بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلق حرام ہے، قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے، بدمذہب بے دین سے ہر قسم کا تعلق توڑنا فرض ہے، اگر ہم کسی سے بغیر اجازت شرعی تعلق توڑیں گے تو حرام ہے تو اس کی مذمت قرآن و حدیث میں صراحت کیساتھ وارد ہے اللہ ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قطع تعلقی کی تعریف: شریعت میں جن سے صلہ (نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ان سے تعلق توڑنا قطع تعلق ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص 226)

فرامین مصطفیٰ:

1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑے، جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اور اس حال میں مر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ (ابو داود، 4/364، حدیث: 4914)

2۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمٰن ہوں اور میں نے رحم یعنی رشتہ کو پیدا کیا ہے اور اس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا پس جو اسے ملائے گا میں اسے ملائے رکھوں گا اور جو اس کو قطع کرے گا یعنی کاٹے گا میں اس سے قطع کروں گا۔ (ترمذی، 3/363، حدیث: 1914)

3۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بار مجلس میں تشریف فرما تھے انہوں نے فرمایا: میں قاطع رحم (رشتہ توڑنے والے کو) اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ یہاں سے اٹھ جائے تاکہ ہم اللہ سے مغفرت کی دعا کریں کیونکہ قاطع رحم پر آسمان کے دروازے بند رہتے ہیں یعنی وہ اگر یہاں موجود رہے گا تو رحمت نہیں اترے گی اور ہماری دعا قبول نہیں ہوگی۔ (معجم کبیر، 9/158، حدیث: 8793)

4۔ ہر جمعرات اور جمعہ کی رات بنی آدم کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں بس قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ (مسند امام احمد، 3/532، حدیث: 10276)

5۔ میرے پاس جبرائیل آئے اور عرض کی: یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اس میں اللہ نہ مشرک کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے، نہ دشمنی رکھنے والے کی طرف، نہ قطع رحمی کرنے والے کی طرف، نہ تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے کی طرف، نہ والدین کے نافرمان کی طرف اور نہ ہی شراب کے عادی کی طرف۔ (شعب الایمان، 3/383، حدیث: 3837)

معاشرتی نقصانات: قطع تعلقی سے لڑائی جھگڑی، حسد، تکبر، دنیا کی محبت، دوسرے کی عزت نفس کا خیال نہ کرنا اور علم دین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

قطع رحمی سے بچنے کی ترغیب: موت کو کثرت سے یاد کیجیے، گناہوں سے بچنے کا ذہن بنے، قطع تعلقی کی تباہ کاریوں پر غور کریں، طنز و تنقید کی عادت سے پیچھا چھڑائیے، اللہ کی عطا پر نظر رکھیے۔