صحبت  ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو نیک راہ پربھی چلا سکتی ہے، اللہ کے قریب بھی کرسکتی ہے دور بھی ، صحبت کا اثر حق ہے اس لیے ایسی صحبت اختیار کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردے اور آج کے دور میں وہ صحبت علمائے کر ام کی ہے اس لیے علمائے کرام کی صحبت کا حکم دیا گیا، علمائے کرام کی صحبت کے بہت فوائد ہیں ادنی فائدہ یہ ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والا گناہ پر قائم نہیں رہتا ہے توفیق تو بہ مل جاتی ہے اور شقاوت سعادت سے تبدیل ہوجاتی ہے۔(بخاری کی روایت ج۲، ص ۹۴۸)

اس کو یوں سمجھو کہ آگ کے پاس بیٹھو گے تو حرارت ملے گی برف کے پاس بیٹھو گے تو ٹھنڈک پہنچے گی اور عطار کی دکان پربیٹھنے سے خوشبو اور کوئلے کی دکان پربیٹھنے سے خوشبوؤں اور کوئلے کی دکان پر بیٹھنے سے کپڑے سیاہ ہوں گے ایسے ہی علمائے کرام کے پاس بیٹھو گے تو علم میں اضافہ ہوگا اور رب کے قریب ہونگے اس لیے مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :کہ جو خدا کی بارگاہ میں بیٹھنا چاہے وہ خدا کے محبوبوں کے پاس بیٹھے اس کو خدا کی بارگاہ میں بیٹھنے کے نظارے آئیں گے۔

جو اللہ کے پاس بیٹھنے کی لذت پانا چاہے وہ علمائے كرام کے پاس بیٹھے ،اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ کنزالایمان، اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔(التوبہ 119)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں علمائے کرام کی مجلس سے الگ نہ رہو اس لیے کہ اللہ عزوجل نے روئے زمین پر علمائے کرام کی مجلس سے مکرم کسی کو پیدا نہ فرمایا اس لیے ہمیں ایسی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو دین و دنیا آخرت میں ہمیں فائدہ پہنچائے اور وہ علمائے کرام کی صحبت ہے جس طرح قطرہ دریا میں مل کر دریا ہوجاتا ہے اور علمائے کرام کی صحبت کا فائدہ یہ ہے کہ علمائے کرام کی صحبت ناقص کو کامل بنادیتی ہے اس لیے علمائے کرام کی صحبت اختیار کرنا چاہیے کہ ا سکے بہت فائدے ہیں کہ ہمیں اپنے دین کے بارے میں وہ علم ملتا ہے جو شاید ہم نہیں جانتے او ر اس علم کی بدولت ہم اپنے دین کو پہنچانے گے، بلکہ ان کی صحبت کی وجہ سے صحیح غلط حق و باطل میں فرق کرسکیں گے اپنی تمام فرائض و اجبات حقو ق اللہ بھی صحیح ادا کر پائیں گے جیسا کہ ان کو اد اکرنے کا حق ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں کے پاس بیٹھنا نصیب فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں