حضرتِ سیدنا حاتم اصم  رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا شقیق بلخی علیہ الرحمۃ القوی کے شاگرد تھے، ایک دن استاد صاحب نے ان سے پوچھا۔ آپ 30 سال سے میر ی صحبت میں ہیں اتنے عرصے میں کیا حاصل کیا؟ تو حضرت سیدنا حاتم علیہ الرحمۃ نے عرض کی۔ ’’ میں نے علم کے 8 فوائد حاصل کیے جو میرے لیے کافی ہے اور مجھے امید ہے کہ ان پرعمل کی صورت میں میری نجات ہے۔ حضرت سیدنا شقیق رحمۃ اللہ علیہ نے ان فوائد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فوائد یوں بیان کیے ج،ان میں سے چند یہ ہیں۔

پہلا فائدہ :

میں نے لوگوں کو بنظرِ غور دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی محبوب و معشوق ہے، جس سے وہ عشق و محبت کا دم بھرتا ہے، لیکن لوگوں کے محبوب ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ مرض الموت تک ساتھ دیتے ہیں اور کچھ قبر تک پھر تمام واپس لوٹ جاتے ہیں اور اسے قبر میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں او ران میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہیں چاتا، لہذا میں نے غور غور و فکر کے بعد دل میں کہا، بندے کا سب سے اچھا محبوب اور بہترین دوست تو وہ ہے جو اس کے ساتھ قبر میں جائے اور وہاں کی وحشت و گھبراہٹ میں اس کا غم خوار بنے، تو مجھے سوائے نیک اعمال کے کوئی اس قابلِ نظر نہ آیا تو میں نے نیک اعمال کو اپنا محبوب بنالیا، تاکہ یہ میرے لئے قبر میں چراغ بن جائے، وہاں میرا دل بھلائے اور مجھے تنہا نہ چھوڑے۔

دوسرا فائدہ :

میں نے دیکھا کہ ہر آدمی دنیا کا مال و دولت جمع کرنے اور اسے ذخیر ہ کرنے میں مشغول ، تو میں نے اللہ عزوجل کے اس فرمان ِلازوال میں غور کیا۔ مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ- ترجمہ کنزلایمان:جو تمہارے پاس ہے ہوچکے گا اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔(پ ۱۴،النحل ۔۹۶)

پس میں نے جو کچھ جمع کیا تھا اللہ عزوجل کی رضا کے لیے فقرا ء و مساکین میں تقسیم کردیا تاکہ رب کریم عزوجل کے پاس ذخیرہ ہوجائے۔(اور مجھے فائدہ پہنچے)

تیسرا فائدہ :

میں نے دیکھا کہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور نفسانی خواہشات کی جانب بڑی تیزی سے بڑھتے ہیں، تو پھر میں نے اللہ عزوجل کے اس فرمان پر غور کیا۔ وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا ۔ تو بے شک جنّت ہی ٹھکانا ہے( النٰزعٰت،40،41)

اور میرا ایمان ہے کہ قرآن کریم حق اور اللہ عزوجل کا سچا کلام ہے، پس میں نے اپنے نفس کی مخالفت شروع کردی، ریاضت اور مجاہدات کی طرف مائل ہوا اور نفس کی کوئی خواہش پوری نہ کی یہاں تک کہ وہ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے راضی ہوگیا اور اپنا سر جھکا دیا۔

چھٹا فائدہ :

میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کی برائی بیان کر تے ہیں اور خوب غیبت کا شکار ہوتے ہیں، اس کے اسباب پر غور کیا تو معلوم ہوا تو یہ سب حسد کی وجہ سے ہورہا ہے، اور اس حسد کی اصل وجہ شان و عظمت ، مال و دولت اور علم ہے تو اس میں نء قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں غور کیا۔ -نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (۳۲) تَرجَمۂ کنز الایمان: ہم نے اُن میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا(الزخرف ، 32)

تو میں نے اس بات کو باخوبی جان لیا، شان و عظمت کی تقسیم اللہ عزوجل نے ازل سے فرمادی ہے، اس لیے میں کسی سے حسد نہیں کرتا۔ اور رب کریم عزوجل کی تقسیم و تقدیر پر راضی ہوں۔

جب حضرت شقیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ ۸ فوائد سنے تو ارشاد فرمایا: اے حاتم اللہ عزوجل آپ کو ان پر عمل کرنے کی توفیق سے مالا مال فرمائے، میں نے تو رات ، انجیل ، زبور اور قرآن مجید کی تعلیمات میں غور کیا تو ان تمام کتابوں کو ان فوائد پر مشتمل پایا تو جو خوش نصیب ان پر عمل کرے تو گویا اس نے ان چاروں کتابوں پر عمل کیا۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں