کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میرا بھائی درزیوں کا کام کرتا ہے،گاہَک سوٹ کے حساب سے کپڑا دے کر جاتے ہیں ،اوروہ اپنی کاریگری سے کاٹ کر اس میں سے کچھ نہ کچھ کپڑا بچا لیتا ہے،اور بعض اوقات ایک ہی گھر کے کئی جوڑے ایک ہی تھان سے ہوتے ہیں ،اگر ان کو احتیاط سے کاٹا جائے توان سے زیادہ کپڑا بچ جا تا ہے جو بآسانی استعمال میں لایا جا سکتا ہےیعنی اس سے چھوٹے بچوں کا ایک آدھ سوٹ بن جاتا ہے، کیا یہ بچا ہوا کپڑا ہم اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا نہیں ،برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں؟سائل:اکبر علی لودھینیو بہگام ،گوجر خان ضلع راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں آپ کا بھائی اجیرِ مشترک(1)(اس کی وضاحت حاشیے میں پڑھئے) ہے ،اور اجیرِ مشترک کے ہاتھ میں لوگوں کی چیز امانت ہوتی ہے،لہذا سوٹ سینے کے بعد جو قابلِ اِنتفاع (جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے)کپڑا بچ جائے ،تو وہ بھی آپ کے بھائی کے ہاتھ میں امانت ہے،اسکا حکم یہ ہے کہ مالک کو واپس کر دیا جائے ،مالک کی اجازت کے بغیر اپنے استعمال میں لانا ناجائز و حرام ہے ،ہاں !اگر مالک اسکے استعمال کی اجازت دیدےیا وہ قابلِ انتفاع نہیں بلکہ بالکل معمولی مقدا ر میں ہے جیسے کترن،تو اسکے استعمال میں حرج نہیں لیکن کَترَن سے مراد بہت باریک کترن ہے ، یہ نہیں کہ آدھے گز کو کَترَن کا نام لے رکھ لیا جائے۔

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

ابوالصالح محمد قاسم القادری

22محرم الحرام1438ھ/24اکتوبر 2016ء