شریعت میں جن سے صلہ رحمی یعنی نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی ہے۔

قطع تعلقی کی چند مثالیں: بلااجازت شرعی اپنے کسی رشتے دار سے بات چیت اور ملنا ختم کر دینا، قادر ہونے کے باوجود اس کی حاجت پوری نہ کرنا، کسی کو کمتر سمجھتے ہوئے اس سے ملنا ختم کر دینا۔

قطع تعلقی کے احکام: بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلقی حرام ہے، قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے، بدمذہب و بے دین سے ہر قسم کا قطع تعلق فرض ہے۔ آیت مبارکہ ہے: الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ۪-وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۲۷) (پ 1، البقرۃ: 27) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ " جس کا حکم اللہ نے دیا ہے" سے ایک مراد تعلقات جوڑنا ہے۔

وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مظہری میں ہے: یعنی تم قطع رحمی (یعنی رشتہ داروں سے تعلق توڑنے) سے بچو۔ اس حوالے سے فرامین مصطفیٰ ملاحظہ ہوں:

1۔ پیر اور جمعرات کو اللہ کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو اللہ آپس میں عداوت رکھنے اور قطع رحمی کرنے والوں کے علاوہ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (معجم کبیر، 1/167، حدیث: 409)

2۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/917، حدیث: 5984) تفہیم البخاری میں ہے کہ اس میں اختلاف نہیں کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

3۔ امانت اور صلہ رحمی کو بھیجا جائے گا تو وہ پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہو جائیں گی۔ (مسلم، ص 127، حدیث: 349) حکیم الامت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ ان دونوں وصفوں کی انتہائی تعظیم ہوگی کہ ان دونوں کو پل صراط کے آس پاس کھڑا کیا جائے گا شفاعت اور شکایت کے لیے کہ ان کی شفاعت پر نجات اور ان کی شکایت پر پکڑ ہوگی، اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ انسان امانت داری اور رشتے دارون کے حقوق کی ادائیگی میں ضرور احتیاط کو لازم پکڑے کہ ان دونوں میں کوتاہی کرنے پر سخت پکڑ ہے مگر ان کی شفاعت پر دوزخ سے نجات ہے ان کی شکایت پر وہاں گرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، ص 24)لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ قطع رحمی سے بچیں اگر ہمارا کوئی رشتہ دار ہم سے ناراض ہے تو خود آگے بڑھ کر اس سے معافی مانگ لیں کہ ایسا کرنے سے ثواب بھی ملے گا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت بھی کرے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر کوئی ہم سے تعلق قطع کر بھی رہا ہو تو ہم اس کو جوڑیں کہ اس کی بہت فضیلت ہے۔