کسی بھی چیز کی مثال بیان کرنے کا مطلب کسی ایسے جزئیہ کوبیان کرنا جو اس چیز کی وضاحت کیلئے ہو اورمثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے۔اورمثال اپنےممثل لہ کا عین یا غیر ہے ۔صوفیا فرماتے ہیں کہ مثال اپنے ممثل لہ کا عین ہے،جبکہ اہل شرع کے نزدیک غیر ہے ۔اوربعض نے کہا نہ عین ،نہ غیر ہے۔اورمثال میں کامل مشابہت کاہونا ضروری ہے ۔کیونکہ کثرت حروف کثرت معنی پر دلالت کرتے ہیں ۔مثل اور مثال یہ نصوص میں دوالفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ان میں کچھ فرق ہے کہ مثل تمام اوصاف میں مشترک ہوتی جبکہ مثال کسی ایک وصف میں مشترک ہویانہ ہو۔کسی بھی چیز کومثال سے بیان کرنے میں سنت الہیہ وسنت نبویہ بھی ہے۔کہ قرآن مجیدواحادیث کریمہ میں کئی مقامات پر مثالوں کے دریعے بات کوسمجھایا گیاہے ۔جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:

وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ (۱۷۱)ترجمہ کنزالایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔ (پ2، البقرۃ: 171)

اس آیت میں کافروں کی مثال بیا ن فرمائی گئی کہ جس طرح جانوروں کا ایک ریوڑ ہو اور ان کا مالک انہیں آواز دے تو وہ محض ایک آواز تو سنتے ہیں لیکن مالک کے کلام کا مفہوم نہیں سمجھتے، یونہی کافروں کا حال ہے۔

اوراب احادیث کی طرف آتےہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں کے ذریعے کیسی تربیت فرمائی ۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث پاک حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن میں پانچ نمازیں پڑھنے والے کی مثال اس طرح ہے کہ تمہارے دروازے کے سامنے جاری نہر میں دن میں پانچ مرتبہ نہائے۔فرمایا کیااس میں کوئی میل باقی رہے گی ؟ (یعنی نمازی بھی اسی طرح گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ کی میل نہیں ہوتی ۔) (المسلم،مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيری النيسابوری (المتوفى: 261ھ)،رقم٢٨٤،ج١،ص٤٦٣،دار إحياء التراث العربی بيروت)

اور صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنگترے کی طرح ہے جسکا ذائقہ وبو اچھی ہے ۔قرآن پاک نہ پڑھنے والے کی مثال کھجور کی طرح ہے کہ جسکی بو نہیں لیکن ذائقہ میٹھا ہے ۔اورقرآن پاک پڑھنے والے منافق کی مثال ریحانہ کی طرح ہے جسکاذائقہ کڑوااور بو اچھی ہے۔اور قرآن پاک نہ پڑھنے والے منافق کی مثال حنظلہ کی طرح ہے جس کیلئے بو نہیں اور ذائقہ کڑوا ہے۔( صحيح بخاری،الامام البخاری الجعفی،رقم٥٤٢٧،ج٧،ص٧٧،دار طوق النجاة)

اس حدیث پاک میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مومن ومنافق قرآن پڑھنے ونہ پڑھنے والے کے درمیان بڑے احسن وسہل مثالوں کے ساتھ فرق فرمایا ہے۔

تیسیر بشرح جامع الصغیر میں ایک حدیث پاک حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ مومن کی مثال عطار(عطربیچنے والا)کی طرح ہے کہ اوراگر اسکے ساتھ چلے توتجھے نفع دےاوراگر اسکاشریک ہو توتجھے نفع دے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک میں علماوصلحا کی صحبت کی طرف راہنمائی فرمائی گئی ہے ۔کیونکہ اس میں دنیاوآخرت کانفع ہے۔ (التيسير بشرح الجامع الصغير،الامام المناوی القاهری (المتوفى: 1031ه)،ج٢،ص٣٧٢،مكتبۃ الامام الشافعی الرياض)

اورصحیح البخاری شریف کی حدیث پاک حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی مثال اس طرح ہے کہ ایک آدمی نے بڑا حسین وجمیل مکان بنایا لیکن دیوار میں سے ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ۔توجب لوگوں نے مکان کےاردگرد چکرلگایا اورکہنے لگے کیااس جگہ اینٹ نہیں لگائی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اورمیں خاتم النبیین ہوں۔ ( صحيح البخاری،الامام البخاری الجعفی،رقم٣٥٣٥،ج٤،ص١٨٦،دار طوق النجاة)

مذکورہ احادیث کریمہ میں خوبصورت انداز میں مثالوں کے ذریعے تربیت فرمائی گئی ۔ اللہ پاک ہمیں احادیث پڑھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین