احمدحسن
صدیق ( درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
اللہ تبارک
وتعالی نے بندوں کی ہدایت کیلیے کم وبیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیا کرام علیہم الصلوۃ
والسلام کو بھیجا جنہوں نے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی اور برائی سے منع کیا اسی طرح
اللہ تعالی نے آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں جو کہ بندہ کی راہنمائی کا ذریعہ ہیں
ان میں سے قران پاک جو اللہ پاک کی طرف سے محفوظ کلام ہے اس میں لوگوں کے لیے بے
شمار ہدایات اور نصیحتیں موجود ہیں جو کہ صراط مستقیم کا سبب بنتی ہیں زندگی کے
مختلف پہلوؤں میں قرآن پاک ہماری جا بجا راہنمائی کرتا رہتا ہے مختلف انداز میں
ہماری تربیت کرتا رہتا ہے کبھی واضح طور پر تو کبھی کنایہ الفاظ میں تو کبھی
مثالوں کے ذریعے اسی طرح قرآن پاک میں جہاں مثالوں کے ذریعے مختلف چیزوں کو
سمجھایا گیا ہے ان میں سے ایک منافقین بھی ہیں کہ جن کی نفاق اور ان کی عادت و
اطوار کو مثالوں کے ذریعے سمجھایا گیا ہے قران پاک میں مختلف جگہوں پر یہ مثالیں بیان کی گئی ہیں یہاں چند درج ذیل
ہیں:
(1)
ہدایت کے بعد اس کو ضائع کرنے والے : مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ
مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان:ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے
آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ
کچھ نہیں سوجھتا ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر: 17)
وضاحت : یہ ان
لوگوں کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اُس پر قدرت بخشی پھر
انہوں نے اسے ضائع کردیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ،ان کا انجام حسرت و افسوس
اور حیرت و خوف ہے اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل
میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کردیا ۔ (تفسیر صراط الجنان)
(2)
ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والے : اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ
مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹)ترجمہ کنزالایمان:یا جیسے آسمان سے اترتا پانی
کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں
کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر
19)
وضاحت :ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ
مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ
کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و
بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب
اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی
اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو
کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے
اور بیگانے، مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔
(3)
خوب باتیں بنانے والے:وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا
تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ
صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى
یُؤْفَكُوْنَ(۴)
اور جب تو انہیں دیکھے ان کے جسم تجھے بھلے
معلوم ہوں اور اگر بات کریں تو تو ان کی بات غور سے سنے گویا وہ کڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئی ہر بلند آواز
اپنے ہی اوپر لے جاتے ہیں وہ دشمن ہیں تو ان سے بچتے رہو اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ (پ28،
المنٰفقون:4)
وضاحت:عبد
اللہ بن ابی صحت مند، خوبْرُو اورخوش بیان آدمی تھا اور اس کے ساتھ والے منافقین
قریب قریب ویسے ہی تھے،جب یہ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو خوب باتیں بناتے
جو سننے والے کو اچھی معلوم ہوتی تھیں ،چنانچہ اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی
حقیقت بتائی گئی کہ اے مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللہ بن اُبی وغیرہ
کودیکھتے ہو توان کے جسم تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات
غور سے سنو گے حالانکہ حقیقت میں وہ ایسے ہیں جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی
لکڑیاں جن میں بے جان تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے۔