شادی کرانے کی دھمکی پر بھی شدید خوف کا شِکار تھی۔ پولیس نے واقعہ کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش شروع کردی۔(سماء نیوز ویب سائٹ)

پیارے اسلامی بھائیو! ہم کئی کام وہ کرتے ہیں جس سے دوسروں کی زندگی میں راحتیں اور آسانیاں آتی ہیں، مثلاً کسی سے ہمدردی کے دو بول بولنا، حوصلہ افزائی کرنا، بیمار کی عیادت کرنا، پریشان حال اور دُکھیارے کی مدد کرنا، کسی کا پیارا دنیا سے چلا جائے تو اس سے تعزیت کرنا وغیرہ اور کچھ کام ہم وہ کرتے ہیں جس سے لوگوں کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں، ان کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے مثلاً کسی پر جھوٹا الزام لگانا، کسی کو جھاڑنا، مارنا اور بے عزت کرنا، گُھورنا، حوصلہ شکنی کرنا اور بات بات پر طعنے دینا۔ آج ہم اسی ”طعنہ دینے کی عادت“ پر بات کریں گے، آپ نے دیکھا کہ اوپر دی گئی خبر میں طعنے دینے کی وجہ سے بہو اتنی تنگ ہوئی کہ اس نے خودکشی جیسی حرام موت کو گلے لگا لیا اور اپنی پھول سی بچیوں کی بھی جان لے لی۔

طعنے نہ دو:اللہ پاک نے طعنے دینے سے منع فرمایا ہے چنانچہ قراٰنِ پاک میں ایمان والوں سے ارشاد فرمایا:﴿وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقٰبِتَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔(پ26، الحجرات: 11)

اسلامی معاشرے کے حُسن کو داغ دار کرنے والی اخلاقی کمزوریوں میں سے ایک ”طعنے دینا“ بھی ہے، دنیا میں بسنے والی مختلف قوموں، قبیلوں اور برادریوں میں اُردو، انگلش، عربی، سندھی، پنجابی، ہندی، میمنی، گجراتی الغرض جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اتنی ہی قسم کے طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے ہیں بلکہ اس کے لئے بنے بنائے مُحاوَرے بھی رائج ہیں مثلاً: ٭کسی کو بوڑھے ہونے کا طعنہ دینا ہو تو ”منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں“ ٭کوئی کام کرنے کا بول دے تو جواب ملتا ہے: ”تمہارے پاؤں میں مہندی لگی ہے!“ یعنی خود کیوں نہیں کرلیتے! ٭کسی کی ہمدردی میں رونے والے کو طعنہ ملتا ہے: یہ ”مگرمچھ کے آنسو ہیں“ یعنی دِکھاوے کا رونا ہے ٭کسی کو نیچا دِکھانے کیلئے بولتے ہیں:”تم کس کھیت کی مولی ہو!“ ٭چھوٹی عمر والا سمجھانے کی کوشش کرے تو طعنہ ملتا ہے:”چیونٹی کے پر نکل آئے ہیں“ ٭کوئی ترقی کیلئے آئیڈیا پیش کرے تو اسے ”خیالی پلاؤ پکانے“ کا طعنہ ملتا ہے ٭بے روزگار کو اکثر یہ طعنہ سننا پڑتا ہے: ”کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا“ ٭جو سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہو اسے ”کنجوس مکھی چوس“ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

آپ کو اچّھا لگے گا؟ تصور کیجئے کہ اگر اسی قسم کے طعنے آپ کو دئیے جائیں تو آپ کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھے گا یا زَرد پتوں کی طرح مُرجھا جائے گا، یہی تکلیف دوسرا بھی محسوس

کرتا ہے جب آپ اسے طعنہ دیتے ہیں۔

مختلف قسم کے طعنے: افسوس! رنگ رنگ کے طعنے مختلف انداز سے دئیے جاتے ہیں:غربت کا طعنہ، رنگ کالا ہونے کا طعنہ، قد چھوٹا ہونے کا طعنہ، بُزدلی (یعنی ڈرپوک ہونے) کا طعنہ، اولاد پیدا نہ ہونے پر طعنہ،تنخواہ یا آمدنی کم ہونے کا طعنہ، لباس کے سستے ہونے کا طعنہ، اَن پڑھ اور جاہِل ہونے کا طعنہ، منحوس ہونے کا طعنہ، جاسوسی کا طعنہ، چُغل خوری کا طعنہ، چور ہونے کا طعنہ، دیر سے رابطہ کرنے پر بھول جانے کا طعنہ، رِشتہ نہ ہونے کا طعنہ، طلاق یافتہ ہونے کا طعنہ، موٹاپے کا طعنہ،لمبا ہو تو طعنہ، بہو کو گھریلو کام کاج نہ آنے کا طعنہ، کسی شاگرد سے غلطی ہوجائے تو طعنہ کہ تمہارے استاذ نے تمہیں یہ سِکھایا ہے، مرید سے غلطی ہوجائے تو طعنہ کہ تمہارے پیر نے تمہیں یہی کچھ سکھایا ہے، کسی تنظیم یا تحریک سے وابستہ فرد سے غلطی ہوجائے تو اس تحریک کو چلانے والوں کو طعنے دئیے جاتے ہیں۔

جوابِ لاجواب: ایک مسجد کے امام صاحب کو ان کی زوجہ کی وَساطَت سے کسی خاتون کا پیغام ملا کہ میرے شوہر پانچ وقت کی نَماز اور جمعہ بھی آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں لیکن گھر پر جھگڑتے رہتے ہیں، میرا اور بچوں کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھتے، کام کاج نہیں کرتے، آپ نے انہیں یہی سِکھایا ہے؟ انہیں سمجھاتے کیوں نہیں! امام صاحب نے جواب بھجوایا: محترمہ! وہ میرے پیچھے نَماز ضَرور پڑھتے ہیں لیکن بعد میں ہاتھ ملاکر چلے جاتے ہیں، جمعہ کے بیان میں جب دوسروں کو وَعظ و نصیحت کرتا ہوں تو وہ بھی عوام میں بیٹھے سُن رہے ہوتے ہیں، میں انہیں انفرادی طور پر سمجھاؤں گا بھی مگر ان کی اخلاقی کمزوریوں کا ذمّہ دار صرف مجھے قرار دینا زیادتی ہے کیونکہ غور کیا جائے تو وہ 24 گھنٹوں میں سب ملا کر کُل دو گھنٹے مسجد میں آتے ہیں اور ان دو گھنٹوں میں میری ان سے تقریباً 15منٹ ملاقات ہوتی ہے جبکہ وہ 22گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں، جب آپ انہیں 22 گھنٹوںمیں نہ سُدھار سکیں تو میں بے چارہ 15منٹ میں کیا کرسکتا تھا؟

طعنہ دینا مؤمن کی شان کے خلاف ہے: حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِی یعنی مؤمن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا،بے حیائی کی باتیں کرنے والا اور بدکلام نہیں ہوتا۔

(ترمذی، 3/393، حدیث: 1984)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:یعنی یہ عیوب سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا دوسرے مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شان کے خلاف ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/469)

کوئی کسی کو طعنہ نہیں دیتا تھا: صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان عمدہ لباس زَیب تَن فرماتے تو وہ کم قیمت کا لباس پہننے والوں کو طعنہ نہ دیتے اور نہ ہی کم قیمت کا لباس پہننے والے عمدہ لباس پہننے والوں پر طعنہ زنی کرتے۔(الزہد للامام احمد، ص 319، رقم:1837)

طعنے دینا تو غیر مسلموں کا طریقہ ہے: قراٰنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے کہ کُفار مسلمانوں کو غریب ہونے کی وجہ سے طعنے دیتے تھے۔ ولید بن مُغیرہ سخت کافر تھا اور اسلام کا پیغام عام کرنے میں رُکاوٹیں ڈالنے میں پیش پیش رہتا تھا، اس نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا: مجنون، اس کے جواب میں اللہ پاک نے اس کے دس واقعی (یعنی حقیقی) عیوب ظاہر فرما دئیے جس میں سے ایک عیب یہ بھی تھا کہ ”بہت طعنے دینے والا۔“(پ29، القلم:11-صراط الجنان، 10/291 ملخصاً)

عبادت کا طعنہ دینے کا انجام:بَحْرُ الْعُلُوْم حضرت علّامہ مولانا مفتی عبدالمنّان رحمۃ اللہ علیہ اپنے دادا مرحوم عبدُالرّحیم بن دوست محمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دادا جان ایک بازار میں مزدوری کرتے تھے، ایک دفعہ اُجرت لینے کے لئے اس شخص کے پاس گئے جس کے یہاں مزدوری کرتے تھے تو اس کے لڑکے نے کہا:ابھی گزشتہ ہفتے تو خرچی لے کرگئے تھے، آج پھر چلے آئے، اتنی عبادت و ریاضت تو کرتے ہیں، اسی سے خوب ڈھیر سارا روپیہ کیوں نہیں مانگ لیتے! دادا جان نے ان کو کوئی جواب نہ دیا، فوراً گھر واپس لوٹ آئے اور دیر تک یہ فرماتے رہے:کیسے لوگ ہیں، یہ مسلمان کہے جائیں گے؟ اللہ کا نام لینے اور بندگی کرنے پر طعنہ دیتے ہیں۔ بھلا ان لوگوں کو کیا احساس ہوتا، البتہ حضرت اس جملے پر نہایت دُکھی رہے اور آپ نے اس شخص کیلئے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بحرُ العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:اللہ کسی کی سرکشی پسند نہیں فرماتا، میرے زمانے تک وہ لوگ زندہ رہے، ساری اکڑفوں ختم ہوگئی تھی۔ ان میں ایک صاحب تو اس طرح مَرے کہ مرتے دَم انہیں کوئی ایک چمچہ پانی دینے والا نہ تھاحالانکہ تین چار جوان بچے موجود تھے۔(بحرالعلوم نمبر، ص224 ملخصاً)

طعنہ دینے والے سے پناہ مانگو:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی پناہ مانگو آفت کی مشقتوں سے اور بدبختی کے پہنچنے سے اور بُرے فیصلے سے اور دشمنوں کے طعنوں سے۔ (بخاری، 4/277، حدیث:6616)یعنی مولیٰ مجھے ایسی دینی و دنیاوی مصیبتوں میں نہ پھنسا جن سے میرے دشمن خوش ہوں اور مجھ پر طعنے کریں، آوازے کسیں، اس سے بھی تیری پناہ، یہ دُعا بہت جامع ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/57)

طعنے کا جواب طعنے سے نہ دیجئے:فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اگر کوئی شخص تمہیں تمہارے کسی عیب کا طعنہ دے تو تم اسے اس کے عیب کا طعنہ ہرگز نہ دو کیونکہ تمہیں اس کا ثواب ملے گا اور طعنہ دینے والے پر وبال ہوگا۔

(ابن حبان، 1/370، حدیث:523)

مسلمان کو تکلیف دینا ناجائز و حرام ہے: طعنے دینے میں مسلمان کی سخت دل آزاری ہے اور مسلمان کو بِلاوجہِ شرعی تکلیف دینا جائز نہیں ہے، اللہ کریم کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذیٰ مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ یعنی جس نے کسی مسلمان کو اِیذا دی

اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اُس نے اللہ کو اِیذا دی۔

(معجم اوسط، 2/387، حدیث:3607)

مُعافی مانگ لیجئے: پیارے اسلامی بھائیو! ہماری سانسیں کسی بھی وقت کسی بھی لمحے رُک سکتی ہیں، لہٰذا شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ توبہ کرلیجئے، جن جن کو طعنے دے کر ستایا ہے ان سے مُعافی مانگ لیجئے۔اللہ پاک ہمیں نیک بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حکایت:شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے طے کیا کہ کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولیں گے۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے کے والدین نے اس نیت سے دروازے کو دستک دی کہ بچوں کو دُعاؤں سے نوازیں گے۔ لڑکے نے آواز پہچان لی،ایک نظر بیوی کودیکھاپھر اپنے ارادے کو دُہراتے ہوئے دروازہ نہیں کھولا،اس کے والدین چلے گئے۔کچھ ہی دیر بعد لڑکی کے والدین نے اسی تمنّا کے ساتھ دروازے پر دستک دی،لڑکی نے آواز پہچان لی مگر رُک گئی،چند لمحوں میں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اوراس نے آگےبڑھ کر دروازہ کھول دیا اوروالدین کی دُعائیں لی ۔لڑکے نے یہ منظر دیکھا لیکن خاموش رہا۔کچھ عرصےبعد ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔لڑکا بہت خوش ہوا اوربیٹی کی پیدائش پر پُر تکلّف دعوت کا اہتمام کیا۔ بیوی نے اس قدر خوشی و اہتمام کا سبب پوچھا تو لڑکا بولا:’’گھر میں اس کی ولادت ہوئی ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی۔‘‘

اس فرضی حکایت میں بیٹی کی مَحبّت و اہمیت کو اُجاگَر کیا گیا ہے،بیٹیاں اللہ کی رحمت اور غمخواری میں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں،ان کی مُسکُراہٹ سے دُکھی دل کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ مگر ہائے افسوس! اس پُر فِتن دور میں بیٹیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتابلکہ دورِجاہلیت کی یاد تازہ کرنے والے ہوش رُبا واقعات پڑھ کررونگٹےکھڑے ہوجاتے ہیں،چنانچہ اس ضمن میں 2 اَخباری خبریں بِالتَّصَرُّف مُلاحَظہ فرمائیں:

٭مَعَاذَاللہ زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ ہوگئی،چھٹی بیٹی کی پیدائش پر ظالم شوہر بیوی کو اسپتال سے لاتے ہی تَشَدُّد کا نشانہ بنانے لگا۔جُنون ٹھنڈا نہ ہوا تو اپنی ہی لختِ جگر کوپانی کے ٹَب (Tub) میں ڈُبو کر مار ڈالا، احتجاج پر بیوی کو بھی سوتے میں فائرنگ کر کے قتل کردیا،مُلْزَم کو گرفتار کرلیا گیا۔(روزنامہ جنگ،6 نومبر2013)

٭کراچی کے ایک علاقے میں سفّاک باپ نے اپنی 10 ماہ کی بیٹی کو فَرْش پر پٹخ کر قتل کردیا اور فرار ہوگیا۔ واقعے کے فوری بعد مُلْزَم کو گرفتار کر لیا گیا۔پولیس کے مطابق مُلْزَم اپنی اہلیہ سے روزانہ جھگڑا کرتا تھا اوراس پرتَشَدُّد بھی کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا پیدا ہو اور بیٹا پیدا نہ ہونے پرہی اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا۔(روزنامہ دنیا،5جنوری2014)

عقل کام نہیں کرتی کہ کیا باپ بھی بیٹی کو۔۔قلم لکھتے ہوئے بھی کانپ اٹھےمگر کس قدر سنگدل ہے وہ باپ جسکا ہاتھ کانپا نہ ہو گا!

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خدارا بیٹیوں کی قدر کیجئے۔اللہ کے پیارے حبیبصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیٹیوں کے بارے میں جو اِرشادات عطا فرمائے ہیں،انہیں پڑھئے اور غورکیجئے: (1)بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو،بے شک وہ مَحبّت کرنے والیاں ہیں۔(مسندامام احمد، 6/134،حدیث17378)

(2)جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس شخص کو جنّت میں داخل فرمائے گا۔(مستدرک للحاکم،5/248،حدیث7428)

(3)جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آپڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سُلوک(یعنی اچھا برتاؤ)کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنَّم سے روک بن جائیں گی۔(مسلم،ص1084،حدیث:6693)

اسی طرح بیٹیوں پر مَحبّت و شفقت پر اُبھارتی ایک اور ایمان اَفروزحدیث پڑھئے:جوبازارسے اپنے بچوں کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان(یعنی بچوں)پر صَدَقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہئے کہ بیٹیوں سے اِبتدا کرے کیونکہ اللہعزَّوجل بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں پر رحمت و شفقت کرے وہ خوفِ خدا میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے خوش کرے گا۔(فردوس الاخبار،2/263،حدیث5830)

صد کروڑ افسوس!آج کل مسلمانوں کی ایک تعدادبیٹی کی پیدائش کو ناپسند کرنے لگی ہے!یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ امیرِ اہلسنت کے رسالے’’زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی“ کے صفحہ14 سے الٹرا ساؤنڈ(Ultra Sound) کا اہم مسئلہ بَیان کر دوں،چنانچہ’’الٹراساؤنڈ کروانے کا اَہم مسئلہ ذہن نشین فرما لیجئے: اگرمَرَض کا علاج مقصودہے تو اس کی تشخیص (یعنی پہچان)کے لیے بے پردگی ہورہی ہو تَب بھی ماہر طبیب کے کہنے پر عورت کسی مسلمان عورت(اور نہ ملے تو مجبوری کی صورت میں مرد وغیرہ) کے ذریعے الٹرا ساؤنڈ کرواسکتی ہے۔لیکن بچہ ہے یا بچی اس کی معلومات حاصل کرنے کا تعلّق چونکہ علاج سے نہیں اور الٹرا ساؤنڈ (Ultra Sound)میں عورت کے سَتْر (یعنی ان اَعضاء مثلاً ناف کے نیچے کے حصّے)کی بے پردگی ہوتی ہے لہٰذا یہ کام مرد تو مردکسی مسلمان عورت سے بھی کروانا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

(دردناک حکایت)الٹرا ساؤنڈ کی غلط رپورٹ نے گھر اُجاڑدیا: تمام سائنسی تحقیقات چونکہ یقینی نہیں ہوتیں لہٰذا بیٹا یا بیٹی کا مُعامَلہ ہو یا کسی اور بیماری کا،الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ دُرُست ہی ہو یہ ضروری نہیں۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی چینل کے ہفتہ وار مقبول سلسلے’’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘کی قِسط14’’ظُلْم کی اِنتہا‘‘میں ایک پاکستانی لیبارٹریَن نے اپنے تَجرِبات بَیان کرتے ہوئے کچھ اس طرح بتایا کہ’’ایک عورت کے اِبتدائی ایّام کے الٹرا ساؤنڈ(Ultra Sound) کی رپورٹ میں ساتھ آنےوالے شوہرنے جب بیٹی کا سُناتو سنتے ہی بے چاری کو طلاق دے دی!لیکن جب دن پورے ہوئے اور وِلادت ہوئی تو بیٹا پیدا ہوگیا!مگر آہ! الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ پر اندھا یقین رکھنے والے آدَمی کی نادانی کے سبب اس دُکھیاری بی بی کا گھر اُجڑ چُکا تھا!‘‘(زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی،ص14،15)

کاش! میری یہ فریاد ہر باپ تک پہنچ جائے کہ وہ بیٹی کی پیدائش کو بُرا نہ جانے، بیٹی سے محبت کرے،اُس پر شفقت کرے، اُسے ایذا نہ دے،(مَعَاذَاللہ)اُسے قتل نہ کرے، بلکہ اُس کی قراٰن و سنّت کے مطابق بہترین تربیت کرکے آخرت میں ثواب کا مستحِق بنے۔

(بیٹی کی پرورش کی فضیلت اور دیگر اَہم معلومات پر مشتمل امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) پڑھنا نہ بھولئے )

کچرےکاڈھیر

صفائی ستھرائی بہترین خصلت ہے۔ امیری ہو یا غریبی، تندرستی ہو یا بیماری ہر حال میں صفائی ستھرائی انسان کی عزت و وقار کی محافظ ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت و عظمت کی بدترین دشمن ہے۔ دین ِاسلام نے ظاہری و باطنی دونوں طرح کی گندگیوں سے بچنے کا درس دیا ہے۔ جس طرح ہم اپنے بدن ،لباس، استعمالی چیزوں اور گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقے اور محلہ کو بھی صاف ستھرا رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے ۔افسوس ناک حادثہ: پچھلے دنوں باب المدینہ کراچی کے علاقہ کھڈامارکیٹ میں رات کے وقت کچرے کے ڈھیر میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے ایک رہائشی عمارت کی پہلی منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے نتیجے میں دم گھٹنے سے 7 سالہ آمنہ ،3 سالہ ایان اور ایک سالہ عبد العزیز زندگی کی بازی ہار کر موت کی وادی میں چلے گئے جبکہ بچوں کی والدہ کو تشویش ناک حالت میں I.C.Uمیں داخل کیا گیا۔ اللہتعالیٰ لَواحقین کو صبرِِ جمیل اور اس پر ثوابِِ عظیم عطا فرمائے۔(آمین) کچرے کے ڈھیر میں آگ کسی نے جان بوجھ کر لگائی یا کسی کی غلطی کی وجہ سے بھڑک اٹھی،بہر حال ایک خاندان پر صدمات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ تین ننھی مسکراتی کلیاں مرجھا گئیں اورخوشیوں بھرے گھرمیں اداسیوں نے بسیرا کرلیا۔اس حادثے کا ذمہ دار کسےقرار دیا جائے؟ اہلِ محلہ کو جو اس رہائشی عمارت کے نیچے کچرےکا ڈھیر لگاتےرہے اور ناسمجھی میں دوسروں کی موت کا سامان تیار کرتے رہے ،یا پھر ان افراد کو ذمہ دار قرار دیا جائے جو ہر ماہ کی تنخواہ تولیتے ہیں مگر صفائی کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہفتوں بلکہ مہینوں تک اپنی شکل تک نہیں دکھاتے، پھر جب کوئی ایسا حادثہ ہوجاتا ہے تواپنی کوتاہی وسستی کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر الزام ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں۔

بابُ المدینہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جگہ جگہ اُبلتے گٹرجن کا پانی گلیوں اور سڑکوں پر ایک تالاب کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور جابجا کچرے کے خود ساختہ ڈھیر اس بات کی جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم صفائی ستھرائی کے معاملے میں اسلامی اَحکامات پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں ۔نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری حالت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔(جامع صغیر، ص:22، حدیث: 257)حضرت علامہ عبد الرؤف مناویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حکّام اور علما کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر ،1/249)

اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کرنے والا شخص قصور وار ہوتا ہے لیکن ایسے حادثات کی روک تھام کرنےکےلئے ہماری بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے گھر ،دکان ،محلہ اور علاقے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں،اپنا گھر صاف رکھنے کے لئے گلی میں کچرا نہ پھیلائیں ، گلی کو صاف رکھنے کے لئےچوک کو کچراکُنڈی نہ بنائیں ، ہرعقل رکھنے والا اسلامی بھائی میری اس بات سے اتفاق کرے گا تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم روزانہ کچرے کے ڈھیر میں اضافہ کردیتے ہیں ،کوئی نہیں رُکتا آپ تو رُک جائیں اور کچرا وہاں ڈھیر کریں جہاں انتظامیہ نے جگہ مخصوص کی ہو ،کیایہ فریاد اس قابل نہیں کہ اس پر غور کیا جائے ،ذرا سوچئے!


اطلاعات کے مطابق ایک تین سالہ بچے کے والد کا دوست ان کے گھر آیا اور موبائل فون کے کیمرے سے بچے کی تصویر بنانے لگا۔تصویر بنانے سے پہلے وہ کیمرے کی فلیش لائٹ بند کرنا بھول گیااور دس انچ کے فاصلے سے بچے کی تصویر بنائی۔ آدھے گھنٹے بعد بچے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور والدین نے محسوس کیا کہ بچے کو دیکھنے میں دشواری ہورہی ہے۔بچے کو فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا، جس نے  معائنے کے بعد بتایا کہ کیمرے کی تیز فلیش لائٹ کے باعث ان کا بیٹا ایک آنکھ سے نابینا ہوچکا ہے۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ چار سال کی عمر تک بچے کی آنکھ میں قریب سے کیمرے کی فلیش لائٹ پڑنے سے آنکھ کے ریٹینا میں موجود میکیولا (MACULA) شدید متاثر ہوتا ہے جس کے سبب بینائی ضائع ہونے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے اور یہ ایک ناقابلِ علاج مسئلہ ہے۔اس عمر تک بچے کی آنکھ میں میکیولا پوری طرح نشوونما نہیں پاتا اس لئے یہ اس قدر تیز روشنی برداشت نہیں کرسکتا۔ڈاکٹروں نے لوگوں کوہدایت کی ہے کہ چار سال کی عمر سے قبل بچے کی تصاویر بنانے سے پہلے پوری طرح یقین کرلیں کہ ان کے کیمرے کی فلیش لائٹ بند ہے ورنہ ان کا بچہ عمر بھر کے لئے نابینا بھی ہوسکتا ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو!موبائل فون کے پیدا کردہ مسائل میں سے ایک موقع بے موقع تصویر بنانے کا شوق بھی ہے۔آج کل چونکہ کم وبیش ہر شخص کے پاس موبائل فون موجود ہوتا ہے لہٰذا جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ کسی کی بھی تصویر یا وڈیو بنالیتا ہے چاہے سامنے والا اس پر راضی ہو یا نہ ہو۔یہ شوق اس وقت غیر انسانی روپ دھار لیتا ہے جب کہیں بم دھماکہ،ایکسیڈنٹ یا کوئی اور سانحہ رونما ہو اور موقع پر موجود افراد ہلاک ہونے والوں کی منتقلی اور زخمیوں کی مدد کرنے کے بجائے ان کی تصویر یا وڈیو بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک سنگدلانہ عمل ہے۔ ایسا کرنے والے اگر خدانخواستہ خود کسی ایسے سانحے کا شکار ہوں اور موقع پر موجود افراد ان کی مدد کے بجائے ان لمحات کو محفوظ کرنے میں مصروف رہیں تو ان کے دل پر کیا گزرے گی۔

موبائل فون سے تصویر سازی کے شوق کا ایک اور نقصان مختلف جسمانی عوارض(بیماریوں) کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ مثلاًپیدائش کے فوراً بعد والدین یا دوست احباب کا بچوں کی تصاویر بناکر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ (Upload) کرنا ایک عام سی بات بنتی جارہی ہے۔ بظاہر تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتالیکن مذکورہ واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا بسا اوقات بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے، بالخصوص اگر کیمرے کی فلیش لائٹ آن ہو۔


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں فریٹ فارورڈنگ (Freight Forwarding)کا کام کرتا ہوں جس میں بحری جہاز کے کنٹینرز شِپِنگ کمپنی سے کنٹینر کرائے پر لے کر آگے اسے پارٹی کو کرائے پر دیتے ہیں۔کمپنی سے ہم کسی مال کی ایکسپورٹ کے لئے مثلاً 10,000روپے کرائے پرلیتے ہیں، اور پارٹی کو یہی کنٹینر 12,000 روپے میں دیتے ہیں۔ مذکورہ کرائے پر شپنگ کمپنی چاہے دو دن میں بھیجے یاپانچ دن میں، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ ہمارے پاس کنٹینر کو پہنچا دے، نیز مال چھوڑنے کے بعد شپنگ کمپنی کا کام ہوتا ہے کہ اس کنٹینر کو کہاں بھیجنا ہے،پارٹی اور ہمارا اب اس کنٹینر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پارٹی کو جو ہم زیادہ کرائے پر دیتے ہیں،اس میں ہم کنٹینر کی سِیل (Seal) کے اَخْراجات بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ ہم کنٹینر کی سِیل کے اَخْراجات شپنگ کمپنی کو الگ دیتے ہیں لیکن پارٹی سے ہم اس سِیل کرانے کےالگ پیسے نہیں لیتے،تو کیا اس صورت میں پارٹی کو جب ہم کنٹینر کرائے پر دیتے ہیں تو کنٹینر کا کِرایہ اور سِیل کے اخراجات ملا کر مثلاً 12,000 روپے میں دے سکتے ہیں، جبکہ ہم نے شپنگ کمپنی سے وہی کنٹینر 10,000 روپے کا کرائے پر لیا ہوتا ہے اورتقریباً 500 روپے میں سِیل کے اخراجات میں دئیے ہوتے ہیں۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں آپ پارٹی کو کنٹینرکا کِرایہ اور اسے سِیل کرنے کے اخراجات کے ساتھ ملاکر کنٹینر کو آگے زیادہ کرائے پر دے سکتے ہیں۔کیونکہ کرائے پر لی ہوئی چیز آگے کرائے پر دے سکتے ہیں،جبکہ اتنے ہی کرائے پر دی جائے جتنے پر لی تھی،یا کم کرائے پر دی جائے اور اگر زیادہ کرائے پر دینا چاہیں تو اس وقت دے سکتے ہیں جب درجِ ذیل تین صورتیں پائی جائیں: ایک:یہ کہ کنٹینر میں کچھ کام کرا دیں۔ دوسری:یہ کہ آپ نے جس جنس کے کرائے پر کنٹینر لیا اس کے خلاف کسی اور جنس کے کرائے پر آگےدیں۔اور تیسری: یہ کہ کنٹینر کے ساتھ کوئی اور چیز بھی کرائے پر دیدیں اور دونوں کا کرایہ ایک ہی مقرر کریں۔([1]) پوچھی گئی صورت میں آپ کی طرف سے سِیل کی صورت میں اضافہ کرنا پایا گیا تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔

صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”مُسْتَاجِر(کرایہ دار)نے مکان یا دکان کوکِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پردیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یاکَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں اگرمکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یاکرایہ کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑودیکرمکان کو صاف کرلینایہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،3/124، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم



[1]۔الجوہرۃ النیرہ میں ہے: ”وَاِنْ اَجَّرَھَا بِاَکْثَرَ مِمَّا اسْتَاْجَرَھَا جَازَ ، اِلَّا اَنَّہ اِذَا کَانَتِ الاُجْرَۃُ الثَّانِیَۃُ مِنْ جِنْسِ الْاُوْلٰی لَا یَطِیْبُ لَہ الزِّیَادَۃُ وَیَتَصَدَّقُ بِھَا، وَاِنْ کَانَتْ مِنْ خِلَافِ جِنْسِھَا طَابَتْ لَہ الزِّیَادَۃُ، فَاِنْ کَانَ زَادَ فِی الدَّارِ شَیْئاً کَمَا لَوْ حَفَرَ فِیْھَا بِئْراً اَوْطَیَّنَہَا او اَصْلَحَ اَبْوَابَھَا اَوْ شَیْئاً مِّنْ حِیْطَانِھَا طَابَتْ لَہُ الزِّیَادَۃُ

(الجوہرۃ النیرہ شرح قدوری،کتاب الاجارۃ،1/308،309)


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ نماز میں بہت دیر تک کھانسنے کی نوبت آجائے جس کی وجہ سے تین سُبْحٰنَ اللہ کی مقدار تاخیر بھی ہوجاتی ہو تو ایسی صورت میں کیا سجدۂ سہو وغیرہ کرنا ہوگا؟ سائل:محمدشفیع عطاری(5-E،نیوکراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عذر کی بنا پر مثلاً کھانسنے کے سبب بالفرض اگر تین مرتبہ سُبْحٰنَ اللہ کہنے کی مقدار قراءَت یا تَشَہُّد وغیرہ میں سُکُوت ہوجائے یا فرض و واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو اس سے نماز پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور اس صورت میں سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہوتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

الجواب صحیح

عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری

کتبــــــــــہ

المتخصص فی الفقہ الاسلامی

ابو عبداللہ محمد سعید عطاری مدنی


والد صاحب کی اچانک بیماری، دوا مہنگی اور جیب خالی! یہ سب کچھ ناصر کے حواس گُم کرنے کے لئے کافی تھا، اس نے اپنے سب سے قریبی دوست(Best friend)جمال کو فون کیا کہ میرے ابّو سخت بیمار ہیں اور میرے پاس اس وقت دواکے لئے پیسے نہیں ہیں۔جمال نے ہمت بندھائی: میں کچھ کرتا ہوں۔ ناصر نے تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کیا تو موبائل بند جارہا تھا، بار بار کی کوشش کے بعد بھی رابطہ نہ ہوا تو ناصر سوچنے لگا کہ بڑا دَم بھرتا تھا دوستی کا! آج دوستی نبھانے کا وقت آیا تو جھوٹا دلاسہ دیا پھر فون ہی بند کردیا، سب مطلبی ہوتے ہیں، کوئی کسی کے کام نہیں آتا! خیالات کا ایک سیلاب تھا جو اس کے دل و دماغ سے ٹکرا رہا تھا۔ وہ گھر سے نکلا کہ کہیں اور سے رقم کا انتظام ہوجائے، ناکام کوششیں کرنے کے بعد وہ بوجھل قدموں سے گھر کی طرف چل دیا، گھر پہنچ کر دیکھا تو والد صاحب سکون سے سو رہے ہیں، ان کے سرہانے دوائیوں (Medicines) کا پیکٹ رکھا ہوا ہے، حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات میں اس نے چھوٹے بھائی سے پوچھا: یہ دوائیاں کون لایا؟ ”آپ کے دوست جمال آئے تھے، مجھ سے دوائی کی پرچی مانگی اور تھوڑی دیر بعد یہ دوائیاں دے گئے،“ بھائی نے جواب دیا۔ ناصر کافی فاصلہ طے کرکے جمال کے گھر پہنچا کہ پتا تو چلے کہ ماجرا کیا ہے! پہلے اس کا شکریہ ادا کیا پھر کہا: میں نے بعد میں آپ کو بہت فون کئے مگر فون بند تھا!جمال نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بتایا کہ اِتّفاق سے میرے پاس بھی اس وقت اتنی رقم نہیں تھی لہٰذا میں نے وہی موبائل بیچ دیا اور آپ کے والد صاحب کی دوائی خرید لایا۔ یہ سُن کر ناصر کی آنکھیں بھیگ گئیں کہ میرا دوست مجھ سے اتنا مخلص ہے اور افسوس! میں اس کے بارے میں کیسی کیسی بدگمانیاں کرتا رہا ہوں!

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس فرضی حکایت میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو بات بات پر بدگمانی (بُرے گمان،Mischief) کا شکار ہوجاتے ہیں، مثلاً: *نوکری (Job) سے فارغ ہوگئے تو آفس کے کسی فرد سے بدگُمانی کہ اس نے سازش کی ہوگی *کاروبار میں نُقصان ہوگیا تو قریبی کاروباری حَرِیف سے بدگُمانی کہ اس نے کچھ کروا دیا ہوگا *اجتماعِ ذکر و نعت میں یا دعا مانگتے ہوئے کوئی شخص رو رہا ہے تو بدگُمانی کہ لوگوں کو دِکھانے کے لئے رو رہا ہے *گھر سے کوئی چیز غائب ہوجائے تو آنے جانے والے رشتہ داروں یا ملازموں پر بدگمانی کہ انہوں نے چُرائی ہوگی *کامیابی یا ترقی پر کسی نے حسبِ خواہش مبارک باد (congratulation)نہیں دی تو بدگمانی کہ مجھ سے جلتا (یعنی حسد کرتا) ہے *گورنمنٹ کے کسی ملازم کو خوشحال دیکھ لیا تو بدگمانی کہ اوپر کی کمائی سے عیش کررہا ہے *کاغذات (Papers)نامکمل ہونے کی وجہ سے کسی سرکاری افسر نے کوئی کام کرنے مثلاً شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ویزہ دینے سے انکار کردیا تو بدگمانی کہ مجھ سے رشوت لینا چاہتا ہے *کسی نے توَقَّع کے مطابِق توجّہ نہیں دی، حال چال نہیں پوچھا تو بدگمانی کہ تکبر کرتا ہے *کہیں رشتے کی بات چل رہی تھی وہاں سے انکار ہوگیا تو اپنے کسی رشتہ دار(Relative) سے بدگمانی کہ اس نے کوئی گڑ بڑ کی ہوگی *شوہر کی تَوَجُّہ بیوی کی طرف کم ہوگئی تو ساس سے بدگُمانی کہ اس نے اپنے بیٹے کے کان بھرے ہوں گے *بہو کو نماز کے بعد اَورَاد و وَظائف کرتے دیکھ لیا تو بدگمانی کہ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کوئی وظیفہ کررہی ہے *ساس کا بدلا ہوامہربان رویہ دیکھ کر بدگمانی کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے *جس نے قَرض (Loan)لیا اور وہ رَابِطے میں نہیں آرہا تو بدگمانی کہ میرا قرض کھا گیا *جس سے مال بُک کروا لیا وہ مِل نہیں رہا تو فوراً بدگُمانی کہ بھاگ گیا *کسی نے وقت دیا اور آنے میں تاخیر ہوگئی تو بدگُمانی کہ وعدہ کرکے مُکر گیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ 15مثالیں(Examples) تو سمجھانے کے لئے دی ہیں ورنہ کیا گھر! کیا دفتر! کیا بازار! کونسی جگہ ہے جہاں بدگمانی کا ناسُور پھیلا ہوا نہیں ہے!

بدگمانی کا شَرْعی حکم صدرُ الشّریعہ ،بدرُالطّریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:بے شک مسلمان پر بدگُمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اُس کا ایسا ہونا ثابِت ہوتا ہو تو اَب حرام نہیں،مثلاً کسی کو بھٹی (یعنی شراب خانے) میں آتے جاتے دیکھ کر اُسے شراب خور (یعنی شراب پینے والا) گُمان کیا تو اِس (یعنی بدگُمانی کرنے والے) کا قصور نہیں، اُس (یعنی شراب خانے میں آنے جانے والے) نے مَوضَعِ تُہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتِناب (یعنی پرہیز) نہ کیا۔(فتاویٰ امجدیہ، 1/123)

بدگمانی کا حکم کس وقت لگے گا؟ شارح بخاری علّامہ بدرُالدّین محمودعینی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی فرماتے ہیں: گُمان وہ حرام ہے جس پر گُمان کرنے والا مُصِر ہو (یعنی اصرار کرے) اور اسے اپنے دِل پر جمالے، نہ کہ وہ گُمان جو دِل میں آئے اور قرار نہ پکڑے۔ (عمدۃ القاری،14/96،تحت الحدیث:5143) ([1])

بدگمانی کے نقصانات بدگمانی کے انفرادی نقصانات بھی ہیں اور اجتماعی بھی، جن کا تعلّق دنیا سے بھی ہوتا ہے اور آخرت سے بھی! بہرحال بدگمانی سے یہ نقصانات ہوسکتے ہیں: (1)کسی کے بارے میں بدگمانی ہونے اور اسے دل پر جمانے میں چند سیکنڈزبھی نہیں لگتے لیکن اس کی سزا جہنم کا عذاب ہے جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے (2)بدگمانی ایک ایسا باطنی (دل کا)گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں پھنس سکتا ہے جیسے کسی کے عیبوں کی تلاش میں رہنا، غیبت، تہمت، کینہ اور بُہتان میں مبتلا ہوجانا (3)معمولی سی بدگمانی سے شروع ہونے والا جھگڑا قتل و غارت تک پہنچ سکتا ہے جس کا سلسلہ بعض اوقات کئی نسلوں (Generations) تک چلتا ہے (4)بدگمانی محبت و اُلفت کو بُغض و عداوت میں بدل سکتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی تعلّقات میں ایساکھچاؤ (Strained)آجاتا ہے کہ بھائی کی اپنے سگے بھائی سے نہیں بنتی، میاں بیوی ایک دوسرے سے تنگ آجاتے ہیں، ساس بہو میں ٹھن جاتی ہے جس کی وجہ سے زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور خاندان بکھر سکتا ہے (5)بدگمانی اگر کسی تحریک، تنظیم یا ادارے میں گھس جائے تو اعتماد کی فضا ختم کردیتی ہے جس سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے (6)بعض اوقات کسی تحریک (مثلاً دعوتِ اسلامی) سے وابستہ اسلامی بھائی کو دوسرے اسلامی بھائی سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے اور یہ اُس کا اِنفرادی فعل ہوتا ہے لیکن وہ ساری تحریک سے بدگمان ہوجاتا ہے اور اس تحریک سے ناطہ توڑ لیتا ہے اور مدنی کاموں کے سبب ملنے والا ثواب کا ایک ذریعہ ختم کر بیٹھتا ہے۔

بدگمانی کے8علاج قراٰن و حدیث اور بزرگانِ دین رحمھم اللہ المُبِین کے فرامین کی روشنی میں بدگمانی کے8علاج ملاحَظہ کیجئے: (1)گمانوں کی کثرت سے بچئے، اس سے بدگمانی کا راستہ تنگ ہوگا اور دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے آپ محتاط (Cautious)رہیں گے۔ (2)بُرے کاموں سے بچئے، اِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہُ یعنی جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو اس کے گُمان بھی بُرے ہوجاتے ہیں۔(فیض القدیر، 3/157) (3)ارشادِ حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے: اپنے بھائی کی زبان سے نکلنے والے کلمات کے بارے میں بدگُمانی مت کرو جب تک کہ تم اسے بھلائی پر محمول(یعنی گمان) کرسکتے ہو۔(درِّمنثور، 7/565) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جتنے دلائل ہم اپنے فعل کو درست ثابت کرنے کے لئے دیتے ہیں اگر اس کا 10فی صد بھی اپنے مسلمان بھائی کے کام کو اچّھا سمجھنے کے لئے سوچیں تو بدگمانی جڑ سے اُکھڑ سکتی ہے، مثلاً کسی اِسلامی بھائی کو اجتماعِ ذکر و نعت میں روتا دیکھ کر بُرا گمان آئے کہ ریاکاری کررہا ہے،یہاںحسنِ ظن بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ خوفِ خدا یا عشقِ رسول میں رو رہا ہے (4)بُری صحبت میں نہ بیٹھیں، روح المعانی میں ہے:صُحْبَۃُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْ ءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ یعنی بُروں کی صحبت اچھوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے۔(روح المعانی، 16/612) (5)حُسنِ ظن (اچھا گمان) کی عادت بنائیں ثواب ملے گا، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اچھا گُمان اچھی عبادت سے ہے۔(ابو داؤد، 4/387، حدیث:4993) (6) حُسنِ ظَن میں کوئی نقصان نہیں اور بدگمانی میں کوئی فائدہ نہیں، حضرت سیّدنا بکر بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:اگر تمہارا گُمان دُرُست ثابت ہوا تو بھی تمہیں اس پر اجر و ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر گُمان غلط ثابت ہوا تو گُناہ گار ٹھہرو گے۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/257، رقم:2143) (7)اپنے دِل کوسُتھرا رکھنے کی کوشش کیجئے، حضرت سیّدنا عارف زرّوق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: خبیث گُمان خبیث دِل سے نکلتا ہے۔(حدیقۃ الندیۃ، 2/8) (8)روزانہ دس بار اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھنے والے پر شياطين سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک ایک فرشتہ مقرّر کردیتا ہے۔(مسند ابی یعلیٰ، 3/400، حدیث: 4100)

اللہ کریم ہمیں بدگمانی سے بچنے اور مسلمانوں سے حسنِ ظن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


[1] بدگمانی کے شرعی احکام کی مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ ”بدگمانی“ پڑھ لیجئے۔


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عام طور پر نابالغ چھوٹے بچے دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں تو کیا نابالغ بچوں کا یہ چیزیں خریدنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:سمجھ دار نابالغ بچہ اپنے ولی کی اجازت سے اشیاء کی خرید و فروخت کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ غبنِ فاحش یعنی مارکیٹ ریٹ سے مہنگی چیز نہ خریدی ہو۔صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”نابالغ کے تصرّفات تین قسم ہیں: نافعِ مَحْض یعنی وہ تصرّف جس میں صرف نفع ہی نفع ہے جیسے اِسلام قَبول کرنا۔ کسی نے کوئی چیز ہِبَہ کی (تحفہ دیا) اس کو قبول کرنا اس میں ولی کی اجازت دَرْکار نہیں۔ ضارِّ مَحْض جس میں خالِص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّت ہو اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو جیسے صدقہ و قرض، غلام کو آزاد کرنا، زوجہ کو طلاق دینا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اِجازت دے تو بھی نہیں کرسکتا بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تَصَرُّفات کو نافِذ کرنا چاہے نہیں کرسکتا۔ اس کا باپ یا قاضی ان تصرّفات کو کرنا چاہیں تو یہ بھی نہیں کرسکتے۔ بعض وجہ سے نافع (نفع مند ) بعض وجہ سے ضار (نقصان دہ) جیسے بیع، اِجارہ، نکاح یہ اذنِ ولی (ولی کی اجازت) پر موقوف ہیں۔ نابالغ سے مراد وہ ہے جو خرید و فروخت کا مطلب سمجھتا ہو جس کا بیان اوپر گزر چکا اور جو اتنا بھی نہ سمجھتا ہو اوس کے تَصَرُّفات ناقابلِ اعتبار ہیں۔“(بہارِ شریعت، 3/204، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:تقدیر کی تین قسمیں ہیں:

(1) ”مُبْرَمِ حقیقی“جو کسی دعا یا عمل سے نہیں بدل سکتی۔ (2) ”تقدیر ِمُعَلَّق مشابہ مُبْرَمصُحُفِ ملائکہ میں بھی نہیں لکھا ہوتا ہے یہ کس دعایا عمل سے بدلے گی البتہ خَوَاص اَکَابِر کی اس تک رسائی ہوتی ہے ۔اسی کے متعلق حدیث پاک میں ہے:اِنَّ الدُّعَا یَرُدُّ الْقَضَاءَ بَعْدَ مَا اَبْرَمَیعنی دعا قضائے مُبْرَم (معلق مشابہ مبرم)کو ٹال دیتی ہے۔ (کنز العمال،1/28،جزء ثانی،بالفاظِ متقاربۃ) (3)”تقدیرِ مُعَلَّق مَحْض“یہ قسم صحف ملائکہ میں لکھی ہوتی ہے کہ کس دعا یا عمل سے یہ تقدیر بدل سکتی ہے اس تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے اِن کی دعا سے اِن کی ہمت سے ٹل جاتی ہے۔ (بہار شریعت، 1/12،حصہ1، مکتبۃ المدینہ ۔المعمتد المستند، ص54)

سُنَنِ ابنِ ماجہ میں ہے۔”عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ اِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدْرَ اِلَّا الدُّعَاءُحضرت ثوبانرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی اور دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو رد نہیں کرتی۔(سنن ابن ماجہ،1/69،حدیث:90)

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:”یعنی دعا کی برکت سے آتی بلا ٹل جاتی ہے دعائے درویشاں رَدِّ بلا۔ قضاء سے مراد تقدیرِ مُعَلَّق ہے یا مُعَلَّق مُشَابَہ بِا لمُبْرَم کہ ان دونوں میں تبدیلی تَرْمِیْمِی ہوتی رہتی ہے تقدیرِ مُبْرَم کسی طرح نہیں ٹلتی۔“(مراٰۃ المناجیح، 3/295)

اِس مسئلہ کی مزید معلومات کے لئے رَئِیْسُ المُتَکَلِّمِیْن مفتی محمد نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاباَحْسَنُ الوِعَا لِآدَابِ الدُّعَاءِبنام ”فضائل ِدعا“ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، صفحہ243تا 248 کا مطالعہ فرمائیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


ہاتھی والوں  کے ساتھ کیا ہوا ؟

تقریباً 1500 سال پہلے مُلکِ یَمَن اور حَبْشہ پر ’’اَبْرَہَہ‘‘ نامی شخص کی بادشاہَت تھی، وہ دیکھا کرتا تھا کہ لوگ حج کے لئے مکّہ شریف جاتے اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، اُس نے سوچا: کیوں نہ میں یَمَن کے شہر صَنْعاء میں ایک عِبادت خانہ بنواؤں، تاکہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائےاس کا طواف کرنے آئیں، چُنانچہ اُس نے ایک عِبادت خانہ بنوادیا۔ ملکِ عَرَب کے لوگوں کو یہ بات بَہُت بُری لگی اور قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے اُس عِبادت خانے میں نجاست کر دی۔ کعبہ شریف کو گرانے کی کوشش اَبْرَہَہ کو جب معلوم ہُوا تو اُس نے غُصّے میں آکر خانہ کعبہ کو گرانے کی قسم کھالی، چُنانچہ اِس ارادے سے وہ لشکر لے کر مکّہ شریف کی طرف رَوانہ ہوگیا، لشکر میں بَہُت سارے ہاتھی تھےاور اُن کا سردار ایک ’’مَحْمود‘‘ نامی ہاتھی تھا جس کا جسم بڑا مضبوط تھا۔ اِنہی ہاتھیوں کی وجہ سے اُس لشکر کو قراٰنِ کریم میں اَصْحٰبُ الْفِیْل یعنی ’’ہاتھی والے‘‘ فرمایا گیا ہے۔ جانوروں پر قبضہ اَبْرَہَہ نے مکّہ شریف کے قریب پہنچتے ہی ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا اور مکّہ والوں کے جانوروں پر قبضہ کر لیا جن میں مَدَنی آقا، محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے دادا جان حضرتِ سیّدُنا عبدُ الْمُطَّلِب رضی اللہ تعالی عنہ کے 200 اونٹ بھی شامل تھے۔ پہاڑوں میں پناہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اَبْرَہَہ کے ناپاک اِرادے دیکھ کر مکّہ والوں کو پہاڑوں میں پناہ لینے کا حکم دیا اور اللہ پاک سے خانۂ کعبہ کی حِفاظت کی دُعا کرنے کے بعد خود بھی ایک پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ اَبابیلوں کی فوج صُبْح ہوئی تو اَبْرَہَہ نے حملہ کرنے کے لئے لشکر کو روانگی کاحکم دیا، جب مَحْمود نامی ہاتھی کو اٹھایا گیا تو لشکر والے جس طرف بھی اُس کا رخ کرتے چلنے لگتا مگر خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا، ابھی یہ مُعامَلہ چل ہی رہا تھا کہ اچانک ’’اَبابیل‘‘نامی پرندوں کی فوج سَمُندر کی طرف سے اُڑتی ہوئی لشکر کے سَر پر پہنچ گئی، ہر اَبابیل کے پاس تین سنگریزے (چھوٹے پتّھر) تھے، دو پنجوں میں اور ایک منہ میں، جبکہ ہر سنگریزے پر مرنے والے کا نام بھی لکھا ہُوا تھا، ابابیلوں نے سنگریزے لشکر پر برسانا شروع کردئیے، سنگریزہ جس ہاتھی سُوار پر گِرتا اُس کی لوہے والی جنگی ٹوپی توڑ کر سَر میں گھستا اور جسم کو چیرتا ہوا ہاتھی تک پہنچتا اور ہاتھی کے جسم میں سوراخ کرتا ہوا زمین پر گِر جاتا، یوں پورا لشکر ہلاک ہوگیا اور ایسے ڈھیر ہوگیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ ہوتا ہے۔جس سال یہ عذاب نازل ہوا بعد میں اسی سال رَحْمت والے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی وِلادت ہوئی۔(ماخوذ از صراط الجنان، 10/827۔ عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص224)