سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں فریٹ فارورڈنگ (Freight Forwarding)کا کام کرتا ہوں جس میں بحری جہاز کے کنٹینرز شِپِنگ کمپنی سے کنٹینر کرائے پر لے کر آگے اسے پارٹی کو کرائے پر دیتے ہیں۔کمپنی سے ہم کسی مال کی ایکسپورٹ کے لئے مثلاً 10,000روپے کرائے پرلیتے ہیں، اور پارٹی کو یہی کنٹینر 12,000 روپے میں دیتے ہیں۔ مذکورہ کرائے پر شپنگ کمپنی چاہے دو دن میں بھیجے یاپانچ دن میں، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ ہمارے پاس کنٹینر کو پہنچا دے، نیز مال چھوڑنے کے بعد شپنگ کمپنی کا کام ہوتا ہے کہ اس کنٹینر کو کہاں بھیجنا ہے،پارٹی اور ہمارا اب اس کنٹینر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پارٹی کو جو ہم زیادہ کرائے پر دیتے ہیں،اس میں ہم کنٹینر کی سِیل (Seal) کے اَخْراجات بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ ہم کنٹینر کی سِیل کے اَخْراجات شپنگ کمپنی کو الگ دیتے ہیں لیکن پارٹی سے ہم اس سِیل کرانے کےالگ پیسے نہیں لیتے،تو کیا اس صورت میں پارٹی کو جب ہم کنٹینر کرائے پر دیتے ہیں تو کنٹینر کا کِرایہ اور سِیل کے اخراجات ملا کر مثلاً 12,000 روپے میں دے سکتے ہیں، جبکہ ہم نے شپنگ کمپنی سے وہی کنٹینر 10,000 روپے کا کرائے پر لیا ہوتا ہے اورتقریباً 500 روپے میں سِیل کے اخراجات میں دئیے ہوتے ہیں۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں آپ پارٹی کو کنٹینرکا کِرایہ اور اسے سِیل کرنے کے اخراجات کے ساتھ ملاکر کنٹینر کو آگے زیادہ کرائے پر دے سکتے ہیں۔کیونکہ کرائے پر لی ہوئی چیز آگے کرائے پر دے سکتے ہیں،جبکہ اتنے ہی کرائے پر دی جائے جتنے پر لی تھی،یا کم کرائے پر دی جائے اور اگر زیادہ کرائے پر دینا چاہیں تو اس وقت دے سکتے ہیں جب درجِ ذیل تین صورتیں پائی جائیں: ایک:یہ کہ کنٹینر میں کچھ کام کرا دیں۔ دوسری:یہ کہ آپ نے جس جنس کے کرائے پر کنٹینر لیا اس کے خلاف کسی اور جنس کے کرائے پر آگےدیں۔اور تیسری: یہ کہ کنٹینر کے ساتھ کوئی اور چیز بھی کرائے پر دیدیں اور دونوں کا کرایہ ایک ہی مقرر کریں۔([1]) پوچھی گئی صورت میں آپ کی طرف سے سِیل کی صورت میں اضافہ کرنا پایا گیا تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔

صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”مُسْتَاجِر(کرایہ دار)نے مکان یا دکان کوکِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پردیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یاکَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں اگرمکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یاکرایہ کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑودیکرمکان کو صاف کرلینایہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،3/124، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم



[1]۔الجوہرۃ النیرہ میں ہے: ”وَاِنْ اَجَّرَھَا بِاَکْثَرَ مِمَّا اسْتَاْجَرَھَا جَازَ ، اِلَّا اَنَّہ اِذَا کَانَتِ الاُجْرَۃُ الثَّانِیَۃُ مِنْ جِنْسِ الْاُوْلٰی لَا یَطِیْبُ لَہ الزِّیَادَۃُ وَیَتَصَدَّقُ بِھَا، وَاِنْ کَانَتْ مِنْ خِلَافِ جِنْسِھَا طَابَتْ لَہ الزِّیَادَۃُ، فَاِنْ کَانَ زَادَ فِی الدَّارِ شَیْئاً کَمَا لَوْ حَفَرَ فِیْھَا بِئْراً اَوْطَیَّنَہَا او اَصْلَحَ اَبْوَابَھَا اَوْ شَیْئاً مِّنْ حِیْطَانِھَا طَابَتْ لَہُ الزِّیَادَۃُ

(الجوہرۃ النیرہ شرح قدوری،کتاب الاجارۃ،1/308،309)