برےگمان کےنقصانات
والد صاحب کی
اچانک بیماری، دوا مہنگی اور جیب خالی! یہ سب کچھ ناصر کے حواس گُم کرنے کے لئے
کافی تھا، اس نے اپنے سب سے قریبی دوست(Best friend)جمال کو فون کیا کہ میرے ابّو سخت بیمار ہیں اور
میرے پاس اس وقت دواکے لئے پیسے نہیں ہیں۔جمال نے ہمت بندھائی: میں کچھ کرتا ہوں۔
ناصر نے تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون کیا تو موبائل بند جارہا تھا، بار بار کی کوشش
کے بعد بھی رابطہ نہ ہوا تو ناصر سوچنے لگا کہ بڑا دَم بھرتا تھا دوستی کا! آج
دوستی نبھانے کا وقت آیا تو جھوٹا دلاسہ دیا پھر فون ہی بند کردیا، سب مطلبی ہوتے
ہیں، کوئی کسی کے کام نہیں آتا! خیالات کا ایک سیلاب تھا جو اس کے دل و دماغ سے
ٹکرا رہا تھا۔ وہ گھر سے نکلا کہ کہیں اور
سے رقم کا انتظام ہوجائے، ناکام کوششیں کرنے کے بعد وہ بوجھل قدموں سے گھر کی طرف
چل دیا، گھر پہنچ کر دیکھا تو والد صاحب سکون سے سو رہے ہیں، ان کے سرہانے دوائیوں (Medicines) کا
پیکٹ رکھا ہوا ہے، حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات میں اس نے چھوٹے بھائی سے پوچھا:
یہ دوائیاں کون لایا؟ ”آپ کے دوست جمال آئے تھے، مجھ سے دوائی کی پرچی مانگی اور
تھوڑی دیر بعد یہ دوائیاں دے گئے،“ بھائی نے جواب دیا۔ ناصر کافی فاصلہ طے کرکے جمال
کے گھر پہنچا کہ پتا تو چلے کہ ماجرا کیا ہے! پہلے اس کا شکریہ ادا کیا پھر کہا:
میں نے بعد میں آپ کو بہت فون کئے مگر فون بند تھا!جمال
نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بتایا کہ اِتّفاق سے میرے پاس بھی اس وقت اتنی
رقم نہیں تھی لہٰذا میں نے وہی موبائل بیچ دیا اور آپ کے والد صاحب کی دوائی خرید
لایا۔ یہ سُن کر ناصر کی آنکھیں بھیگ گئیں کہ میرا دوست مجھ سے اتنا مخلص ہے اور
افسوس! میں اس کے بارے میں کیسی کیسی بدگمانیاں کرتا رہا ہوں!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس
فرضی حکایت میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو بات بات پر بدگمانی (بُرے گمان،Mischief) کا
شکار ہوجاتے ہیں، مثلاً: *نوکری (Job) سے فارغ ہوگئے تو آفس کے کسی فرد سے بدگُمانی کہ اس نے سازش کی
ہوگی *کاروبار میں نُقصان ہوگیا تو قریبی کاروباری حَرِیف سے بدگُمانی کہ اس نے
کچھ کروا دیا ہوگا *اجتماعِ ذکر و نعت میں یا دعا مانگتے ہوئے کوئی شخص رو رہا ہے
تو بدگُمانی کہ لوگوں کو دِکھانے کے لئے رو رہا ہے *گھر سے کوئی چیز غائب ہوجائے
تو آنے جانے والے رشتہ داروں یا ملازموں پر بدگمانی کہ انہوں نے چُرائی ہوگی
*کامیابی یا ترقی پر کسی نے حسبِ خواہش مبارک باد (congratulation)نہیں
دی تو بدگمانی کہ مجھ سے جلتا (یعنی حسد کرتا) ہے *گورنمنٹ کے کسی ملازم
کو خوشحال دیکھ لیا تو بدگمانی کہ اوپر کی کمائی سے عیش کررہا ہے *کاغذات (Papers)نامکمل
ہونے کی وجہ سے کسی سرکاری افسر نے کوئی کام کرنے مثلاً شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا
ویزہ دینے سے انکار کردیا تو بدگمانی کہ مجھ سے رشوت لینا چاہتا ہے *کسی نے توَقَّع کے مطابِق توجّہ نہیں دی، حال چال نہیں پوچھا تو بدگمانی
کہ تکبر کرتا ہے *کہیں رشتے کی بات چل رہی تھی
وہاں سے انکار ہوگیا تو اپنے کسی رشتہ دار(Relative) سے بدگمانی کہ اس نے کوئی گڑ
بڑ کی ہوگی *شوہر
کی تَوَجُّہ بیوی کی طرف کم ہوگئی تو ساس سے بدگُمانی کہ اس نے اپنے بیٹے کے کان
بھرے ہوں گے *بہو کو نماز کے بعد اَورَاد و وَظائف کرتے دیکھ لیا تو بدگمانی کہ
ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کوئی وظیفہ کررہی ہے *ساس کا
بدلا ہوامہربان رویہ دیکھ کر بدگمانی کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے *جس نے قَرض (Loan)لیا اور وہ رَابِطے میں نہیں آرہا تو بدگمانی کہ میرا قرض
کھا گیا *جس سے مال بُک کروا لیا وہ مِل نہیں رہا تو فوراً بدگُمانی کہ بھاگ گیا
*کسی نے وقت دیا اور آنے میں تاخیر ہوگئی تو بدگُمانی کہ وعدہ کرکے مُکر گیا وغیرہ
وغیرہ۔ یہ 15مثالیں(Examples) تو سمجھانے کے لئے دی ہیں
ورنہ کیا گھر! کیا دفتر! کیا بازار! کونسی جگہ ہے جہاں بدگمانی کا ناسُور پھیلا
ہوا نہیں ہے!
بدگمانی
کا شَرْعی حکم صدرُ الشّریعہ ،بدرُالطّریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:بے شک مسلمان پر بدگُمانی حرام ہے
مگر جبکہ کسی قرینہ سے اُس کا ایسا ہونا ثابِت ہوتا ہو تو اَب حرام نہیں،مثلاً کسی کو بھٹی (یعنی شراب خانے) میں آتے جاتے دیکھ کر اُسے شراب خور (یعنی شراب پینے والا) گُمان
کیا تو اِس (یعنی بدگُمانی کرنے والے) کا
قصور نہیں، اُس (یعنی شراب خانے میں آنے جانے والے) نے مَوضَعِ تُہمت (یعنی تہمت
لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتِناب (یعنی پرہیز) نہ کیا۔(فتاویٰ امجدیہ، 1/123)
بدگمانی
کا حکم کس وقت لگے گا؟ شارح بخاری علّامہ بدرُالدّین محمودعینی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی فرماتے ہیں: گُمان وہ حرام ہے جس پر گُمان
کرنے والا مُصِر ہو (یعنی اصرار کرے) اور اسے اپنے
دِل پر جمالے، نہ کہ وہ گُمان جو دِل میں آئے اور قرار نہ پکڑے۔ (عمدۃ القاری،14/96،تحت الحدیث:5143) ([1])
بدگمانی کے نقصانات بدگمانی کے انفرادی
نقصانات بھی ہیں اور اجتماعی بھی، جن کا تعلّق دنیا سے بھی ہوتا ہے اور آخرت سے
بھی! بہرحال بدگمانی سے یہ نقصانات ہوسکتے ہیں: (1)کسی کے بارے میں بدگمانی ہونے
اور اسے دل پر جمانے میں چند سیکنڈزبھی نہیں لگتے لیکن اس
کی سزا جہنم کا عذاب ہے جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے (2)بدگمانی ایک
ایسا باطنی (دل کا)گناہ ہے جس کے
کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں پھنس سکتا ہے جیسے کسی کے عیبوں کی تلاش میں رہنا،
غیبت، تہمت، کینہ اور بُہتان میں مبتلا ہوجانا
(3)معمولی سی بدگمانی سے شروع ہونے والا جھگڑا قتل و غارت تک پہنچ سکتا ہے جس کا
سلسلہ بعض اوقات کئی نسلوں (Generations) تک چلتا ہے (4)بدگمانی محبت و اُلفت کو بُغض و عداوت میں بدل سکتی ہے جس کی وجہ
سے معاشرتی تعلّقات میں ایساکھچاؤ (Strained)آجاتا
ہے کہ بھائی کی اپنے سگے بھائی سے نہیں بنتی، میاں بیوی ایک دوسرے سے تنگ آجاتے
ہیں، ساس بہو میں ٹھن جاتی ہے جس کی وجہ سے زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور خاندان بکھر
سکتا ہے (5)بدگمانی اگر کسی تحریک، تنظیم یا ادارے میں گھس جائے تو اعتماد کی
فضا ختم کردیتی ہے جس سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے (6)بعض اوقات کسی تحریک (مثلاً دعوتِ اسلامی) سے وابستہ اسلامی بھائی کو
دوسرے اسلامی بھائی سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے اور یہ اُس کا اِنفرادی فعل ہوتا
ہے لیکن وہ ساری تحریک سے بدگمان ہوجاتا ہے اور اس تحریک سے ناطہ توڑ لیتا ہے اور
مدنی کاموں کے سبب ملنے والا ثواب کا ایک ذریعہ ختم کر بیٹھتا ہے۔
بدگمانی کے8علاج قراٰن و حدیث اور بزرگانِ
دین رحمھم اللہ المُبِین کے فرامین کی روشنی میں بدگمانی
کے8علاج ملاحَظہ کیجئے: (1)گمانوں
کی کثرت سے بچئے، اس سے بدگمانی کا راستہ تنگ ہوگا اور دوسرے کے بارے میں سوچتے
ہوئے آپ محتاط (Cautious)رہیں گے۔ (2)بُرے کاموں سے بچئے، اِذَا سَاءَ فِعْلُ
الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہُ یعنی جب کسی کے کام
بُرے ہوجائیں تو اس کے گُمان بھی بُرے ہوجاتے ہیں۔(فیض القدیر، 3/157) (3)ارشادِ حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی
اللہ تعالٰی عنہ ہے: اپنے بھائی کی زبان سے نکلنے
والے کلمات کے بارے میں بدگُمانی مت کرو جب تک کہ تم اسے بھلائی پر محمول(یعنی گمان) کرسکتے ہو۔(درِّمنثور، 7/565) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جتنے دلائل ہم اپنے فعل کو درست
ثابت کرنے کے لئے دیتے ہیں اگر اس کا 10فی صد بھی اپنے مسلمان بھائی کے کام کو
اچّھا سمجھنے کے لئے سوچیں تو بدگمانی جڑ سے اُکھڑ سکتی ہے، مثلاً کسی اِسلامی بھائی کو اجتماعِ ذکر و نعت میں روتا
دیکھ کر بُرا گمان آئے کہ ریاکاری کررہا ہے،یہاںحسنِ ظن بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ
خوفِ خدا یا عشقِ رسول میں رو رہا ہے (4)بُری صحبت میں نہ بیٹھیں، روح المعانی میں ہے:صُحْبَۃُ
الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْ ءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ یعنی بُروں کی صحبت
اچھوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے۔(روح المعانی، 16/612) (5)حُسنِ ظن (اچھا گمان) کی عادت بنائیں ثواب ملے گا، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اچھا گُمان اچھی عبادت سے ہے۔(ابو داؤد، 4/387، حدیث:4993) (6) حُسنِ ظَن میں کوئی
نقصان نہیں اور بدگمانی میں کوئی فائدہ نہیں، حضرت سیّدنا بکر بن عبداللہ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:اگر تمہارا گُمان دُرُست ثابت ہوا تو بھی تمہیں اس پر اجر و ثواب نہیں ملے
گا لیکن اگر گُمان غلط ثابت ہوا تو گُناہ گار ٹھہرو گے۔ (حلیۃ
الاولیاء، 2/257، رقم:2143) (7)اپنے دِل کوسُتھرا
رکھنے کی کوشش کیجئے، حضرت سیّدنا عارف زرّوق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: خبیث گُمان خبیث دِل سے نکلتا ہے۔(حدیقۃ الندیۃ، 2/8) (8)روزانہ دس بار ”اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم“ پڑھنے والے پر
شياطين سے حفاظت کرنے کے لئے اللہ پاک ایک فرشتہ مقرّر
کردیتا ہے۔(مسند ابی یعلیٰ،
3/400، حدیث: 4100)