قر آن مجیدکی سو رۃ فا طر کی آیت نمبر28میں اللہ تعالی نے فر ما یا: اہل علم نے کہا یہ آیت
علماء کی شان بیان کر تی ہے اور اس امتیاز کو حاصل کر نے کیلئے اللہ سے تقوی اور خشیت ضروری ہے۔ یا د رکھو کہ علم
محض جان لینے کا نام نہیں خشیت و تقوی کا نام ہے۔ عالم وہ ہے جو رب سے تنہائی میں
ڈرے اور اس میں رغبت رکھے اور اس کی نا راضگی سے بچے۔ سورہ زمرمیں اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا: پو چھو بھلا علماء اور جہلاء
برابر ہو سکتے ہیں؟ حا لا نکہ نصیحت تو عقلمند ہی حا صل کر تے ہیں۔ فضیلت علم و
علماء کا باب امام بخاری نے کتاب العلم میں قا ئم کیا ہے۔ باب العلم قبل القول
والعمل اس میں حضر ت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ
کی روایت ذکر کی کہ جو کوئی حصول علم کیلئے نکلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے(مسلم)
حضر ت سیدنا کمیل بن زیاد علیہ رحمۃ رب العباد سے مر وی ہے کہ ایک دن امیر المومنین مولا مشکل
کشا ، شہنشاہ اولیا حضرت سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم میرا ہا تھ پکڑ کر ایک قبر ستان کے کنا رے چلنے
لگے یہاں تک کہ جب ہم ایک کھلے میدان میں پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایک جگہ بیٹھ کر سا نس لینے لگے۔ پھر کچھ دیر
بعد فر مانے لگے:’’اے کمیل بن زیاد!دل بر تنوں کی طرح ہیں اور ان میں بہتر ین دل
وہ ہے جو بات کو زیادہ یاد رکھے۔ یہ بات یاد رکھو!کہ لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:
1۔ عالم ربانی 2۔ راہ نجات پر چلنے والا طالب علم دین
اور 3۔ وہ بے وقوف اور جاہل لوگ جو ہر سنی سنائی بات کی پیروی کرنے لگ جا تے ہیں،
ہر ہوا کے ساتھ بدل جاتے ہیں،نور علم سے اپنے قلب و باطن کو روشن کرنے سے محروم
رہتے اور کسی مضبوط ستو ن کو ذریعہ حفا ظت نہیں بناتے ہیں۔علم مال سے بہتر ہے، علم
تیری حفاظت کر تا ہے جبکہ ما ل کی تجھے حفا ظت کر نی پڑ تی ہے۔ علم پھلانے سے
بڑھتا ہے جبکہ مال خرچ کرنے سے گھٹتاہے۔
عا لم سے لوگ محبت
کرتے ہیں۔ عالم علم کی بدولت اپنی زند گی میں اللہ عزوجل کی ا طا عت بجالا تا ہے۔ عالم کے مر نے کے بعد بھی اس
کا ذکر خیر با قی رہتا ہے جب کہ ما ل کا فا ئدہ اس کے زوال کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا
ہے اور یہی معاملہ مالداروں کا ہے کہ دنیامیں مال ختم ہو تے ہی ان کا نام تک مٹ
جاتا ہے اس کے برعکس علماء کا نام رہتی دنیا تک با قی رہتا ہے۔
ما لداروں کے نا م لینے والے کہیں نظر نہیں آ تے جبکہ
علما ئے دین کی عزت اور مقام ہمیشہ لو گوں کے دلوں میں قائم رہتی ہے۔ ہا ئے افسوس!
پھر آپ رضی
اللہ تعالی عنہ نے ہا تھ سے اپنے سینے
کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایا:
یہاں ایک علم ہے
کا ش تم اسے اس کے اٹھانے والوں تک پہنچا دو، ہا ں تم اسے ذہین و فطین کو پہنچا دو
گے جس پر اطمینا ن نہیں رہا، دین کو دنیا کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے یا پھر وہ
اہل حق کے سا منے تو سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے لیکن اس میں کوئی بصیرت نہیں۔ ایسے
علم والے کے دل میں پہلی ہی دفعہ شک جگہ بنا لیتا ہے نہ اسے کامیا بی ملتی ہے اور
نہ ہی دوسرا کامیاب ہوتا ہے جسے یہ علم سکھاتا ہے۔ وہ لذات و خواہشات میں منہمک
رہتا ہے۔ شہوات کی زنجیر وں میں جکڑ ا ہوتا ہے یا مال ودولت کے جمع کرنے میں لگا
رہتا ہے اور یہ دونوں شخص دین کی طرف بلانے والے نہیں ان دونوں کی مثال تو چرنے
والے جانور کی سی ہے۔ اس طرح علم بھی ایسے لوگوں کے ساتھ مرجاتا ہے مگر اللہ جانتا ہے کہ زمین اللہ کے حق کو دلائل کے ساتھ قائم کرنے والوں سے کبھی خالی
نہیں ہوتی تا کہ اللہ کی حجتیں اور اس کے واضح دلائل ضا ئع نہ ہو جا
ئیں۔ایسے نفوس قدسیہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے لیکن اللہ کے ہا ں ان کی قدرومنزلت بہت زیادہ ہے۔ ان کے ذریعے اللہ اپنی حجتوں کا دفاع فرماتا ہے یہاں تک کہ پھر
ان کی مثل لوگ آکر ان کی جگہ یہ فر یضہ انجام دیتے ہیں اور وہ ان کے دلوں میں شجر
حق کی آ بیاری کرتے ہیں پھر حقیقی علم ان کے پاس آتا ہے جس سے جاہلوں کو وحشت
ہوتی ہے انہیں اس سے انسیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے جسم تو دنیا میں ہوتے ہیں لیکن ان
کی روحیں اعلی منا ظر کے سا تھ معلق ہوتی ہیں۔ یہی لوگ اللہ کے شہروں میں اس کے نائب اور اس کے دین کی دعوت دینے
والے ہیں۔
آہ!آہ! ان کی زیارت کا کس قدر شوق ہے! میں اللہ عزوجل سے اپنی اور آپ کی بخشش کا سوال کرتا ہوں۔ اب
اگر تم چاہو تو کھڑ ے ہو جائو(کتا ب کا نام اللہ والوں کی با تیں جلد :۱ )
حضر ت ابو امامہ با ہلی رضی اللہ تعالی عنہ فر ما تے ہیں ، حضو ر پُر نو ر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی با رگاہ میں دو آدمیو ں کا ذکر کیا گیا، ان
میں سے ایک عالم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو حضو ر اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: "عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی
پر ہے پھر سر کا ر دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرما یا " اللہ تعا لی ، اس کے فر
شتے ، آسمانو ں اور زمین کی مخلوق حتی کہ چیو نٹیا ں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیا
ں، لوگوں کو دین کا علم سکھا نے والے پر درود بھجتے ہیں (تر مذی ، کتاب الجنا ئز ،۱۱۔باب ، ۲/۲۹۶، الحدیث
: ۳۹۵ ، صراط الجنا ن جلد نمبر ۸ صفحہ
نمبر ۴۴۰۔)
یہ ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علماء کی وجہ سے لوگ
ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوم خیبر میں حضرت علی اللہ تعا لی عنہ کو جھنڈا دیتے ہو ئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے
سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دو اگر آدمی کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ
سرخ اونٹو ں سے بھی زیا دہ قیمتی متا ع ہو گی۔علما میں سے اہل تقو یٰ علمائے باطن اور دل والوں کی
فضیلت کے معترف تھے۔ چنا نچہ ،
حضرت سید نا
امام شا فعی علیہ
رحمۃ اللہ الکافی شیبا ن راعی کے
سا منے اس طر ح بیٹھے جس طر ح طالب علم مکتب میں بیٹھتا ہے اور پو چھتے کہ " اس
معاملے کا حکم کیا ہے ؟" کسی نے آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ سے عرض کی : " حضور ! آپ جیسا عظیم شخص اس بدوی
سے پو چھتا ہے؟" فر ما یا : "
بے شک اسے اس چیز کی تو فیق ملی ہے جس سے ہم غا فل ہیں۔"
حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل علیہ رحمۃاللہ اور حضرت سید نا یحییٰ بن معین علیہ رحمۃ اللہ المبین حضرت سید نا معروف کر خی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پا س آ تے جا تے اور ان سے مسا ئل پو چھتے
تھے حا لا نکہ وہ علم ظاہر میں ان دونوں کے ہم مرتبہ نہیں تھے اور ایسا کیونکر نہ
ہو کہ جب آقائے دو عالم ، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خد
مت میں عر ض کی گئی کہ اگر ہمیں کو ئی ایسا معاملہ در پیش ہو جس کا حکم کتاب و سنت
میں نہ پائیں تو کیا کریں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: " نیک لو گوں سے پو چھ لیا کرو اور ان سے مشورہ کیا کرو۔"
اسی
وجہ سے کہا گیا ہے کہ علمائے ظا ہر زمین اور ملک کی زینت ہیں جبکہ علمائے باطن آ
سما نو ں اور ملکوت کی زینت ہیں( احیا ء العلوم جلد نمبر : ۱ )
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں