موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس حاصل کرنا کیسا؟
موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس حاصل کرنا کیسا؟
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ موبائل کمپنیاں مختلف
قسم کے پیکجز دیتی رہتی ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں، ان ہی میں سے ایک پیکیج
لون(Loan) کا بھی ہے۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ اگر
آپ کے پاس بیلنس ختم ہوگیاہے تو کمپنی یہ آفر کرتی ہے کہ آپ لون لے لیں پھر جب آپ
موبائل میں بیلنس ڈلوائیں گے تو ہم نے جتنے دئیے ہیں وہ اور اتنے اوپر مزید کاٹ
لیں گے اور یہ بات کسٹمر کو معلوم ہوتی ہے اور کسٹمر راضی ہوکر لَون لیتا ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس میں زیادہ پیسے کاٹنا شرعاً جائز ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں
یہ سود ہے کیا یہ بات درست ہے ؟
الجواب بعون
الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
مذکورہ
معاملہ ہرگز سود نہیں بلکہ ایک جائز طریقہ ہے کیونکہ یہ اجارہ ہے قرض نہیں کہ یہاں
کمپنی سے پیسے وصول نہیں کئے جارہے بلکہ اس کی سروس استعمال کی جارہی ہے۔ عمومی
طور پر کمپنی پہلے پیسے لے لیتی ہے اور پھر سروس فراہم کرتی ہے جبکہ پوچھی گئی
صورت میں کمپنی پہلے سروس فراہم کررہی ہے اور پھر پیسے وصول کررہی ہے اور یہ دونوں
طریقے جائز ہیں یعنی منفعت فراہم کرنے سے
پہلے عوض لے لینا بھی درست ہے اور منفعت فراہم کرنے کے بعد عوض لینایہ بھی درست
ہے۔ اگرچہ پہلی صورت میں عوض کم وصول کیا جارہا ہے اور دوسری صورت میں عوض زیادہ
لیا جارہا ہے اور کمپنی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پیشگی سروس عام ریٹ سے ہٹ
کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کرے جیسے نقد و اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا جائز
ہوتا ہے نیز صارف کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ بعد میں ادائیگی کی صورت میں یہ سروس
مجھے عام قیمت سے ہٹ کر کچھ زیادہ قیمت پر فراہم کی جائے گی اور وہ اس بات پر راضی
ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سہولت کو لون
(Loan) کا نام نہ دیا جائے کیونکہ اس سے یہ شبہ لاحق ہوتا ہے کہ کمپنی
قرض دے کر اس پر نفع وصول کررہی ہے اور بعض لوگوں نے اسے سود سمجھ بھی لیا حالانکہ
اس کو سود سمجھنا غلط ہے کیونکہ کمپنی یہاں پیسے نہیں بلکہ سروس دے رہی ہے۔
تنویر
الابصار میں ہے : ’’ تملیک نفع بعوض‘‘یعنی
کسی شے کے نفع کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ ہے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار،9/32 مطبوعہ کوئٹہ)
ہدایہ میں
ہے: ’’تستحق باحدی معانی
ثلاثۃ اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ‘‘ یعنی تین میں سے ایک صورت کے پائے جانے سے مؤجر اجرت کا مستحق ہوگا،
پہلے دینے کی شرط کرلے، یا بغیر شرط کے پہلے اجرت وصول کرلے یامستاجر، اجارہ پر لی
گئی چیز سے فائدہ اُٹھالے۔ (ہدایہ،3/297
مطبوعہ کراچی)
امام کمال الدین ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں:’’الثمن علی تقدیر النقد الفا وعلی تقدیر النسیئۃ
الفین لیس فی معنی الربا‘‘ ترجمہ: نقد کی صورت میں ثمن ایک
ہزار ہونا اور اُدھار کی صورت میں دوہزار ہونا سود کے حکم میں نہیں۔(فتح القدیر،6/81 مطبوعہ کوئٹہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ