نابالغ بچے کا خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اس مسئلے
کے بارے میں کہ عام طور پر نابالغ چھوٹے بچے دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے
ہیں تو کیا نابالغ بچوں کا یہ چیزیں خریدنا درست ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:سمجھ دار نابالغ بچہ اپنے ولی کی اجازت سے اشیاء کی خرید
و فروخت کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ غبنِ فاحش یعنی مارکیٹ ریٹ سے مہنگی چیز نہ خریدی ہو۔صدر الشریعہ، بدر الطریقہ
مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ
الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے
ہیں:”نابالغ کے تصرّفات تین قسم ہیں: نافعِ
مَحْض یعنی وہ تصرّف جس میں صرف نفع ہی نفع ہے جیسے اِسلام قَبول کرنا۔ کسی نے
کوئی چیز ہِبَہ کی (تحفہ دیا)
اس کو قبول کرنا اس میں ولی کی اجازت دَرْکار نہیں۔ ضارِّ مَحْض جس میں خالِص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّت ہو اگرچہ آخرت کے
اعتبار سے مفید ہو جیسے صدقہ و قرض، غلام کو آزاد کرنا، زوجہ کو طلاق دینا۔ اس کا
حکم یہ ہے کہ ولی اِجازت دے تو بھی نہیں کرسکتا بلکہ
خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تَصَرُّفات کو نافِذ کرنا چاہے نہیں
کرسکتا۔ اس کا باپ یا قاضی ان تصرّفات کو کرنا چاہیں تو یہ بھی نہیں
کرسکتے۔ بعض وجہ سے نافع (نفع مند ) بعض وجہ سے
ضار (نقصان دہ) جیسے بیع، اِجارہ، نکاح یہ اذنِ ولی (ولی
کی اجازت)
پر موقوف ہیں۔ نابالغ سے مراد وہ ہے جو خرید و فروخت کا مطلب سمجھتا ہو جس کا بیان اوپر گزر چکا اور جو اتنا بھی نہ سمجھتا ہو اوس کے
تَصَرُّفات ناقابلِ اعتبار ہیں۔“(بہارِ شریعت، 3/204، مکتبۃ المدینہ)