ذُوالْحِجَّۃ الْحَرَام کا مہینا کیا آتا ہے ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے،اس مہینے کی 10،11 اور 12تاریخ کو مسلمان اللہعَزَّوَجَلَّ کے پیارے خلیل حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم علٰی نَبِیِّنَاو علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی یا د تازہ کرنے کے لئے قُربانی کا اِہتمام کرتے ہیں۔ گلیوں، بازاروں اور شاہراہوں پر قُربانی کے جانور دِکھائی دیتے ہیں۔ قُربانی کے جانوروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے خوب نہلایا، سجایا اور چمکایا بھی جاتا ہے یقیناً اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اِنہیں نہلانے،جائز سجاوٹ کے ذَریعے سجانے اور چمکانے میں کوئی حرج بھی نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر ، گلی اور محلے کی صفائی و ستھرائی پر بھی خصوصی توجُّہ دینی چاہئے۔ عموماً گلی کوچوں میں جہاں جانور باندھے جاتے ہیں وہاں صفائی و ستھرائی کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا، کہیں جانوروں کا چارا بکھرا نظر آتا ہے تو کہیں گوبر کا ڈھیر ، اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے جانوروں کے مالکان کے جوتے اور لباس وغیرہ بھی نجاست سے آلودہ نظرآتے ہیں ۔

یاد رکھئے!اِنسانی طبیعت اپنے قُرب و جوار سے بہت جلد اَثر قبول کرتی ہے اور اَچھے یا بُرے ماحول کے اَثرات اِنسانی زندگی پر ضَرور مُرتب ہوتے ہیں لہٰذااِنسان کو چاہئے کہ وہ جس گھر ، محلے اور علاقے میں رہتا ہے اُسے صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کِردار اَدا کرے۔ گھر،محلے اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا مُعاشرے کے اَفراد کی نفاست،اچھے مزاج، پُر وقار زندگی اور خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ دِینِ اسلام نےاپنے ماننے والوں کو صاف ستھرا رہنے کا حکم دیا ہے، خواہ یہ صفائی جسمانی ہو یا روحانی ،فَرد کی ہو یا مُعاشرے کی ، گھر کی ہو یا محلے کی ، اَلغرض اِسلام جسم و روح ، دِل و دماغ اور قُرب و جوار کو صاف ستھرا رکھنے کا دَرس دیتا ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے: اللہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے ،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔

(ترمذی،4/365،حدیث:6808)

اِس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان لکھتے ہیں: ظاہری پاکی کو طہارت کہتے ہیں اور باطنی پاکی کو طیب اور ظاہری باطنی دونوں پاکیوں کو” نظافۃ“ کہا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ بندے کی ظاہری باطنی پاکی پسند فرماتا ہے بندے کو چاہئے کہ ہرطرح پاک رہے جسم،نفس،روح، لباس، بدن، اخلاق غرضیکہ ہر چیز کو پاک رکھے صاف رکھے، اقوال، افعال، احوال عقائد سب درست رکھے۔اللہ تعالیٰ ایسی نظافت نصیب کرے۔

(”اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو“ کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں:) یعنی اپنے گھر تک صاف رکھو لباس،بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو۔ (”یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو “ کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں:) کیونکہ یہود اپنے گھر کے صحن صاف نہیں رکھتے۔(مراۃ المناجیح،6/192 ملتقطاً)

خیال رہے کہ قربانی کا جانور ذَبح کرنے اور اس کا گوشت گھر لے جانے سے کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ گلی وغیرہ کی صفائی بھی ضَروری ہے ۔ قربانی کے جانور کی غلاظت وہیں چھوڑ دینے یا اِدھر اُدھر پھینکنے یا کسی اور کے گھر کے آگے ڈال دینے کے بجائے اس کا مناسب اِہتمام کیجئے تاکہ صفائی بھی ہو جائے اور کسی کی دِل آزاری بھی نہ ہو۔ یوں ہی قربانی کی کھالیں جمع کرنے والے اسلامی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ مسجد، گھر، دفتر اور مدرسے وغیرہ کی دَریوں، چٹائیوں اور دِیگر چیزوں کی صفائی و ستھرائی کا خیال رکھیں اور انہیں خون آلود ہونے سے بچائیں۔

عیدِ قربان کے اس پُرمسرت موقع پر میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ وہ اپنے گھر، گلی ، محلے اور اِرد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے پر بھرپور توجُّہ دیں اور گلی محلوں کو گندگی سے بدبودار کرنے کے بجائے خوشبوؤں سے مشکبار کرنے کی کوشش کریں ۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں ظاہر و باطن کی پاکیزگی نصیب کرے اور ہمیں صاف ستھرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم