شریعت میں جن سے صلہ یعنی نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع
تعلقی ہے۔
قطع تعلقی کی چند مثالیں: بلااجازت شرعی اپنے کسی رشتے دار سے بات چیت اور ملنا ختم کر دینا، کسی کو
کمتر سمجھتے ہوئے اس سے ملنا ختم کر دینا وغیرہ۔
قطع تعلقی کی مذمت میں فرمانِ باری تعالیٰ: فَهَلْ عَسَیْتُمْ
اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا
اَرْحَامَكُمْ(۲۲) اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) (پ 26، محمد: 22-23) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تمہارے
لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے
کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی
آنکھیں پھوڑ دیں۔
قطع تعلقی کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ:
1۔ قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا۔ (ترمذی، 3/364، حدیث: 1916)
2۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو شخصوں کی طرف قیامت کے دن رب تعالیٰ نظر
رحمت نہیں فرمائے گا: قطع رحمی کرنے والا اور برا ہمسایہ۔ (کنز العمال، 3/655)
3۔ بے شک بنی آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات کو پیش کیے جاتے ہیں اور قاطع رحم
کے اعمال قبو ل نہیں کیے جاتے۔ (شعب الایمان، 10/341)
4۔ دو گناہ ایسے ہیں جن کی سزا جلدی ہے اور معافی نہیں ہے: ظلم اور قطع رحمی۔
(شعب الایمان، 10/337) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ قطع رحمی سے بچیں اور صلہ رحمی کو
اپنائیں اس لیے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تجھ
پر ظلم کرے اسے معاف کر اور جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو۔ (شعب الایمان،
10/335)
نیز صلہ رحمی کرنے والے کی عمر میں اور رزق میں برکت و زیادتی ہوتی ہے، عزت
ملتی ہے، یہ دنیاوی فوائد ہیں جبکہ اخروی فوائد یہ ہیں کہ یہ دخول جنت کا سبب ہے،
رب تعالیٰ کی رضا ملتی ہے وغیرہ۔ اور قطع رحمی سے دنیا میں بھی نقصانات ہوتے ہیں،
مثلا لوگوں سے عداوت و دشمنی پیدا ہوتی ہے، ذلت و تنہائی میں مبتلا کر کے غموں میں
اضافہ کرتی ہے وغیرہ، اور آخرت میں بھی نقصانات و عذابات ملتے ہیں، مثلا رب تعالیٰ
کی ناراضگی کا سبب، اللہ کی رحمت سے دوری اور ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اس
لیے ہمیں اللہ کے عذابات سے ڈرتے ہوئے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو صلہ
رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین