صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
نیک
لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے برے لوگوں کی صحبت برا بنا دیتی ہے ۔
قرآن پاک میں ہے*إِنَّمَا
يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔۔ترجمة اللہ عزوجل سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں
حدیث*ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم اس کے متعلق
کیا ارشاد ہے جو کسی قوم سے محبت رکھتا ہے اور ان کے ساتھ ملا نہی یعنی ان کی صحبت
حاصل نہی ہوئ یا اُس نے اِن جیسے اعمال نہی کیے تو ارشاد فرمایا آدمی اس کے ساتھ
ہے جس سے اسے محبت ہے(صیح البخاری؛حدیث؛٦١٦٩،ج،4،صحفہ148) اس حدیث معلوم ہوتا ہے
کہ اچھوں سے محبت اچھا بنادیتی ہے اور اس کا حشر اچھو ں کے ساتھ ہوگا اور بدوں کی
محبت برا بنادیتی ہے اور اس کا حشر ان کے ساتھ ہوگا۔
ایک عالم کی صحبت کے بڑے فوائد ہیں کہ انسان اس
سے بہت کچھ دینی معلومات کے حوالے سے سیکھ
کر نہ صرف اسے خود اختیار کر سکتا ہے بلکہ دوسروںس کی نجات کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔
حدیث :بڑو ں
کے پاس بیٹھا کرو علماء سے باتیں پوچھا کرو اور حکما سے میل جول رکھو (الجامع الصغیر
؛الحدیث: ٣۵٧٧،صحفہ ٢١٨)
رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: ’’اچھی مجلس اور بُری مجلس کی مثال
اس طرح ہے جیسے خوشبو بیچنے والا اور بھٹی جھونکنے والا۔ خوشبو بیچنے والا یا تو
تمہیں خوشبو دے گا یا تم اس سے خوشبو خرید لو گےیا تم اس سے پالو گے اور بھٹی
جھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلائے گا، یا تم اس سے بُری بُو پالوگے ‘‘۔
اللہ
تعالی
کے نیک بندوں کی صحبت میں رہنا چاہیے، ان کی محفلوں میں شریک ہونا چاہئے، اس کے بے
شمار فائدے ہیں، انسان تو ظاہر ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ،جانور بھی بزرگوں کی
صحبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے اصحاب کہف کا کتا ان کی صحبت میں رہ کر ان کے قصہ
کا جزء اور حصہ بن گیا اور قرآن کریم نے اصحاب کہف کے
ساتھ ان کے کتے کا بھی ذکر کیا ہے ۔
اور علماء کی
صحبت سے نیکی اور بدی کی پہچان ہوگی علماء کی صحبت کی برکت سے خوف خدا میں اضافہ
ہوگا اور علماء کی صحبت سے نماز روزہ حج زکاة درست ہوتی ہے علماء کی صحبت سے ایمان
کی حفاظت ہوتی ہے اور جنت میں جب جنتیوں کو حکم ہوگا کی مانگو تو سب علماء سے سوال
کریں گے کہ کیا مانگیں اس وقت بھی لوگ
علماء کے محتاج ہونگے۔
امیر اہلسنت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہے کہ بزگوں کا مقولہ ہے کہ علماء ہی
انسان ہے۔
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں