قراٰنِ مجید تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس کا ہر حکم حق اور علم و ‏حکمت کا انمول ‏موتی ہے۔ قراٰنِ کریم ایسی جامع کتاب ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی کرتی ہے۔ہر وہ شخص جس کے ‏دل میں ہدایت کی طلب ‏ہو اپنے فہم کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ قراٰنِ مجید نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر23سال کی ‏مدت میں حالات و واقعات اور ضروریات کے پیش نظر نازل ہوا۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ علیہ السّلام کا سامنا منافقین سے ہوا جو ‏اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرتے تھے، اللہ پاک نے مختلف مقامات پر منافقین کی سازشوں کو بے نقاب ‏کیا۔ آیئے! قراٰنِ کریم سے ملاحظہ ‏کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے منافقین کی منافقت، ان کے اعمال اور ان کے کردار کو کس ‏طرح بیان فرمایا ہے:‏

‏(1)منافقین کی مثال آگ روشن کرنے والے کی مثل ہے: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ ‏لَّایُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَایَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ‏آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کر دیا تو اللہ ان کا نور لے ‏گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا، ‏انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔(پ1، البقرۃ: 17، 18) ‏

یہ مثال ان منافقین کی ہے جنہوں نے ایمان کا اظہار کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو ‏مومن ہونے ‏کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی کہ جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق واضح کر دیا مگر ‏انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا اور ‏گمراہی اختیار کی اور جب وہ حق سننے، ماننے، کہنے اور راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان آنکھ ‏زبان سب بیکار ہیں۔(دیکھئے: خزائن العرفان، ص7)‏

‏(2)منافق آسمانی بجلی کی چمک میں حیران مسافر کی مثل ہیں: ‏﴿اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ ‏الْمَوْتِؕ-وَاللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَاِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ ‏قَامُوْاؕ-وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْؕ- اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)﴾ ترجمہ ٔ کنزالعرفان: یا (ان کی ‏مثال) آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے ‏موت ‏کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ‏ان ‏کی نگاہیں اچک کرلے جائے گی۔ (حالت یہ کہ) جب کچھ روشنی ہوئی تو اس میں چلنے لگے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو ‏کھڑے رہ ‏گئے اور اگراللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلَب کر لیتا۔ بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔(پ1،البقرۃ: 19، 20)‏

یہ دوسری مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے ‏تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی ‏چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے ‏وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور ‏اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے،مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔ منافقوں کی اسی طرح کی حالت ‏سورۂ نور آیت نمبر48 اور 49میں بھی بیان کی گئی ہے۔(صراط الجنان،1/83، 84)‏

‏(3)منافقین خشک اور بےکار لکڑی کی مثل ہیں: اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿وَاِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ ‏خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۴)﴾ ترجَمۂ کنز ‏العرفان: اور جب تم انہیں دیکھتے ہو تو ان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم ان کی بات غور سے سنو ‏گے(حقیقتاً وہ ایسے ہیں) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ ‏لیتے ہیں، وہی دشمن ہیں تو ان سے محتاط رہو، اللہ انہیں مارے، یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟(پ28،المنٰفقون:4) ‏

قراٰنِ کریم نے منافقین کو”خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ“ سے تشبیہ دے کر ان کی لغویت کو عیاں کر دیا خشب کا معنی لکڑی ہے جبکہ ‏مسندہ کا معنی جسے دیوار ‏کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا ہو جب تک لکڑی کار آمد ہوتی ہے اس سے شہتیر کڑی یا کواڑ وغیرہ بنائے ‏جاتے ہیں صرف بےکار لکڑی کو ‏دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ آگ جلانے کے کام آسکتی ہیں۔‏

مذکورہ بالا آیات میں اللہ پاک نے منافقین کی حقیقت کو عیاں فرمایا ہے مختلف مثالوں سے اور ان کے اعمال بھی کفار کے ‏اعمال کی ‏طرح بے وقعت ہیں کیونکہ جب کوئی منافق مرتا ہے تو اس کے ساتھ کافر والا معاملہ ہی پیش آتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں منافقوں جیسے اعمال سے بچنے اور قراٰنِ کریم پڑھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‏ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم