علمائے کرام کی شان اور فوائد سب لوگ جانتے ہیں اسی طرح علمائے كرام كی صحبت
کے فوائد بہت ہیں، اگر تاریخ میں نظر ڈالی جائے تو بے شمار واقعات ایسے ملتے ہیں
جن سے علمائے کر ام سے کسی کا ایمان بچ جاتا ہے یا کسی کو ولایت کا مرتبہ حاصل
ہوجاتا ہے یا کسی کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل
ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں ایک حکایت
آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ
علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف
آرہے تھے کہ راستے میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کررہا تھا کہ اس کو لوٹ
لے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا ، تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا کہ کہ دیہاتی ہوں
، مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نےکشف کے ذریعے ا س
کی مصیبت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا، شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ
علیہ ہیں، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا علم ہوگیا اور آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا۔ میں عبدالقادر ہوں۔
تو وہ چور سنتے ہی
فورا آپ رحمہ اللہ علیہ کے مبارک قدموں پر
گر پڑا اور اس کی زبان پر ”اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پر رحم فرمائیے جاری
ہوگیا“، آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کی اصلاح کے لیے بارگاہِ الہی میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی ، اے عبدالقادر
اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب
بنادو،، چنانچہ آپ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجے پر فائز ہوگیا۔
اس حکایت سے
عبدالقادر کی شان اور علمائے کرام کی صحبت کے فوائد واضح ہوگئی ۔
فوائد:
ایمان کی حفاظت ہوتی ہے۔
علم حاصل ہوتا ہے۔
نیک کام کرنے کی او ر گناہ سے بچنے کی توفیق
ملتی ہے ۔
اللہ او راس کے رسول صلی
اللہ تعلی علیہ وسلم کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
حلال کمانے اور حرام سے بچنے کا ذہن لتا ہے
۔
لڑائی اور جھگڑے ، جھوٹ غیبت، گالی گلوچ
وغیرہ سے بچنے اور در گزر ، معا ف کرنے، ایثار کرنے کے جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں