الله پاک کے سب سے آخری نبی ، محمد عَرَبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ حق لائے اور مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ لوگ اسلام کی حقانیت سے متعارف ہوئے اور جن کے نصیب میں اسلام کی دولت سے مستفید ہونا تھا انھوں نے اسلام قبول کیا لیکن بعض لوگوں نے بظاہر تو کلمہ پڑھا لیکن دل سے ایمان نہیں لائے ، یہ وہ ازلی بدبخت منافقین تھے جو مسلمانوں کے حلیے میں ملبوس تھے ، زبان سے کہتے تھے کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے لیکن درحقیقت ان کے دل میں موجود نفاق کے سبب وہ ایمان نہیں لائے تھے ، منافقین کے اس عمل کو اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں یوں ذکر فرماتا ہے :

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ(۸) یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)

ترجمہ کنز العرفان: اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔ (پ1، البقرۃ: 8تا 10)

منافقوں کے دل کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ ( تفسیر صراط الجنان البقرہ آیت نمبر : 10)

منافقین کی چند مزید قرآنی مثالیں ملاحظہ ہوں:

(1) منافقین اور اصلاح: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۱۱) اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۱۲) ترجمہ کنز العرفان: اور جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔ سن لو:بیشک یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں (اس کا)شعور نہیں۔(سورہ بقرہ آیت نمبر 11 اور 12)

منافقوں کے طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں اور اسے اصلاح کا نام دیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ( تفسیر صراط الجنان ،البقرہ آیت نمبر 11-12 )

(2) منافقین کی مثال آگ جلانے کی سی ہے: مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) ترجمہ کنز العرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر 17-18 )

(3) منافقین کی مثال بارش کی سی ہے: اللہ تعالیٰ قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) ترجمہ کنز العرفان: یا (منافقین کی مثال) آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر 19)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان آیات سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم