طعنے دینا
افسوس ناک خبر: بیٹا کیوں پیدا نہیں ہوا؟ جہیز کیوں نہیں لائی؟ ساس کے طعنوں سے تنگ آکر ماں نے بچیوں سمیت
زہر کھا کر خودکُشی کرلی۔ اہلِ محلہ کے مطابق 30سالہ خاتون کو جہیز نہ لانے
اور بیٹیوں کی پیدائش پر آئے روز لڑائی جھگڑوں کا سامنا تھا۔ وہ ساس کی جانب سے
شوہر کی دوسری شادی کرانے کی دھمکی پر بھی شدید خوف کا شِکار تھی۔ پولیس نے واقعہ
کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش شروع کردی۔(سماء نیوز ویب
سائٹ)
پیارے اسلامی بھائیو! ہم کئی کام وہ
کرتے ہیں جس سے دوسروں کی زندگی میں راحتیں اور
آسانیاں آتی ہیں، مثلاً کسی سے ہمدردی کے دو بول بولنا، حوصلہ افزائی کرنا، بیمار
کی عیادت کرنا، پریشان حال اور دُکھیارے کی مدد کرنا، کسی کا پیارا دنیا سے چلا
جائے تو اس سے تعزیت کرنا وغیرہ اور کچھ کام ہم وہ کرتے ہیں جس
سے لوگوں کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں، ان کی زندگی مشکل
ہوجاتی ہے مثلاً کسی پر جھوٹا الزام لگانا، کسی کو جھاڑنا، مارنا اور بے
عزت کرنا، گُھورنا، حوصلہ شکنی کرنا اور بات بات پر طعنے دینا۔ آج ہم اسی ”طعنہ دینے
کی عادت“ پر بات کریں گے، آپ نے دیکھا کہ اوپر دی گئی خبر میں طعنے دینے کی وجہ سے بہو اتنی تنگ ہوئی کہ اس نے
خودکشی جیسی حرام موت کو گلے لگا لیا اور اپنی پھول سی بچیوں کی بھی جان لے لی۔
طعنے نہ دو:اللہ پاک نے طعنے دینے سے منع فرمایا ہے چنانچہ قراٰنِ پاک میں ایمان والوں سے ارشاد فرمایا:﴿وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقٰبِ﴾تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔(پ26، الحجرات: 11)
اسلامی معاشرے کے حُسن کو داغ دار کرنے والی اخلاقی کمزوریوں میں سے ایک
”طعنے دینا“ بھی ہے، دنیا میں بسنے والی مختلف قوموں،
قبیلوں اور برادریوں میں اُردو، انگلش، عربی، سندھی، پنجابی، ہندی، میمنی، گجراتی
الغرض جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اتنی ہی قسم کے طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے ہیں
بلکہ اس کے لئے بنے بنائے مُحاوَرے بھی رائج
ہیں مثلاً: ٭کسی کو بوڑھے
ہونے کا طعنہ دینا ہو تو ”منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں“ ٭کوئی کام کرنے کا بول دے تو جواب ملتا ہے: ”تمہارے پاؤں میں مہندی لگی ہے!“ یعنی
خود کیوں نہیں کرلیتے! ٭کسی کی ہمدردی میں رونے والے کو طعنہ ملتا ہے: یہ ”مگرمچھ کے آنسو ہیں“ یعنی دِکھاوے کا رونا ہے ٭کسی کو نیچا دِکھانے
کیلئے بولتے ہیں:”تم کس کھیت کی مولی ہو!“ ٭چھوٹی عمر والا سمجھانے کی کوشش کرے تو طعنہ ملتا
ہے:”چیونٹی کے پر نکل آئے ہیں“ ٭کوئی ترقی کیلئے آئیڈیا پیش کرے تو اسے ”خیالی
پلاؤ پکانے“ کا طعنہ ملتا ہے ٭بے روزگار کو اکثر یہ طعنہ سننا پڑتا ہے:
”کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا“ ٭جو سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہو اسے ”کنجوس مکھی چوس“ ہونے کا طعنہ دیا جاتا
ہے۔
آپ کو اچّھا لگے گا؟ تصور کیجئے کہ اگر اسی قسم کے طعنے آپ کو
دئیے جائیں تو آپ کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھے گا یا زَرد پتوں کی طرح مُرجھا جائے گا، یہی تکلیف دوسرا بھی محسوس
کرتا ہے جب آپ اسے طعنہ دیتے ہیں۔
مختلف قسم کے طعنے: افسوس! رنگ رنگ کے طعنے مختلف انداز سے دئیے
جاتے ہیں:غربت کا طعنہ، رنگ کالا ہونے کا طعنہ، قد چھوٹا ہونے کا طعنہ، بُزدلی (یعنی ڈرپوک ہونے) کا طعنہ، اولاد پیدا نہ ہونے پر
طعنہ،تنخواہ یا آمدنی کم ہونے کا طعنہ، لباس کے سستے ہونے کا طعنہ، اَن پڑھ اور
جاہِل ہونے کا طعنہ، منحوس ہونے کا طعنہ، جاسوسی کا طعنہ، چُغل خوری کا طعنہ، چور
ہونے کا طعنہ، دیر سے رابطہ کرنے پر بھول جانے کا طعنہ، رِشتہ نہ ہونے کا طعنہ،
طلاق یافتہ ہونے کا طعنہ، موٹاپے کا طعنہ،لمبا ہو تو طعنہ، بہو کو گھریلو کام کاج
نہ آنے کا طعنہ، کسی شاگرد سے غلطی ہوجائے تو
طعنہ کہ تمہارے استاذ نے تمہیں یہ سِکھایا ہے، مرید سے غلطی ہوجائے تو طعنہ کہ
تمہارے پیر نے تمہیں یہی کچھ سکھایا ہے، کسی تنظیم یا تحریک سے وابستہ فرد سے غلطی
ہوجائے تو اس تحریک کو چلانے والوں کو طعنے دئیے جاتے ہیں۔
جوابِ لاجواب: ایک مسجد کے امام صاحب کو ان کی زوجہ کی وَساطَت
سے کسی خاتون کا پیغام ملا کہ میرے شوہر پانچ وقت کی نَماز اور جمعہ بھی آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں لیکن گھر پر جھگڑتے
رہتے ہیں، میرا اور بچوں کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھتے، کام کاج نہیں کرتے، آپ نے
انہیں یہی سِکھایا ہے؟ انہیں سمجھاتے کیوں نہیں! امام صاحب نے جواب بھجوایا:
محترمہ! وہ میرے پیچھے نَماز ضَرور پڑھتے ہیں لیکن بعد میں ہاتھ ملاکر چلے جاتے ہیں، جمعہ کے بیان میں جب دوسروں کو وَعظ و نصیحت
کرتا ہوں تو وہ بھی عوام میں بیٹھے سُن رہے ہوتے ہیں، میں انہیں انفرادی
طور پر سمجھاؤں گا بھی مگر ان کی اخلاقی کمزوریوں کا ذمّہ دار صرف مجھے قرار دینا
زیادتی ہے کیونکہ غور کیا جائے تو وہ 24 گھنٹوں میں سب ملا کر کُل دو گھنٹے مسجد
میں آتے ہیں اور ان دو گھنٹوں میں میری ان
سے تقریباً 15منٹ ملاقات ہوتی ہے جبکہ وہ
22گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں، جب آپ انہیں 22 گھنٹوںمیں نہ سُدھار سکیں تو
میں بے چارہ 15منٹ میں کیا کرسکتا تھا؟
طعنہ دینا مؤمن کی شان کے
خلاف ہے: حضورنبیِّ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اِرشاد فرمایا:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ
بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِی یعنی مؤمن طعنہ
دینے والا، لعنت کرنے والا،بے حیائی کی باتیں کرنے والا اور بدکلام نہیں ہوتا۔
(ترمذی، 3/393،
حدیث: 1984)
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ پاک
کی شرح میں لکھتے ہیں:یعنی یہ عیوب سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا
دوسرے مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شان کے خلاف ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/469)
کوئی کسی کو طعنہ نہیں
دیتا تھا: صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان عمدہ لباس زَیب تَن فرماتے تو وہ کم قیمت
کا لباس پہننے والوں کو طعنہ نہ دیتے اور نہ ہی کم قیمت کا لباس پہننے والے عمدہ
لباس پہننے والوں پر طعنہ زنی کرتے۔(الزہد للامام احمد، ص 319، رقم:1837)
طعنے
دینا تو غیر مسلموں کا طریقہ ہے: قراٰنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے کہ کُفار مسلمانوں کو
غریب ہونے کی وجہ سے طعنے دیتے تھے۔ ولید بن مُغیرہ سخت کافر تھا اور اسلام کا
پیغام عام کرنے میں رُکاوٹیں ڈالنے میں پیش پیش رہتا تھا، اس نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا: مجنون، اس کے جواب میں اللہ پاک نے اس کے دس واقعی (یعنی حقیقی) عیوب ظاہر فرما دئیے جس میں
سے ایک عیب یہ بھی تھا کہ ”بہت طعنے دینے
والا۔“(پ29، القلم:11-صراط الجنان،
10/291 ملخصاً)
عبادت کا طعنہ دینے کا
انجام:بَحْرُ الْعُلُوْم حضرت
علّامہ مولانا مفتی عبدالمنّان رحمۃ
اللہ علیہ اپنے دادا مرحوم
عبدُالرّحیم بن دوست محمد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دادا جان ایک بازار میں
مزدوری کرتے تھے، ایک دفعہ اُجرت لینے کے لئے اس شخص کے پاس گئے جس کے یہاں مزدوری
کرتے تھے تو اس کے لڑکے نے کہا:ابھی گزشتہ ہفتے تو خرچی لے کرگئے تھے، آج پھر چلے آئے،
اتنی عبادت و ریاضت تو کرتے ہیں، اسی سے خوب ڈھیر سارا روپیہ کیوں نہیں مانگ لیتے!
دادا جان نے ان کو کوئی جواب نہ دیا، فوراً گھر واپس لوٹ آئے اور دیر تک یہ فرماتے رہے:کیسے لوگ ہیں، یہ مسلمان کہے جائیں
گے؟ اللہ کا نام لینے اور بندگی کرنے
پر طعنہ دیتے ہیں۔ بھلا ان لوگوں کو کیا احساس ہوتا، البتہ حضرت اس جملے پر نہایت دُکھی رہے اور آپ نے اس
شخص کیلئے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بحرُ العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:اللہ کسی کی سرکشی پسند نہیں فرماتا، میرے
زمانے تک وہ لوگ زندہ رہے، ساری اکڑفوں ختم ہوگئی تھی۔ ان میں ایک صاحب تو
اس طرح مَرے کہ مرتے دَم انہیں کوئی ایک چمچہ پانی دینے والا نہ تھاحالانکہ تین
چار جوان بچے موجود تھے۔(بحرالعلوم نمبر، ص224 ملخصاً)
طعنہ دینے والے سے پناہ
مانگو:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ
کی پناہ مانگو آفت کی مشقتوں
سے اور بدبختی کے پہنچنے سے اور بُرے فیصلے سے
اور دشمنوں کے طعنوں سے۔ (بخاری، 4/277، حدیث:6616)یعنی مولیٰ مجھے ایسی دینی و دنیاوی مصیبتوں میں نہ پھنسا جن سے میرے دشمن
خوش ہوں اور مجھ پر طعنے کریں، آوازے کسیں، اس سے بھی تیری پناہ، یہ دُعا بہت جامع
ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/57)
طعنے
کا جواب طعنے سے نہ دیجئے:فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اگر کوئی شخص
تمہیں تمہارے کسی عیب کا طعنہ دے تو تم اسے اس کے عیب کا طعنہ ہرگز نہ دو کیونکہ
تمہیں اس کا ثواب ملے گا اور طعنہ دینے
والے پر وبال ہوگا۔
(ابن حبان، 1/370، حدیث:523)
مسلمان کو تکلیف دینا
ناجائز و حرام ہے: طعنے دینے
میں مسلمان کی سخت دل آزاری ہے اور مسلمان کو بِلاوجہِ شرعی تکلیف دینا جائز نہیں
ہے، اللہ کریم کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذیٰ
مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ یعنی جس نے کسی مسلمان کو اِیذا دی
اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے
مجھے ایذا دی اُس نے اللہ کو اِیذا
دی۔
(معجم
اوسط، 2/387، حدیث:3607)
مُعافی مانگ لیجئے: پیارے اسلامی بھائیو! ہماری سانسیں کسی
بھی وقت کسی بھی لمحے رُک سکتی ہیں، لہٰذا شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہاتھوں
ہاتھ توبہ کرلیجئے، جن جن کو طعنے دے کر ستایا ہے ان سے مُعافی مانگ لیجئے۔اللہ پاک ہمیں نیک بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم