فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجےمگر مرد جن کی طرف ہم وحی
کرتے تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ۔(سورۃ النحل ، آیت ، 43)
ایک عالم کی صحبت کی اہمیت کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:اعمال میں جلدی
کرلو اندھیری رات کی طرح فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے ،آدمی صبح کو مؤمن ہوگا اور
شام کو کافر ،اور شام کو مؤمن ہوگا اور صبح کوکافر ، آدمی اپنے دین کو دنیا کے
فائدے کے بدلے بیچ دے گا ۔(صحیح مسلم )
اسی طرح اس
مفہوم کی روایت دیگر صحابہ سے بھی ثابت ہیں۔
اب انسان
سوچتا ہے کہ عقل انسانی تو دن بدن ترقی کرتی جارہی ہے تو بھلا یہ کیوں اور کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کا شعور اتنا گر جائے
لوگ ایک دن میں متعدد بار اپنا دین بدلیں گے تو اسکی ایک وجہ تو حدیث میں مال کا
فتنہ بیان ہوئی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
کہ علم اٹھ جائے گا اورجہالت ،زنا اور شراب نوشی بڑھ جائے گی ،آدمی کم ہوجائیں گے
اور عورتیں بڑھ جائیں گی حتی کہ 50عورتوں کا ایک ہی نگران ہوگا ۔(صحیح بخاری )
اب علم کیسے
اٹھے گا ؟دوسری حدیث میں فرمایا: اللہ تعالی
لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر علم نہیں نکالے گا بلکہ علم چلاجائے گا علماء کے چلے
جانے سے ،حتی کہ کوئی عالم باقی ہی نہیں رہے گا ،پھر لوگ اپنے رہبر و پیشوا جہال
کو بنالیں گے ،لوگ ان سے مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے ،ایسے
لوگ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کر ڈالیں گے ۔(صحیح بخاری)
اس حدیث سے
علماء کی صحبت کی اہمیت بالکل واضح ہوگئی ،ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ غیر عالم
کو وہ حیثیت و مرتبہ دے دینا جو ایک عالم کا ہونا چاہئے اور ایسے لوگوں کی صحبت
اختیار کرنا گمراہی کا سبب ہے۔
عالم کی صحبت
کے فوائد تو احادیث کی روشنی میں واضح ہوگئے ،اب ایک ایسا انسان جو عالم تو نہیں
مگر نیک ہے اس کی صحبت بھی مفید ہے، چنانچہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الْمُؤْمِنُ
مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ یعنی مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے آئینہ کی طرح ہے ۔
(سنن ابوداؤد)
قارئین خود ہی
اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ایسے مؤمن کی صحبت اختیار کی جائے گی اور ہر مؤمن ایسا
بننے کی کوشش کرے گا تو ایسی صحبت کس حد تک مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
اسی طرح ایک
نیک مؤمن انسان کی صحبت کے حوالے سے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے ،چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ،
یعنی
: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا سوائے مؤمن آدمی کے کسی کی صحبت مت اختیار کر، اور تیرا کھانا سوائے پرہیزگار
کے کوئی نہ کھائے۔(سنن ابوداؤد )
لہذا ہماری
حد درجہ ترجیحی بنیادوں پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری صحبت اور ہمارے اہل مجلس
علماء ہوں ،یا کم از کم نیک صالح مؤمن کی صحبت ضرور اختیار کی جائے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں