فرمانِ مصطفی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے، عالم کی زیارت کرنا، اس کے
پاس بیٹھنا، اس سے باتیں کرنا اور اس کے ساتھ کھانا عبادت ہے۔( فردوس الاخبار2/375۔ حدیث 7119)
مشہور مقولہ ہے ”الصحبة الموثرۃ“یعنی محبت اثر اندازہوتی ہے، علمائے
کرام کی صحبت سے بے شمار فوائد ملتے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں ۔
علم کے موتی ملتے
ہیں۔
عقائد و اعمال کی
اصلاح ہوتی ہے،
کردار و افکار میں
پاکیزگی آتی ہے
اخلاق و عادات اچھے
ہوتے ہیں۔
طبیعت میں عاجزی و
انکساری پیدا ہوتی ہے۔
ایمان کی حفاظت کا
ذہن ملتا ہے۔
عبادت کا ذوق ملتا ہے،
اللہ کی معرفت اور رضا کا جام ملتا ہے
خوف خدا عشقِ الہی و
عشقِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ملتا ہے۔
گناہوں کے امراض سے
شِفا ملتی ہے۔
علم پر عمل کا جذبہ
ملتا ہے۔
اسی لیے تو کہا جاتا
ہے۔
صحبت صالح ترا صالح
کنت
صحبت طالع ترا طالع
کند
یعنی اچھوں کی صحبت
اچھا اور بروں کی صحبت برا بنادیتی ہے۔
امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں علما کی صحبت اختیار کرکے اللہ کی رحمت پلک جھپکنے کی مقدار بھی جدا نہیں ہوتی۔( نصیحتوں
کے مدنی پھول بوسیلہ احادیث رسول ص 16)
قرآن پاک میں اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
تَرجَمۂ کنز الایمان:اے لوگوں اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو (پارہ 14
سورہ النحل آیت 43)
علما کی صحبت سے اس
آیت کریمہ پر عمل کی توفیق ملتی ہے علما کی صحبت سے وہ علم حاصل ہوتا ہے جو
سینکڑوں کتب کے مطالعے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
حضرت حسن بن علی رضی
اللہ عنہ کا ارشاد ہے :جو شخص علما ءکی مجلس میں کثرت سے شریک ہوتا
ہے اس کی زبان کی رکاوٹ دور ہوجاتی ہے ، ذہن کی الجھنیں ختم ہوجاتی ہیں، جو کچھ وہ
حاصل کرتا ہے وہ اس کے لیے باعث مسرت ہوتا ہے اس کا علم اس کے لیے ایک ولایت ہے
اور فائدہ مند ہوتا ہے۔( مکاشفۃ القلوب ، باب 87 ص557)
تفسیر کبیر میں ہے
عالم کی صحبت میں حاضر ہونے میں کم از کم سات فائدے ہیں، خواہ علم حاصل کرے یا نہ
کرے۔
۱۔ وہ شخص طالب علموں
میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کا سا ثواب پاتا ہے۔
۲۔جب تک اس کی مجلس
میں بٹھا رہے گا گناہوں سے بچا ر ہے گا۔
۳۔ جس وقت یہ اپنے
گھر سے طلبِ علم کی نیت سے نکلتا ہے ہر قدم پر نیکی پاتا ہے۔
۴۔ علم کے حلقے میں
رحمتِ الہی نازل ہوتی ہے جس میں یہ بھی شریک ہوجاتا ہے۔
۵۔ یہ علم کا ذکر
سنتا ہے جو کہ عبادت ہے۔
۶۔ وہاں جب کوئی مشکل
مسئلہ بنتا ہے جو اس کی سمجھ میں نہیں آتا اور اس کا دل پریشان ہوتا ہے تو حق
تعالیٰ کے نزدیک منکسیر القلوب (عاجز و بے بس لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے)
۷۔ اس کے دل میں علم
کی عزت اور جہالت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔( تفسیر کبیر پارہ ۱، سورة البقرہ تحت
آلایہ 31۔ 103/۱)
چنگے بندے دی محبت
یارو جویں دکان عطاراں
سودا بھاویں مل نہ
لئے ہلے آوزڑں ہزاراں
نوٹ: یہ
مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ
اس کا ذمہ دار نہیں