خدارا ! ہوش کیجئے

14مارچ2018ءکوکراچی میں محمد علی جناح روڈ پر اسپتال کے قریب سے نَوزَائیدہ بچوں (New Born Babies)کی 3 لاشیں ملیں۔ پولیس واقعے میں مُلَوَّث کسی شخص یا اِدارے کا تعیُّن نہ کر سکی۔ ریسکیو اِداروں کے اَعداد و شمار کے مطابق2017ء میں ملک بھر سے 755 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملیں 310 کراچی کی کچرا کونڈیوں اور گٹروں سے بَرآمد ہوئیں۔ رَواں سال جنوری 2018 میں 15، فَروری میں 22 اور مارچ کے 14دِنوں میں 12 نوزائیدہ بچے بے رَحْمی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔(دنیا نیوز آن لائن)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس طرح کى خبرىں نئى نہىں ہىں، ماضى میں بھی ایسی خبروں کا سلسلہ رہا ہے، لہٰذا ایسی خبروں کے بنىادى اَسباب (Basic Reasons) پر غور کرنے کى سخت حاجت ہے۔ ان کے بنیادی اَسباب میں سے اىک سبب بےشرمى اور بےحىائى کا فروغ پانا ہے جس مىں پرنٹ میڈیا اور الىکٹرونک مىڈىا کا کردار کسى سے ڈھکا چھپا نہىں۔ مغرِبى دُنىا کے ساتھ ساتھ وہ مَمالِک جہاں مسلمانوں کى اَکثرىت ہے بلکہ وہ ملک جو اِسلام کے نام پر آزاد ہوا اگر وہاں بھى کنوارى لڑکیوں کے ماں بننے کى تعداد مىں اِضافہ ہوتا رہے، نوزائىدہ بچے اسپتالوں مىں چھوڑ دئیے جائیں اور وىلفىئر فاؤنڈیشن والے اپنے اِداروں کے باہر جُھولے لگائىں کہ بچوں کو مارنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈال دیں،تو اب باقی رہ کىا گىا ہے! یاد رکھئے! اس بُرائی کى روک تھام کے لئے وقتی طور پر گفتگو کر لینا کافى نہىں بلکہ قراٰنِ کرىم اور اَحادیثِ مُبارَکہ کے اِرشادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہو گا۔ قراٰن پاک میں بدکاری سے روکا گیا ہے اور اسے بےحیائی اور بہت بری راہ قراردیا گیا ہے۔

دَرسِ قُرآن گر ہم نے نہ بھلاىا ہوتا

ىہ زمانہ نہ زمانے نے دِکھاىا ہوتا

بَدکاری سے بچنے کے لئے اىسے مَضامىن، مَناظر اور تصاوىر جن سے بَدکارى کی خواہش کو تحرىک ملتى ہو سے بچنے کے ساتھ ساتھ بالخصوص اَجنبی عورَتوں کے ساتھ تنہائی اِختیار کرنے سے بچنا بھی ضَروری ہے۔ فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: خبردار ! کوئی شخص جب کسی (اجنبی) عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172) مِراٰۃ المناجیح میں ہے:جب کوئی شخص اَجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے خواہ وہ دونوں کیسے ہی پاکباز ہوں اور کسی (نیک) مَقْصَد کے لئے (ہی) جمع ہوئے ہوں (مگر)شیطان دونوں کو برائی پر ضَرور اُبھارتا ہے اور دونوں کے دِلوں میں ضَرور ہیجان پیدا کرتا ہے، خطرہ ہے کہ زِنا (بدکاری) واقع کرا دے! اس لئے ایسی خَلْوَت (یعنی تنہائی میں جمع ہونے) سے بَہُت ہی اِحتیاط چاہئے،گناہ کے اَسباب سے بھی بچنا لازم ہے، بخار روکنے کیلئے نزلہ و زکام( کو) روکو۔ (مِراٰۃُ المناجیح،5/21) بَدکاری سے بچنے کے لئے اس کے ہولناک عذاب کا علم ہونا بھی ضَروری ہے۔فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: تم ضرور اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے چہرے سیدھے رکھو گے یا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری شکلیں بگاڑ دے گا۔(معجمِ کبیر، 8/208، حدیث: 7840)منقول ہے کہ جہنّم میں آگ کے تابوت میں کچھ لوگ قید ہوں گے کہ جب وہ راحت مانگیں گے تو ان کے لئے تابوت کھول دیئے جائیں گے اور جب انکے شعلے جہنمیوں تک پہنچیں گے تو وہ بیک زبان فریاد کرتے ہوئے کہیں گے: یااللہ! ان تابوت والوں پر لعنت فرما ۔یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی شرمگاہوں پر حَرام طریقے سے قبضہ کرتے تھے۔(بحر الدموع، ص:167)

مىرى تمام ماں باپ سے یہ فرىاد ہے کہ وہ اپنے شادى بىاہ، خوشى غمى،تعلىمى اِداروں اور اپنے گھر بار کے معاملات پر غور کرىں اور اِسلام کے وہ بنىادى اُصول اور قوانین جن کا تعلق چادر اور چار دِىوارى، پَردے ، شرم و حىا اور نگاہیں نىچى رکھنے سے ہے ان پر عمل کو یقینی بنائیں،اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس برائی میں نمایاں کمی آئے گی ۔ اس حوالے سے شیخ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ”پردے کے بارے میں سوال جواب“ پڑھنا بے حد مفید ہے۔ 


غریبوں کی مدد کیجئے

اللہ پاک نے اپنی کامل قدرت اور حکمت سے اس کائنات کو پیدا فرما کر انسانوں کو اس میں بَسایا ۔ پھر انسانوں میں سےکسی کو مالدار تو کسی کو غریب ونادار، کسی کو طاقتور تو کسی کو کمزور بنایا ہے۔ یہ اللہپاک کی تقسیم ہے اس پر ہر ایک کو راضی رہنا چاہیے۔ مگر بَدقسمتی سے مالداروں کی ایک تعداد ہے جو اپنے مال کو اللہپاک کی رضا کے لئے غریبوں اور مسکینوں میں خرچ کرنے کے بجائے اسے اپنے فن اور طاقت کا کمال سمجھ کر روکے بیٹھی ہے اور دوسری طرف غریب ونادار لوگوں کی بھی ایک تعداد ہے جو اپنی غربت وناداری پر صبر کرنے کے بجائے شِکوہ وشکایت کرتی نظر آتی ہے۔ اسی غربت کے سبب ملک و بیرونِ ملک میں خودکشى کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ والدین اپنی گود میں پلنے والی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کر کے خود بھی خود کشی کر رہے ہیں۔

یاد رکھئے!خودکشى گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم مىں لے جانے والا کام ہے۔ خود کُشی کرنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جان چُھوٹ جائے گی حالانکہ اس سے جان چھوٹتی نہیں بلکہ نہایت بُری طرح پھنس جاتی ہے جیسا کہ مکی مَدنی سلطان، رحمتِ عالمیان، رسولِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جوشَخص جس چیز کے ساتھ خود کُشی کرے گا وہ جہنَّم کی آگ میں اُسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری،  4/289، حدیث:6652)

خودکشی کا ایک سبب خودکشى کے کئى اَسباب ہىں،جن میں سے ایک سبب تنگدستى اور فقرو فاقہ ہے۔ امیرِ اہلِ سنَّت، حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مَدَنی مذاکرے میں خودکشی کی روک تھام کے لئے ایک مَدَنى پھول عطا فرماىا ہے: ”مخىر حضرات جنہىں اللہ پاک نے مال دىا ہے وہ اپنى آمدنى سے ان غرىب لوگوں کى مدد کرىں۔“میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عموماً ہر خاندان مىں اس طرح کے کئی اَفراد ہوتے ہىں جنہیں اللہ پاک نے مال و اَسباب عطا کىے ہوتے ہىں، اگر وہ اس مَدَنی پھول پر عمل کرتے ہوئے اپنے خاندان کے غرىب لوگوں کى ماہانہ مدد کرىں یا ان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرىں تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خودکشی کے ذَریعے حرام موت مرنے کے واقعات کی کچھ روک تھام ہو جائے گی۔صدقے کی فضیلت فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:بے شک صدقہ کرنے والوں کو صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا ہے، اور بلاشبہ مسلمان قيامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے ميں ہوگا۔(شُعَبُ الايمان، 3/212، حديث:3347) دُگنا ثواب رشتہ داروں کی مالی مدد کرنےمیں نفلی صدقے کے ساتھ ساتھ صِلۂ رحمی کا ثواب بھی ملتا ہے، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:عام مسکین پر صدقہ کرنا ايک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے قَرابت دار(قریبی رشتہ دار)پر دو صدقے ہيں ايک صدقہ دوسرا صِلہ رحمی۔(ترمذی، 2/142،حديث:658)اسی طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں کى تعداد مىں اىسے گھرانے بھی ہیں جو اپنے زائد اَخراجات کو کم (Reduce) کر کے ماہانہ آٹھ دس ہزار یا جتنا بھی ممکن ہو سکے کسى غرىب گھرانے کو دے کر ان کی مدد کر سکتے ہىں۔ اپنے زائد اَخراجات پر کنٹرول کر کے یہ رقم بچانا ان لوگوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن غریبوں کا بہت بھلا ہو جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کئى لوگ جو خودکشى کا سوچ رہے ہوں تو اللہ پاک کی رَحْمت سے آپ انہیں بچانے مىں کامىاب ہوجائىں۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے : جس نے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی وہ ایسا ہے جیسے اُس نے ساری عُمْر اللہ تعالیٰ کی عِبادت کی ۔ (کنزالعمال،6/189، رقم:16453)

مىرى تمام عاشقانِ رسول اور دَرد مند مسلمانوں سے فرىاد ہے کہ آپ اپنى ماہانہ آمدنى مىں سے کسى غرىب کے گھر کا کچھ نہ کچھ خرچ اپنے ذِمے لىں، ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس تعاون کی وجہ سے غربت کی لپیٹ میں آکر مرجھانے والی کلیاں دوبارہ کِھل اُٹھیں۔


اپنے پچوں کی حفاظت کیجئے

(4جنوری2018ء)قصور (پنجاب) کی رہائشی سات سالہ مَدَنی مُنّی زینب غائِب ہوگئی اور پھر چند دن بعد کوڑے کے ڈھیر سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ میڈیکل ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اللہ پاک مَدَنی مُنّی کو اپنی رَحمت کے سائے میں جگہ عطا فرمائے اور اس کے گھر والوں کو صبر کی دولت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ دِلخراش واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بَدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک پاکستان میں بالخصوص بچّوں اور بچّیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دینے کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یقیناً یہ واقعات قابلِ مذمت اور ان میں ملوّث لوگ سخت سزا کے حقدار ہیں۔ مگر یاد رکھئے! بُرائی کے ذَرائع اور اَسباب کا خاتمہ کئے بغیر صرف وقتی طور پر اس کی مذمت، افسوس اور تبصرہ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے پسینے سے بَدبو آتی ہو تو وہ اس کا علاج کرنے کے بجائے پرفیوم (Perfume) یا باڈی اسپرے (Body Spray) کے ذَریعے اس بَدبو کو دَبانے کی کوشش کرے۔ بُرائی کو پتوں اور شاخوں سے کاٹنے کے بجائے جڑ سے ختم کرنا ضَروری ہے۔ زیادتی کرنے والا بھی ایک انسان تھا، اسی معاشرے کا ایک فرد تھا، آخر اس نے ایسا گھناؤنا کام کیوں کیا؟ ہمیں دونوں ہی اعتبار سے سوچنا چاہئے کہ نہ ہمارے بچے اس فعلِ بد کا شکار ہوں اور نہ ہی معاشرے کا کوئی فرد اس بُرے کام کا ارتکاب کرے۔

ان واقعات کے بڑھنے کی ایک وجہ آج کل اولاد کی جلد شادی نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے ایسے اَفراد اپنی خواہشات کی تسکین کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسری وجہ میڈیا کے ذَریعے فحاشی و عُریانی کا بازار گرم کر کے یا بذریعہ موبائل یا کیبل انٹرنیٹ کی دنیا میں گندی و بے ہودہ ویب سائٹس تک رسائی کو آسان سے آسان بنا کر عوام تک پہنچانا ہے جس سے جنسی خواہشات کو مزید بھڑکایا جا رہا ہوتا ہے۔ میری تمام والدین سے یہ فریاد ہے کہ بالغ ہوتے ہی جلد از جلد اپنی اولاد کی شادی کروا دیں اور انہیں فلموں ڈراموں اور انٹرنیٹ کے غَلَط اِستعمال سے بچانے کی کوشش کریں۔چھوٹے بچوں کی تربیت یوں کی جاسکتی ہے اگر کوئی ان سے گندی بات کرے یا کوئی اجنبی شخص مسکرا کر اُنگلی پکڑائے، چیز دِکھائے، ڈرائے یا دَھمکائے یا ساتھ چلنے کا کہے تو اسے منع کردیں اور اس سے دُور بھاگیں اور اپنے والدین کو اس بات سے ضَرور آگاہ کریں اگر والدین قریب نہ ہوں تو شور مچاکر دوسرے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں۔

شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارى والدہ نے ہمارا ىہ ذہن بناىا تھا اور میں نے بھی اپنی اولاد کو یہ بات سکھائی تھی کہ ”بىٹا! کوئى تمہىں سونے (Gold) کا ڈھىر بھى دِکھائے تو اس کے ساتھ نہىں جانا اور نہ کسی سے کوئی چیز لے کر کھانا۔“ اِسی طرح میں نے اپنے بچّوں کو گلی محلے میں کھیلنے اور دوستیاں کرنے کی بھی اِجازت نہیں دی، ہمارے بچّے جو کرتے تھے گھر میں ہی کرتے تھے۔

میری تمام والدین سے یہ فریاد ہے کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے حوالے سے اپنا کِردار ادا کریں۔ شریعت و سنَّت کے مُطابق تربیت کریں تاکہ ان کے دِل میں خوفِ خُدا، عشقِ مصطفےٰ اور شرم و حیا پیدا ہو۔ بُری صحبت سے بچا کر نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے کا عادی بنائیں، گھر میں ٹی وی ہے تو اس پر صرف اور صرف مَدَنی چینل چلائیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بدنصیب اور خوش نصیب

ایکعربی شخص کا بیان ہے کہ میں اپنی بستی سے اس اِرادے سے چلا کہ معلوم کروں کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت اور نیک بخت کون ہے؟میرا گزر ایک ایسے بوڑھے شخص کے پاس سے ہوا ،جس کی گردن میں رسی بندھی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک بڑا ڈول بھی لٹک رہا تھا۔ ایک نوجوان اس بوڑھے کو چابک سے مار رہا تھا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا:اس بوڑھے اور کمزور شخص کے بارےمیں تجھے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں؟ اس کی گردن میں پہلے ہی ایک رسی اور ڈول لٹک رہا ہے جس سے یہ پریشان ہے،اس کے باوجود تو اسے چابک سے بھی مار رہا ہے!نوجوان نے کہا:مزید بھی جان لو کہ یہ میرا باپ بھی ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ تجھے کوئی بھلائی نہ دے!(کیا کوئی اپنے باپ کے ساتھ بھی اس طرح کا ظالمانہ سلوک کرتا ہے؟) نوجوان بولا:”خاموش رہو! تمہیں کیا معلوم! یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتا تھا اور اس کا باپ بھی اپنے باپ (یعنی اس کے دادا) کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا کرتا تھا۔“میں نے یہ منظر دیکھنے کے بعد کہا:بس! یہی بوڑھا شخص سب سے زیادہ”بدبخت“ ہے۔پھر میں آگے چل دیا یہاں تک کہ ایک نوجوان کے پاس پہنچاجس کی گردن میں ایک زَنبیل(یعنی کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک ٹوکری) تھی اور اس میں چوزے کی طرح کمزور ایک بوڑھا شخص تھا۔وہ نوجوان ہر وقت اسے ساتھ رکھتا تھا اور چوزے کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ میں نے کہا: یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا: یہ میرا باپ ہے جو اپنی عقل کھو بیٹھا ہے، میں اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا ہوں۔میں نے کہا یہی نوجوان لوگوں میں سب سے زیادہ ”نیک بخت“ ہے۔(المحاسن والمساوی ،2/193)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حِکایت سے معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والا لوگوں میں سب سے زیادہ ”نیک بخت“ہے اور بُرا سلوک کرنے والا سب سے بڑا ”بدبخت“ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت میں بربادی ہی بربادی ہے۔ والد کی اِطاعت، رضا اور عظمت و شان پر مشتمل تین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحظہ کیجئے:(1)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اِطاعت والد کی اِطاعت کرنے میں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، 1/614،حدیث:2255) (2)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی،3/360،حدیث:1907) (3)والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا حفاظت کرے۔ (ترمذی، 3/359، حدیث:1906) ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی اِطاعت کرتے ہوئے ،ان کا سونپا ہوا ہر جائز کام فوراً بجا لانا چاہئے۔ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت نہ کی جائے کہ حدیثِ پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت نہیں۔(مسلم، ص789،حدیث: 4765) اگر کسی کے والد نے اپنے والد کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے تو اس کی اولاد کو یہ اِجازت نہیں کہ وہ بھی اپنے والد کے ساتھ بدسلوکی ہی کرے۔ یاد رکھئے!”سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔“(مستدرک حاکم،5/216، حدیث: 7345) اس پُرفتن دور میں بھی جہاں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے موجود ہیں وہاں بدسلوکی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میں جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر جب مسجدسے باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور ایک نوجوان بوڑھے شخص کو مار رہا ہے اور وہ بوڑھا اس نوجوان کا والد تھا۔ اِنکشاف ہوا کہ مال و جائیداد وغیرہ میں حصہ نہ ملنے پر اس نالائق بیٹے نے مار مار کر اپنے بوڑھے باپ کو لہولہان کر دیا۔ اپنی عمر بھر کی خوشیوں اور خواہشات کو بچوں کی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قربان کر کے جینے والا”باپ“جب بڑھاپے میں اپنے بچوں کی شفقت اور حُسنِ سلوک کا طلبگار ہوتا ہے تو اسے جواب میں بے رُخی،طعنے اور پھر Old House کا تحفہ ملتا ہے۔ جن کے والد حیات ہیں، ان سے میری یہ فریاد ہےکہ وہ خُوش دِلی کے ساتھ اپنے والدکی خِدمت کریں اور ان کا ادب و احترام کر کے جنّت کے حقدار بنیں۔

18اگست2017ء(بروزجمعہ)گوجرانوالہ(پنجاب،پاکستان) کا رہائشی 19 سالہ نوجوان اپنے پانچ دوستوں کے ہمراہ ایبٹ آباد، کوہالہ کے مقام پر سیر و تفریح کے لئے گیا۔ دوستوں نے ہنسی مذاق میں شرط لگائی کہ اگر وہ دریائے نیلم کو تیر کر پار کرے گاتو وہ اسے 15000 روپے اور ایک موبائل دیں گے۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نوجوان نے دَریائے نیلم میں چھلانگ لگا دی مگر درمیان میں جا کر بپھری ہوئی موجوں کے سامنے ہار گیا اور دریا کی لہروں میں گم ہوگیا، اس کے دوست بھی اسے ڈوبنے سے نہ بچا سکے نہ اس کی لاش ملی۔ والدین اور رِشتہ داروں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، پانچ دن بعد بےچارے نوجوان کی لاش ”پٹن“ کے قریب دریا سے ملی۔ شرط لگانے والے دوستوں کو پولیس نے گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا۔(مختلف اخبارات سے ماخوذ) اللہ عَزَّوَجَلَّ اس نوجوان کی مغفرت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت ”اولاد“ ہے، اِس نعمت کی قدر کیجئے،اولاد کے دُنیوی مستقبل کی بہتری کے لئے والدین کوشش کرتے ہی ہیں مزہ تو جب ہے کہ اس کے اُخْرَوی مستقبل کی بھی فکر کی جائے، یہی عقل مندی ہے۔ قراٰن و سنَّت کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کیجئے، اسے اللہ و رسول کا فرمانبردار بنائیے۔ اچّھی تربیّت کے لئے علمِ دِین سکھائيےاور اپنے بچّوں پر نظر رکھئے کہ آپ کے بچے کیسے دوستوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں؟ کہاں آتے جاتے ہیں؟ان کی پسند ناپسند کیا ہے؟ اچّھے بُرے کاموں کی کتنی پہچان رکھتے ہیں؟یاد رکھئے! صحبت کا اِنسانی زندگی پر بڑا اَثر ہوتا ہے، صحبت اچھی ہو یا بُری ضَرور رنگ لاتی ہے، فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:آدمی اپنے دوست کے دِین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے۔ (ترمذی ،4/167، حدیث:2385) یعنی کسی سے دوستانہ کرنے سے پہلے اُسے جانچ لو کہ اللہ و رسول (عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا مُطیع (یعنی فرماں بردار) ہے یا نہیں؟ رب تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ "e›6ŸuÞ"“( پ11، التوبۃ: 119) ترجمۂ کنز الایمان :”اور سچوں کے ساتھ ہو۔“صُوفیا فرماتے ہیں کہ اِنسانی طبیعت میں اَخْذ یعنی لے لینے کی خاصیَّت ہے۔حَریص کی صحبت سے حرص، زاہد کی صحبت سے زُہد و تقویٰ ملے گا۔

( مراٰۃ المناجیح ، 6/599)

اچھی صحبت اپنانا اور بُری صحبت سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچانا ضَروری ہے۔ مولانا رومعلیہ رحمۃ اللّٰہ القَیُّومفرماتے ہیں: بُرے ساتھی سے بُرا سانپ بہتر ہے کہ بُرا سانپ جان لیتا ہے جبکہ بُرا ساتھی دوزخ کی طرف لے جاتا ہے، دُنیا میں بُرے ساتھی سے بدتر کوئی چیز نہیں یہ میری آنکھوں دیکھی بات ہے۔(مثنوی شریف،5/269 ملتقطا) اپنے بچّوں پر نظر رکھنا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ علمِ دِین سے دُوری، ناسمجھی اور کچی عمر کی وجہ سے بسااوقات بچے ایسے اَنوکھے کام کر بیٹھتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا دَردناک سانحہ پیش آیا۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فَریاد ہے کہ وہ ”اپنے بچّوں پر نظر رکھیں“ کہ کل کلاں ان کے ساتھ کوئی سانحہ پیش نہ آئے۔ اللہعَزَّوَجَلَّہمیں عافیت وراحت عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


29رَمَضانُ المبارَک1438ھ مطابق 25 جون 2017ء احمد پور شرقیہ، ضلع بہاولپور (پنجاب، پاکستان) کے قریب ہزاروں لیٹر پیٹرول سے بَھرا ٹینکر اُلَٹ گیا۔ عام طور پر حادِثے کی جگہ پر لوگ جمع ہو ہی جاتے ہیں، یہاں بھی دیکھتے ہی دیکھتے جائے وُقُوعہ پر سینکڑوں اَفراد جمع ہوگئے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مختلف بَرتنوں، بوتَلوں اور گیلنوں میں پیٹرول جمع کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ٹینکر خوفناک دھماکے کے ساتھ پَھٹ گیا اور وہاں خوفناک آگ بَھڑَک اُٹھی۔ حادِثے کی جگہ قیامتِ صُغریٰ کا منظر پیش کرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے 150 سے زائد اَفراد آگ کی نَذْر ہوگئے جبکہ تادمِ تحریر 200 سے زائد اَفراد اس ہولناک حادِثے کے باعث فوت ہوچُکے ہیں اور مُتَعَدَّد اب تک زیرِ علاج ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس حادِثے میں فوت ہوجانے والے مسلمانوں کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحت یابی عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اس دَردناک حادِثے سے عَلاقے کی فَضا سوگوار ہوگئی، جہاں کچھ دیر پہلے زندگی کی بہار تھی وہاں موت نے سَنَّاٹا طاری کردیا، خاندان کے خاندان اُجڑ گئے۔ دل دہلا دینے والے اس حادِثے سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے بعض لوگوں نے وفات پانے والے مسلمانوں کے بارے میں میڈیا، سوشل میڈیا اور نِجی مَحفلوں میں اس طرح کے تَبصرے شروع کر دئیے:”مُفت کا پیڑول مہنگا پَڑگیا“، ”لالَچ بُری بَلا ہے“، ”دو لیٹر کے لئے جان گنوا دی“، ”چور ڈاکو جَل مرے“ وغیرہ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فوت شُدہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کایہ رَوَیَّہ دیکھ، سُن کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر سے خیر خواہی، احساس، ہمدردی اور انسانیّت ختم ہوچکی ہے۔ ذرا غور تو کیجئے! ہمارے رشتہ داروں میں سے اگر کوئی اس سانحے کا شکار ہوجاتا اور ہمیں اسی طرح کی باتیں سُننے کو ملتیں تو ہمارے دل پر کیا گزرتی؟ ایسے معاملے میں ہمارے پیارے نبی، مَکّی مَدَنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ابوجہل کے فرزند حضرت سیِّدُنا عِکرمہ رضی اللہ عنہ ايمان لائے تو نبیِّ كریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو حکم ديا کہ اِن کے سامنے کوئی بھی ان کے باپ ابوجہل کو بُرا نہ کہے۔(مدارج النبوۃ،2/298)

پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص حتمی اور یقینی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ حادِثے میں فوت ہونے والا ہر شخص ”مالِ مُفت دلِ بے رحم“ کے تحت تیل جمع کرنے میں مصروف تھا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ بعض لوگ ٹریفک کی روانی متأثر ہونے کے باعث پھنس گئے ہوں، ہو سکتا ہے کچھ سمجھدار لوگ وہاں موجود دیگر لوگوں کو منع کررہے ہوں یا کچھ لوگ وہاں پہلے ہی سے کسی ضَروری کام کے لئے موجود ہوں، اپنے اَحباب کی خبر گیری کے لئے آئے ہوں اچانک اس حادِثے کا شکار ہو گئے، کوئی بَعِید نہیں ایک تعداد صرف دیکھنے کے لئے وہاں پہنچی ہو اور آگ کی لپیٹ میں آگئی ہو۔ اتنے سارے احتمالات کے ہوتے ہوئے تمام فوت ہونے والوں کو چور ڈاکو کیونکر قَرار دیا جاسکتا ہے؟ تو پھر کیوں نہ مرنے والے کے لئے حسنِ ظن قائم کرکے ثواب کما لیا جائے! اور ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں اور دوست اَحباب کی دل آزاری سے بھی بچا جائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! دعوتِ اسلامی سے وابستہ اسلامی بھائیوں نے اپنا مثبت (Positive) کِردار ادا کیا، جنازے پڑھے، فوت ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیتیں کیں، شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے بھی صَوتی پیغام(Audio Message) کے ذریعے تعزیَت کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض! اگر کچھ لوگ اپنے ذاتی استعمال کے لئے پیٹرول بھرنے میں مَصروف بھی تھے تو ہمیں ان کے عُیُوب بیان کرنے سے گُریز کرنا چاہئے۔ یاد رکھئے! فوت شُدہ لوگوں کی بُرائی کرنا بھی غیبت ہے۔ مَرنے والے مسلمان کو بُرائی سے یاد کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مُردوں کو بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری، 4/251، حدیث:6516) حضرت علّامہ عبدالرّءُوف مُناوِی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:مُردے کی غیبت زندہ کی غیبت سے بَدتَر ہے، کیونکہ زندہ سے مُعاف کروانا ممکن ہے جبکہ مُردہ سے مُعاف کروانا ممکن نہیں۔(فیض القدیر، 1/562، تحت الحدیث:852)

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ دنیا سے چلے جانے والوں کی بُرائیاں بیان کرنے سے گُریز کیجئے، اپنے اندر خوفِ خدا، فکرِ آخرت، ہمدردی اور دوسرے مسلمانوں کی خیرخواہی پیدا کریں اور جب کوئی حادِثہ ہو تو غور کرلیجئے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اپنی آخرت کی فِکر کرنے والوں کے لئے ایسے واقعات عبرت و نصیحت اور عبادت میں اِضافے کا سبب بنتے ہیں مگر افسوس! ہم دنیا کی رنگینی میں اس قدر ڈوبتے چلے جا رہے ہیں کہ ایسے عبرت ناک اور جان لیوا حادِثات کو بُھلا کر پھر کسی بڑے نقصان کا سامان کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ 9 جولائی 2017ء کو ضلع وہاڑی (پنجاب، پاکستان) میں ایک آئل ٹینکر اُلٹا تو وہاں بھی لوگ اسی انداز میں جمع ہوگئے جس طرح احمدپور شرقیہ والے حادِثے کے موقع پر جمع ہوگئے تھے، مگر قانون نافِذ کرنے والے اِداروں نے لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا، ربّ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہوا کہ آگ نہیں بھڑکی اور یہ حادِثہ سانِحہ نہیں بنا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب بھی اس طرح کا حادِثہ ہو تو ان باتوں کا خیال رکھئے:(1)قریب جانے سے پہلے خوب غور کرلیا جائے کہ کہیں بے احتیاطی کسی بڑے حادِثے کا شکار نہ بنادے۔ (2)خطرے کی صورت میں خود بھی دور رہئے اور دوسروں کو بھی دور رہنے کی تاکید کیجئے۔ (3)بَروَقت مُتَعَلِّقَہ اِدارے مثلاً ریسکیو، فائربریگیڈ، ایمبولینس سروس اور پولیس وغیرہ کو اطلاع کیجئے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔ (4)نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر جائے حادثہ پر بکھرے ہوئے سامان(موبائل، زیورات، پرس، نقدی وغیرہ) لوٹنے سے باز رہئے۔ (5) جس سے جتنا بَن پڑے حادثے کا شکار ہونے والوں کی مدد کرے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّہمارا حامی وناصر ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کے لئے یو۔کے اور یورپ کے دیگر ممالک کے سفر پر تھا۔ اس دوران کئی شہروں میں سنّتوں بھرے اجتماعات، مدنی مشوروں اور ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ یورپ کے مشہور مُلک فرانس کے دار الحکومت پیرس میں سنّتوں بھرے اِجتماع کے اِختتام پر اسلامی بھائیوں کے لئے خیر خواہی (یعنی کھانے) کا بھی اِہتمام تھا، شرکائے اِجتماع کے ساتھ مل کر کھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ میرے قریب بیٹھنے والوں میں تین یا چار اسلامی بھائی ایسے تھے جن کے آباء و اجداد عربی تھے اور دو تین سو سال پہلے یہاں منتقل ہوگئے تھے اس لئے ان اسلامی بھائیوں کو عربی زبان نہیں آتی تھی، ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم بھی عربی ہیں اور عربیوں کے بارے میں آپ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: اہلِ عَرَب سے تین وجہ سے مَحبَّت کرو: (1)میں عَرَبی ہوں (2)قراٰنِ مجید عَرَبی میں ہے (3)اہلِ جنَّت کا کلام عَرَبی میں ہو گا۔

(مستدرک، 5/117، حدیث:7081)

کھانے کے دوران اسلامی معلومات کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ رہا، اُنہوں نے بتایا کہ ہم قراٰنِ کریم دیکھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے۔ مجھے حیرت ہوئی اور کچھ لمحوں کے لئے سکتہ میں آگیا کہ یہ عَرَبِیُ النَّسْل ہو کر دیکھ کر بھی قراٰنِ پاک نہیں پڑھ سکتے! آہ! صد کروڑ آہ! جب قراٰنِ پاک پڑھنے کے بارے میں ان کی یہ حالت ہے تو دِیگر اسلامی معلومات کا کیا حال ہوگا؟ اس کے اَسباب پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ انہیں فرانس میں ایسا ماحول میسر نہیں تھا کہ وہ قراٰنِ پاک پڑھنا سیکھ سکتے۔ ہاتھوں ہاتھ اسلامی بھائیوں سے مشاورت ہوئی کہ ایسے اَفراد کو جمع کر کے قراٰنِ کریم کی تعلیم دی جائے۔

درسِ قراٰن اگر ہم نے نہ بُھلایا ہوتا


یہ زمانہ نہ زمانے نے دِکھایا ہوتا

افسوس! مسلمان اسلامی تعلیمات سے اِس قدر دُور ہوگئے ہیں کہ بعض کو دیکھ کر بھی دُرُست قراٰن پڑھنا نہیں آتا حالانکہ قراٰنِ کریم کی تلاوت کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔ تین اَحادیثِ مُبارکہ مُلاحظہ کیجئے: (1)جو شخص کتابُ اللہ کا ایک حرف پڑھے گا، اسے ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا L"ایک حرف ہے بلکہ اَلِف ایک حرف، لَام ایک حرف اور مِیْم ایک حرف ہے۔(ترمذی،4/417، حدیث: 2919) (2)قراٰنِ کریم کی تلاوت کیا کرو کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شَفاعت کرنے کے لئے آئے گا۔(مسلم، ص403، حدیث:804) (3)حدیثِ قدّسی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: جسے تلاوتِ قراٰن مجھ سے مانگنے اور سُوال کرنے سے مشغول (روک) رکھے، میں اسے شکر گزاروں کے ثواب سے اَفضل عطا فرماؤں گا۔(کنز العمال، 1/273، حدیث:2437)

اے عاشقانِ ماہِ رمضان! اس مقدس مہینے میں عاشقانِ قراٰن کثرت سے تلاوتِ قراٰن کرتے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرتے ہیں، ہم قراٰنِ کریم کی تلاوت سے اس قدر دُور کیوں ہیں؟ کاش! میری یہ فریاد عاشقانِ رسول کے دِلوں میں اُتر جائے اور وہ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ قراٰنِ کریم درست پڑھنا سیکھیں، اس کی تلاوت کریں اور اسے سمجھنے کی بھی کوشش کریں۔

اےکاش ہم بھی ایسے ہوجائیں

4 جُمادَی الاُخریٰ 1438ھ بروز پیر بعد نمازِ عشا ”مدنی چینل“ کے براہِ راست (Live) سلسلہ ”میرے ربّ کا کلام“ سے فارغ ہو کر سوئے مَطار (ائیر پورٹ) جانے کی تیاری تھی، آج رات مجھے ایسے مُلک کی طرف سفر کرنا تھا جہاں ایک ”اَہَم شخصیت“ کی صحبت بابرکت کا شرف حاصل ہونا تھا، میری نیت تھی کہ ان کے پاس حاضر ہو کر سَحری کرنے اور روزہ رکھنے کی سعادت حاصل کروں گا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ بابُ المدینہ (کراچی) سے بذریعہ جَہاز روانہ ہوا، دورانِ سفر ایک ایسے عاشقِ رسول سے ملاقات ہوئی جو عُمرے پر جا رہے تھے، یوں تو وہ مجھے پہچانتے تھے مگر ملاقات پہلی بار ہوئی تھی، انہوں نے بتایا کہ میں امیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی حج و عمرہ کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب ”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“ گھر سے لانا بھول گیا ہوں اور مجھے تو احرام باندھنا بھی نہیں آتا۔ اللہ کے فضل سے یہ کتاب میرے ٹیبلٹ (Tablet) میں موجود تھی، میں نے ”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“ کے وہ صفحات دکھائے جن کی انہیں ضرورت تھی، انہوں نے اپنے موبائل کے ذریعے ان صفحات کی تصاویر لے لیں۔ اس میں خاص لُطف کی بات یہ تھی کہ مجھے اپنے حج و عمرہ کے اَیَّام یاد آگئے۔ کیا پُر بہار دن تھے وہ!اسی گُفتگو وغیرہ کے دوران میرا مطلوبہ ملک آگیا، میں جَہاز سے اترا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جیسے ہی میں سَحری سے کچھ دیر قبل اس عظیم عِلمی و رُوحانی شخصیت کی بارگاہ میں پہنچا تو انھوں نے پُرتَپاک انداز میں خوش آمدید کہا، یہ ان کی ذَرَّہ نوازی تھی ورنہ مَنْ آنَمْ کہ مَنْ دَانَمْ (یعنی میں جانتا ہوں کہ میری اوقات کیا ہے)۔ میرا ان کے ساتھ جو کم و بیش ایک دن گزرا اس میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ تھا، یہ بات سمجھ میں آئی کہ عبادت، ریاضت اور نیکیاں کمانے کا مَدَنی ذہن ہو تو تنہائی یا ایک ہی رفیق کے ساتھ، سفر کی حالت میں بھی نیکیوں بھرے ایام گزارے جاسکتے ہیں۔

اُن کے معمولات کچھ یوں تھے:٭حتی الْاِمکان روزانہ روزہ رکھنے کے لئے سحری و افطاری کرنا اور بھوک سے کم کھانا ٭قِبلہ رو بیٹھنے کا اہتمام کرنا ٭بذریعہ فون عیادت، تعزیت اور دلجوئی جیسی بھلائیاں اور نیکیاں بجالانا ٭امراض پر صبر کرنا ٭اصلاحِ اُمّت کے جذبے کے تحت تحریری کام کرنا ٭خیر خواہیِ اُمّت کے لئے غور و خوض اور مدنی مشورے دینا ٭ اسلامی بھائیوں کے لئے لبوں پر مُسکراہٹ اور دل غمِ آخرت میں ڈوبا ہونا ٭انتہائی اَہَم بات زَبان سے کرنا ورنہ اشاروں کے ذریعے سمجھانا، یوں زَبان کا قفلِ مدینہ لگانا ٭پَنْجگَانہ نماز کے ساتھ ساتھ نوافل مثلاً نمازِ تَہَجُّد، اِشراق و چاشت اوراَوَّابِین کا اہتمام کرنا ٭نماز کامل اطمینان اورسُکون سے ادا کرنا ٭گھر میں بھی عمامہ شریف سجائے رکھنا ٭رابطہ کرنے والوں کو بَروَقت رِپلائی دینا ٭انٹرنیٹ کا صرف ضروری استعمال مثلاً ای میل (E Mail) وغیرہ کا جواب دینا اور نیکی کی دعوت پر مبنی مَدَنی گلدستے بھیجنا ٭گھر کی دیواروں اور دروازوں پر دعائیں اور ا َوراد و وَظائف لگانا تاکہ پڑھنے میں آسانی رہے ٭گھر سے نکلتے ہوئے اچھی اچھی نیتیں کرنا مثلاً دورانِ سفر آنکھوں کی حفاظت کروں گا، پریشان نظری سے بچوں گا وغیرہ ٭اس دوران انگلی میں ڈیجیٹل تسبیح رکھنا تاکہ زَبان ذِکر و دُرُود سے تَر رہے ٭ہر رات سُوْرَۂ یٰسٓ اور سُوْرَۃُ الْمُلْک پڑھنے کا اہتمام کرنا ٭ملنے والوں کے ساتھ انتہائی ملنساری اور دلجوئی کا برتاؤ کرنا۔ یہ تقریباً ڈبل 12 گھنٹوں کا آنکھوں دیکھا حال ہے، یہ عظیم عِلمی و رُوحانی شخصیت کوئی اور نہیں، میرے پیر و مرشد، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مبارک ذات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جس طرح یہ عبادت و ریاضت اور نیکی کی دعوت عام کرنے کے جذبے کے ساتھ شَب و روزگزار رہے ہیں، غیبت و بدگمانی اور دیگر جملہ بُرائیوں سے بچنے کی ترکیبیں فرما رہے ہیں، اے کاش! ہم بھی اپنی زندگی اسی طرح بَسر کریں، مگر افسوس کہ نفس و شیطان ہمیں گھیر گھار کر نیکیوں سے دُور کرتے ہوئے بُرائیوں اور گناہوں کے گھنے جنگل میں لے جاتے ہیں جہاں ہمیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا، اے کاش! ہم نفس و شیطان پر قابو پانے والے بن جائیں، نیکیوں پر اِستقامت اختیار کر لیں، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ کیا اس انداز سے ہمارا کوئی ایک دن بھی گزرا جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گناہوں کا نام و نشان نہ ہو؟ آہ! ہمارا کیا بنے گا؟



سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومُفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ حال ہی میں پریمئیم پرائز بانڈ (Premium Prize Bond ) کے نام سے ایک نیا بانڈ جاری کیا گیا ہے جس میں ششماہی بنیاد پر نفع بھی ملے گا اور ہر تین مہینے بعد بذریعہ قرعہ اندازی حاملانِ بانڈ (جن کے پاس پرائز بانڈ ہو ان) میں سے کچھ افراد کو مختلف انعامی رقم بھی دی جائے گی جس طرح کہ عام پرائز بانڈ میں دی جاتی ہے۔ البتہ پریمئیم پرائز بانڈ سے متعلق آفیشل ویب سائٹ:savings.gov.pk پر اس بانڈ سے متعلق جو اشتہار آویزاں ہے اس میں مزید کچھ باتوں کی صراحت ہے۔

(1)Issued in the name of investor with direct crediting facility of Prize money and Profit into Investor's Bank Account.

ترجمہ:یہ بانڈ انویسٹر کے نام پر جاری ہوگا اور نفع اور انعام ڈائریکٹ (Direct) اس کے بینک اکاؤنٹ میں ڈالا جائے گا۔

(2)No Risk of Loss/Theft/Burnt.

ترجمہ:اس بانڈ کے گم ہونے، چوری ہونے یا جل جانے پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یعنی انویسٹر کو نقصان نہ ہوگا بلکہ وہ اس کا متبادل حاصل کرسکے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس بانڈ کا خریدنا، بیچنا کیسا ہے؟ اور اس پر حاصل ہونے والاششماہی نفع (Six Monthly Profit) اور ہر 3مہینے بعد بذریعہ قرعہ اندازی جو انعامات نکلیں گے ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ جائز وحلال ہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پریمئیم پرائز بانڈ (Premium Prize Bond ) ایک سودی بانڈ ہے جو کہ محض ایک سودی اکاؤنٹ میں جمع کردہ قرض کی رسید ہے جس پر واضح طور پر دلیل آفیشل اشتہار (Official Advertisement) کے یہ الفاظ ہیں۔ اس بانڈ کے گم ہونے، چوری ہونے یا جل جانے پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یعنی اگر کسی کا یہ بانڈ چوری ہوجائے یا گم ہوجائے تو چور کے لئے یہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں کہ اس سے وہ نفع اٹھا سکے بلکہ اصل مالک جس کے نام پر یہ جاری ہوا ہے وہ اس رسید کا مُتَبَادل (Duplicate) حاصل کرسکتا ہے یہ صراحت ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ بانڈ خود مال نہیں بلکہ جمع شدہ مال کی رسید ہےکیونکہ اگر یہ خود مال ہوتا تو دیگر بانڈز اور کرنسی نوٹوں کی طرح گم ہونے، جل جانے یا چوری ہوجانے پر مالک کو نقصان ہوتا اور چور کے لئے وہ ایک قابلِ نفع مال ہوتا حالانکہ پریمئیم بانڈ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت قومی بچت بینک (National Saving Bank) کے سیونگ اکاؤنٹ (Saving Account) کے سرٹیفکیٹ (Certificate) جیسی ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ سیونگ سرٹیفکیٹ پر نفع زیادہ ملتا ہے اس میں نفع کم ملے گا اور سیونگ سرٹیفکیٹ پر قرعہ اندازی کے ذریعے سے انعامات کا سلسلہ نہیں ہوتا جبکہ پریمئیم بانڈ میں پرائز بانڈ کی طرز پر انعام بھی رکھا گیا ہے۔

پریمئیم بانڈ پر ششماہی ملنے والا نفع اور ہر 3ماہ پربذریعہ قرعہ اندازی بنام انعام ملنے والا نفع دونوں ہی خالصتاً سود (Interest) ہیں اسی لئے پریمئیم بانڈ خریدنا، بیچنا ناجائز وحرام اور کبیرہ گناہ ہے بلکہ سود ہونے کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ ورسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (1)﴿وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواؕ ترجمہ:اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔(پ 3، البقرۃ:275)(2)﴿یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ

ترجمہ:اللہسود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (پ 3، البقرۃ:276)(3)﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾ فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖۚ ترجمہ:اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔(پ 3، البقرۃ:279،278)

حدیث مبارک میں ہے:کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفِعَۃً فَھُوَ رِبًا ترجمہ: قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔

(کنز العمال، جزء6، 3/99،حدیث:15512)

نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے سود لینے اور دینے پر لعنت فرمائی اور سب کو گناہ میں برابر قرار دیا، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:’’لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ وسلَّم اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ ھُمْ سَوَاءٌ ترجمہ:رسول اللہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہِ واٰلِہٖ وسَلَّم نے سود لینے والے، دینے والے، اسے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔

(مسلم،ص663،حدیث:4093)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ دنیاوی لالَچ وحِرْص میں پریمئیم پرائز بانڈ کے ذریعہ سود جیسے کبیرہ گناہ میں گرفتار ہوکر دنیا و آخرت کی تباہی وبربادی اور رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی اپنے سر نہ لیں بلکہ فقط حلال پر ہی اِکتفاء کریں اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی میں برکت دے گا جبکہ سود میں برکت تو دور کی بات ہے یہ تو دنیاوی مال میں بھی ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔

اللہ تعالٰیمسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور سود جیسی نحوست سے ہمارے معاشرہ کو محفوظ فرمائے۔اٰمین!

تنبیہ یہ حکم اس خاص پرائز بانڈ کا ہے جو پریمئیم کے نام سے پاکستان میں پہلی مرتبہ 40،000 کا جاری ہوا ہے جبکہ پہلے سے جاری شدہ دیگر پرائز بانڈ جن کی خرید وفروخت کی جاتی ہے وہ جائز ہیں اور ان پر حاصل ہونے والا انعام بھی جائز ہے کیونکہ وہ قرض کی رسید نہیں بلکہ خود مال ہیں اسی لئے گُم ہونے، جل جانے یا چوری ہوجانے کی صورت میں ان کا کوئی بدل نہیں دیا جاتا بلکہ جس کے ہاتھ میں ہو اُسے ہی مالک سمجھا جاتا ہے اسی لئے اسٹیٹ بینک (State bank) اور ہر مالیاتی ادارہ بلکہ ہر شخص کرنسی کی طرح ہی ان بانڈ کی خرید وفروخت کرتا ہے کیونکہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ کسی قرض کی رسید نہیں بلکہ خود مال ہے یہی وہ واضح فرق ہے جو عام پرائز بانڈ اور پریمئیم پرائز بانڈ کے مابین ہے جس کی وجہ سے دونوں کا حکم جدا جدا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ ورَسُوْلُہُ اَعْلَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم

مُجِیْب

ابو مصطفی محمد کفیل رضا عطاری المدنی

مُصَدِّق

ابو الصالح محمد قاسم القادری


افسوس ناک خبر: بیٹا کیوں پیدا نہیں ہوا؟ جہیز کیوں نہیں لائی؟ ساس کے طعنوں سے تنگ آکر ماں نے بچیوں سمیت زہر کھا کر خودکُشی کرلی۔ اہلِ محلہ کے مطابق 30سالہ خاتون کو جہیز نہ لانے اور بیٹیوں کی پیدائش پر آئے روز لڑائی جھگڑوں کا سامنا تھا۔ وہ ساس کی جانب سے شوہر کی دوسری شادی کرانے کی دھمکی پر بھی شدید خوف کا شِکار تھی۔ پولیس نے واقعہ کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش شروع کردی۔(سماء نیوز ویب سائٹ)

پیارے اسلامی بھائیو! ہم کئی کام وہ کرتے ہیں جس سے دوسروں کی زندگی میں راحتیں اور آسانیاں آتی ہیں، مثلاً کسی سے ہمدردی کے دو بول بولنا، حوصلہ افزائی کرنا، بیمار کی عیادت کرنا، پریشان حال اور دُکھیارے کی مدد کرنا، کسی کا پیارا دنیا سے چلا جائے تو اس سے تعزیت کرنا وغیرہ اور کچھ کام ہم وہ کرتے ہیں جس سے لوگوں کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں، ان کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے مثلاً کسی پر جھوٹا الزام لگانا، کسی کو جھاڑنا، مارنا اور بے عزت کرنا، گُھورنا، حوصلہ شکنی کرنا اور بات بات پر طعنے دینا۔ آج ہم اسی ”طعنہ دینے کی عادت“ پر بات کریں گے، آپ نے دیکھا کہ اوپر دی گئی خبر میں طعنے دینے کی وجہ سے بہو اتنی تنگ ہوئی کہ اس نے خودکشی جیسی حرام موت کو گلے لگا لیا اور اپنی پھول سی بچیوں کی بھی جان لے لی۔

طعنے نہ دو:اللہ پاک نے طعنے دینے سے منع فرمایا ہے چنانچہ قراٰنِ پاک میں ایمان والوں سے ارشاد فرمایا:﴿وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقٰبِتَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔(پ26، الحجرات: 11)

اسلامی معاشرے کے حُسن کو داغ دار کرنے والی اخلاقی کمزوریوں میں سے ایک ”طعنے دینا“ بھی ہے، دنیا میں بسنے والی مختلف قوموں، قبیلوں اور برادریوں میں اُردو، انگلش، عربی، سندھی، پنجابی، ہندی، میمنی، گجراتی الغرض جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اتنی ہی قسم کے طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے ہیں بلکہ اس کے لئے بنے بنائے مُحاوَرے بھی رائج ہیں مثلاً: ٭کسی کو بوڑھے ہونے کا طعنہ دینا ہو تو ”منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں“ ٭کوئی کام کرنے کا بول دے تو جواب ملتا ہے: ”تمہارے پاؤں میں مہندی لگی ہے!“ یعنی خود کیوں نہیں کرلیتے! ٭کسی کی ہمدردی میں رونے والے کو طعنہ ملتا ہے: یہ ”مگرمچھ کے آنسو ہیں“ یعنی دِکھاوے کا رونا ہے ٭کسی کو نیچا دِکھانے کیلئے بولتے ہیں:”تم کس کھیت کی مولی ہو!“ ٭چھوٹی عمر والا سمجھانے کی کوشش کرے تو طعنہ ملتا ہے:”چیونٹی کے پر نکل آئے ہیں“ ٭کوئی ترقی کیلئے آئیڈیا پیش کرے تو اسے ”خیالی پلاؤ پکانے“ کا طعنہ ملتا ہے ٭بے روزگار کو اکثر یہ طعنہ سننا پڑتا ہے: ”کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا“ ٭جو سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہو اسے ”کنجوس مکھی چوس“ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

آپ کو اچّھا لگے گا؟ تصور کیجئے کہ اگر اسی قسم کے طعنے آپ کو دئیے جائیں تو آپ کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھے گا یا زَرد پتوں کی طرح مُرجھا جائے گا، یہی تکلیف دوسرا بھی محسوس

کرتا ہے جب آپ اسے طعنہ دیتے ہیں۔

مختلف قسم کے طعنے: افسوس! رنگ رنگ کے طعنے مختلف انداز سے دئیے جاتے ہیں:غربت کا طعنہ، رنگ کالا ہونے کا طعنہ، قد چھوٹا ہونے کا طعنہ، بُزدلی (یعنی ڈرپوک ہونے) کا طعنہ، اولاد پیدا نہ ہونے پر طعنہ،تنخواہ یا آمدنی کم ہونے کا طعنہ، لباس کے سستے ہونے کا طعنہ، اَن پڑھ اور جاہِل ہونے کا طعنہ، منحوس ہونے کا طعنہ، جاسوسی کا طعنہ، چُغل خوری کا طعنہ، چور ہونے کا طعنہ، دیر سے رابطہ کرنے پر بھول جانے کا طعنہ، رِشتہ نہ ہونے کا طعنہ، طلاق یافتہ ہونے کا طعنہ، موٹاپے کا طعنہ،لمبا ہو تو طعنہ، بہو کو گھریلو کام کاج نہ آنے کا طعنہ، کسی شاگرد سے غلطی ہوجائے تو طعنہ کہ تمہارے استاذ نے تمہیں یہ سِکھایا ہے، مرید سے غلطی ہوجائے تو طعنہ کہ تمہارے پیر نے تمہیں یہی کچھ سکھایا ہے، کسی تنظیم یا تحریک سے وابستہ فرد سے غلطی ہوجائے تو اس تحریک کو چلانے والوں کو طعنے دئیے جاتے ہیں۔

جوابِ لاجواب: ایک مسجد کے امام صاحب کو ان کی زوجہ کی وَساطَت سے کسی خاتون کا پیغام ملا کہ میرے شوہر پانچ وقت کی نَماز اور جمعہ بھی آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں لیکن گھر پر جھگڑتے رہتے ہیں، میرا اور بچوں کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھتے، کام کاج نہیں کرتے، آپ نے انہیں یہی سِکھایا ہے؟ انہیں سمجھاتے کیوں نہیں! امام صاحب نے جواب بھجوایا: محترمہ! وہ میرے پیچھے نَماز ضَرور پڑھتے ہیں لیکن بعد میں ہاتھ ملاکر چلے جاتے ہیں، جمعہ کے بیان میں جب دوسروں کو وَعظ و نصیحت کرتا ہوں تو وہ بھی عوام میں بیٹھے سُن رہے ہوتے ہیں، میں انہیں انفرادی طور پر سمجھاؤں گا بھی مگر ان کی اخلاقی کمزوریوں کا ذمّہ دار صرف مجھے قرار دینا زیادتی ہے کیونکہ غور کیا جائے تو وہ 24 گھنٹوں میں سب ملا کر کُل دو گھنٹے مسجد میں آتے ہیں اور ان دو گھنٹوں میں میری ان سے تقریباً 15منٹ ملاقات ہوتی ہے جبکہ وہ 22گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں، جب آپ انہیں 22 گھنٹوںمیں نہ سُدھار سکیں تو میں بے چارہ 15منٹ میں کیا کرسکتا تھا؟

طعنہ دینا مؤمن کی شان کے خلاف ہے: حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِی یعنی مؤمن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا،بے حیائی کی باتیں کرنے والا اور بدکلام نہیں ہوتا۔

(ترمذی، 3/393، حدیث: 1984)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:یعنی یہ عیوب سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا دوسرے مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شان کے خلاف ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/469)

کوئی کسی کو طعنہ نہیں دیتا تھا: صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان عمدہ لباس زَیب تَن فرماتے تو وہ کم قیمت کا لباس پہننے والوں کو طعنہ نہ دیتے اور نہ ہی کم قیمت کا لباس پہننے والے عمدہ لباس پہننے والوں پر طعنہ زنی کرتے۔(الزہد للامام احمد، ص 319، رقم:1837)

طعنے دینا تو غیر مسلموں کا طریقہ ہے: قراٰنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے کہ کُفار مسلمانوں کو غریب ہونے کی وجہ سے طعنے دیتے تھے۔ ولید بن مُغیرہ سخت کافر تھا اور اسلام کا پیغام عام کرنے میں رُکاوٹیں ڈالنے میں پیش پیش رہتا تھا، اس نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا: مجنون، اس کے جواب میں اللہ پاک نے اس کے دس واقعی (یعنی حقیقی) عیوب ظاہر فرما دئیے جس میں سے ایک عیب یہ بھی تھا کہ ”بہت طعنے دینے والا۔“(پ29، القلم:11-صراط الجنان، 10/291 ملخصاً)

عبادت کا طعنہ دینے کا انجام:بَحْرُ الْعُلُوْم حضرت علّامہ مولانا مفتی عبدالمنّان رحمۃ اللہ علیہ اپنے دادا مرحوم عبدُالرّحیم بن دوست محمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دادا جان ایک بازار میں مزدوری کرتے تھے، ایک دفعہ اُجرت لینے کے لئے اس شخص کے پاس گئے جس کے یہاں مزدوری کرتے تھے تو اس کے لڑکے نے کہا:ابھی گزشتہ ہفتے تو خرچی لے کرگئے تھے، آج پھر چلے آئے، اتنی عبادت و ریاضت تو کرتے ہیں، اسی سے خوب ڈھیر سارا روپیہ کیوں نہیں مانگ لیتے! دادا جان نے ان کو کوئی جواب نہ دیا، فوراً گھر واپس لوٹ آئے اور دیر تک یہ فرماتے رہے:کیسے لوگ ہیں، یہ مسلمان کہے جائیں گے؟ اللہ کا نام لینے اور بندگی کرنے پر طعنہ دیتے ہیں۔ بھلا ان لوگوں کو کیا احساس ہوتا، البتہ حضرت اس جملے پر نہایت دُکھی رہے اور آپ نے اس شخص کیلئے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بحرُ العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:اللہ کسی کی سرکشی پسند نہیں فرماتا، میرے زمانے تک وہ لوگ زندہ رہے، ساری اکڑفوں ختم ہوگئی تھی۔ ان میں ایک صاحب تو اس طرح مَرے کہ مرتے دَم انہیں کوئی ایک چمچہ پانی دینے والا نہ تھاحالانکہ تین چار جوان بچے موجود تھے۔(بحرالعلوم نمبر، ص224 ملخصاً)

طعنہ دینے والے سے پناہ مانگو:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی پناہ مانگو آفت کی مشقتوں سے اور بدبختی کے پہنچنے سے اور بُرے فیصلے سے اور دشمنوں کے طعنوں سے۔ (بخاری، 4/277، حدیث:6616)یعنی مولیٰ مجھے ایسی دینی و دنیاوی مصیبتوں میں نہ پھنسا جن سے میرے دشمن خوش ہوں اور مجھ پر طعنے کریں، آوازے کسیں، اس سے بھی تیری پناہ، یہ دُعا بہت جامع ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/57)

طعنے کا جواب طعنے سے نہ دیجئے:فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اگر کوئی شخص تمہیں تمہارے کسی عیب کا طعنہ دے تو تم اسے اس کے عیب کا طعنہ ہرگز نہ دو کیونکہ تمہیں اس کا ثواب ملے گا اور طعنہ دینے والے پر وبال ہوگا۔

(ابن حبان، 1/370، حدیث:523)

مسلمان کو تکلیف دینا ناجائز و حرام ہے: طعنے دینے میں مسلمان کی سخت دل آزاری ہے اور مسلمان کو بِلاوجہِ شرعی تکلیف دینا جائز نہیں ہے، اللہ کریم کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذیٰ مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ یعنی جس نے کسی مسلمان کو اِیذا دی

اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اُس نے اللہ کو اِیذا دی۔

(معجم اوسط، 2/387، حدیث:3607)

مُعافی مانگ لیجئے: پیارے اسلامی بھائیو! ہماری سانسیں کسی بھی وقت کسی بھی لمحے رُک سکتی ہیں، لہٰذا شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ توبہ کرلیجئے، جن جن کو طعنے دے کر ستایا ہے ان سے مُعافی مانگ لیجئے۔اللہ پاک ہمیں نیک بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حکایت:شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے طے کیا کہ کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولیں گے۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے کے والدین نے اس نیت سے دروازے کو دستک دی کہ بچوں کو دُعاؤں سے نوازیں گے۔ لڑکے نے آواز پہچان لی،ایک نظر بیوی کودیکھاپھر اپنے ارادے کو دُہراتے ہوئے دروازہ نہیں کھولا،اس کے والدین چلے گئے۔کچھ ہی دیر بعد لڑکی کے والدین نے اسی تمنّا کے ساتھ دروازے پر دستک دی،لڑکی نے آواز پہچان لی مگر رُک گئی،چند لمحوں میں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اوراس نے آگےبڑھ کر دروازہ کھول دیا اوروالدین کی دُعائیں لی ۔لڑکے نے یہ منظر دیکھا لیکن خاموش رہا۔کچھ عرصےبعد ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔لڑکا بہت خوش ہوا اوربیٹی کی پیدائش پر پُر تکلّف دعوت کا اہتمام کیا۔ بیوی نے اس قدر خوشی و اہتمام کا سبب پوچھا تو لڑکا بولا:’’گھر میں اس کی ولادت ہوئی ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی۔‘‘

اس فرضی حکایت میں بیٹی کی مَحبّت و اہمیت کو اُجاگَر کیا گیا ہے،بیٹیاں اللہ کی رحمت اور غمخواری میں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں،ان کی مُسکُراہٹ سے دُکھی دل کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ مگر ہائے افسوس! اس پُر فِتن دور میں بیٹیوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتابلکہ دورِجاہلیت کی یاد تازہ کرنے والے ہوش رُبا واقعات پڑھ کررونگٹےکھڑے ہوجاتے ہیں،چنانچہ اس ضمن میں 2 اَخباری خبریں بِالتَّصَرُّف مُلاحَظہ فرمائیں:

٭مَعَاذَاللہ زمانۂ جاہلیت کی یاد تازہ ہوگئی،چھٹی بیٹی کی پیدائش پر ظالم شوہر بیوی کو اسپتال سے لاتے ہی تَشَدُّد کا نشانہ بنانے لگا۔جُنون ٹھنڈا نہ ہوا تو اپنی ہی لختِ جگر کوپانی کے ٹَب (Tub) میں ڈُبو کر مار ڈالا، احتجاج پر بیوی کو بھی سوتے میں فائرنگ کر کے قتل کردیا،مُلْزَم کو گرفتار کرلیا گیا۔(روزنامہ جنگ،6 نومبر2013)

٭کراچی کے ایک علاقے میں سفّاک باپ نے اپنی 10 ماہ کی بیٹی کو فَرْش پر پٹخ کر قتل کردیا اور فرار ہوگیا۔ واقعے کے فوری بعد مُلْزَم کو گرفتار کر لیا گیا۔پولیس کے مطابق مُلْزَم اپنی اہلیہ سے روزانہ جھگڑا کرتا تھا اوراس پرتَشَدُّد بھی کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا پیدا ہو اور بیٹا پیدا نہ ہونے پرہی اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا۔(روزنامہ دنیا،5جنوری2014)

عقل کام نہیں کرتی کہ کیا باپ بھی بیٹی کو۔۔قلم لکھتے ہوئے بھی کانپ اٹھےمگر کس قدر سنگدل ہے وہ باپ جسکا ہاتھ کانپا نہ ہو گا!

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خدارا بیٹیوں کی قدر کیجئے۔اللہ کے پیارے حبیبصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیٹیوں کے بارے میں جو اِرشادات عطا فرمائے ہیں،انہیں پڑھئے اور غورکیجئے: (1)بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو،بے شک وہ مَحبّت کرنے والیاں ہیں۔(مسندامام احمد، 6/134،حدیث17378)

(2)جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس شخص کو جنّت میں داخل فرمائے گا۔(مستدرک للحاکم،5/248،حدیث7428)

(3)جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آپڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سُلوک(یعنی اچھا برتاؤ)کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنَّم سے روک بن جائیں گی۔(مسلم،ص1084،حدیث:6693)

اسی طرح بیٹیوں پر مَحبّت و شفقت پر اُبھارتی ایک اور ایمان اَفروزحدیث پڑھئے:جوبازارسے اپنے بچوں کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان(یعنی بچوں)پر صَدَقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہئے کہ بیٹیوں سے اِبتدا کرے کیونکہ اللہعزَّوجل بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں پر رحمت و شفقت کرے وہ خوفِ خدا میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے خوش کرے گا۔(فردوس الاخبار،2/263،حدیث5830)

صد کروڑ افسوس!آج کل مسلمانوں کی ایک تعدادبیٹی کی پیدائش کو ناپسند کرنے لگی ہے!یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ امیرِ اہلسنت کے رسالے’’زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی“ کے صفحہ14 سے الٹرا ساؤنڈ(Ultra Sound) کا اہم مسئلہ بَیان کر دوں،چنانچہ’’الٹراساؤنڈ کروانے کا اَہم مسئلہ ذہن نشین فرما لیجئے: اگرمَرَض کا علاج مقصودہے تو اس کی تشخیص (یعنی پہچان)کے لیے بے پردگی ہورہی ہو تَب بھی ماہر طبیب کے کہنے پر عورت کسی مسلمان عورت(اور نہ ملے تو مجبوری کی صورت میں مرد وغیرہ) کے ذریعے الٹرا ساؤنڈ کرواسکتی ہے۔لیکن بچہ ہے یا بچی اس کی معلومات حاصل کرنے کا تعلّق چونکہ علاج سے نہیں اور الٹرا ساؤنڈ (Ultra Sound)میں عورت کے سَتْر (یعنی ان اَعضاء مثلاً ناف کے نیچے کے حصّے)کی بے پردگی ہوتی ہے لہٰذا یہ کام مرد تو مردکسی مسلمان عورت سے بھی کروانا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

(دردناک حکایت)الٹرا ساؤنڈ کی غلط رپورٹ نے گھر اُجاڑدیا: تمام سائنسی تحقیقات چونکہ یقینی نہیں ہوتیں لہٰذا بیٹا یا بیٹی کا مُعامَلہ ہو یا کسی اور بیماری کا،الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ دُرُست ہی ہو یہ ضروری نہیں۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی چینل کے ہفتہ وار مقبول سلسلے’’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘کی قِسط14’’ظُلْم کی اِنتہا‘‘میں ایک پاکستانی لیبارٹریَن نے اپنے تَجرِبات بَیان کرتے ہوئے کچھ اس طرح بتایا کہ’’ایک عورت کے اِبتدائی ایّام کے الٹرا ساؤنڈ(Ultra Sound) کی رپورٹ میں ساتھ آنےوالے شوہرنے جب بیٹی کا سُناتو سنتے ہی بے چاری کو طلاق دے دی!لیکن جب دن پورے ہوئے اور وِلادت ہوئی تو بیٹا پیدا ہوگیا!مگر آہ! الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ پر اندھا یقین رکھنے والے آدَمی کی نادانی کے سبب اس دُکھیاری بی بی کا گھر اُجڑ چُکا تھا!‘‘(زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی،ص14،15)

کاش! میری یہ فریاد ہر باپ تک پہنچ جائے کہ وہ بیٹی کی پیدائش کو بُرا نہ جانے، بیٹی سے محبت کرے،اُس پر شفقت کرے، اُسے ایذا نہ دے،(مَعَاذَاللہ)اُسے قتل نہ کرے، بلکہ اُس کی قراٰن و سنّت کے مطابق بہترین تربیت کرکے آخرت میں ثواب کا مستحِق بنے۔

(بیٹی کی پرورش کی فضیلت اور دیگر اَہم معلومات پر مشتمل امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’زندہ بیٹی کنویں میں پھینک دی‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) پڑھنا نہ بھولئے )

کچرےکاڈھیر

صفائی ستھرائی بہترین خصلت ہے۔ امیری ہو یا غریبی، تندرستی ہو یا بیماری ہر حال میں صفائی ستھرائی انسان کی عزت و وقار کی محافظ ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت و عظمت کی بدترین دشمن ہے۔ دین ِاسلام نے ظاہری و باطنی دونوں طرح کی گندگیوں سے بچنے کا درس دیا ہے۔ جس طرح ہم اپنے بدن ،لباس، استعمالی چیزوں اور گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقے اور محلہ کو بھی صاف ستھرا رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے ۔افسوس ناک حادثہ: پچھلے دنوں باب المدینہ کراچی کے علاقہ کھڈامارکیٹ میں رات کے وقت کچرے کے ڈھیر میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے ایک رہائشی عمارت کی پہلی منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے نتیجے میں دم گھٹنے سے 7 سالہ آمنہ ،3 سالہ ایان اور ایک سالہ عبد العزیز زندگی کی بازی ہار کر موت کی وادی میں چلے گئے جبکہ بچوں کی والدہ کو تشویش ناک حالت میں I.C.Uمیں داخل کیا گیا۔ اللہتعالیٰ لَواحقین کو صبرِِ جمیل اور اس پر ثوابِِ عظیم عطا فرمائے۔(آمین) کچرے کے ڈھیر میں آگ کسی نے جان بوجھ کر لگائی یا کسی کی غلطی کی وجہ سے بھڑک اٹھی،بہر حال ایک خاندان پر صدمات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ تین ننھی مسکراتی کلیاں مرجھا گئیں اورخوشیوں بھرے گھرمیں اداسیوں نے بسیرا کرلیا۔اس حادثے کا ذمہ دار کسےقرار دیا جائے؟ اہلِ محلہ کو جو اس رہائشی عمارت کے نیچے کچرےکا ڈھیر لگاتےرہے اور ناسمجھی میں دوسروں کی موت کا سامان تیار کرتے رہے ،یا پھر ان افراد کو ذمہ دار قرار دیا جائے جو ہر ماہ کی تنخواہ تولیتے ہیں مگر صفائی کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہفتوں بلکہ مہینوں تک اپنی شکل تک نہیں دکھاتے، پھر جب کوئی ایسا حادثہ ہوجاتا ہے تواپنی کوتاہی وسستی کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر الزام ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں۔

بابُ المدینہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جگہ جگہ اُبلتے گٹرجن کا پانی گلیوں اور سڑکوں پر ایک تالاب کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور جابجا کچرے کے خود ساختہ ڈھیر اس بات کی جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم صفائی ستھرائی کے معاملے میں اسلامی اَحکامات پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں ۔نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری حالت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔(جامع صغیر، ص:22، حدیث: 257)حضرت علامہ عبد الرؤف مناویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حکّام اور علما کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر ،1/249)

اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کرنے والا شخص قصور وار ہوتا ہے لیکن ایسے حادثات کی روک تھام کرنےکےلئے ہماری بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے گھر ،دکان ،محلہ اور علاقے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں،اپنا گھر صاف رکھنے کے لئے گلی میں کچرا نہ پھیلائیں ، گلی کو صاف رکھنے کے لئےچوک کو کچراکُنڈی نہ بنائیں ، ہرعقل رکھنے والا اسلامی بھائی میری اس بات سے اتفاق کرے گا تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم روزانہ کچرے کے ڈھیر میں اضافہ کردیتے ہیں ،کوئی نہیں رُکتا آپ تو رُک جائیں اور کچرا وہاں ڈھیر کریں جہاں انتظامیہ نے جگہ مخصوص کی ہو ،کیایہ فریاد اس قابل نہیں کہ اس پر غور کیا جائے ،ذرا سوچئے!